سورۃ الاعلیٰ: آیت 6 - سنقرئك فلا تنسى... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ الاعلیٰ

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰٓ

اردو ترجمہ

ہم تمہیں پڑھوا دیں گے، پھر تم نہیں بھولو گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sanuqrioka fala tansa

آیت 6 کی تفسیر

اب وہ خوشخبری آتی ہے جو آپ کے لئے ہے اور آپ کے بعد آپ کی امت کے لئے ہے۔

سنقرنک .................................... الذکری

اس عظیم خوشخبری کا آغاز ہوتا ہے کہ قرآن کے حفظ کرنے اور اسے باقی رکھنے کی ذمہ داری نبی ﷺ کے کاندھوں سے اتار دی جاتی ہے۔

سنقرءک فلا تنسی (6:87) ” ہم تمہیں پڑھوا دیں گے ، پھر تم نہیں بھولوگے “۔ لہٰذا آپ اپنے رب سے یہ کلام لیں اور بس۔ اس کو یاد کرادینا اللہ کا کام ہے۔ یہ بات فی الواقعہ نبی ﷺ کے لئے بڑی خوشخبری تھی۔ آپ حفظ قرآن کے لئے فکر مند ہوتے تھے۔ اب تو اس کی حفاظت کی جانب سے مطمئن کردیا گیا کیونکہ قرآن کریم ایک نہایت ہی عظیم کلام اور آپ اسے بہت ہی محبوب رکھتے تھے۔ آپ دل وجان سے قرآن پر فدا تھے۔ اور اس کی حفاظت کا بہت ہی خیال رکھتے تھے۔ اس پر حریص تھے اور اپنی عظیم اور بھاری ذمہ داری سمجھتے تھے۔ آپ ایک ایک آیت دہراتے تھے۔ جب جبرائیل (علیہ السلام) اسے لاتے تو آپ سننے کے ساتھ ساتھ تکرار کرتے اور زبان کو دہرانے میں لگادیتے یہاں تک کہ یہ بشارت آگئی اور آپ کو مطمئن کردیا گیا۔

پھر یہ آپ کے بعد آپ کی امت کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے۔ امت بھی مطمئن ہوجاتی ہے کہ اس عقیدے کا اصل سرچشمہ ذات باری ہے اور اس کی حفاظت کا کفیل اور ذمہ دار بھی اللہ ہے۔ نبی کے دل میں بٹھانے کا ذمہ دار بھی اور بعد کے زمانے میں حفاظت کی ذمہ داری بھی۔ یہ اللہ کی بڑی مہربانی ہے اور اس دین کی عظمت سے اور اللہ کے ہاں اس کی اہمیت کا ثبوت ہے۔

اس موقعہ پر اور ایسے تمام مواقع پر ایک اٹل بات ضرور سامنے آتی ہے ۔ یہ ایک اٹل اور دائمی قانون ہے وہ یہ کہ اللہ کی مشیت بےقید ہے اور اللہ کی مشیت پر کوئی پابندی نہیں۔ آپ نہیں بھولیں گے الایہ کہ اللہ کچھ بھلانا چاہے۔ اگرچہ یہ پابندی خود اللہ کی طرف سے ہو ، لہٰذا اللہ کی مشیت بےقید اور اس پر کوئی قانونی قید ہے نہ کوئی وعدہ اسے پابند کرتا ہے۔ قرآن اس اصول کو پوری طرح محفوظ رکھتا ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم ظلال القرآن میں اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔ یہاں بھی اس اصول کو قائم رکھا گیا۔

الا ماشاء اللہ (7:87) ” سوائے اس کے جو اللہ چاہے “۔ اگرچہ یہ وعدہ سچا ہے کہ حضور نہ بھولیں گے مگر اللہ کی مشیت بھی بےقید ہے ، اگر اللہ چاہے تو ایسا ہوسکتا ہے تاکہ تمام معاملات اللہ کی مشیت کے دائرے میں رہیں اور لوگ اللہ کی مشیت ہی پر نگاہ رکھیں۔ اگرچہ کسی معاملے میں سچا وعدہ کیا گیا ہو۔ انسانی دل و دماغ کو اللہ کی مشیت کے ساتھ ہی لٹکے رہنا چاہئے۔

