سورۃ الاعلیٰ: آیت 1 - سبح اسم ربك الأعلى... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الاعلیٰ

سَبِّحِ ٱسْمَ رَبِّكَ ٱلْأَعْلَى

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sabbihi isma rabbika alaAAla

آیت 1 کی تفسیر

سبح اسم ..................... احوی

سورت کا آغاز نہایت ہی نرم اور نہایت لمبے آہنگ سے ہوتا ہے ، اس لمبے ٹون کے ذریعہ فضا میں تسبیح کی خوشگوار اور خوشبودار آواز بکھیر دی گئی ہے۔ اس کے بعد پھر تسبیح کا حکم اور پھر وہ صفات جن کو تسبیح کے بعد لایا گیا ہے۔

سبح اسم……………. احوی (1:87 تا 5) ”(اے نبی ! ) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی ، جس نے نباتات اگائیں پھر ان کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنادیا “۔ تاکہ اس تسبیح کے ذریعہ اس پوری کائنات کے اطراف واکناف میں تسبیح کی یہ آوازگونجاٹھے اور پوری کائنات ایک معبد نظر آئے اور ایک عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ پوری کائنات صانع قدرت کی مصنوعات کی نمائش گاہ بھی بن جائے۔

الذی…………فھدی (3:87) ” جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بناکر اسے ہدایت بخشی “۔

تسبیح کے کیا معنی ہیں ۔ اللہ کی برتری ذہن میں بسانا ، اللہ کو ہر عیب سے پاک سمجھنا اور ذہن میں اللہ کی صفات حسنی کا استحضار اور ان چیزوں کی روشنی ، چمک اور نورانیت سے اپنے ذوق ووجدان اور قلب و شعور کو روشن رکھا ، نام ہے تسبیح کا۔ محض زبان سے سبحان اللہ جپنے کو تسبیح نہیں کہتے۔

سبح……………. الاعلیٰ (1:87) ” اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو “۔ یہ الفاظ انسانی وجدان اور شعور پر ایک حالت طاری کردیتے ہیں۔ یہ وجدانی حالت ایسی ہوتی ہے جس کا اظہار الفاظ کے اندر ممکن نہیں ہے۔ یہ تو ایک وجدانی اور ذوقی چیز ہے اور ایک ایسی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا تعلق کچھ معانی اور کچھ صفات کے استحضار سے ہے نہ کہ کچھ الفاظ رٹنے سے۔

یہ معانی وصفات کیا ہیں ؟ پہلی صفت ، صفت ربوبیت ہے۔ اور دوسری صفت اعلیٰ ہے ۔ رب کے معنی مربی ، نگران اور پالنے والے کے ہیں۔ ان صفات کے سائے اور پرتو اس سورت کی فضا اور اس کے اندر بیان کی جانے والی خوشخبریوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ، خصوصاً اس کے نرم انداز کے ساتھ۔ صفت اعلیٰ پردہ شعور پر ایسی تصاویر لاتی ہے جن سے علو ، برتری اور غیر متناہی اور غیر محدود وآفاق کا اظہار ہوتا ہے۔ انسانی روح دور تک تسبیحات کرتی ہے اور اس تصور علو سے تسبیح میں پاکی اور عظمت کے ساتھ مناسبت پیدا ہوتی ہے اور تسبیح اپنے بنیادی عناصر کے اعتبار سے تصور علو رب کا نام ہے۔

ابتدائی خطاب ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہے ، اور یہ براہ راست اللہ کی طرف سے آپ کو خطاب ہے۔ حضور اکرم ﷺ جب اس حکم ربی کو پڑھتے تھے۔

سبح ” پاکی بیان کرو “ تو اگلی آیات پڑھنے سے پہلے آپ اس حکم پر عمل کرلیتے اور آپ فرماتے :

سبحان ربی الاعلیٰ ” میں اپنے رب اعلیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں “۔ یوں حکم اور جواب حکم یا تعمیل حکم ہوجاتا ۔ امر کی اطاعت ہوجاتی اور اللہ کے ساتھ مناجات اور سوال و جواب ہوجاتا۔ کیونکہ حضور رب کے سامنے کھڑے ہوتے۔ براہ راست یہ کلام رب تعالیٰ سے لے رہے ہوتے تھے اور اس اتصال اور قرب کی حالت میں جواب دے دیتے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ یہ تسبیح سجدے میں پڑھا کرو۔

(اجعلوانی سجودکم) اور اس سے قبل جب یہ آیت نازل ہوئی تھی۔

فسبح……………. العظیم ” اپنے رب عظیم کے نام کا تسبیح کرو “۔ تو آپ نے حکم دیا کہ اس کو رکوع میں پڑھو چناچہ رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھنا شروع کیا گیا۔ پس رکوع و سجود کی یہ تسبیح ایک زندہ تسبیح ہے ، محض مردہ کلمات نہیں ، جس طرح ایک زندہ چیز کا جسم حیات اور زندگی سے گرم ہوتا ہے ایسی ہی تسبیح نماز میں مطلوب ہے تاکہ اس تسبیح سے براہ راست حکم خداوندی کی تعمیل ہوجائے یا بالفاظ دیگر اجازت خداوندی کی تعمیل ہو ، کیونکہ اللہ کا اپنے بندوں کو یہ اجازت دینا کہ اس کی حمدوثنا کرو ، یہ بھی اللہ کا فضل وکرم ہے۔ کیونکہ اس طرح انسان کو یہ اجازت ملتی ہے کہ وہ اپنے حد تصور کے مطابق اللہ کے قریب ہوجائے۔ کیونکہ انسان اللہ کی ثنا اللہ کی ذات وصفات میں اپنے محدود تصور کے مطابق ہی کرسکتا ہے۔ اور یہ اللہ کے فضل وکرم کی ایک شکل ہے کہ اللہ اپنی ذات کی معرفت اپنے بندوں کو اپنی صفات کے ذریعہ کرواتا ہے۔ ایسی حدود میں کہ جن کے اندر وہ اللہ کی معرفت کا تصور کرسکتے ہیں۔ اللہ اپنی ذات تک پہنچنے کے لئے اپنے بندوں کو جس شکل و صورت میں بھی اجازت دیتا ہے ، یہ ان پر فضل وکرم کی ایک صورت ہوتی ہے۔

