سورۃ الاحزاب: آیت 9 - يا أيها الذين آمنوا اذكروا... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورۃ الاحزاب

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱذْكُرُوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا

اردو ترجمہ

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم پر کیا ہے جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo othkuroo niAAmata Allahi AAalaykum ith jaatkum junoodun faarsalna AAalayhim reehan wajunoodan lam tarawha wakana Allahu bima taAAmaloona baseeran

آیت 9 کی تفسیر

درس نمبر 189 ایک نظر میں

جنگلی حیات اور حادثات کے میدان کارزار میں اسلامی شخصیت کی تشکیل ہو رہی تھی۔ ہر نئے دن کے طلوع ہوتے کے بعد اور ہر نئے حادثے کے بعد یہ شخصیت واضح ہوتی جاتی تھی۔ اس کے خدوکال نکھر کر سامنے آتے تھے۔ جماعت مسلمہ ان شخصیات سے تشکیل پا رہی تھی جن کی خاص صلاحیتیں تھیں۔ ان کی خاص اقدار حیات تھیں اور تمام دوسری سوسائیٹوں سے اس کا رنگ ڈھنگ بالکل مختلف تھا۔

اس جماعت کے خلاف دور کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا اور یہ واقعات جماعت کے لیے بڑا فتنہ بن جاتے اور یہ فتنہ اس طرح ہوتا تھا جس طرح سونے کا ” فتنہ “ ہوتا ہے۔ اس فتنے سے اصلی جوہر اور کھوٹ علیحدہ ہوجاتے تھے۔ انسانوں کی حقیقت اور ان کا اصل جوہر سامنے آجاتا تھا۔ جھاگ دور ہوجاتی تھی اور خالص سونا جدا ہوجاتا تھا۔ یوں اسلامی سوسائٹی سے ایسی قدریں ختم ہوجاتی تھیں جن میں ملاوٹ ہوتی تھی۔

ان ابتلاؤں میں قرآن کریم نازل ہوتا تھا یا واقعات و حادثات کے بعد ان پر تبصرہ ہوتا تھا۔ اس تبصرے میں واقعات بتائے جاتے ، ان پر روشنی ڈالی جاتی اور ان کے نشیب و فراز بتائے جاتے۔ یوں ہر ایک کا موقف سامنے آتا۔ ضمیر و شعور اور نیت و ارادے کی اصلاح ہوتی اور ان واقعات کی روشنی میں لوگوں کو ہدایت دی جائیں اور وہ ہدایات اچھی طرح ان کی سمجھ میں آجائیں لوگ ان ہدایات سے اچھی طرح متاثر ہوتے اور اپنی اصلاح کرتے۔ یوں اسلامی جماعت کی تربیت ہر دن کے بعد ہوتی رہتی اور ہر حادثے کے بعد اسے ہدایات ملتی رہتیں۔ اسلامی نظام حیات کے اہداف کے مطابق اس جماعت مسلمہ کی شخصیت بنتی اور وہ ان تبصروں سے تاثرات ملتے۔

یوں نہیں ہوا کہ تمام احکام اور ہدایات ایک ہی باز نازل کرکے مسلمانوں کے سامنے رکھ دئیے گئے ہوں اور پھر یہ کہا گیا ہو کہ جاؤ ان پر عمل کرو۔ بلکہ یہ ہدایات اور یہ قوانین واقعات کے بعد نازل ہوتے رہے ، آزمائش آتیں ، فتنے آتے اور واقعات پیش آتے ، ادھر سے وحی آجاتی کیونکہ اللہ خالق کریم کو یہ علم تھا کہ انسان اخلاق کو صرف تدرئج ہی کے ساتھ اچھی طرح نئے سانچے میں ڈھالا اور اچھی طرح پختہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانی اخلاق کی نوک پلک صرف آزمائشوں اور واقعات و حادثات کی شکل میں درست کی جاسکتی ہے۔ یعنی واقعاتی تجربات کی صورت میں۔ کیونکہ عملی تجربات کے نتیجے میں بات دلوں کی تہ تک اتر جاتی ہے اور اعصاب بھی اس کے مطابق حرکت کرنے لگتے ہیں۔ یہ اعصاب پھر اس طرح جدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں جس طرح معرکہ کا رزار میں یا واقعات اور حادثات میں انسان کا فطری ردعمل ہوتا ہے۔ ایسے واقعات میں جب قرآن نازل ہوتا تو وہ بتا دیتا کہ یہ واقعہ کیا ہے۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور اس میں ایک مسلمان کا اسلامی ردعمل کیا ہونا چاہئے۔ اس طرح اسلامی شخصیت آزمائشوں کی بھٹی سے صاف و ستھری ہوکر نکل آتی ، نکھر آتی ، آزمائش کی تپش اس کے اخلاقی جسم سے ہر قسم کا کھوٹ نکال کر رکھ دیتی اور اب اسلام جس سانچے میں چاہتا ، ان شخصیات کو ڈھال لیتا۔

یہ ایک عجیب دور تھا جو مسلمانوں نے نبی ﷺ کی قیادت میں گزارا۔ اس میں آسمانوں و زمین کے قلابے ملے ہوئے تھے۔ آسمان سے اہل زمین کا براہ راست رابطہ تھا۔ تمام واقعات اور تمام مکالمات میں آسمان سے ہدایت آجاتی۔ ہر مسلمان رات اور دن یوں زندگی بسر کر رہا تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے سن رہا ہے۔ ابھی کوئی ہدایت یا تبصرہ نہ آجائے۔ اس کا کوئی کلمہ ، اس کی کوئی حرکت بلکہ اس کا کوئی ارادہ نزول وحی کا سبب نہ بن جائے۔ لوگوں کے سامنے ظاہر نہ ہوجائے ، رسول اللہ کے پاس سے اس کے بارے میں کوئی تبصرہ نہ آجائے۔ گویا ہر مسلمان محسوس کرتا تھا کہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ براہ راست منسلک ہے۔ اگر اسے کوئی معاملہ درپیش ہوتا یا کوئی مشکل درپیش ہوتی تو وہ انتظار کرتا کہ اس کے بارے میں کوئی فتویٰ ، کوئی ہدایت ، کوئی فیصلہ آسمان سے آجائے اور اللہ بتا دے بذات خود ، اے فلاں تم نے یہ کہا ، تم نے یوں کہا ، تم نے یوں سوچا۔ یہ ظاہر کیا اور چھپایا ، یوں کرو ، یوں نہ کرو ، اور ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو۔ یہ ایک عجیب دور تھا کہ اللہ کا ایک متعین حکم کسی متعین شخص کے بارے میں آپہنچتا۔ اور یہ حکم پھر اس کے لیے بھی ہوتا اور تمام اہل زمین کے لیے بھی ہوتا۔ زمین کے ذرے ذرے کے لیے ہوتا۔ پوری زمین کے لیے ہی ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ عجیب دور تھا ۔ آج جب انسان اس کے بارے میں سوچتا ہے اس کے واقعات اور حادثات کو دہراتا ہے ، پڑھتا ہے ، پڑھاتا ہے تو وہ اچھی طرح ایک نقشہ ذہن میں لاسکتا ہے ، ایک منظر دیکھ سکتا ہے کہ کس قدر عجیب دور تھا یہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت صرف اس شعور کے ذریعہ ہی نہیں کی کہ ان کی شخصیت کو پختہ کردیا جائے بلکہ ان کو عملی تجربوں سے گزارا گیا۔ ان کو آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا جس میں ان کا نقصان بھی ہوا لیکن فائدے بہت ہوئے اور یہ سب امور اللہ کی گہری حکمتوں کے مطابق سر انجام پاتے ، کیونکہ اللہ علیم وخبیر ہے اور وہ اپنی مخلوق کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے۔

یہ حکمت کیا تھی ؟ ہمیں اس پر ذرا طویل غوروفکر کرنا چاہئے تاکہ ہم اسے معلوم کرلیں ، پھر اس پر تدبر کریں۔ اور پھر ہم زندگی کے واقعات ، آزمائشوں پر اس کی روشنی میں غور کریں۔

اس سبق میں تحریک اسلامی کو پیش آنے والے ایک بڑے واقعہ کی تشریح کی گئی ہے۔ اور اسلامی تاریخ کے اس واقعہ میں

جماعت مسلمہ کے لیے ایک بڑی آزمائش تھی اور یہ وقت امت مسلمہ پر بہت برا وقت تھا۔ بڑی مشکل دور سے تحریک گزر رہی تھی۔ یعنی غزوہ احزاب کا دور۔ یہ جنگ ہجرت کے پانچویں یا چوتھے سال میں پیش آئی۔ یہ اس نئی اٹھنے والی تحریک کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ تحریک اسلامی کی تمام اقدار اور تمام نظریات داؤ پر تھے۔ ان آیات پر غور کرنے سے غزوہ احزاب کے واقعہ کے پیش کرنے سے ، اس کے اسلوب بیان سے ، بعض واقعات پر تبصرے سے ، بعض لوگوں کی حرکتوں سے ، بعض افراد کی سوچ سے ، اور بعض لوگوں کے خدشات سے اور پھر اس جنگ میں سامنے آنے والی اقدار سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ امت مسلمہ کی تربیت کس خوش اسلوبی سے فرما رہے تھے۔