انہ یعلم .................... وما یخفی (7:87) ” وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ پوشیدہ ہے اس کو بھی جانتا ہے “۔ یہ ہے اشارہ کہ اللہ پڑھائے گا ، حفظ کرائے گا اور نسیان نہ ہوگا الایہ کو وہ کچھ اور چاہے کیونکہ یہ تمام امور اللہ کی مخفی حکمت پر مبنی ہیں جو ظاہر اور خفیہ سب کو جانتا ہے اور معاملات کو ان کے تمام پہلوﺅں سے جانتا ہے اس لئے وہ تمام معاملات میں ایسے فیصلے کرتا ہے جس میں حکمت ہوتی ہے اور یہ حکمت اللہ کے بھرپور علم پر مبنی ہوتی ہے۔ اللہ کا علم کامل علم ہوتا ہے۔

اب دوسری خوشخبری ونیسرک للیسری (8:87) ” اور ہم تمہیں آسان طریقے کی سہولت دیتے ہیں “۔ یہ خوشخبری بھی رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے لئے ہے۔ اور آپ کے بعد آپ کی امت کے لئے بھی ہے۔ اور اس سے اس دین کا مزاج بھی معلوم ہوتا ہے۔ دعوت اسلامی کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ انسانی زندگی میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور اس کائنات میں اسلامی نظام زندگی کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔ بظاہر تو یہ دولفظ ہیں۔

ونیسرک للیسری (8:87) لیکن ان کے اندر جو حقیقت بیان کی گئی وہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام اور شریعت کی ایک عظیم حقیقت ہے ، نیز وہ اس پوری کائنات کا بھی خلاصہ اور روح ہے۔ یہ حقیقت رسول اللہ کے مزاج کو ، اس کائنات کے مزاج اور اس دین کے مزاج سے ملادیتی ہے۔ یہ پوری کائنات دست قدرت نے بڑی آسانی سے بنادی ہے۔ یہ کائنات نہایت آسانی سے چل رہی ہے ، جس رخ پر اسے ڈال دیا گیا ہے وہ نہایت آرام اور سکون اور سہولت سے اسی رخ اور سمت پر چل رہی ہے۔ غرض یہ نور سے نکلی ہے اور ایسے حقائق کی طرف اشارہ کررہی ہے جو حدود وقیود سے ماوراء ہے۔

جس ذات کو اللہ آسانیاں میسر کردے وہ اپنی زندگی کی راہوں پر بسہولت چلتا ہے۔ وہ اس کائنات کے ساتھ چلتا ہے جس کا وجود اور جس کی ترتیب باہم متناسب ، جس کی حرکت متوازن اور جس کا رخ ایک طرف ہے یعنی اللہ کی طرف۔ ایسا شخص صرف ان قوتوں سے ٹکراتا ہے ، جو اس عظیم کائنات کے خطوط سے منحرف ہوں۔ ایسے لوگوں کا موازنہ اگر اس پوری کائنات سے کای جائے تو ان کا کوئی وزن نہیں رہتا۔ ایسا شخص جب چلتا ہے تو اس کی حرکت آسان ، لطیف اور نرم ہوتی ہے۔ اس کائنات کے ہم آہنگ دنیا کے واقعات سے ہم آہنگ ، دنیا کی چیزوں اور اشخاص کے ساتھ ہم آہنگ۔ اس کے ہاتھوں میں آسانی ہوتی ہے ، اس کی زبان میں یسر ہوتا ہے ، اس کے اقدامات آسان ہوتے ہیں ، اس کا عمل یسر ہوتا ہے۔ اس کے خیالات آسان ہوتے ہیں ، اس کی فکر آسان ہوتی ہے جو معاملات کو آسانی سے لیتا ہے ، معاملات کو نہایت آسانی سے لیتا ہے ، اپنے نفس کے لئے بھی آسان ہوتا ہے دوسروں کے لئے بھی آسان ہوتا ہے۔