سبح اسم……………. فھدی (1:87 تا 3) ” اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو ، جس نے پیدا کیا ، اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی ، پھر راہ دکھائی “۔ یعنی ہر چیز کو پیدا کیا اور نہایت مناسب شکل میں پیدا کیا اور اس تخلیق کے ہر پہلو کو کامل بنایا۔ اس حد تک کامل کہ کوئی اس میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی فلاں چیز اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔ اللہ نے تقدیریوں بنائی کہ ہر چیز کے لئے اس کا فرض منصبی مقرر کردیا اور اس کا مقصد تخلیق اور اس مقصد کو پورا کرنے کا طریقہ بھی اسے سمجھا دیا۔ ہر چیز کو عجیب الہامی انداز میں یہ تعلیم دی گئی۔ ہر چیز کو یہ شعور بھی بذریعہ الہام دے دیا کہ اس کی مقررہ زندگی کے لئے اس کو کس چیز کی ضرورت ہے۔

یہ ایک عظیم حقیقت ہے اور اس کائنات کی جس چیز کا تجزیہ کیا جائے اس کے اندر یہ حقیقت موجود ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات کی ہر چیز میں ، خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہو ، اہم ہو یا حقیر ہو ، ہر چیز کی تخلیق میں تسویہ اور تناسب موجود ہے۔ ہر چیز کامل الخلقت ہے اور ہر چیز کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد اس کی تقدیر ہے ، اور ہر چیز کو اللہ نے اپنا مقصد وجودپورا کرنے کے لئے نہایت ہی آسان طریقہ کار فراہم کردیا ہے۔ غرض اللہ کی ہر مخلوق مکمل اور متناسب ہے۔ اور ہر چیز اپنا انفرادی فریضہ ادا کرتی ہے۔

مثلاً ایٹم ایک اکیلا ایٹم ، پر ٹون اور الیکٹرون کی برقی رفتار کے اندر اسی قدر توازن رکھتا ہے جس طرح ایک کہکشاں اپنے سورج اور اس کے تابع ستاروں کے درمیان توازن رکھتی ہے۔ ایک ایٹم اپنے مقصد اور فریضے کو اسی طرح پورا کرتا ہے جس طرح ایک کہکشاں پورا کرتی ہے۔ دونوں کو انپا مقصد اور طریقہ حصول مقصد معلوم ہوتا ہے۔

ایک منفرد خلیہ ایک مکمل تخلیق ہے۔ اور اس کے اندر اپنا مقصد تخلیق پورا کرنے کی پوری استعداد ہوتی ہے اور وہ اپنا مقصد اسی طرح پورا کرتا ہے جس طرح کوئی اعلیٰ مرکب اور پیچیدہ مخلوق کرتی ہے۔

پھر ایک منفرد ایٹم اور کسی کہکشاں کے درمیانی درجات پر الگ الگ مخلوق ہے۔ جس طرح ایک منفرد خلیہ اور پیچیدہ ترین مخلوقات کے درمیان زندہ مخلوقات کے مختلف درجے اور ان کی تنظیم ہے۔ اور ہر درجے اور ہر تنظیم کی تخلیق میں کمال اور تسویہ ہے اور ہر ایک کے لئے انفرادی فرائض اور اجتماعی مقاصد ہیں۔ دست قدرت الہامی طریقے سے ان سے یہ کام کراتا ہے اور اس گہری حقیقت یعنی تخلیق وتسویہ کا یہ کام پوری کائنات پر شاہد عادل ہے۔

اس حقیقت کو انسانی قلب پاسکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کائنات کے اشارات اخذ کرنے کے لئے تیار ہو اور کھلے دل سے وہ اس کائنات کی موجودات پر غور کرے۔ انسان کا اکتسابی علم جس درجے کا بھی ہو اور وہ ترقی یافتہ معاشرے کافرد ہو یا پسماندہ معاشرے کا فرد ہو وہ کائنات کی ان اشیاء سے یہ الہامی اشارات اخذ کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کے دل و دماغ کے دریچے بھی ان اشارات کو پانے کے لئے تیار ہوں اور کھلے ہوں اور کسی عقل وخرد کے تار اس قابل ہوں کہ وہ مضراب حقیقت کے جواب میں نغمہ بار ہوسکیں۔

اس کے بعد کائنات کا مشاہدہ اور کسی علم آتے ہیں اور انسان مطالعہ فطرت میں پہلی نظر سے جو الہام پاتا ہے ، تمام مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں ، بعض لوگوں نے مشاہدہ کائنات کے ذریعہ ایسے اشارات جمع کیے ہیں جو اس کائنات کے اندر پوشیدہ مجموعی حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

