سورۃ الاعلیٰ: آیت 14 - قد أفلح من تزكى... - اردو

آیت 14 کی تفسیر, سورۃ الاعلیٰ

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ

اردو ترجمہ

فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad aflaha man tazakka

آیت 14 کی تفسیر

قد افلح ................................ فصلی (15:87) ” فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی “۔ تزکی کے معنی ہیں ہر گندگی اور ہر گناہ سے پاکیزگی اختیار کی۔ اس آیت میں اللہ فیصلہ فرماتا ہے کہ جو پاکیزگی اختیار کرے اور اپنے دل میں رب کا جلال بسائے اور پھر نماز پڑھے یا اللہ سے ڈرے اور اطاعت کرے۔ دونوں معنوں سے اللہ کی یاد تازہ ہوتی ہے اور جلال دل میں بیٹھتا ہے اور ضمیر میں اللہ کی ہیبت پیدا ہوتی ہے۔ تو فیصلہ یہ ہے کہ وہ شخص فلاح پائے گا۔ دنیا میں بھی وہ فلاح پائے گا کہ اس کا دل اللہ سے جڑا ہوا ہوگا ، زندہ ہوگا ، اللہ کے ذکر میں وہ مٹھاس محسوس کرے گا اور اس کو باری تعالیٰ سے انس ہوگا اور آخرت میں بھی فلاح پائے گا۔ وہاں بڑی آگ سے بچے گا اور جنتوں میں نعیم مقیم میں ہوگا۔ دونوں کا انجام دے دیا گیا اور دونوں کے انجام میں بعد المشرقین ہے۔

اس خوفناک منظر میں ، جس میں نار کبریٰ دکھائی گئی ہے اور اس کے بالمقابل نجات کا منظر دکھایا گیا ہے ان لوگوں کے لئے جو پاکیزگی اختیار کرتے ہیں۔ ان مناظر کے بعد بتایا جاتا ہے لوگ بدبختی کے چنگل میں کیوں پھنس جاتے ہیں اور ان کی غفلت کا اصل سبب کیا ہے اور عبرت آموزی ، تطہیر اور فلاح ونجات سے ان کو کیا چیز روکتی ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو انہیں جہنم رسید کرتی ہے اور بدبخت بنادیتی ہے۔

آیت 14{ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی۔ } ”یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے خود کو پاک کرلیا۔“ ان آیات میں بہت اہم اور بنیادی نوعیت کے مضامین بیان ہوئے ہیں۔ اگلی سورتوں میں مختلف مقامات پر ان مضامین کی مزید وضاحت آئے گی۔ تَزَکّٰیسے مراد یہاں روح کی پاکیزگی ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی روح بہت بلند اور اعلیٰ چیز ہے۔ سورة التین کی اس آیت میں دراصل انسان کی روح کی تخلیق ہی کا ذکر ہے : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ } کہ ہم نے انسان کو بہت عمدہ تخلیق پر بنایا ہے۔ لیکن جب اس روح کو جسد حیوانی میں قید کر کے دنیا میں بھیجا گیا تو وقتی طور پر روح اپنے اعلیٰ مقام سے گر کر پستی میں چلی گئی ‘ جس کا ذکر سورة التین کی اگلی آیت میں بایں الفاظ آیا ہے : { ثُمَّ رَدَدْنٰـہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ۔ } کہ پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف لوٹا دیا۔ چناچہ انسان کی دنیوی زندگی کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کو پستی سے نکال کر دوبارہ بلندی کی طرف لے جائے۔ اگر تو اس نے یہ ہدف حاصل کرلیا تو وہ کامیاب ہے ورنہ ناکام۔ اس کامیابی کے لیے اسے ایک طرف جسد حیوانی کے داعیات یعنی اپنی نفسانی خواہشات کو دبانا ہوگا اور دوسری طرف اپنی روح کو زیادہ سے زیادہ غذا فراہم کرنے کا سامان کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے حیوانی داعیات کمزور ہوں گے تو تبھی روح کو تقویت ملے گی۔ ماہ ِ رمضان کے چوبیس گھنٹے کے معمولات کے ذریعے سے اہل ایمان کو دراصل اسی ”دو طرفہ“ پروگرام کی مشق کرائی جاتی ہے کہ دن کو روزہ رکھ کر حیوانی جسم اور اس کے داعیات کو کمزور کرو اور رات کو قیام اللیل کے دوران انوارِ قرآن کی بارش سے اپنی روح کو سیراب کرو تاکہ تمہاری روح کو ترفع اور اللہ کا قرب حاصل ہو سکے۔ یہ ہے تَزَکّٰی کا اصل مفہوم اور اس کا بنیادی فلسفہ۔