جنگ احزاب جیسے اہم واقعہ پر قرآن کریم کس انداز سے تبصرے کرتا ہے اور امت کو کس انداز سے ہدایات دیتا ہے۔ قرآنی نصوص کی تشریح سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعہ کی پوری تفصیل ذرا اختصار سے کتب سیرۃ سے نقل کردی جائے۔ اس سے ہم تقابلی مطالعہ کرسکیں گے کہ انسان واقعات کو کس طرح بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تبصرہ کیسے ہوتا ہے۔

محمد ابن اسحاق نے اپنی سند کے ساتھ ایک جماعت سے نقل کیا ہے ۔۔۔ جنگ خندق کے واقعات میں یہ ہے کہ کچھ یہودی جن میں سے سلام ابن ابو الحقیق نضری ، یحی ابن اخطب نضری ، کنانہ ابن ابو الحقیق نضری ، ہودہ ابن قیس وائلی اور ابو عماد وائلی تھے اور ان کے ساتھ کچھ لوگ بنو نضیر ، کچھ لوگ بنی وائل کے بھی تھے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ کے خلاف لشکر جمع کیے۔ یہ سب سے پہلے گھروں سے نکلے ، قریش سے ملے اور ان کو دعوت دی کہ رسول خدا کے خلاف جنگ کریں اور انہوں نے کہا کہ ہم تمہارا ساتھ اس وقت تک دیں گے جب تک اس کو بنیاد سے نہ اکھاڑ دیں۔ قریش نے کہا ، اے ملت یہود ، تم لوگ پہلی کتاب کے حاملین ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے اور محمد ﷺ کے درمیان کیا اختلاف ہے ، تم لوگ بتاؤ کہ اس کا دین اچھا ہے یا ہمارا۔ تو انہوں نے کہا اس کے دین سے تمہارا دین سچا ہے اور اس کے مقابلے میں تم زیادہ برحق ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ آیات اتریں :

الم تر الی الذین ۔۔۔۔۔۔ امنوا سبیلا (4: 51) ” کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں “۔ یہاں سے لے کر آیات

ام یحسدون الناس علی ما اتھم ۔۔۔۔۔۔۔ وکفی بجھنم سعیرا (4: 54 – 55) ” پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا۔ مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لائے اور کوئی اس سے منہ موڑ گیا اور منہ موڑنے والوں کے لیے تو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے “۔

جب انہوں نے قریش کو یہ فتویٰ دیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور جوش میں آگئے اور رسول اللہ کے خلاف لڑنے کی حامی

بھرلی۔ یہ لوگ اب قریش کو چھوڑ کر غطفان کے پاس گئے ، جو قیس غیلان کی نسل سے ہیں۔ انہوں نے ان کو بھی دعوت دی کہ وہ حضرت محمد ﷺ کے خلاف لڑیں انہوں نے ان کو بتایا کہ وہ خود بھی ساتھ دیں گے اور قریش بھی ساتھ دیں گے۔ لہٰذا تم لوگ قریش کے ساتھ میٹنگ کرو۔ چناچہ قریش کا یہ لشکر ابو سفیان ابن حرب کی سر براہی میں ، غطفان اپنے سردار عبینہ ابن حنن بن فزاری کے ساتھ ، اور حارث ابن عوف بنی مروہ کے ساتھ اور مسعر ابن امیہ اپنے متعین بنی اشجع کے ساتھ نکلے۔

جب رسول اللہ ﷺ کو اس لشکر کشی کی اطلاعات ملیں تو آپ ﷺ نے مدینہ کے اردگرد خندق کھودنا شروع کردی۔ خندق کھودنے میں رسول اللہ ﷺ نے بھی کام کیا اور مسلمانوں نے بھی کام کیا۔ آپ نے بھی جانفشانی سے کام کیا اور مسلمانوں نے بھی سخت جانفشانی سے کام کیا۔ اس کام میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے مقابلے میں بعض منافقین نے نہایت سست روی سے کام لیا۔ وہ بہت چھوٹے موٹے کاموں میں لگ جاتے اور بغیر اذن رسول ﷺ کے کھسک جاتے۔ وہ گھروں کو چلے جاتے اور رسول اللہ کو علم بھی نہ ہوتا۔ اور مسلمانوں کی روش یہ ہوتی کہ اگر کسی کا کوئی ضروری کام پیش آتا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر چلا جاتا اور کام کرکے جلدی سے واپس آجاتا۔ اور نہایت ہی ذوق و شوق سے کام کرتا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :

انما المومنون باللہ ۔۔۔۔۔ ان اللہ غفور رحیم (24: 62) ” مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقعہ پر رسول کے ساتھ ہوں تو اس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ اے نبی جو لوگ تجھ سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں۔ پس وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے چاہو ، اجازت دے دیا کرو۔ اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو۔ اللہ غفور و رحیم ہے “۔ اس کے بعد اللہ نے ان لوگوں کے بارے میں کہا جو بغیر اجازت کے کھسک جاتے تھے اور کام چوری کرتے تھے۔

لاتجعلوا دعآء الرسول ۔۔۔۔۔۔ او یصیبھم عذاب الیم (24: 63) ” مسلمانوں ! اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلا نا نہ سمجھ بیٹھو۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے “۔

جب رسول اللہ ﷺ خندق سے فارغ ہوئے تو قریش حبشیوں ، کنانہ اور تہامہ کا ایک بڑا لشکر حراپرلے کر پہنچ گئے۔ یہ مقام درمہ کے مجمع اسیال پر اترے اور عطفان اور ان کے تابع دوسرے کچھ قبائل احد کے پاس ذنب نقمی پر اترے۔ اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمان تین ہزار کی تعداد میں تھے۔ اسلامی لشکر کی پشت کوہ سلع کی طرف تھی ۔ یہ لشکر یہاں اترا اور احزاب اور مسلمانوں کے لشکر کے درمیان خندو تھی۔ بچوں اور عورتوں کو حکم دیا کہ وہ قلعہ بند ہوجائیں۔

اللہ کا دشمن حیی ابن اخطب نضری ، کعب ابن اسد قرظی سے ملا۔ یہ صاحب تھے جنہوں نے بنی قریظہ کی طرف سے عہد کیا تھا اس نے اپنی قوم کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو یقین دہانی کرائی تھی اور ان پر رسول اللہ ﷺ سے عہد و سمان کیا تھا۔ حبی کعب ابن اسد سے چپکا رہا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے خلاف آمادہ کرتا رہا۔ اسے دھوکہ دینے کے لیے بار بار چکر لگاتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے اس سے بھی وعدہ لے لیا کہ اگر قریش اور عطفان واپس ہوگئے اور محمد پر حملہ آور نہ ہوئے تو میں تمہارے ساتھ تمہارے قلعہ میں رہوں گا تاکہ مجھے بھی وہ بات نہ پہنچ جائے جو تجھے پہنچے۔ ان یقین دہانیوں پر کعب ابن اسد نے حضور اکرم ﷺ سے کیے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور اس کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان جو عہد تھا ، اس سے براءت کا اظہار کردیا۔

اس پر مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا اور خوف و ہراس پھیل گیا۔ اب اوپر سے بھی دشمن حملہ آور ہوگیا اور نیچے سے بھی۔ مسلمانوں نے ہر قسم کے خیالات دل میں دوڑانے شروع کر دئیے۔ بعض منافقین کا نفاق بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا ۔ ایک شخص مصعب ابن قیصر ، بنی عمر ابن عوف قبیلے کے فرد سے یہ کہتے سنا گیا ” محمد ﷺ تو ہم سے یہ وعدے کرتے تھے کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے کھائیں گے اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ، میں سے کوئی بےخوف ہو کر قضائے حاجت کے لیے نہیں جاسکتا “۔ اور قبیلہ بنی حارثہ کے ایک شخص اوس ابن قیظی کہنے لگا ” حضور ہمارے گھرغیر محفوظ ہیں اور یہ بات انہوں نے اپنی قوم کے سامنے کہی تو آپ ہمیں اجازت دے دیں کہ ہم لوگ اپنے گھروں کو چلے جائیں کیونکہ ہمارے گھر مدینہ سے باہر ہیں “۔