نیویارک کی سائنسی علوم کی اکیڈمی کے صدر کریسی موریسن اپنی کتاب ” انسان اکیلا نہیں کھڑا “ میں اپنے مشاہدات یوں قلم بند کرتے ہیں۔

” پرندوں میں وطن لوٹنے کا ایک ملکہ ہوتا ہے ، ایک خاص چڑیا جو دروازوں پر گھونسلے بناتی ہے ، خزاں کے موسم میں جنوب کی طرف ہجرت کرجاتی ہے اور اگلے سال بہار میں اپنے اسی مقام کی طرف لوٹ آتی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں امریکہ کے اکثر پرندے جنوب کی طرف جاتے ہیں اور وہ سمندروں اور صحراﺅں پر سے پرواز کرتے ہوئے ہزاروں میل سفر کرتے ہیں اور کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتے۔ اور پیغام رساں کبوتر پنجرے میں طویل سفر کرتے ہیں اور جب ان کو پیغام کر چھوڑا جاتا ہے تو وہ کچھ دیر کے لئے حیران ہوکر چکر لگاتے ہیں اور اس کے بعد وہ سیدھے اپنے وطن کی طرف پرواز کرتے ہیں اور کبھی راہ نہیں بھٹکتے ۔ شہد کی مکھی اگر کسی طرف جائے اور اس کے پیچھے نشانات راہ کسی طوفان کی وجہ سے مٹ جائیں تو بھی وہ راہ نہیں بھولتی اور سیدھی چھتے پر آجاتی ہے۔ البتہ انسان کے اندر یہ جبلت کمزور ہے اور انسان اس کمی کو اپنے آلات اور عقل کے ذریعہ پوری کردیتا ہے۔ باریک کیڑے مکوڑے بھی نہایت ہی چھوٹی اور خوردبینی آنکھیں رکھتے ہیں اور یہ نہایت ہی مکمل آنکھیں ہوتی ہیں۔ باز اور عقاب وغیرہ کی آنکھیں دور بین کی طرح ہوتی ہیں ، انسانی آنکھ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کمی کو بھی انسانی عقل و تجربہ نے پورا کیا ہے۔ چناچہ ان دوربینوں کے ذریعہ انسانسحابیوں کو دیکھ لیتا ہے اور اس نے ان کو دیکھنے کے لئے انسانی نظر کو بیس لاکھ گنا تیز کیا۔ نیز انسان نے ایسی خورد بینیں ایجاد کیں جن کے ذریعے وہ بیکٹریا اور دوسرے نہ نظر آنے والے کیڑے مکوڑے دیکھتا ہے۔

اب ذرا تم اپنے بوڑھے گھوڑے کو راستہ پر چھوڑدو۔ جس قدر اندھیرا بھی ہو وہ راستہ نہ بھولے گا۔ وہ سخت تاریکی میں بھی دیکھ سکتا ہے اگرچہ بہت واضح نہ سہی۔ وہ راستہ میں اور اس کے دونوں جانب درجہ حرارت کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ یہ درجہ حرارت اس کی آنکھیں انفراریڈ شعاعوں کے ذریعہ معلوم کرلیتی ہیں۔ الو ایک گرم چوہے کو سردگھاس کے نیچے چلتا پھرتا دیکھ لیتا ہے اگرچہ سخت اندھیرا ہو اور انسانوں نے تو بجلی کے قمقموں کے ذریعہ تاریک رات کو دن بنادیا ہے “۔

” شہد کی مکھیوں کی دنیا بھی عجیب ہے۔ کارکن مکھیاں چھتے میں مختلف قسم کے کمرے بناتی ہیں۔ یہ تربیت کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ چھوٹے کمرے کارکنوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور بڑے کمرے مردوں کے لئے اور ملکہ کے لئے خاص کمرے تیار ہوتے ہیں۔ یہ ملکہ مجھی جب غیر بار آورانڈہ دیتی ہے تو اسے مردوں کے کمرے میں رکھ دیتی ہے اور جب بار آور انڈہ دیتی ہے تو اسے اس کمرے میں رکھ دیتی ہے جس میں مونث کارکن مکھیاں ہوتی ہیں جو آگے جاکر ملکہ مکھی بننے والی ہوتی ہیں اور وہ کارکن مکھیاں جو مزدور ہوتی ہیں جب وہ ایک طویل عرصہ تک نسل تیار کرنے کا کام کرلیتی ہی تو ان کو بدل دیا جاتا ہے۔ یہ کارکن مکھیاں بچوں کے لئے غذا تیار کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔ یہ شہد اور پھولوں کو چبا کر ہضم کے قابل بناتی ہیں اور بچوں کے اندر نر اور مادے کا ظہور ہوجاتا ہے تو پھر یہ مذکورہ بالا طریقے سے غذاہضم کے لئے تیار کرنے کا عمل ترک کردیتی ہیں۔ اس کے بعد ان کو شہد اور پھولوں کا بور دیا جاتا ہے اور بچوں میں سے جو مونث اس طریقے سے تربیت پاتی ہیں وہ بعد میں کارکن مکھیاں بن جاتی ہیں “۔