جس نے صلوۃ کو بروقت ادا کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کرلیا احکام اسلام کی تابعداری کی نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پالی رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے کی گواہی دے اس کے سوال کسی کی عبادت نہ کرے اور میری رسالت کو مان لے اور پانچوں وقت کی نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرے وہ نجات پا گیا (بزار) ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پانچ وقت کی نماز ہے حضرت ابو العالیہ نے ایک مرتبہ الو خلدہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا جب میں گیا تو مجھ سے کہا کچھ کھالیا ہے میں نے کہا ہاں، فرمایا نہا چکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں فرمایا زکوٰۃ فطر ادا کرچکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت میں یہی مراد ہے۔ اہل مدینہ فطرہ سے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بھی لوگوں کو فطرہ ادا کرنے کا حکم کرتے پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے، حضرت ابو الاحواص فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرے اور کوئی سائل آجائے تو اسے خیرات دے دے پھر یہی آیت پڑھی۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس نے اپنے مال کو پاک کرلیا اور اپنے رب کو راضی کرلیا پھر ارشاد ہے کہ تم دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے رہے ہو اور دراصل تمہاری مصلحت تمہارا نفع اخروی زندگی کو دنیوی زندگی پر ترجیح دینے میں ہے دنیا ذلیل ہے فانی ہے آخرت شریف ہے باقی ہے کوئی عاقل ایسا نہیں کرسکتا کہ فانی کو باقی کی جگہ اختیار کرلے اور اس فانی کے انتظام میں پڑ کر اس باقی کے اہتمام کو چھوڑ دے مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں نہ ہو دنیا اس کا مال ہے جس کا مال وہاں نہ ہو اسے جمع کرنے کے پیچھے وہ لگتے ہیں جو بیوقوف ہیں ابن جریر میں ہے کہ حضرت عرفجہ ثقفی اس سورت کو حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے تو تلاوت چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے کہ سچ ہے ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی لوگ خاموش رہے تو آپ نے پھر فرمایا کہ اس لیے کہ ہم دنیا کے گرویدہ ہوگئے کہ یہاں کی زینت کو یہاں کی عورتوں کو یہاں کے کھانے پینے کو ہم نے دیکھ لیا آخرت نظروں سے اوجھل ہے اس لیے ہم نے اس سامنے والی کی طرف توجہ کی اور اس نظر نہ آنے والی سے آنکھیں پھیر لیں یا تو یہ فرمان حضرت عبداللہ کا بطور تواضع کے ہے یا جنس انسان کی بابت فرماتے ہیں واللہ اعلم۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت رکھی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا تم اے لوگو ! باقی رہنے والی کو فنا ہونے والی پر ترجیح دو ، مسند احمد پھر فرماتا ہے کہ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی یہ تھا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ سب بیان ان صحیفوں میں بھی تھا (بزار) نسائی میں حضرت عباس سے یہ مروی ہے اور جب آیت (وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ 37؀ۙ) 53۔ النجم :37) نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے کو نہ اٹھانا ہے سورة نجم میں ہے آیت (اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰى 36؀ۙ) 53۔ النجم :36) آخری مضمون تک کی تمام آیتیں یعنی یہ سب احکام اگلی کتابوں میں بھی تھے اسی طرح یہاں بھی مراد سبح اسم کی یہ آیتیں ہیں بعض نے پوری سورت کہی ہے بعض نے قد افلح سے ابقی تک کہا ہے زیادہ قوی بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ الحمد اللہ سورة سبح کی تفسیر ختم ہوئی واللہ الحمد والمنہ وبہ التوفیق والعصمہ

آیت 14 - سورۃ الاعلیٰ: (قد أفلح من تزكى...) - اردو