رسول اللہ ﷺ بھی ڈٹے رہے اور مشرکین بھی تقریباً ایک ماہ تک پڑے رہے۔ جنگ صرف تیروں اور محاصرے تک محدود رہی۔ جب لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا تو حضور ﷺ نے ایک وفد عبینہ ابن حصن اور حارث ابن عوف کی طرف بھیجا۔ یہ دونوں غطفان کے لیڈر تھے۔ ان کو یہ پیش کش کی کہ ہم مدینہ کی کھجوروں کا 3/1 حصہ ادا کریں گے اس شرط پر کہ تم لوگ اپنے آدمیوں کو لے کر واپس ہوجاؤ۔ صلح کے مذاکرات ہوئے ، ایک معاہدے کا مسودہ بھی تیار ہوگیا۔ شہادت اور دستخط ابھی نہ ہوئے تھے جب حضور ﷺ نے دستخط کرنا چاہئے تو آپ نے سعد ابن معاذ رئیس اوس اور سعد ابن عبادہ رئیس خزرج کو بلایا اور ان کے سامنے اس معاہدے کا تذکرہ کیا اور مشورہ طلب کیا۔ انہوں نے کہا حضور اکرم ﷺ اگر آپ اس معاہدے کو پسند کرتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے ، دستخط کردیں۔ یا اگر اللہ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر۔ اور اگر یہ بات آپ ہمارے مفاد میں کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں یہ صرف تمہاری خاطر کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو یہ اس لئے کر رہا ہوں کہ تمام عرب ایک ہی کمان سے تمہارے خلاف تیراندازی کر رہے ہیں اور ہر طرف سے تمہارے اوپر ٹوٹ پڑے ہیں۔ تو میں نے سوچا کہ ان کی قوت میں کچھ کمی کر دوں “۔ اس پر سعد ابن معاذ نے فرمایا ہم اور یہ لوگ سب شرک پر تھے۔ اور بتوں کی بندگی کرتے تھے۔ نہ اللہ کی بندگی کرتے تھے اور نہ اللہ کو پہچانتے تھے۔ یہ لوگ ہم سے کھجور کا ایک دانہ بھی نہ لے سکتے تھے الایہ کہ بیعہ خریدتے یا بطور مہمان نوازی کے ہم ان کو کھلاتے۔ اب جبکہ اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت بخشی ہے اور ہمیں ہدایت دی ہے اور آپ کے ذریعہ ہمیں اعزاز دیا ہے تو کیا اب ہم ان کو اپنا دل دے دیں۔ ہمیں اس رعایت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ تلوار کرے گی۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا جو آپ کی مرضی ہو۔ سعد ابن معاذ نے وہ مسودہ لیا اور اس کے اندر جو کچھ لکھا تھا ، مٹا دیا۔ اس نے کہا وہ ہمارے خلاف جو کچھ کرنا چاہیں کریں۔

رسول اللہ ﷺ اور مسلمان نہایت خوف اور شدت کی حالت میں رہے۔ کیونکہ دشمن نے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور اس کی قوت زیادہ تھی۔ یہودیوں نے ان کے ساتھ معاہدہ کرلیا تھا کہ وہ خیبر کی کھجوریں دیں گے ۔ اگر وہ اس موقعہ پر ان کی امداد کریں (تبریزی) ۔ حضرت ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ کئی شدت اور سرخف کے مقامات پر رہی ہوں۔ غزوہ مریسع ، خیبر ، حدیبیہ ، فتح مکہ ، حنین۔ ان میں سے کسی جگہ حضور ﷺ نے تھکاوٹ محسوس نہیں کی۔ نہ زیادہ خائف ہوئے ، جس قدر تھکاوٹ اور خوف خندق میں تھا۔ بنی قریظہ عورتوں اور بچوں کے قریب تھے۔ مدینہ میں ساری رات پہرہ ہوتا تھا ۔ ہم مسلمانوں کا نعرہ تکبیر صبح تک سنتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے خود بخود ان کو واپس کردیا۔

ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ ایک شخص نعیم ابن مسعود ابن عامر غطفانی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے کہا رسول خدا ﷺ میں مسلمان ہوشکا ہوں لیکن میری قوم کو میرے اسلام کا پتہ نہیں۔ آپ جو خدمت میرے سپرد کریں ، اس وقت کرسکتا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” ہم میں آپ واحد آدمی ہیں تو جس طرح ہوسکے ، لوگوں کو ہمارے خلاف جنگ کرنے سے روک لیں کیونکہ جنگ ایک قسم کی چال ہوتی ہے۔ اس نے ایک ایسی کاروائی کی جس کی وجہ سے ان احزاب اور بنو قریظہ کے درمیان اعتماد ختم ہوگیا۔ اس کی تفصیلات کتب سیرت میں مفصلاً موجود ہیں ۔ اللہ نے احزاب کے اندر بھی بددلی پیدا کردی اور ایک ایسا طوفان بادوباراں بھیجا کہ سردیوں کی شدید ٹھنڈی رات میں ان کے خیمے اکھڑ گئے ، ان کی ہانڈیاں الٹ گئیں اور چولہے بجھ گئے۔ ۔ جب رسول اللہ ﷺ تک ان کے اختلافات پہنچے ، اور ان کی اجتماعیت ختم ہوگئی تو اس آخری رات کے حالات معلوم کرنے کے لئے حضور ﷺ نے حضرت حذیفہ ابن الیمان کو بھیجا۔

محمد ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ میرے سامنے زید ابن زیاد ابن محمد ابن کعب قرظی نے روایت کی ہے ” ایک کوفی باشندے نے حضرت حذیفہ ابن الیمان سے کہا : ابو عبد اللہ ! تم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے اور آپ کے ساتھ صحبت کی ہے۔ تو اس نے کہا ہاں بھتیجے ، میں نے دیکھا اور صحبت کی۔ تو پھر تم کیا کرتے تھے ؟ خد ا کی قسم ہم بہت جدوجہد کرتے تھے تو اس شخص نے کہا خدا کی قسم اگر ہم رسول اللہ ﷺ کو پاتے تو اسے ہرگز زمین پر چلنے نہ دیتے۔ اور اپنی گردنوں پر انہیں اٹھائے رکھتے۔ اس پر حضرت حذیفہ نے فرمایا : بھتیجے ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ جنگ خندق میں حصہ لیا۔ یوں ہوا کہ حضور ﷺ نے رات کے ایک حصے میں نماز پڑھی اور پھر ہماری جانب متوجہ ہوئے۔ کون ہے جو اٹھے اور جاکر معلوم کرے کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ پھر وہ واپس آجائے۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے واپسی کی شرط لگائی۔ میں اللہ سے سوال کروں گا کہ وہ جنت میں میرا ساتھی ہو “۔ اس قدر شدید خوف تھا کہ کوئی نہ اٹھا۔ اس قدر بھوک تھی کہ کسی میں تاب نہ تھی اور سردی بھی شدید تھی۔ جب کوئی نہ اٹھا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے پکارا۔ جب حضور ﷺ نے میرا نام لیا تو میرے لیے اب کوئی چارہ کار نہ تھا۔ فرمایا ” حذیفہ جاؤ، ان لوگوں میں داخل ہوجاؤ، دیکھو وہ کیا کرتے ہیں اور کوئی بات نہ کرو جب تک ہمارے پاس نہ آجاؤ “۔ حذیفہ کہتے ہیں میں گیا۔ لشکر کے اندر داخل ہوگیا۔ طوفان اور اللہ کے لشکر ان کے ساتھ وہ کچھ کر رہے تھے جو کر رہے تھے۔ ہانڈیاں اپنی جگہ ٹھہر نہ سکتی تھیں۔ آگ سلک نہ سکتی تھی۔ ابوسفیان کھڑا ہوا ، حکم دیا کہ ہر شخص اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے بارے میں تسلی کرے۔ میں نے پہلے ہی اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھ لیا کون ہو ؟ تو اس نے بتایا فلاں ابن فلاں۔ اس کے بعد ابو سفیان نے کہا اہل قریش اب یہاں مزید نہیں رہ سکتے۔ گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہوگئے۔ بنو قریظہ نے ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کردی اور ان کی جانب سے ہمیں وہ جواب ملا جسے ہم ناپسند کرتے ہیں ، طوفان اس قدر ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔ ہنڈیا اپنی جگہ قرار نہیں پکڑتی ، آگ نہیں جلتی ، خیمے اکھڑ گئے۔ لہٰذا کون کرو میں تو یہ گیا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ اپنے اونٹ کو اٹھایا۔ وہ تین ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا اور اس کا عقال اس نے کھڑے کھڑے کھولا۔ اگر مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہ دیا ہوتا کہ کوئی بات نہ کرو جب تک میرے پاس نہ آجاؤ تو میں ایک ہی تیر مار کر ابو سفیان کا کام تمام کردینا۔ حذیفہ کہتے ہیں کہ میں جب واپس پہنچا تو دیکھا کہ حضور ﷺ کھڑے ہیں اور ایک ایسی چادر میں نماز پڑھ رہے ہیں جو لمبی تھی اور منقش تھی۔ یہ آپ ﷺ کی ازواج میں سے کسی کی تھی۔ جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو مجھے اپنے پاؤں کے نیچے چادر میں داخل کرلیا اور چادر کا ایک حصہ مجھ پر ڈال دیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے رکوع کیا اور سجدہ کیا اور میں چادر ہی میں لپٹا رہا۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو میں نے آپ ﷺ کو پوری اطلاع دی۔ اب غطفان نے جب سنا کہ قریش نے یہ کام کیا ہے تو وہ بھی اپنے علاقوں کی طرف واپس ہوگئے۔