جو مونث مکھیاں ملکہ مکھیوں کے حجروں میں ہوتی ہیں ، تو ان کو شہد اور پھولوں کے بورے کو ابتدائی طور پر قابل ہضم بناکر غذا دینے کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے ، اور جن مونث مکھیوں سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے بعد میں وہ ملکہ مکھن بن جاتی ہیں۔ صرف یہ ملکہ ہی ایسے انڈے دیتی ہیں جو پار آور ہوتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے مطابق جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان کے لئے خاص قسم کے حجروں ، ایک خاص قسم کے انڈوں اور ایک خاص قسم کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور غذا کے اندر تبدیلی کا اثر بھی عجیب ہوتا ہے۔ اس قسم ٹیکنالوجی کے لئے مکھیوں کو ایک طویل عرصہ تک انتظار کی ضرورت پڑی ہوگی جنہوں نے ان اصولوں کے اندرتمیز کرکے ان کو نافذ کیا ہوگا اور غذا کے اثرات معلوم کیے ہوں گے۔ اور ان اثرات معلوم کیے ہوں گے۔ اور ان اثرات کو اجتماعی طور پر نافذ کیا ہوگا جو ان کے وجود کے لئے ضروری ہوگا۔ مکھیوں نے جب اجتماعی زندگی کا آغاز کیا ہوگا تب ان کو یہ اصول معلوم ہوئے ہیں گے ، کیونکہ مکھی کے وجود اور زندگی کی بقا کے لئے ان اصولوں کی دریافت ضروری نہ تھی۔ لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ شہد کی مکھی نے غذا کے اثرات کے سلسلے میں انسان سے زیادہ تحقیق کی ہے “۔ (مغربی فکر میں ڈوبا ہوا مصنف یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اللہ نے جب مکھی کو پیدا کیا تو یہ سب کچھ سکھا دیا۔ ان کے دماغوں پر ڈارون کا فلسفہ ارتقاء ہی بیٹھا ہوا ہے حالانکہ قرآن صاف کہتا ہے وعلم آدم الاسماء کلھا ” اللہ نے آدم کو تمام نام سکھادیئے “ اسی طرح اللہ نے مکھی کو بھی تمام بنیادی تعلیم دے دی تھی (مترجم) ۔

” کتے کو ایک اضافی ناک دی گئی ہے جس کے ذریعہ وہ تمام جانوروں کی بوسونگھ لیتا ہے جو کسی راستے سے گزرے ہوں ، انسان کی قوت شامہ کتوں کے مقابلے میں کمزور ہے اور آج تک انسان نے کوئی ایسا آلہ بھی ایجاد نہیں کیا جو اس کی قوت شامہ کو ترقی دے ، لیکن ہماری یہ کمزور قوت شامہ بھی اس قدر چھوٹے ذرات کو محسوس کرلیتی ہے جیسے مائیکروسکوپ کے ذریعہ ہی دیکھا جاسکتا ہے۔

اکثر حیوانات ایسی آوازیں سن لیتے ہیں جو ہمارے کانوں کے پردوں کے اندر ارتعاش پیدا نہیں کرسکتے ، کیونکہ یہ ہماری سماعت کی حد سے بہت ہی دقیق اور باریک ہوتے ہیں۔ انسان نے ایسے آلات ایجاد کرلیے ہیں کہ وہ کئی میل دور اڑنے والی مکھی کے پروں کی آواز بھی سن لے ، اس طرح کہ گویا وہ اس کے کان کے پردے کے اوپر بیٹھی ہے۔ ایسے ہی آلات کے ذریعہ سورج کی شعاعوں کی رفتار کی آواز بھی ریکارڈ کی جارہی ہے “۔

” پانی کی مکڑیوں کی ایک قسم ایسی ہے جو پانی کے اندر غبارے کی طرح ایک گھونسلہ تیار کرتی ہے ، یہ تار عنکبوت سے بنایا جاتا ہے اور اسے پانی کے نیچے کسی چیز سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعدیہ مکڑی اپنے جسم کے بالوں کے ساتھ پانی کا ایک بلبلہ باندھتی ہے اور اسے لے جاکر اس گھونسلے سے باندھ دیتی ہے یہاں تک کہ گھونسلے کے گرد ہوا کے بلبلوں کا حصار بن جاتا ہے ، اس کے بعد وہ گھونسلے کے اندر بچے دیتی ہے کہ وہ ہوا کے طوفان سے محفوظ رہیں۔ اس گھونسلے کی ساخت میں ایک تو باریک بننے کا عمل ہے ، اس کے بعد دقیق انجینئرنگ اور ہوا بازی کا گہرا ادراک ہے “۔

” سالمن مچھلی ، جو چھوٹی سی ہوتی ہے اور سمندر میں کئی سال تک گھومتی پھرتی ہے ، اس کے بعد وہ اس دریا کی طرف واپس ہوتی ہے جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ آخر وہ کیا قوت ہے جو اسے اس کی جائے پیدائش تک رہنمائی کرتی ہے۔ یہ جب اپنی جائے پیدائش کی طرف بڑھتے ہوئے کسی غلط دریا کی طرف چلی جائے تو اسے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ دریا اس کی جائے پیدائش نہیں ہے۔ چناچہ وہ دریا میں چلتی ہے اور پانی کے بہاﺅ کے بالمقابل چل کر اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہے۔

