سورۃ الاعلیٰ: آیت 15 - وذكر اسم ربه فصلى... - اردو

آیت 15 کی تفسیر, سورۃ الاعلیٰ

وَذَكَرَ ٱسْمَ رَبِّهِۦ فَصَلَّىٰ

اردو ترجمہ

اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wathakara isma rabbihi fasalla

آیت 15 کی تفسیر

آیت 15{ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی۔ } ”اور اس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔“ اس آیت کے الفاظ کی عملی تصویر جمعہ کا اجتماع ہے۔ اجتماعِ جمعہ میں بھی پہلے خطبہ کی صورت میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے پھر نماز پڑھی جاتی ہے۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں اجتماعِ جمعہ کے حوالے سے حضور ﷺ کا یہ معمول نقل ہوا ہے : کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ خُطْبَتَانِ کَانَ یَجْلِسُ بَیْنَھُمَا ‘ یَـقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیُذَکِّرُ النَّاسَ 1”اللہ کے رسول ﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے ‘ ان کے دوران آپ ﷺ بیٹھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ قرآن حکیم پڑھ کر سناتے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے۔“ حضور ﷺ کے دونوں خطبات بہت مختصر ہوتے تھے۔ اس لیے صاف ظاہر ہے کہ ان کے درمیان حضور ﷺ تھکان کی وجہ سے تو نہیں بیٹھتے تھے۔ میری رائے اس حوالے سے یہ ہے کہ یہ دو خطبات نماز ظہر کی دو رکعتوں کے قائم مقام ہیں۔ نماز ظہر میں فرضوں کی چار رکعتیں ہیں جبکہ نماز جمعہ میں دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں چناچہ اس دوران حضور ﷺ کا بیٹھنا دراصل اپنے خطاب کو باقاعدہ دو خطبوں کی شکل دینے کے لیے ہوتا تھا۔ ان خطبات میں جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے ‘ حضور ﷺ آیاتِ قرآنی کے ذریعے تذکیر فرماتے تھے۔ آپ ﷺ کے تمام سامعین چونکہ قرآن کی زبان کو بخوبی سمجھتے تھے اس لیے ”از دل خیزد بر دل ریزد“ کے مصداق قرآن مجید کا مفہوم بغیر کسی وضاحت اور تشریح کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں چونکہ عام سامعین عربی خطبہ کو نہیں سمجھ سکتے اس لیے ان کی تذکیر کے لیے خطبہ سے پہلے ”خطاب“ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اجتماعِ جمعہ کے موقع پر ذکر و تذکیر کی اسلام میں کیا اہمیت ہے ‘ اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے۔ اجتماعِ جمعہ میں بروقت حاضری کو یقینی بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا : اِذَا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ کَانَ عَلٰی کُلِّ بَابٍ مِنْ اَبْوَابِ الْمَسْجِدِ الْمَلَائِکَۃُ ، یَکْتُبُوْنَ الْاَوَّلَ فَالْاَوَّلَ ، فَاِذَا جَلَسَ الْاِمَامُ طَوَوُا الصُّحُفَ ، وَجَاؤُوا یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ 1”جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ وہ پہلے آنے والوں کو پہلے لکھتے ہیں۔ پھر جب امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر سمیٹ لیتے ہیں اور ذکر سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔“ حضور ﷺ کے دوسرے فرمان میں جمعہ کے لیے جلدی مسجد آنے والوں کے لیے درجہ بدرجہ فضیلت کی وضاحت بھی ملتی ہے : مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ غُسْلَ الْجَنَابَۃِ ثُمَّ رَاحَ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الثَّانِیَۃِ فَکَاََنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الثَّالِثَۃِ فَکَاَنَّمَا قَرَّبَ کَبْشًا أَقْرَنَ ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الرَّابِعَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ دُجَاجَۃً ، وَمَنْ رَاحَ فِی السَّاعَۃِ الْخَامِسَۃِ فَکَأَنَّمَا قَرَّبَ بَیْضَۃً فَإِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ 2”جو آدمی جمعہ کے دن غسل ِجنابت کی طرح اہتمام کے ساتھ غسل کرے پھر وہ صبح صبح مسجد میں جائے تو وہ اس طرح ہے گویا اس نے ایک اونٹ قربان کیا ‘ اور جو آدمی دوسری ساعت میں جائے تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی ‘ اور جو آدمی تیسری ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا ‘ اور جو چوتھی ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک مر غی قربان کی ‘ اور جو پانچویں ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا قربان کر کے اللہ کا قرب حاصل کیا۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکلے تو فرشتے بھی اندراج کا سلسلہ ختم کر کے ذکر سننے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔“اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علماء نے لفظ ”ساعت“ کی مختلف تاویلیں کی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رح کی رائے اس ضمن میں یہ ہے ذاتی طور پر مجھے اس رائے سے اختلاف ہے کہ اس لفظ کا تعلق وقت کی ظاہری تقسیم سے نہیں بلکہ ان ”ساعتوں“ سے مخفی ساعتیں مراد ہیں۔ البتہ اس حدیث میں جس خطبہ کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد مسنون خطبہ ہے۔ اس حکم کا اطلاق ہمارے ائمہ اور خطباء کی مقامی زبانوں میں کی جانے والی تقاریر پر نہیں ہوتا۔ خطبہ شروع ہونے کے بعد حاضری کا اندراج نہ ہونے کے حوالے سے شاہ ولی اللہ رح کی رائے یہ ہے کہ اس کے بعد آنے والے جمعہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے ‘ البتہ ان کے فرض کی ادائیگی ہوجائے گی ‘ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص خطبہ کے دوران بھی شامل ہوگا تو فرض کی ادائیگی کی حد تک اس کی حاضری بھی قبول سمجھی جائے گی۔

آیت 15 - سورۃ الاعلیٰ: (وذكر اسم ربه فصلى...) - اردو