یہ تھے رسول اللہ ﷺ ، اپنے تمام امور میں یسر ہی یسر۔ حضور اکرم ﷺ جب دوکاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے تو آسان کو لیتے۔ یہ ہے روایت حضرت عائشہ ؓ کی۔ (بخاری ومسلم)

اور آپ ؓ ہی سے روایت ہے ” حضور اکرم ﷺ جب اپنے گھر میں تنہا ہوتے تو آپ تمام لوگوں سے نرم مزاج ہوتے ، مسکراتے ہوئے اور ہنستے ہوئے “۔ اور صحیح بخاری کی ایک روایت ہے : ” ایک لونڈی بھی رسول اللہ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی “۔

لباس ، طعام ، بچھونے وغیرہ میں آپ کی جو سیرت تھی اس پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ سادی ، آسانی اور بےتکلفی کو پسند فرماتے تھے۔ ابو عبداللہ شمس الدین محمد ابن قیم الجوزیہ اپنی کتاب زاد المعاد میں لباس کے سلسلے میں آپ کی سیرت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ کی ایک پگڑی تھی جسے ” السحاب “ کہا جاتا تھا۔ یہ آپ نے حضرت علی ؓ کو دے دی تھی ، آپ پگڑی باندھتے اور اسے کے نیچے ٹوپی پہنتے ، کبھی آپ ٹوپی بغیر عمامہ کے پہنتے ، کبھی عمامہ بغیر ٹوپی کے بھی باندھتے۔ آپ جب عمامہ باندھتے تو اس کے شملے کو دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکادیتے ، جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں ہے۔ حضرت عمر ابن حریث سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھا اور آپ نے سیاہ عمامہ باندھا ہوا تھا اور آپ نے اس کا ایک طرف دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکایا ہوا تھا۔ اور مسلم میں حضرت جابر سے یہ بھی ہے ، بالوں کی لٹ کی طرح۔

اس سے معلوم ہوا کہ شملہ ہمیشہ کاندھوں کے درمیان سے نہ لٹکاتے تھے۔ کہا جاتا ہے آپ مکہ میں داخل ہوئے ، آپ نے جنگی لباس پہنا ہوا تھا اور آپ کے سر پر خود تھا۔ لہٰذا ہر موقعہ کی مناسبت سے لباس پہنتے تھے۔

ایک دوسری فصل میں وہ فرماتے ہیں کہ بہترین طریقہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے جو طریقہ آپ نے رائج فرمایا اور جس کا حکم دیا اور جس کی ترغیب دی اور اس پر مداومت کی۔ لباس میں آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جو لباس میسر ہوتا آپ وہ پہنتے کبھی اونی ، کبھی روئی ، کبھی کتان کا۔ آپ نے یمنی چادر بھی پہنی ، سبزچادر بھی پہنی ، حلہ ، قبا اور قمیص بھی زیت تن فرمائی۔ پاجامہ ، ازار اور چادر بھی پہنی۔ چمڑے کے موزے اور جوتے۔ یہ سب چیزیں آپ نے استعمال فرمائیں اور عمامہ کا شملہ کبھی آپ نے پیچھے سے لٹکایا اور کبھی نہ لٹکایا “۔