پانی کے سانپوں کا معاملہ تو بہت ہی عجیب ہے۔ ان کا قصہ سالمن مچھلی کے برعکس ہے۔ اس مخلوق خدا کی عمر جب پوری ہوتی ہے تو یہ مختلف تالابوں اور دریاﺅں سے سفر کرکے گہرے سمندروں کی طرف جاتے ہیں۔ اگر یورپ میں ہوں تو یہ ہزاروں میل کا سفر طے کرکے جنوبی برمودا کی گہرائیوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ وہاں پھر یہ انڈے دے کر مرجاتے ہیں ، اب ان کے جو بچے پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ نہایت گہرے پانیوں میں ہیں ، لیکن یہ بچے اسی راستے سے ساحل کی طرف جاتے ہیں جس طرح ان کی ماں ساحل سے پانی کی طرف آئی تھی اور ساحل سے پھر یہ کسی دریا ، یا نہر یا حوض اور تالاب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ چناچہ پانیوں کی ہر قسم بحری سانپوں کے لئے موزوں ہوتی ہے۔ کیونکہ انہوں نے بڑی بڑی موجیں ، طوفان اور سمندری تلاطم دیکھے ہوئے ہیں اور ان کا مقابلہ کیا ہوا ہوتا ہے ۔ یہ ساحلوں پر چلتے ہیں اور جب یہ مکمل ہوجاتے ہیں تو کوئی خفیہ قانون ان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ پھر واپسی کا سفر کریں اور گہرے سمندروں میں چلے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ جذبہ ان کے اندر کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی شکاری یا مچھیرے نے یورپی سمندروں میں امریکی بحری سانپ پکڑا ہو ، یا کسی امریکی مچھیرے کے جال میں یورپی سانپ آگیا ہو ، یورپی بحری سانپ کو چونکہ گہرے سرندروں تک لمبا سفر کرنا پڑتا ہے اسی لئے قدرت نے اسے ایک سال کی لمبی عمر عطا کی۔ یا اس سے بھی زیادہ تاکہ وہ مرنے سے قبل اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکے۔ کیونکہ یورپی بحری سانپ کو امریکی بحری سانپ سے زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی کہ کون سے ایٹم اور کیا سالمے ہیں ؟ جب بحری سانپ مچھلیوں کی شکل میں جمع ہوئے تو ان کے اندر اس قسم کی قوت ارادی پیدا ہوجاتی ہے جو ایسے دور دراز سفر کراتی ہے ؟

” جب مادہ پروانہ ہوا کے دباﺅ میں تمہارے کسی روشن دان سے اندر آجاتا ہے تو وہ اپنے نر کو ایک سگنل بھیجتی ہے ، چاہے وہ جتنا بھی دور ہو۔ بعض اوقات وہ بہت دور ہوتا ہے۔ وہ اس اشارے کو وصول کرلیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے۔ اس کو گمراہ کرنے کی انسان جس قدر کوشش بھی کرے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ غلطی کرے۔ کیا ان کے پاس کوئی ریڈیو اسٹیشن ہے یا اس مرد کے پاس کوئی ریڈیو یا مشین ہے جو اس سے سگنل وصول کرتا ہے۔ ایریل کا ہونا تو بڑی بات ہے کیا اس کے پاس کوئی ایتھر ہے جس کے ذریعہ وہ ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ ٹیلی فون اور ریڈیو ہمارے پاس سریع الحرکت مواصلاتی آلات ہیں لیکن یہ تاروں کے ذریعے ایک جگہ کو دوسری جگہ سے منسلک کرتے ہیں۔ اس طرح تو یہ پروانہ ہم پر فوقیت رکھتا ہے “۔

نباتات اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کئی چیزوں سے خدمت لیتے ہیں ، بغیر ان کے علم و ارادہ کے۔ مثلاً حشرات پھولوں کا بورا ان کے لئے منتقل کرتے ہی ، ہوا یہی کام کرتی ہے ، وحوش وطیور بھی یہی کام کرتے اور ان کا بورا اور بیج بکھیرتے ہیں۔ سب سے آخر میں ان نباتات نے انسان کو بھی اپنے جال میں پھانس لیا۔ اس نے فطرت کو حسن بخشا اور فطرت نے اسے اس کا اجردیا۔ لیکن انسان بھی تو کسی حد پر رکنے والا نہیں۔

ھل من مزید کا قائل ہے۔ اس نے ہل چلایا ، بیج بویا ، فصل کاٹی ، انبار بھرے ، پھر اس نے فصلوں کو ترقی دی ، شاخ تراشی کی اور خوراک کا بندوبست کیا۔ اگر وہ یہ کام چھوڑ دے تو بھوک سے مرجائے اور دنیا سے تہذیب و تمدن کا خاتمہ ہوجائے اور انسانیت پتھر کے دور میں واپس چلی جائے۔ “

پانی کے بیشمار جانور مثلاً جھینگا مچھلی کا ایک بازو اگر کٹ جائے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے جسم کا ایک حصہ ضائع ہوگیا ہے ، اس کے خلیے اور جینز اس عضو کو دوبارہ بنانا شروع کردیتے ہیں اور جب وہ عضو مکمل ہوجاتا ہے تو خلیے یہ کام بند کردیتے ہیں اور ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی ڈیوٹی ختم ہے۔

پانی کے وہ کیڑے جن کے کئی پاﺅں ہوتے ہیں ، جب دوٹکڑے ہوجائے تو وہ ان میں سے ایک ٹکڑے کی مدد سے اپنے آپ کو مکمل کرلیتا ہے۔ اگر تم اس کیڑے کا سرکاٹ دو تو وہ دوسرا سر بنالیتا ہے۔