قرآن کے ان نصوص میں اشخاص کے نام نہیں لیے گئے۔ بلکہ لوگوں کے نمونے دئیے گئے ہیں اور واقعات کی تفصیلات اور جزئیات بھی قرآن نے چھوڑ دی ہیں۔ قرآن نے وہ اقدار ، وہ کردار اور وہ طرز عمل یہاں ریکارڈ کیے ہیں جو نمونہ ہیں اور ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ وہ کردار جو کسی واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ، جو کسی شخص کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جو حالات کے مٹ جانے سے مٹتے نہیں۔ وہ کردار اور وہ قدریں یہاں درج کردی ہیں جو آیندہ کی نسلوں کے لیے نمونہ عبرت ہیں اور ہر گروہ کیلئے معیار مطلوب ہیں۔ قرآن کریم تمام واقعات اور حادثات کو اللہ کی تدبیر اور تقدیر کے ساتھ منسلک کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ دست قدرت کس کس مرحلے پر مسلمانوں کا معاون رہا اس معرکے کے ہر مرحلے میں تدبیر الٰہی نے اپنا کام کیا اور قرآن نے ہر مرحلے کا تبصرہ پیش کیا

قرآن کریم نے یہ قصہ ان لوگوں کے سامنے دہرایا۔ جو اس کے اندر موجود تھے جو اس کے کردار تھے۔ لیکن قرآن کریم وہ اسباب بھی ان کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے جن کا انہیں علم نہ تھا۔ ان واقعات و حادثات کے وہ پہلو جو نظروں سے اوجھل تھے حالانکہ وہ اس کہانی کے کردار تھے۔ قرآن کریم نفس انسانی کے نشیب و فراز کو بھی کھول کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ وہ لوگوں کے ضمیر کے میلانات بتاتا ہے اور بتاتا ہے کہ لوگوں کے دلوں کے اندر کیا کیا خلجانات پیدا ہوگئے تھے۔

ان باتوں کے علاوہ انداز بیان کی خوبصورتی ، اس کا رعب اور شوکت کلام ، بات کی قوت اور حرارت اور منافقین کے بارے میں مزاحیہ انداز ، اور ان کے نفاق کے پیچ و تاب اور مسلمانوں کی شجاعت اور ایمان ، صبر اور اللہ پر پورا بھروسہ ، غرض یہ سب باتیں قرآن نہایت خوبصورتی کے ساتھ قلم بند کرتا ہے۔ یہ نصوص قرآنی دراصل ہر پڑھنے والے کو عمل پر آمادہ کرتی ہیں۔ یہ صرف ان لوگوں کو آمادہ نہیں کرتیں جن لوگوں نے یہ معرکے لڑے اور ان میں ان کا بنیادی کردار رہا اور انہوں نے سب کچھ دیکھا بلکہ زمانہ مابعد کے تمام ادوار اور معاشروں میں بھی یہ نصوص ابھارنے والی ہیں ، جب بھی تحریک اسلامی کو ایسے ہی حالات سے واسطہ پڑتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کو پڑا اگرچہ بہت زمانہ گزر چکا ہو۔ اگر جدید ترین متنوع معاشروں میں بھی ایسے حالات پیش ہوں تو بعینہ اسی طرح یہ نصوص ایک مومن کو متحرک رکھتی ہیں جس طرح قرون اول میں انہوں نے مسلمانوں کو متحرک رکھا۔

ان نصوص کو صحیح طرح وہی شخص سمجھ سکتا جس کے لیے ویسے ہی حالات درپیش ہوں جس طرح جنگ احزاب میں اس وقت کے مسلمانوں کو درپیش تھے۔ جب ایسے حالات ہوں پھر ان آیات سے ہدایات کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اسلام کے لیے کام کرنے والوں کے دل ان کے معانی کے لیے کھل جاتے ہیں۔ اب قرآن کے کلمات اور سطریں قوت اور اسلحہ بن جاتی ہیں اور کارکن ایسے ہی معرکوں میں کود جاتا ہے۔ پھر یہ آیات زندہ ، بیدار ، آگے بڑھنے والے لوگ پیدا کرتی ہیں اور یہ لوگ ایک حقیقی تحریک لے کر آٹھتے ہیں ۔ قرآن کریم کی یہ نصوص عالم واقعہ میں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔

یاد رہے کہ قرآن کریم محض تلاوت اور علمی مباحث کی کتاب نہیں ہے۔ یہ کام تو بہت ہوچکا ، یہ تو ایک زندگی ہے ، اچھلتی آگے بڑھتی زندگی۔ یہ تو نئے نئے واقعات کے لیے نئی نئی ہدایات ہیں۔ جب بھی کوئی دل ان نصوص کو سمجھے ان کے ہمقدم ہو کر چلے ، ان پر لبیک کہے تو ان نصوص کے اندر پوشیدہ قوت کے سرچشمے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ یہ ہے اس کتاب کا راز کہ اس کے اندر انفجار و قوت کے ذخائر ہیں۔

ایک انسان ایک آیت کو ہزار بار پڑھتا ہے ، پھر وہ ایسے موقف اور ایسے حادثے کا شکار ہوتا ہے اور جب وہ اسی آیت کو پڑھتا ہے تو یہ وہ آیت نہیں ہوتی۔ یہ بالکل ایک نئی آیت ہوتی ہے۔ یہ اسے وہ کچھ بتلاتی ہے جو پہلے نہ بتلاتی تھی۔ یا اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ یہ حیران کن سوالات کا جواب دینے لگتی ہے۔ یہ پیچیدہ مشکلات حل کردیتی ہے۔ صاف صاف راستہ بتلاتی ہے۔ ایک سمت متعین کردیتی ہے اور وہ اس دل کو اس معاملے میں عزم بالجزم میں تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے اور پڑھنے والے کو پورا پورا اطمینان ہوجاتا ہے۔

درس نمبر 189 تشریح آیات

9 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 27

قرآن کریم اس سورة کا آغاز یوں کرتا ہے کہ اے اہل ایمان اس بات کو ذرا یاد کرو کہ یہ لشکر تمہارے خلاف جمع ہوئے اور ان کا ارادہ یہ تھا کہ تمہیں بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دیں اللہ نے محض اپنے کرم سے اور اپنی خاص فوجوں کی مدد سے ان کو نامراد واپس کردیا۔ چناچہ پہلی ہی آیت میں واقعہ کا مزاج ، اس کا آغاز اور اس کا انجام بتا دیا کریں ، اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اللہ کا منشاء یہ ہے کہ تم اللہ ، رسول ﷺ اور وحی کی اتباع کرو ، اس پر توکل کرو ، اور کافرین اور منافقین کی اطاعت نہ کرو ، اور یہ کہ اللہ کی دعوت اور اس کے نظام پر جو لوگ عمل کرتے ہیں ، اللہ ان کا حامی و مددگار ہوتا ہے بمقابلہ کافرین اور منافقین کے۔

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ بما تعملون بصیرا (9) ” “۔

یوں اس اجمالی آغاز ہی میں معرکہ کا آغاز اور انجام قلم بند کردیا گیا۔ اور وہ عناصر بھی بتا دئیے گئے جو اس معرکے میں فیصلہ کن رہے۔ یعنی احزاب کا جمع ہو کر ٹوٹ پڑتا ، اور طوفان باد باراں اور دوسری خدائی افواج کا آنا جو نظر نہ آتی تھیں ، اور اللہ کی نصرت جو اللہ کے علم و تدبیر پر مبنی تھیں اور وہ مسلسل نگرانی کر رہا تھا۔ اب اس کے بعد تفصیلات :