اور کھانے کے بارے میں آپ کی سیرت یہ تھی کہ آپ کسی موجود کھانے کو رد نہ فرماتے اور نہ غیر موجود کے بارے میں تکلف فرماتے ، پاکیزہ چیزوں میں سے جو بھی آپ کو پیش کی گئی آپ نے اسے تناول فرمایا۔ الایہ کہ کسی چیز کو آپ کی طبیعت نہ چاہتی ہو تو آپ نے بغیر حرام قرار دینے کے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے کسی کھانے میں کبھی عیب نہیں نکالا۔ اگر چاہت ہوتی تو تناول فرماتے ورنہ چھوڑ دیتے ، جس طرح آپ نے گوہ کو تناول نہ فرمایا کیونکہ آپ اس کے کھانے کے عادی نہ تھے لیکن امت پر اسے حرام بھی قرار نہیں دیا ، بلکہ اسے آپ کے دستر خوان پر آپ کے دیکھتے ہوئے کھایا گیا۔ آپ نے حلوی اور شہد تناول فرمایا۔ ان کو آپ بہت پسند فرماتے تھے۔ آپ نے تازہ اور خشک کھجوروں کو تناول فرمایا۔ آپ نے خالص دودھ بھی پیا اور ملا ہوا بھی۔ آپ نے شہد اور ستو پانی کے ساتھ تناول فرمائے۔ آپ نے کھجوروں کا صاف پانی پیا ، آپ نے حریرہ استعمال کیا۔ یہ ایک قسم کی کھیر ہے جو دودھ اور آٹے سے بنتی ہے۔ آپ نے تروتازہ کھجور کے ساتھ ککڑی کھائی ، پنیر تناول فرمایا ، کھجور کے ساتھ روٹی کھائی ، سر کے ساتھ روٹی کھائی۔ آپ نے پکا ہوا کدو کھایا اور اس کو آپ بہت پسند فرماتے تھے۔ آپ نے ابالا ہوا کدو بھی کھایا ، گھی کے ساتھ ثرید کھایا ، پنیر کھایا۔ تیل کے ساتھ روٹی کھائی ، خربوزوں کو تازہ کھجوروں کے ساتھ اور کھجوروں کو مکھن کے ساتھ کھایا اور یہ آپ کو بہت پسند تھا۔ کسی پاکیزہ چیز کو آپ ردنہ کرتے اور نہ بتکلف خواہش کرتے بلکہ آپ کا طریقہ یہ تھا جو میسر ہو وہ تناول فرماتے ، اگر کوئی چیز نہ ملتی تو صبر کرتے “۔

سونے اور بیدار ہونے کے بارے میں آپ کی سنت یہ تھی۔ کبھی اپنے بستر پر سوتے ، کبھی کھال پر ، کبھی چٹائی پر ، کبھی زمین پر ، کبھی تخت پر ، کبھی سیاہ کمبل پر سوتے “۔

آپ کے فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امور میں نرمی سے کام لیاجائے ، جن میں اسلامی نظریہ حیات اور اسکے تقاضے بھی آتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کی ہدایات بہت زیادہ ہیں ، سب کو یہاں لانا مشکل ہے ، چند پیش خدمت ہیں : ” یہ دین آسان ہے ، جو شخص اس دین کے ساتھ کشتی کرے گا وہ شکست کھاجائے گا “ (بخاری) ۔ ” اپنے نفسوں پر سختی مت کرو ، تم پر سختی کی جائے گی ، ایک قوم نے اپنے آپ کو سختیوں میں ڈالا تو اس پر سختی کی گئی “ (ابوداﺅد) ۔ ” جو شخص اپنی سواری پر سختی کرتا ہے ، وہ نہ تو سفر طے کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کی سواری زندہ رہتی ہے “ (بخاری۔ ” آسانیاں کرو سختی نہ کرو “ (بخاری ومسلم) ۔

اور معاملات کے بارے میں آپ کی ہدایات یہ ہیں :” اللہ رحم کرے ، اس شخص پر جو فروخت کرے تو نرمی اور فراغ دلی سے ، خریدے تو نرمی اور فراخ دلی سے اور تقاضا کرے تو بھی نرمی اور فراخ دلی سے “ (بخاری) ۔” مومن آسان اور نرم ہوتا ہے “ (بیہقی) ۔” مومن لوگوں سے مانوس ہوتا ہے اور لوگ اس سے مانوس ہوتے ہیں “ (دارقطنی) ۔” اللہ کے ہاں مبغوض ترین شخص وہ ہے جو جھگڑالو اور لڑنے والا ہو “ (بخاری ومسلم) ۔