ہم زخموں کو مندمل کرسکتے ہیں لیکن ہمارے سرجن ابھی تک یہ بات نہیں جانتے کہ وہ خلیوں کو متحرک کریں اور وہ ایک نیا بازو بنا ڈالیں یا گوشت پوشت ، ناخن اور اعصاب بنادیں ، اگر ایسا ممکن ہو۔

اور ایک عجوبہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی خلیہ ابتدائی ایام ہی میں دو مکمل حصوں میں تقسیم ہوجائے تو اس سے دو مکمل حیوان تیارہوجاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ توام ہم شکل ہوتے ہیں ، اس کی تشریح اس طرح کی جاسکتی ہے کہ حمل کے ابتدائی مرحلہ میں خلیہ منقسم ہوگیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں خلیہ کمل فرد ہوتا ہے۔ اور اسی طرح ایک فرد بھی ہر خلیہ میں ہوتا ہے۔

ایک دوسری فصل میں یہی مصنف لکھتا ہے :

شاہ بلوط کا بھورا بیج زمین پر گراتا ہے ، اس کا بھورا چھلکا اسے محفوظ رکھتا ہے ، اور یہ گرتا پڑتا زمین میں کسی دراڑ میں اٹک جاتا ہے۔ موسم بہاں میں اس کے اندر کا جرثومہ جاگتا ہے۔ وہ اس چھلکے کو پھاڑ دیتا ہے اور یہ اس مغز سے خوراک حاصل کرتا ہے جو اس چھلکے کے اندر جمع کردی گئی ہوتی ہے۔ جس کے اندر اس کے موروثی جینز ہوتے ہیں۔ اس کی جڑیں زمین میں جاتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ پودا نمودار ہوتا ہے ، چھوٹا درخت اور پھر کامل درخت بن جاتا ہے۔ اس کے اندر کئی ملین جینز ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اپنی جڑوں ، چھلکے ، پھل اور تنوں اور شاخوں میں بھی اس درخت کے مماثل ہوتا ہے جس سے وہ بیج نکلا۔ کروڑوں سال پہلے جو بلوط کا درخت پیدا ہوا تھا ، اس کے پھل آج تک اپنے ذرات کی ترتیب اس طرح رکھتے ہیں جس طرح پہلے بلوط کے پھل نے رکھا تھا۔

یہی مصنف تیسری فصل میں لکھتا ہے : ” ہر خلیہ جو کسی زندہ مخلوق میں پیدا ہوتا ہے ، اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح ڈھالے کہ گوشت کا حصہ ہو یا چمڑے کا حصہ ہو اور فنا ہوجائے ، یا دانت کی چمک بن جائے یا آنکھ کا سیال مادہ بن جائے یا ناک اور کان بن جائے۔ ہر خلیہ اپنے آپ کو ایسی شکل میں ڈھالتا ہے کہ وہ اپنا فرض منصبی پوری طرح ادا کرے۔ یہ بات نہایت ہی مشکل ہے کہ کوئی تعین کرے کہ کون سا خلیہ دائیں ہاتھ ہے یا بائیں ہاتھ کا۔ لیکن ازروئے فطرت یہ بات متعین ہے کہ یہ خلیہ دائیں کان کا ہے اور یہ بائیں کان کا ہے۔ غرض ہزار ہا خلیات چلائے جاتے ہیں کہ وہ ایک صحیح کام کریں ، صحیح وقت پر کریں اور صحیح جگہ پر کریں “۔

چوتھی فصل میں یہ شخص کہتا ہے : ” مختلف قسم کی مخلوقات میں بعض مخلوقات ایسے کام کرتی ہیں جو دانش مندی کے اعلیٰ مرتبہ کے ہیں۔ جن کی کوئی تشریح ہم نہیں کرسکتے۔ مثلاً بھڑ ، ٹڈے کو شکار کرتی ہے ، زمین میں ایک گڑھا کھودتی ہے اور ایک مناسب جگہ اسے دفن کردیتی ہے۔ یہ شکار کرتے وقت اس کے ایسے مخصوص مقام پر ڈنگ مارتی ہے کہ وہ بےہوش ہوجاتا ہے لیکن اس کا گوشت صحیح وسالم زندہ رہتا ہے۔ اب مادہ بھڑ اس کے قریب ایک متعین مقام پر انڈے دیتی ہے۔ اسے شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جب اس کے بچے پیدا ہوں گے تو اس ٹڈے کا گوشت کھائیں گے۔ لیکن اسے قتل نہ کریں گے کیونکہ یہ گوشت ان کی غذا ہے اور گوشت خراب ہوکر زہریلا بن جائے ۔ لازماً بھڑ نے ابتدا سے یہ کام شروع کیا ہوگا اور ہمیشہ وہ اسے دہراتی ہوگی ورنہ دنیا میں سے بھڑوں کا وجود ہی ختم ہوجاتا۔ سائنس کے پاس ایسی کوئی تشریح نہیں ہے کہ وہ بھڑوں کے اس مسلسل فعل کا سبب بیان کرے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ یہ کام بھڑیں محض اتفاق سے کرتی ہیں ، کیونکہ مادہ بھڑ تو زمین کے اندر کھودے ہوئے گڑھے کو بھر کر چلی جاتی ہے اور مرجاتی ہے ، نہ وہ اس کے اسلاف یہ جانتے تھے کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے۔ نہ اسے اس کا علم اور مشاہدہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد اس کے بچوں کو کیا پیش آنا ہے بلکہ بھڑ کو تو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ اس کے بعد کوئی چیز آنے والی ایسی ہے جسے وہ اپنا بچہ کہتی ہو ، بلکہ اسے یہ تک علم نہیں ہے کہ وہ یہ کام نوع کی حفاظت کے لئے کرتی ہے۔