اب دوسرے اور تیسرے رکوع میں غزوئہ احزاب کا ذکر ہے۔ یہ غزوہ 5 ہجری میں ہوا اور اس کی منصوبہ بندی میں کلیدی کردار مدینہ سے نکالے گئے یہودی قبیلہ بنو نضیر کے سرداروں نے ادا کیا۔ بنو نضیر کو عہد شکنی کی سزا کے طور پر 4 ہجری میں مدینہ سے نکال دیا گیا تھا۔ مدینہ سے نکلنے کے بعد وہ لوگ خیبر میں جا کر آباد ہوگئے تھے۔ وہ نہ صرف مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ اگر مسلمانوں کا قلع قمع ہوجائے تو انہیں دوبارہ مدینہ میں آباد ہونے کا موقع مل جائے گا۔ چناچہ انہوں نے بڑی تگ ودو سے عرب کی تمام مسلم مخالف قوتوں کو متحد کر کے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ابو عامر راہب جس کا تذکرہ اس سے پہلے سورة التوبہ کے مطالعے کے دوران مسجد ضرار کے حوالے سے آیت 107 کی تشریح کے ضمن میں ہوچکا ہے کی مدد سے قریش ِمکہ ‘ نجد کے بنو غطفان اور عرب کے دیگر چھوٹے بڑے قبائل سے رابطہ کیا۔ اپنی اس مہم کے نتیجے میں وہ لگ بھگ بارہ ہزار جنگجوئوں پر مشتمل ایک بہت بڑا لشکر تیار کرنے اور اس کو مدینہ پر چڑھا لانے میں کامیاب ہوگئے۔ عربوں کے مخصوص قبائلی نظام کی تاریخ کو مد نظر رکھا جائے تو اس زمانے میں اتنے بڑے پیمانے پر لشکر کشی ایک انہونی سی بات تھی۔ دوسری طرف مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد مشکل سے تین ہزار تھی اور اس میں بھی منافقین کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ ایک بہت طاقتور یہودی قبیلے بنو قریظہ کی مدینہ میں موجودگی بھی ایک بہت بڑے خطرے کی علامت تھی۔ مدینہ میں ان لوگوں نے مضبوط گڑھیاں بنا رکھی تھیں۔ اس سے پہلے مدینہ کے دو یہودی قبائل بنو قینقاع اور بنو نضیر میثاقِ مدینہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں سے غداری کرچکے تھے۔ اس پس منظر میں اس طاقتور یہودی قبیلے کی طرف سے بھی نہ صرف غداری کا اندیشہ تھا ‘ بلکہ حملہ آور قبائل کے ساتھ ان کے خفیہ گٹھ جوڑ کے بارے میں ٹھوس اطلاعات بھی آچکی تھیں۔ ان حالات میں مٹھی بھر مسلمانوں کے لیے اتنے بڑے لشکر سے مقابلہ کرنا بظاہر ممکن نہیں تھا۔ اس صورت حال میں حضور ﷺ نے جب صحابہ رض سے مشورہ کیا تو حضرت سلمان فارسی رض کی طرف سے خندق کھودنے کی تجویز سامنے آئی۔ حضرت سلمان رض کا تعلق ایران سے تھا۔ آپ رض نے ایران میں رائج اس مخصوص طرز دفاع کے بارے میں اپنی ذاتی معلومات کی روشنی میں یہ مشورہ دیا جو حضور ﷺ نے پسند فرمایا۔ محل وقوع کے اعتبار سے مدینہ کی آبادی تین اطراف سے قدرتی طور پر محفوظ تھی۔ مشرق اور مغرب میں حرات لاوے کی چٹانوں پر مشتمل علاقہ تھا۔ اس علاقے میں اونٹوں اور گھوڑوں کی نقل و حرکت نہ ہوسکنے کی وجہ سے ان دونوں اطراف سے کسی بڑے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ عقب میں جنوب کی طرف بنو قریظہ کی گڑھیاں تھیں اور چونکہ ان کے ساتھ حضور ﷺ کا باقاعدہ معاہدہ تھا اور ابھی تک ان کی طرف سے کسی بد عہدی کا اظہار نہیں ہوا تھا اس لیے بظاہر یہ سمت بھی محفوظ تھی۔ اس طرح مدینہ کی صرف شمال مغربی سمت میں ہی ایسا علاقہ تھا جہاں سے اجتماعی فوج کشی کا خطرہ باقی رہ جاتا تھا۔ اس لیے اس علاقہ میں حضور ﷺ نے خندق کھودنے کا فیصلہ فرمایا۔ خندق کا مقصد اس سمت سے کسی بڑے حملے ‘ خصوصاً گھڑ سوار دستوں کی یلغار کو ناممکن بنانا تھا۔ اگر یکبارگی کسی بڑے حملے کا امکان نہ رہتا تو انفرادی طور پر خندق پار کرنے والے جنگجوئوں کے ساتھ آسانی سے نپٹا جاسکتا تھا۔ حضور ﷺ کے حکم سے خندق کی کھدائی کا کام شروع ہوگیا اور چھ دن کے اندر اندر یہ خندق تیار ہوگئی۔ لیکن خندق تو محض ایک مسئلے کا حل تھا ‘ جبکہ حالات تھے کہ انسانی تصور سے بھی بڑھ کر گھمبیر تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے لشکر سے مقابلہ ‘ منافقین کی مدینہ کے اندر آستین کے سانپوں کی حیثیت سے موجودگی ‘ شدید سردی کا موسم ‘ قحط کا زمانہ ‘ رسد کی شدید کمی اور یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی طرف سے بد عہدی کا خدشہ ! غرض خطرات و مسائل کا ایک سمندر تھا جس کی خوفناک لہریں پے درپے مسلمانوں پر اپنے تھپیڑوں کی یلغار کیے بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے صبر اور امتحان کے لیے ایک بہت ہی سخت اور خوفناک صورت پیدا کردی تھی۔ اسی دوران حضرت ُ نعیم بن مسعود رض جن کا تعلق بنوغطفان کی شاخ اشجع قبیلے سے تھا ‘ حضور ﷺ سے ملنے مدینہ آئے اور عرض کیا کہ میں اسلام قبول کرچکا ہوں مگر اس بارے میں ابھی تک کسی کو علم نہیں۔ اگر آپ ﷺ مجھے اجازت دیں تو میں بڑی آسانی سے حملہ آور قبائل اور بنو قریظہ کے مابین بد اعتمادی پیدا کرسکتا ہوں۔ واضح رہے کہ بنوقریظہ اور حملہ آور قبائل کے مابین سلسلہ جنبانی کا آغاز ہوچکا تھا۔ بنونضیر کا یہودی سردار حُیّ بن اخطب بنوقریظہ کے پاس پہنچا تھا اور انہیں مسلمانوں کے ساتھ بدعہدی پر آمادہ کرچکا تھا۔ اس طرح بنوقریظہ عہدشکنی کے مرتکب ہوچکے تھے۔ چناچہ حضور ﷺ کی اجازت سے حضرت نعیم بن مسعود رض بنوقریظہ کے پاس گئے اور انہیں سمجھایا کہ دیکھو محمد ﷺ کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اگر تم ان سے عہد شکنی کر کے حملہ آور قبائل کا ساتھ دو گے تو عین ممکن ہے کہ تم اپنی توقعات کے مطابق مسلمانوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائو۔ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ اگر یہ منصوبہ ناکام ہوا تو تمہارا کیا بنے گا ؟ آخر اس کا امکان تو موجود ہے نا ‘ خواہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہو ! ایسی صورت میں باہر سے آئے ہوئے سب لوگ تو محاصرہ اٹھا کر چلتے بنیں گے اور تمہیں مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ حملہ آور قبائل کا ساتھ دینے سے پہلے تم لوگ اپنی حفاظت کی ضمانت کے طور پر ان سے کچھ افراد بطور یرغمال مانگ لو۔ اس کے بعد حضرت نعیم رض حملہ آور قبائل کے سرداروں کے پاس گئے اور انہیں خبردار کیا کہ بنو قریظہ تم لوگوں سے مخلص نہیں ‘ وہ تم سے کچھ آدمی بطور یرغمال مانگنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ تمہارے آدمی مسلمانوں کے حوالے کر کے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلا سکیں۔ چناچہ تم لوگ ان سے خبردار رہنا اور کسی قیمت پر بھی اپنے آدمی ان کے سپرد نہ کرنا ! حملہ آور قبائل اور بنو قریظہ کے درمیان مسلمانوں پر مشترکہ حملے کے بارے میں معاہدہ طے پانے ہی والا تھا ‘ لیکن معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے جب بنو قریظہ نے حملہ آور قبائل سے کچھ افراد بطور ضمانت مانگے تو انہوں نے ان کا یہ مطالبہ رد کردیا۔ اس طرح فریقین کے اندر بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوگئی اور مسلمانوں کے خلاف ایک انتہائی خطرناک منصوبہ ناکام ہوگیا۔ بنو قریظہ کی طرف سے عدم تعاون کے بعد حملہ آور لشکر کی کامیابی کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ دوسری طرف انہیں موسم کی شدت اور رسد کی قلت کی وجہ سے بھی پریشانی کا سامنا تھا۔ ان حالات میں ایک رات قدرت الٰہی سے شدید آندھی آئی جس سے ان کے کیمپ کی ہرچیز درہم برہم ہوگئی۔ خیمے اکھڑ گئے ‘ کھانے کی دیگیں الٹ گئیں اور جانور دہشت زدہ ہوگئے۔ اس غیبی وار کی شدت کے سامنے ان کی ہمتیں بالکل ہی جواب دے گئیں۔ چناچہ اسی افراتفری کے عالم َمیں تمام قبائل نے واپسی کی راہ لی۔ یہ محاصرہ تقریباً پچیس دن تک جاری رہا۔ مسلمانوں کے لیے تو یہ ایک بہت سخت امتحان تھا ہی ‘ جس سے وہ سرخرو ہو کر نکلے ‘ لیکن دوسری طرف اس آزمائش سے منافقین کے نفاق کا پردہ بھی چاک ہوگیا اور ایک ایک منافق کا ُ خبث ِباطن اس کی زبان پر آگیا۔ یہی دراصل اس آزمائش کا مقصد بھی تھا : { لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ } الانفال : 37 ”تاکہ اللہ ناپاک کو پاک سے چھانٹ کر الگ کر دے“۔ -۔ - سورة العنکبوت کے پہلے رکوع میں یہی اصول اور قانون اللہ تعالیٰ نے سخت تاکیدی الفاظ میں دو دفعہ بیان فرمایا ہے۔ پہلے فرمایا : { فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ۔ ”چناچہ اللہ ظاہر کر کے رہے گا ان کو جو اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔“ پھر اس کے بعد دوبارہ فرمایا : { وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ۔ ”اور یقینا اللہ ظاہر کر کے رہے گا سچے اہل ایمان کو ‘ اور ظاہر کر کے رہے گا منافقین کو بھی !“ اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح 5 نبوی ﷺ میں مکہ کے اندر غلاموں ‘ نوجوانوں اور بےسہارا مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کی تفصیل سورة العنکبوت کے پہلے رکوع کے مطالعے کے دوران گزر چکی ہے بالکل اسی طرح 5 ہجری میں مدینہ کے اندر بھی مسلمانوں کو غزوئہ خندق کی صورت میں سخت ترین آزمائش سے دو چار ہونا پڑا۔ بلکہ اس ضمن میں میری رائے واللہ اعلم تو یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر ذاتی طور پر سب سے مشکل وقت آپ ﷺ کے سفر ِطائف کے دوران آیا تھا ‘ جبکہ مسلمانوں کو اجتماعی سطح پر شدید ترین تکلیف دہ صورت حال کا سامنا غزوئہ خندق کے موقع پر کرنا پڑا۔آیت 9 { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ } ”اے اہل ِایمان ! یاد کرو اللہ کے اس انعام کو جو تم لوگوں پر ہوا“ { اِذْ جَآئَ تْکُمْ جُنُوْدٌ} ”جب تم پر حملہ آور ہوئے بہت سے لشکر“ یہ لشکر مدینہ پر چاروں طرف سے چڑھ آئے تھے۔ بنو غطفان اور بنو خزاعہ کے لشکروں نے مشرق کی طرف سے چڑھائی کی ‘ جنوب مغرب کی طرف سے قریش ِمکہ حملہ آور ہوئے ‘ جبکہ شمال کی جانب سے انہیں بنو نضیر اور خیبر کے دوسرے یہودی قبائل کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ { فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا } ”تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیجی اور ایسے لشکر بھی جو تم نے نہیں دیکھے۔“ یعنی آندھی کی کیفیت تو تم لوگوں نے بھی دیکھی تھی ‘ لیکن اس کے علاوہ ہم نے ان پر فرشتوں کے لشکر بھی بھیجے تھے جو تم کو نظر نہیں آئے۔ { وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا } ”اور جو کچھ تم لوگ کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔“ اس ایک جملے میں محاصرے کے دوران ہر فرد کے رویے کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اس دوران کس کا ایمان غیر متزلزل رہا ‘ کس کی نیت میں نفاق تھا اور کون اپنے نفاق کو زبان پر لے آیا ‘ اللہ کو سب معلوم ہے۔ یہ محاصرہ تقریباً پچیس دن تک رہا۔ اس دوران اکا دکا مقامات پر معرکہ آرائی بھی ہوئی۔ اس حوالے سے حضرت علی رض اور عرب کے مشہور پہلوان عبد ِوُدّ کے درمیان ہونے والا مقابلہ تاریخ میں بہت مشہور ہے۔ عبد ِوُدّ پورے عرب کا مانا ہوا شہسوار تھا۔ اس کی عمر نوے ّسال تھی مگر وہ اس عمر میں بھی ہزار جنگجوئوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ کوئی اکیلا شخص اس کے مقابلے میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ گھوڑے کو بھگاتے ہوئے ایک ہی زقند میں خندق پار کرنے میں کامیاب ہوگیا اور تن ِتنہا اس طرف آکر دعوت مبارزت دی کہ تم میں سے کوئی ہے جو میرا مقابلہ کرے ؟ ادھر سے حضرت علی رض اس کے مقابلے کے لیے تیار ہوئے۔ حضرت علی رض کے سامنے آنے پر اس نے کہا کہ میں اپنے مقابل آنے والے ہر شخص کو تین باتیں کہنے کا موقع دیتا ہوں اور ان میں سے ایک بات ضرور قبول کرتا ہوں۔ اس لیے تم اپنی تین خواہشات کا اظہار کرو۔ اس پر حضرت علی رض نے کہا کہ میری پہلی خواہش تو یہ ہے کہ تم ایمان لے آئو۔ اس نے کہا کہ یہ تو نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی رض نے اپنی دوسری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم جنگ سے واپس چلے جائو ! اس نے کہا کہ یہ بھی ممکن نہیں۔ ان دونوں باتوں سے انکار پر آپ رض نے فرمایا کہ پھر آئو اور مجھ سے مقابلہ کرو ! اس پر اس نے ایک بھر پور قہقہہ لگاتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ آج تک پورے عرب میں اس کے سامنے کسی کو ایسا کہنے کی جرات نہیں ہوئی۔ بہر حال دو بدو مقابلے میں حضرت علی رض نے اسے واصل ِجہنم کردیا۔ اس طرح کے اکا ّدُکا انفرادی مقابلوں کے علاوہ دونوں لشکروں کے درمیان کسی بڑے اجتماعی معرکے کی نوبت نہیں آئی۔ محاصرے کے غیر متوقع طور پر طول کھینچنے سے کفار کے لشکر میں روز بروزبد دلی پھیلتی جا رہی تھی۔ اس دوران حضرت ُ نعیم بن مسعود اشجعی رض کی حکمت عملی سے بھی بنو قریظہ اور حملہ آور قبائل کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوگئی۔ طویل محاصرے کے بعد اچانک خوفناک آندھی نے بھی اپنا رنگ دکھایا۔ اس پر مستزاد فرشتوں کے لشکروں کی دہشت تھی جس کی کیفیت کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس سب کچھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب کی تاریخ کے سب سے بڑے لشکر کو اپنے مقاصد حاصل کیے بغیر ناکام و نامراد لوٹنا پڑا۔ -۔ - آئندہ آیات میں محاصرے کے دوران کی صورت حال پر مزید تبصرہ کیا جا رہا ہے :