آپ کی سیرت میں اس بات کی روشن مثالیں ملتی ہیں کہ آپ سختی اور مشکل کو پسند نہ فرماتے تھے ، یہاں تک کہ نام اور چہرے کے خدوخال میں بھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مزاج کیسا تھا ، اور آپ کے ساتھ اللہ کا سلوک کیسا تھا ، اور کس طرح اللہ نے آپ کو آپ کی ساخت اور مزاج کے اعتبار سے سہل پسند بنایا تھا اور اس کی طرف آپ کی رہنمائی فرمائی تھی۔ سعید ابن مسیب اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کے پاس آئے ، تو حضور ﷺ نے دریافت فرمایا تمہارا نام کیا ہے۔ والد نے کہا میرا نام حزن ہے (یعنی سخت دشوار) تو آپ نے فرمایا نہیں آپ ” سہل “ ہیں۔ تو انہوں نے کہا میں اس نام کو نہیں بدلوں گا جو میرے باپ نے رکھا ہے۔ ابن مسیب کہتے ہیں اس کے بعد ہمارے خاندان میں برابر سختی رہی “ (بخاری) ۔ ” حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے عاصیہ کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا “ (مسلم) ۔ اور آپ کی مشہور حدیث ہے ” یہ بات نیکی کا حصہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے ہنس مکھ ہوکر ملو “ (ترمذی) ۔

غرض آپ اس قدر حساس تھے کہ آپ کو ناموں ، چہرے کے خدوخال میں بھی درشتی پسند نہ تھی اور آپ نرمی اور آسانی کی طرف مائل ہوتے تھے۔ چناچہ آپ کی پوری سیرت نرمی ، یسر ، سہولت ، اور سہل برتاﺅ پر مشتمل ہے۔ آپنے ہمیشہ معاملات اور لین دین میں نرمی سے کام لیا۔ ایک مثال سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اپنے برتاﺅ کی وجہ سے لوگوں کی اصلاح کس طرح کرتے تھے۔

” ایک دن آپ کے پاس ایک دیہاتی آیا ، وہ کوئی چیز مانگ رہا تھا۔ آپ نے اسے دے دی تو آپ نے اس سے پوچھا : کیا میں نے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا ؟ تو اس نے کہا : نہیں ! تم نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ مسلمانوں کو سخت غصہ آیا ، اور وہ اس کی طرف لپکے۔ آپ نے اشارہ فرمایا کہ کچھ نہ کہو۔ آپ پھر گھر میں داخل ہوئے اور کچھ مزید دیا اور پھر پوچھا : کیا میں نے اچھا سلو کیا ؟ تو اس نے کہا : ” ہاں “۔ اللہ آپ کو جزادے۔ آپ اچھے خاندان کے ہیں۔ اس کو نبی ﷺ نے فرمایا تم پہلے جو بات کی وہ تمہیں معلوم ہے جس کی وجہ سے میرے ساتھی خفا ہوئے اور ان کے دل صاف نہیں۔ تو اگر تم پسند کرو تو یہ باتیں جو تم نے میرے سامنے کی ہیں ان کے سامنے بھی کرو ، تاکہ ان کے دلوں میں تم پر جو غصہ ہے ، وہ دور ہوجائے۔ تو اس نے کہا ” اچھا “۔ دوسرے دن وہ پھر آیا۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس دیہاتی نے کل جو کچھ کہا وہ تمہیں معلوم ہے ، ہم نے اسے مزید کچھ دیا۔ اب اس کا خیال ہے کہ وہ راضی ہوگیا ہے۔ بتاﺅ بھائی کیا یہ درست ہے ؟ تو دیہاتی نے کہا : ” ہاں اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ اچھے خاندان سے ہیں “۔ اس پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ” میری مثال اور اس دیہاتی کی مثال اس طرح ہے کہ اس شخص کی اونٹنی بگڑ گئی۔ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا تو وہ اور بھاگنے لگی۔ تو مالک نے لوگوں کو چلا کر کہا : ” میری ناقہ کو اور مجھے چھوڑ دو میں اس کے ساتھ زیادہ نرم سلوک کرتا ہوں اور اس کے مزاج کو اچھی طرح جانتا ہوں “۔ چناچہ اس کا مالک اس کے سامنے سے آیا۔ اور زمین سے کچھ گھاس پھونس جمع کرکے اس کے لئے لے آیا۔ اور اسے آہستہ آہستہ واپس لایا ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقام پر آکر بیٹھ گئی۔ اس نے اس کجاوا کسا اور سوار ہوگیا۔ جب اس شخص نے جو کچھ کہا تھا اور تم اس پر لپکے تھے تو میں اگر تمہیں چھوڑ دیتا اور تم اسے قتل کردیتے تو وہ جہنم میں چلا جاتا “۔