چیونٹیوں میں سے بعض کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ سردیوں کے موسم میں اپنی کالونی کو خوراک مہیا کرنے کے لئے حیوانات جمع کریں۔ پھر وہ ایک سٹور قائم کرتی ہیں جہاں یہ خوراک پیس کر رکھی جاتی ہے۔ پھر بعض چیونٹیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو قدرت نے پیسنے کی جبڑے دیئے ہوتے ہیں۔ ان کا کام صرف خوراک کو پیسنا ہوتا ہے۔ جب سردیوں کا موسم آتا ہے اور تمام غلہ پیسا جاچکا ہوتا ہے تو اس کی سپلائی یوں ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد کو فائدہ پہنچایا جاسکے تاکہ سپلائی جاری رہ سکے۔ اب چونکہ اگلی نسل میں مزید پیسنے والی چیونٹیاں پیدا ہوں گی۔ اس لئے چیونٹیوں کی فوج ان پیسنے والیوں پر حملہ آور ہوتی ہے اور ان کو قتل کردیتی ہے۔ شاید ان کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے حصے کی خوراک پیسنے کے دوران کھالی ہے کیونکہ انہوں نے اس موپعہ سے ضرور فائدہ اٹھایا ہوگا۔

بعض چیونٹیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی جبلت یا ان کی عقل ان کو کھانوں کے باغ بنانے پر آمادہ کرتی ہیں اور یہ چیونٹیاں ابتدائی کیڑوں کو اور پودوں کے چھلکوں پر پائے جانے والے کیڑوں کو گرفتار کرلیتی ہیں۔ یہ گویا ان کے لئے گائے اور بکریوں کا کام دیتے ہیں۔ ان کیڑوں سے یہ چیونٹیاں ایسا محلول لیتی ہیں جو شہد کی طرح ہوتا ہے اور یہ چیونٹیوں کی خوراک کا کام دیتا ہے۔

چیونٹیاں بعض دوسری چیونٹیوں کو غلام بھی بنالیتی ہیں ، اور جب یہ اپنے گھونسلے بناتی ہیں تو یہ پتوں کو مناسب حجم میں کاٹتی ہیں۔ جب کارکن چیونٹیاں ان پتوں کو ایک طرف سے پکڑ کر اپنے مقام پر رکھتی ہیں تو اس وقت یہ ان بچوں سے بھی کام لیتی ہیں جو ابھی ارتفائی دور میں ہوتے ہیں لیکن ان کے ریشمی مواد سے یہ پتوں کو جوڑتی ہیں ، یوں یہ بچہ اپنے لئے گھونسلا بنانے سے محروم رہتا ہے لیکن اپنے بنی نوع کے لئے ایک مفید کام کرچکا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ذروں سے چیونٹی بنتی ہے ان ذروں میں یہ کام کرنے کی صلاحیت کس طرح پیدا ہوجاتی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ ان کا ایک خالق ہے جس نے ان کو اس طرح کرنے کی ہدایت کی “۔ (اقتباسات ختم ہوئے)

اس میں شک نہیں ہے کہ ایک خالق ہے جس نے اپنی تمام مخلوقات کو ہدایات دیں ، خواہ وہ بڑی مخلوق ہو یا چھوٹی ہو ، اور یہ وہی خالق ہے جو الاعلیٰ…………فھدی (1:87 تا 3) ” جو برتر ہے ، جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی “۔

ہم نے اوپر جو اقتباسات دیئے ہیں ، یہ تو اصل حقیقت کے ایک معمولی حصے کے مشاہدات ہیں ، جو انسانوں نے نباتات ، حشرات الارض ، پرندوں اور دوسرے حیوانات کے سلسلے میں ریکارڈ کیے ہیں۔ لیکن اس سے آگے علم ومشاہدہ اور بھی جہاں ہیں اور جو کچھ ہمارے علم میں ہے وہ اس قول باری کے مدلول اور مفہوم کا ایک نہایت ہی مختصر حصہ ہے۔

الذی خلق…………فھدی (2:87 تا 3) ” جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی “۔ یہ قابل مشاہدہ کائنات جس کے ایک معمولی حصے کو ہم جانتے ہیں ، اس سے آگے عالم غیب کے جہاں پوشیدہ ہیں۔ ہمیں تو اپنی بشری قوتوں کے مطابق بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ یہ چند اشارات ہیں جو اللہ نے ہماری محدود قوت ادراک کے لئے کردیئے ہیں۔

اس عظیم کائنات کا ایک وسیع صفحہ پیش کرنے اور اس کی وادیوں میں اللہ کی تسبیح وثنا کی گونج پیدا کرنے کے بعد ، اللہ کی اس عظیم تسبیح کو مکمل کرنے کے لئے یہاں نباتات کی دنیا کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے اور یہاں اس اشارے کے اندر جہان معانی ہے۔

والذی اخرج…………احوی (5:87) ” جس نے نباتات اگائیں اور پھر ان کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنادیا “ المرعی ، ہر اس چیزکو کہا جاتا ہے جو زمین سے اگتی ہے ، اس لئے کہ ہر اگنے والی چیز کسی نہ کسی مخلوق کے لئے خوراک ہے۔ لہٰذا مرعی کا مفہوم یہاں اس سے کہیں وسیع ہے کہ کوئی چیز ہمارے مویشیوں کے چرنے کی ہے تو مرعی ہے۔ کیونکہ اللہ نے زمین کو پیدا کیا اور اس زمین کے اوپر چلنے والی ہر مخلوق کے لئے اس کے اندر اس کی خوراک پیدا کی ، چاہے یہ مخلوق زمین کے اوپر چلتی ہو ، یا اندر چھپی رہتی ہو یا اس کی فضاﺅں میں اڑتی ہو۔