غزوئہ خندق اور مسلمانوں کی خستہ حالی جنگ خندق میں جو سنہ005ہجری ماہ شوال میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جو اپنا فضل واحسان کیا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے۔ جبکہ مشرکین نے پوری طاقت سے اور پورے اتحاد سے مسلمانوں کو مٹا دینے کے ارادے سے زبردست لشکر لے کر حملہ کیا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں جنگ خندق سنہ004ہجری میں ہوئی تھی۔ اس لڑائی کا قصہ یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودی سرداروں نے جن میں سلام بن ابو حقیق، سلام بن مشکم، کنانہ بن ربیع وغیرہ تھے مکہ میں آکر قریشیوں کو جو اول ہی سے تیار تھے حضور ﷺ سے لڑائی کرنے پر آمادہ کیا اور ان سے عہد کیا کہ ہم اپنے زیر اثر لوگوں کے ساتھ آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ انہیں آمادہ کرکے یہ لوگ قبیلہ غطفان کے پاس گئے ان سے بھی ساز باز کرکے اپنے ساتھ شامل کرلیا قریشیوں نے بھی ادھر ادھر پھر کر تمام عرب میں آگ لگا کر سب گرے پڑے لوگوں کو بھی ساتھ ملالیا۔ ان سب کا سردار ابو سفیان صخر بن حرب بنا اور غطفان کا سردار عینیہ بن حصن بن بدر مقرر ہوا۔ ان لوگوں نے کوشش کرکے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کرلیا اور مدینے کی طرف چڑھ دوڑے۔ حضور ﷺ کو جب اس لشکر کشی کی خبریں پہنچیں تو آپ نے بہ مشورہ حضرت سلمان فارسی ؓ مدینے شریف کی مشرقی سمت میں خندق یعنی کھائی کھدوائی اس خندق کے کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین و انصار ؓ شامل تھے اور خود آپ بھی بہ نفس نفیس اس کے کھودنے اور مٹی ڈھونے میں بھی حصہ لیتے تھے۔ مشرکین کا لشکر بلامزاحمت مدینے شریف تک پہنچ گیا اور مدینے کے مشرقی حصے میں احد پہاڑ کے متصل اپنا پڑاؤ جمایا یہ تھا مدینے کا نیچا حصہ اوپر کے حصے میں انہوں نے اپنی ایک بڑی بھاری جمعیت بھیج دی جس نے اعالی مدینہ میں لشکر کا پڑاؤ ڈالا اور نیچے اوپر سے مسلمانوں کو محصور کرلیا۔ حضور ﷺ اپنے ساتھ کے صحابہ کو جو تین ہزار سے نیچے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ صرف سات سو تھے لے کر ان کے مقابلے پر آئے۔ سلع پہاڑی کو آپ نے اپنی پشت پر کیا اور دشمنوں کی طرف متوجہ ہو کر فوج کو ترتیب دیا۔ خندق جو آپ نے کھودی اور کھدوائی تھی اس میں پانی وغیرہ نہ تھا وہ صرف ایک گڑھا تھا جو مشرکین کے ریلے کو بےروک آنے نہیں دیتا تھا آپ نے بچوں اور عورتوں کو مدینے کے ایک محلے میں کردیا تھا۔ یہودیوں کی ایک جماعت بنو قریظہ مدینے میں تھی مشرقی جانب ان کا محلہ تھا۔ نبی ﷺ سے ان کا معاہدہ مضبوط تھا ان کا بھی بڑا گروہ تھا تقریبا آٹھ سو جنگجو لڑنے کے قابل میدان میں موجود تھے مشرکین اور یہود نے ان کے پاس حی بن اخطب نضری کو بھیجا اس نے انہیں بھی شیشے میں اتار کر سبز باغ دکھلا کر اپنی طرف کرلیا اور انہوں نے بھی ٹھیک موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کی۔ اور اعلانیہ طور پر صلح توڑ دی۔ باہر سے دس ہزار کا وہ لشکر جو گھیرا ڈالے پڑا ہے اندر سے ان یہودیوں کی بغاوت جو بغلی پھوڑے کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمان بتیس دانتوں میں زبان یا آٹے میں نکل کی طرح ہوگئے۔ یہ کل سات سو آدمی کر ہی کیا سکتے تھے۔ یہ وقت تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ آنکھیں پتھرا گئیں دل الٹ گئے طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ جھنجھوڑ دئیے گئے اور سخت امتحان میں مبتلا ہوگئے۔ مہینہ بھر تک محاصرہ کی یہی تلخ صورت قائم رہی گو مشرکین کی یہ جرات تو نہیں ہوئی کہ خندق سے پار ہو کر دستی لڑائی لڑتے لیکن ہاں گھیرا ڈالے پڑے رہے اور مسلمانوں کو تنگ کردیا۔ البتہ عمرو بن عبدود عامری جو عرب کا مشہور شجاع پہلوان کو لے کر خندق سے اپنے گھوڑوں کو کدالایا۔ یہ حال دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سواروں کی طرف اشارہ کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ انہیں تیار نہ پاکر آپ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ تم اس کے مقابلے پر جاؤ آپ گئے تھوڑی دیر تک تو دونوں بہادروں میں تلوار چلتی رہی لیکن بالآخر حضرت علی ؓ نے کفر کے اس دیو کو تیہ تیغ کیا جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ فتح ہماری ہے۔ پھر پروردگار نے وہ تندوتیز آندھی بھیجی کہ مشرکین کے تمام خیمے اکھڑے گئے کوئی چیز قرینے سے نہ رہی آگ کا جلانا مشکل ہوگیا۔ کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی بالآخر تنگ آکر نامرادی سے واپس ہوئے۔ جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ جس ہوا کا اس آیت میں ذکر ہے بقول مجاہد رحمۃ اللہ یہ صبا ہواؤں سے ہلاک کئے گئے تھے۔ عکرمہ فرماتے ہیں جنوبی ہوا نے شمالی ہوا سے اس جنگ احزاب میں کہا کہ چل ہم تم جاکر رسول اللہ ﷺ کی مدد کریں تو شمالی ہوا نے کہا کہ کہگرمی رات کو نہیں چلاتی۔ پھر ان پر صبا ہوا بھیجی گئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں مجھے میرے ماموں حضرت عثمان بن مظعون ؓ نے خندق والی رات سخت جاڑے اور تیز ہوا میں مدینہ شریف بھیجا کہ کھانا اور لحاف لے آؤں۔ میں نے حضور سے اجازت چاہی تو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ میرے جو صحابی تمہیں ملے انہیں کہنا کہ میرے پاس چلے آئیں۔ اب میں چلا ہوائیں زناٹے کی شائیں شائیں چل رہی تھیں۔ مجھے جو مسلمان ملا میں نے اسے حضور ﷺ کا پیغام دیا اور جس نے سنا الٹے پاؤں فورا حضور کی طرف چل دیا یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ہوا میری ڈھال کو دکھے دے رہی تھی اور وہ مجھے لگ رہی تھی یہاں تک کہ اس کا لوہا میرے پاؤں پر گرپڑا جسے میں نے پھینک دیا۔ اس ہوا کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھی نازل فرمائے تھے جنہوں نے مشرکین کے دل اور سینے خوف اور رعب سے بھر دئیے۔ یہاں تک کہ جتنے سرداران لشکر تھے اپنے ماتحت سپاہیوں کو اپنے پاس بلابلاکر کر کہنے لگے نجات کی صورت تلاش کرو۔ بچاؤ کا انتظام کرو۔ یہ تھا فرشتوں کا ڈالا ہوا رعب اور یہی وہ لشکر ہے جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس لشکر کو تم نے نہیں دیکھا۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے ایک نوجوان شخص نے جو کوفے کے رہنے والے تھے کہا کہ اے ابو عبداللہ تم بڑے خوش نصبیب ہو کہ تم نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا اور آپ کی مجلس میں بیٹھے بتاؤ تم کیا کرتے تھے ؟ حضرت حذیفہ نے فرمایا واللہ ہم جان نثاریاں کرتے تھے۔ نوجوان فرمانے لگے سنئے چچا اگر ہم حضور ﷺ کے زمانے کو پاتے تو واللہ آپ کو قدم بھی زمین پر نہ رکھنے دیتے اپنی گردنوں پر اٹھا کر لیجاتے۔ آپ نے فرمایا بھیتجے لو ایک واقعہ سنو جنگ خندق کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ بڑی رات تک نماز پڑھتے رہے۔ فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کوئی ہے جو جا کر لشکر کفار کی خبر لائے ؟ اللہ کے نبی ﷺ اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔ کوئی کھڑا نہ ہوا کیونکہ خوف کی بھوک کی اور سردی کی انتہا تھی۔ پر آپ دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ پھر فرمایا کوئی ہے جو جا کر یہ خبر لادے کہ مخالفین نے کیا کیا ؟ اللہ کے رسول ﷺ اسے مطمئن کرتے ہیں کہ وہ ضرور واپس آئے گا اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں میرا رفیق کرے۔ اب کے بھی کوئی کھڑا نہ ہوا اور کھڑا ہوتا کیسے ؟ بھوک کے مارے پیٹ کمر سے لگ رہا تھا سردی کے مارے دانت بج رہے تھے، خوف کے مارے پتے پانی ہو رہے تھے۔ بالآخر میرا نام لے کر رسول اللہ ﷺ نے آواز دی اب تو بےکھڑے ہوئے چارہ نہیں تھا۔ فرمانے لگے حذیفہ تو جا اور دیکھ کہ وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں دیکھ جب تک میرے پاس واپس نہ پہنچ جائے کوئی نیا کام نہ کرنا میں نے بہت خوب کہہ کر اپنی راہ لی اور جرات کے ساتھ مشرکوں میں گھس گیا وہاں جاکر عجیب حال دیکھا کہ دکھائی نہ دینے والے اللہ کے لشکر اپنا کام پھرتی سے کررہے ہیں۔ چولہوں پر سے دیگیں ہوا نے الٹ دی ہیں۔ خیموں کی چوبیں اکھڑ گئی ہیں، آگ جلا نہیں سکتے۔ کوئی چیز اپنی ٹھکانے نہیں رہی اسی وقت ابو سفیان کھڑا ہوا اور با آواز بلند منادی کی کہ اے قریشیوں اپنے اپنے ساتھی سے ہوشیار ہوجاؤ۔ اپنے ساتھی کو دیکھ بھال لو ایسانہ ہو کوئی غیر کھڑا ہو۔ میں نے یہ سنتے ہی میرے پاس جو ایک قریشی جوان تھا اس کا ہاتھ پکڑلیا اور اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں۔ میں نے کہا اب ہوشیار رہنا۔ پھر ابو سفیان نے کہا اللہ گواہ ہے ہم اس وقت کسی ٹھہرنے کی جگہ پر نہیں ہیں۔ ہمارے مویشی ہمارے اونٹ ہلاک ہو رہے ہیں۔ بنو قریظہ نے ہم سے وعدہ خلافی کی اس نے ہمیں بڑی تکلیف پہنچائی پھر اس ہوا نے تو ہمیں پریشان کر رکھا ہے ہم کھانا نہیں پکا سکتے آگ تک نہیں جلاسکتے خیمے ڈیرے ٹھہر نہیں سکتے۔ میں تو تنگ آگیا ہوں اور میں نے تو ارادہ کرلیا ہے کہ واپس ہوجاؤں پس میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ واپس چلو۔ اتنا کہتے ہی اپنے اونٹ پر جو زانوں بندھا ہوا بیٹھا تھا چڑھ گیا اور اسے مارا وہ تین پاؤں سے ہی کھڑا ہوگیا پھر اس کا پاؤ کھولا۔ اس وقت ایسا اچھا موقعہ تھا کہ اگر میں چاہتا ایک تیر میں ہی ابو سفیان کا کام تمام کردیتا لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمادیا تھا کہ کوئی نیا کام نہ کرنا اس لئے میں نے اپنے دل کو روک لیا۔ اب میں واپسی لوٹا اور اپنے لشکر میں آگیا جب میں پہنچا ہوں تو میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ ایک چادر کو لپیٹے ہوئے جو آپ کی کسی بیوی صاحبہ کی تھی نماز میں مشغول ہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر دونوں پیروں کے درمیان بٹھالیا اور چادر مجھے بھی اڑھا دی۔ پھر رکوع اور سجدہ کیا اور میں وہیں وہی چادر اوڑھے بیٹھارہا جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ قریشیوں کے واپس لوٹ جانے کی خبر جب قبیلہ غطفان کو پہنچی تو انہوں نے بھی سامان باندھا اور واپس لوٹ گئے اور روایت میں حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں جب میں چلا تو باوجود کڑاکے کی سخت سردی کے قسم اللہ کی مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کسی گرم حمام میں ہوں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب میں لشکر کفار میں پہنچا ہوں اس وقت ابو سفیان آگ سلگائے ہوئے تاپ رہا تھا میں نے اسے دیکھ کر پہچان کر اپنا تیر کمان میں چڑھالیا اور چاہتا تھا کہ چلادوں اور بالکل زد میں تھا ناممکن تھا کہ میر انشانہ خالی جائے لیکن مجھے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یاد آگیا کہ کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ وہ چوکنے ہو کر بھڑک جائیں تو میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ جب میں واپس آیا اس وقت بھی مجھے کوئی سردی محسوس نہ ہوئی بلکہ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا میں حمام میں چل رہا ہوں۔ ہاں جب حضور ﷺ کے پاس پہنچ گیا بڑے زور کی سردی لگنے لگی اور میں کپکپانے لگا تو حضور ﷺ نے اپنی چادر مجھ کو اوڑھادی۔ میں جو اوڑھ کر لیٹا تو مجھے نیند آگئی اور صبح تک پڑا سوتا رہا صبح خود حضور ﷺ نے خود مجھے یہ کہہ کر جگایا کہ اے سونے والے بیدار ہوجا۔ اور روایت میں ہے کہ جب اس تابعی نے کہا کہ کاش ہم رسول اللہ ﷺ کو دیکھتے اور آپ کے زمانے کو پاتے تو حذیفہ ؓ نے کہا کاش کہ تم جیسا ایمان ہمیں نصیب ہو تاکہ باجود نہ دیکھنے کے پورا اور پختہ عقیدہ رکھتے ہو۔ برادر زادے جو تمنا کرتے ہو یہ تمناہی ہے نہ جانے تم ہوتے تو کیا کرتے ؟ ہم پر تو ایسے کٹھن وقت آئے ہیں۔ یہ کہہ کہ پھر آپ نے مندرجہ بالا خندق کی رات کا واقعہ بیان کیا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ہوا جھڑی آندھی کے ساتھ بارش بھی تھی۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ حضور ﷺ کے ساتھ کے واقعات کو بیان فرما رہے تھے جو اہل مجلس نے کہا کہ اگر ہم اس وقت موجود ہوتے تو یوں اور یوں کرتے اس پر آپ نے یہ واقعہ بیان فرمادیا کہ باہر سے تو دس ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے اندر سے بنوقریظہ کے آٹھ سو یہودی بگڑے ہوئے ہیں بال بچے اور عورتیں مدینے میں ہیں خطرہ لگا ہوا ہے اگر بنو قریظہ نے اس طرف کا رخ کیا تو ایک ساعت میں ہی عورتوں بچوں کا فیصلہ کردیں گے۔ واللہ اس رات جیسی خوف وہراس کی حالت کبھی ہم پر نہیں گذری۔ پھر وہ ہوائیں چلتی ہیں، آندھیاں اٹھتی ہیں، اندھیرا چھا جاتا ہے، کڑک گرج اور بجلی ہوتی ہے کہ العظمتہ اللہ۔ ساتھی کو دیکھنا تو کہاں اپنی انگلیاں بھی نظر نہ آتی تھی۔ جو منافق ہمارے ساتھ تھے وہ ایک ایک ہو کر یہ بہانا بناکر ہمارے بال بچے اور عورتیں وہاں ہیں اور گھر کا نگہبان کوئی نہیں۔ حضور ﷺ سے آکر اجازت چاہنے لگے اور آپ نے بھی کسی ایک کو نہ روکا جس نے کہا کہ میں جاؤں ؟ آپ نے فرمایا شوق سے جاؤ۔ وہ ایک ایک ہو کر سرکنے لگے اور ہم صرف تین سو کے قریب رہ گئے۔ حضور ﷺ اب تشریف لائے ایک ایک کو دیکھا میری عجیب حالت تھی نہ میرے پاس دشمن سے بچنے کے لئے کوئی آلہ تھا نہ سردی سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی کپڑا تھا۔ صرف میری بیوی کی ایک چھوٹی سی چادر تھی جو میرے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچتی تھی۔ جب حضور ﷺ میرے پاس پہنچے اس وقت میں اپنے گھٹنوں میں سر ڈالے ہوئے دبک کر بیٹھا ہوا کپکپارہا تھا۔ آپ نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ میں نے کہا حذیفہ۔ فرمایا حذیفہ سن ! واللہ مجھ پر تو زمین تنک آگئی کہ کہیں حضور مجھے کھڑا نہ کریں میری تو درگت ہو رہی ہے لیکن کرتا کیا حضور ﷺ کا فرمان تھا میں نے کہا حضور ﷺ سن رہا ہوں ارشاد ؟ آپ نے فرمایا دشمنوں میں ایک نئی بات ہونے والی ہے جاؤ ان کی خبر لاؤ۔ واللہ اس وقت مجھ سے زیادہ نہ تو کسی کو خوف تھا نہ گھبراہٹ تھی نہ سردی تھی لیکن حضور ﷺ کا حکم سنتے ہی کھڑا ہوگیا اور چلنے لگا تو میں نے سنا کہ آپ میرے لئے دعا کررہے ہیں کہ اے اللہ اس کے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے نیچے سے اس کی حفاظت کر۔ حضور ﷺ کی اس دعا کے سات ہی میں نے دیکھا کہ کسی قسم کا خوف ڈر دہشت میرے دل میں تھی ہی نہیں۔ پھر حضور ﷺ نے مجھے آواز دے کر فرمایا دیکھو حذیفہ وہاں جاکر میرے پاس واپس آنے تک کوئی نئی بات نہ کرنا۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میں ابو سفیان کو اس سے پہلے پہچانتا نہ تھا میں گیا تو وہاں یہی آوازیں لگ رہی تھیں کہ چلو کوچ کرو واپس چلو۔ ایک عجیب بات میں نے یہ بھی دیکھی کہ وہ خطرناک ہوا جو دیگیں الٹ دیتی تھی وہ صرف ان کے لشکر کے احاطہ تک ہی تھی واللہ اس سے ایک بالشت بھر باہر نہ تھی۔ میں نے دیکھا کہ پتھر اڑ اڑ کر ان پر گرتے تھے۔ جب میں واپس چلا ہوں تو میں نے دیکھا کہ تقریبا بیس سوار ہیں جو عمامے باندھے ہوئے ہیں انہوں نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفایت کردی اور آپ کے دشمنوں کو مات دی۔ اس میں یہ بھی بیان ہے کہ حضور ﷺ کی عادت میں داخل تھا کہ جب کبھی کوئی گھبراہٹ اور دقت کا وقت ہوتا تو آپ نماز شروع کردیتے۔ جب میں نے حضور ﷺ کو خبر پہنچائی اسی وقت یہ آیت اتری۔ پس آیت میں نیچے کی طرف سے آنے والوں سے مراد بنو قریظہ ہیں۔ شدت خوف اور سخت گھبراہٹ سے آنکھیں الٹ گئیں اور دل حلقوم تک پہنچ گئے تھے اور طرح طرح کے گمان ہو رہے تھے یہاں تک کہ بعض منافقوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب کی لڑائی میں کافر غالب آجائیں گے عام منافقوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے ؟ معتب بن قشیر کہنے لگا کہ آنحضرت تو ہمیں کہہ رہے تھے کہ ہم قیصر وکسریٰ کے خزانوں کے مالک بنیں گے اور یہاں حالت یہ ہے کہ پاخانے کو جانا بھی دو بھر ہو رہا ہے۔ یہ مختلف گمان مختلف لوگوں کے تھے مسلمان تو یقین کرتے تھے کہ غلبہ ہمارا ہی ہے جیسا کہ فرمان ہے آیت (وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا 22؀ۭ) 33۔ الأحزاب :22) لیکن منافقین کہتے تھے کہ اب کی مرتبہ سارے مسلمان مع آنحضرت گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دئیے جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے عین اس گبھراہٹ اور پریشانی کے وقت رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ حضور ﷺ اس وقت ہمیں اس سے بچاؤ کی کوئی تلقین کریں۔ آپ نے فرمایا یہ دعامانگو (اللہم استرعوراتنا وامن روعاتنا) اللہ ہماری پردہ پوشی کر اللہ ہمارے خوف ڈر کو امن وامان سے بدل دے۔ ادھر مسلمانوں کی یہ دعا بلند ہوئیں ادھر اللہ کا لشکر ہواؤں کی شکل میں آیا اور کافروں کا تیاپانچا کردیا، فالحمدللہ۔

آیت 9 - سورۃ الاحزاب: (يا أيها الذين آمنوا اذكروا نعمة الله عليكم إذ جاءتكم جنود فأرسلنا عليهم ريحا وجنودا لم تروها ۚ وكان الله...) - اردو