یہ تھا حضور ﷺ کا طرز عمل ان لوگوں کے ساتھ جو نہایت ہی سخت اور بدکنے والے تھے ، اس قدر سادگی اور آسانی کے ساتھ اور اللہ کی ایسی توفیق کے ساتھ ، آپ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے۔ اس قسم کے بیشمار نمونے آپ کی سیرت میں موجود ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو اس آیت میں بطور خوشخبری آپ کو کہی گئی ہے اور آپ کو اپنی پوری زندگی میں ، آپ کو دعوت میں اور آپ کے معاملات میں اس کی آپ کو توفیق دی گئی۔

ونیسرک للیسری (8:87) ” ہم آسان دین پرچلنے کو آپ کے لئے آسان کردیں گے “۔

آپ کی ذات گرامی جو محبوب خلائق اور بلند اخلاق کی مالک تھی اور جسے ایک آسان دین کی طرف آسانی سے رہنمائی کی گئی تھی تو آپ نے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی برتاﺅ کیا۔ اور اسی انداز سے انسانیت کو دعوت دی ، آپ کا مزاج ہی اس طرح بن گیا ، اور آپ کی ماہیت ہی دین سہل میں بدل گئی اور آپ اسی امانت کبریٰ کے اٹھانے کے قابل ہوگئے ، یہ امانت تو بہت بڑی اور بھاری تھی مگر اللہ نے اس ذمہ داری کی توفیق آپ کو دی اور آپ اس بھاری ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہوگئے۔ آپ نے پسندیدہ طریقے سے کام کیا اور اچھے انداز سے محنت کی۔ اور خوشی اور شرح صدر سے کام کیا۔

حضور اکرم ﷺ کی تعریف میں اور آپ کے کام کی نوعیت کی تشریح کے بارے میں قرآن کریم میں کئی آیات بھی نازل ہوئی ہیں۔

وما ارسلنک .................... للعلمین (الانبیائ :108) ” اور ہم نے تمہیں اہل جہاں کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے “۔

الذین ........................................ علیھم (157:7) ” وہ لوگ جو اس نبی امی کی پیروی کرتے ہیں ، جسے وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، انہیں وہ معروف کا حکم دیتے ہیں ، برائی سے روکتے ہیں ، پاکیزہ چیزیں ان کے لئے حلال کرتے ہیں ، ناپاک چیزیں ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ، اور ان کے وہ بوجھ اور طوق جو ان کی گردنوں میں پڑے ہوئے ہیں ، ان سے اتارتے ہیں “۔ لہٰذا رسول خدا ﷺ کی بعثت پوری انسانیت کے لئے رحمت تھی۔ آپ تشریف لائے اور آپ نے لوگوں کے کاندھوں سے بوجھ اتارے اور ان کے گلوں سے وہ طوق اتارے جو انہوں نے ڈال رکھے تھے اور یہ اس لئے کہ انہوں نے دین میں سختی کی تو اللہ کی طرف سے بھی ان پر سختی کی گئی۔ آپ جو دین اور جو دعوت لے کر آئے اس کے بارے میں بھی قرآن کہتا ہے :

ولقد یسرنا ........................ من مد کر (22:54) ” اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان بنایا ہے ، تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا “۔ اور ایک دوسری جگہ ہے۔

وماجعل .................... من حرج (78:22)

” اور اللہ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی “۔ اور سورة بقرہ میں ہے۔

لا یکلف .................... وسعھا (286:2) ” اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا “۔ اور مائدہ میں ہے۔

مایرید ............................ لیطھرکم (6:5) ” اللہ تعالیٰ دین کے سلسلے میں تم پر کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا ، وہ تو تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے “ غرض یہ آخری رسالت سہل ہے اور انسانی طاقت کی حدود میں ہے۔ اللہ نے لوگوں کو تنگی میں مبتلا نہیں کیا۔ نہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ لوگوں کی مشقت میں ڈالا جائے ، اسلام کی روح میں بھی سہولت ہے اور اسلام کے احکام میں بھی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ غرض یہ ایک فطری دین ہے۔ سورة روم میں ہے۔