نباتات ابتداء میں سبز ہوتے ہیں ، پھر یژمردہ ہوکر سیاہ ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ سبزی کی حالت ہی میں خوراک کے قابل ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ پک کر سیاہ ہوتے ہیں تو خوراک کا کام دیتے ہیں۔ درمیانی حالت میں بھی وہ کسی نہ کسی خوراک کا کام دیتے ہیں۔ بہرحال نباتات کی ہر حالت ، اللہ کی تخلیق اور تسویہ کے مطابق کسی مخلوق کے لئے خوراک بنتی ہے۔

یہاں نباتاتی زندگی کے منظر کو پیش کرکے ایک اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ جس طرح ہر نبات کوڑا کرکٹ بن کر انجام تک پہنچتا ہے۔ اس طرح ہر زندہ مخلوق بھی اس دنیا میں اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ اور یہ اشارہ ہے اس حیات ودنیا اور حیات اخروی کی طرف کہ حیات دنیا تو نباتات کی طرح ختم ہونے والی ہے اور حیات اخروی باقی اور لازوال ہے۔ بعد میں آتا ہے۔

بل توثرون…………وابقی (17:87) ” مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت سے بہتر اور باقی رہنے والی ہے “۔ دنیا کی زندگی اس کھیت کی طرح ہے جو ختم ہوکر کوڑا کرکٹ بن جاتی ہے اور آخرت باقی و لازوال ہوتی ہے۔

اس مقطع کے ذریعے اس عظیم کائنات کے صفحات کو دور تک پھیلا دیا جاتا ہے اور جن امور کا ذکر ہوتا ہے وہ سورت کے آنے والے حقائق کے ساتھ مناسب ہیں۔ یہ کائنات ان سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور یہ حقائق کائنات سے پیوست ہوتے ہیں۔ ایک نہایت ہی وسیع و عریض فریم ورک ہیں۔ اگر گہرا مطالعہ کیا جائے کہ اس سیپارے کے مضامین کو وسیع کائناتی دائرے میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کائناتی دائرہ اس پارے کی فضا اور اس کے اشارات اور مضامین کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔

آیت 1{ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی۔ } ”پاکی بیان کرو اپنے رب کے نام کی جو بہت بلند وبالا ہے۔“ یہ حکم یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ”اپنے رب کی پاکی بیان کرو“ لیکن یہاں خصوصی طور پر اسم نام کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے تصور سے وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔ اس کی ذات کے ساتھ ہمارا ذہنی و قلبی تعلق صرف اور صرف اس کے ناموں کے حوالے سے ہے۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے : { وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص } الاعراف : 180 ”اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ‘ تو پکارو اسے اُن اچھے ناموں سے“۔ چناچہ ہم انسان اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں یا اس کی تسبیح وتحمید کرنا چاہیں تو ظاہر ہے اس کے اسماء کے حوالے سے ہی کرسکتے ہیں۔

مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی ؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت (فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 74ۧ) 56۔ الواقعة :74) اتری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کرلو جب آیت (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۙ) 87۔ الأعلی :1) اتری تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں کرلو ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ آیت (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۙ) 87۔ الأعلی :1) پڑھتے تو کہتے سبحان ربی الاعلی حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہ مروی ہے اور آپ جب آیت (لا اقسم بیوم القیامۃ) پڑھتے اور آخری آیت (اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40؀) 75۔ القیامة :40) پر پہنچتے تو فرماتے سبحانک و بلی اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے جیسے اور جگہ ہے آیت (رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى 50؀) 20۔ طه :50) یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا جس نے ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کردیا بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں موخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کردیا گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں پھر فرماتا ہے کہ تجھے ہم اے محمد ﷺ ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے امام ابن جریر تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن ہم تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ہاں جسے ہم خود منسوخ کردیں اس کی اور بات ہے اللہ پر بندوں کے چھپے کھلے اعمال احوال عقائد سب ظاہر ہیں ہم تجھ پر بھلائی کے کام اچھی باتیں شرعی امر آسان کردیں گے نہ اس میں کجی ہوگی نہ سختی نہ جرم ہوگا تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیے جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آسکیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہوجائیں گی بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کریگا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کرسکتا جو بدبخت ہو جو جہنم میں جانے والا ہو جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے نہ بھلی موت ہے بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئیگی نہ کار آمد زندگی ملے گی ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کر مرجائیں گے پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑا لائیں گے پھر نہر حیاۃ میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائیگا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے پھر زرد پھر ہرا لوگ کہنے لگے حضور ﷺ تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے آیت (وَنَادَوْا يٰمٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ 77؀) 43۔ الزخرف :77) یعنی جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دے دے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو اور جگہ ہے آیت (لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ) 35۔ فاطر :36) یعنی نہ تو ان کی موت آئیگی نہ عذاب کم ہوں گے اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں۔

آیت 1 - سورۃ الاعلیٰ: (سبح اسم ربك الأعلى...) - اردو