فطرت .................... علیھا (30:30) ” جس فطرت پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ، یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے “۔

اور جب انسان اس عقیدے کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہے تو وہ اس کو بہت آسان پاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس میں انسانی قوت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس میں انسان کے مختلف حالات کی رعایت بھی کی گئی ہے۔ اس میں ان حالات کا بھی خیال رکھا گیا ہے جو مختلف قسم کے معاشروں میں انسان کو پیش آتے ہیں۔ اسلامی عقیدہ بذات خود نہایت ہی سہل اور قابل فہم ہے۔ بس ایک الٰہ کا عقیدہ ہے اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ تمام مخلوقات کو اسی الٰہ نے بنایا ہے اور اسی الٰہ نے ان کو ان کی پیدائش کا مقصد بھی بتایا ہے۔ پھر اس نے رسول بھیجے ہیں اور ان رسولوں نے لوگوں کو ان کا مقصد وجود بتایا ہے۔ رسولوں نے لوگوں کو اپنے خلق کی طرف لوٹایا۔ اس کے بعد جو فرائض بھی ان پر عائد کیے گئے وہ اسی نظریہ سے نکلتے ہیں ، نہایت سیدھے سادھے طریقے سے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے۔ اور لوگوں کو یہ حکم دیا کہ وہ ان میں سے جن احکام پر بھی عمل کرسکتے ہیں بغیر سختی اور مشقت کے عمل کریں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ” جب میں تمہیں حکم دوں تو اس حکم کی تعمیل اس قدر کرو جس قدر تمہاری طاقت ہو اور جس کام سے میں روکوں ، رک جاﺅ“ (بخاری ومسلم) ۔ اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ، ان میں سے بھی حالت اضطرار مستثنیٰ ہے۔

الاما .................... الیہ (119:6) ” الایہ کہ تم ان کے لئے مضطرہوجاﺅ“۔

یوں رسول آخرالزمان ﷺ کا مزاج ان کی رسالت اور دعوت کے ساتھ گھل مل گیا ہے ، اور اس دعوت اور داعی کی حقیقت ایک ہوگئی ، خصوصاً اس بنیادی صفت اور اس ممتاز رنگ میں ۔ اسی طرح اس امت کو بھی امت وسط اور سہل کہا گیا جس کے پاس رسول خدا یہ پیغام لے کر آئے تھے۔ یہ ایسی امت تھی جس پر رحمت ہوئی اور یہ رحمت اور محبت کا پیغام لے کر نہایت آسان اور سیدھا راستہ لوگوں کو بتانے کے لئے اٹھی۔ اس طرح کہ اس امت کا مراج آفاقی اور کائناتی مزاج بن گیا۔ اور اس کے مزاج اور اس وسیع کائنات کے مزاج کے اندر گہری ہم آہنگی پیدا ہوگئی۔

پھر ذرا اس کائنات کا مطالعہ کرو ، اس کی حرکت کا بہاﺅ کس قدر سہل ، رواں دواں ہے اور اس میں کوئی ٹکراﺅ اور تصادم نہیں ہے۔ اربوں کھربوں اجرام فلکی اس کائناتی فضا میں تیرتے پھرتے ہیں۔ نہایت ہم آہنگی کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں بہتے چلے جارہے ہیں ، نہایت تناسق ، خوشگوار کشش کے ساتھ جس کے اندر کوئی اضطراب نہیں۔ کوئی ایک بھی اپنے مدار سے ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ اربوں کھربوں زندہ مخلوقات اس کرہ ارض پر زندگی بسر کررہی ہے اور اپنے قریبی دور کے مقاصد پورے کررہی ہے اور یہ زندگی نہایت پختگی اور زبردست انتظام کے ساتھ گزر رہی ہے۔ اور ہر چیز اپنا مقصد تخلیق نہایت ہی سہولت سے پورا کررہی ہے ، اور اپنی متعین راہ پر اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔ اس کائنات میں اربوں کھربوں حرکات واقعات ، اور حالات چل رہے ہیں ، مجتمع بھی اور متفرق بھی۔ اور یہ سب ایک راہ پر جارہے ہیں جس طرح سازوں کا ایک گروپ اپنے اپنے آلہ سے بالکل مختلف آواز نکال رہا ہوتا ہے اور یہ سب مختلف آوازیں ایک ہی راگ تشکیل کرکے ایک طویل نغمہ بناتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کے وجود ، اسلامی نظام زندگی اور سیرت رسول ﷺ کے درمیان اور امت مسلمہ کے مزاج کے درمیان ایک زبردست ہم آہنگی ہے ، کیونکہ یہ اللہ کی صنعت ہے ، اللہ کی بتائی ہوئی فطرت ہے ، اور اللہ کا راگ ہے ، اور وہ نہایت ہی حکیم صنعت کار ہے۔

فذکر .................... الذکری (9:87) لہٰذا نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو “۔ اللہ نے نبی ﷺ کو پڑھایا تو ضمانت دی کہ آپ نہ بھولیں گے ، الا ماشاء اللہ۔ پھر اللہ نے نبی ﷺ کو بسہولت آسان طریقے پر چلنے کی سہولت فراہم کی تاکہ آپ اس عظیم امانت کا بار آسانی سے اٹھائیں اور لوگوں کو یاددہانی کرائیں۔ اسی لئے آپ کو تیار فرمایا اور خوشخبری دی گئی اور کہا کہ جب بھی موقعہ ملے یاددہانی کرائیں ، جب بھی آپ دلوں کے اندر بات اتارنے کی راہ پائیں ، اور تبلیغ کے ذرائع میسر ہوں۔ یہاں کہا گیا ہے۔

ان نفعت الذکری (9:87) ” اگر نصیحت فائدہ دے “۔ جب بھی یاددہانی کرائیں فائدہ ہی ہوتا رہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ نصیحت سے کسی کو کم یا زیادہ فائدہ نہ ہو ، کبھی کوئی نسل استفادہ کرنے والوں سے خالی نہیں ہوئی۔ اگرچہ زمانہ کے اندر فساد عام ہو ، دلوں پر زنگ آگیا ہو ، اور ان پر پردے پڑگئے ہوں بہرحال تذکیر سے فائدہ ہوتا ہی ہے۔

جب ہم ان آیا کی اس ترتب پر غور کرتے ہیں تو ہمیں رسالت کی عظمت کا پتہ چلتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ امانت کس قدر عظیم اور اہم ہے۔ کہ اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے اللہ نے آسان طریقے کی رہنمائی فرمائی اور آسانیاں بہم پہنچائیں ، پہلے یاد کروایا ، پھر اس پیغام کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی تاکہ رسول خدا اطمینان سے یاددہانی کا فریضہ سرانجام دیں اور پھر حکم دیا کہ آپ یاددہانی کرائیں اگر مفید ہو ، یہ سب سہولیات دے کہ آپ کو کام پر لگایا اور یہ دراصل عظیم زاد راہ تھا۔

جب رسول خدا ﷺ نے اپنا یہ فریضہ پورا کردیا ، تو آپ کی ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ پھر لوگ جانیں اور ان کا کام۔ تبلیغ وتذکیر کے بعد لوگوں کے مسالک ، ان کے اہداف اور انجام مختلف ہوجاتے ہیں۔ اور یہ اللہ ہے جو کسی کو ایک انجام تک پہنچاتا ہے اور کسی کو دوسرے تک ۔ جس طرح انہوں نے رویہ اختیار کیا ، قبول کرنے کا یارد کرنے کا۔

آیت 6{ سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی۔ } ”اے نبی ﷺ ! ہم آپ کو پڑھا دیں گے ‘ پھر آپ بھولیں گے نہیں۔“ یعنی قرآن مجید میں سے کوئی چیز آپ کو بھولے گی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورة القیامہ کی ان آیات میں آیا ہے : { لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ - اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ - فَاِذَا قَرَاْنٰــہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۔ } ”آپ اس قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔ اسے جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم اسے پڑھوا دیں تو آپ اس کی قراءت کی پیروی کیجیے۔“

آیت 6 - سورۃ الاعلیٰ: (سنقرئك فلا تنسى...) - اردو