سورۃ الاحزاب: آیت 6 - النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ الاحزاب

ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَٰجُهُۥٓ أُمَّهَٰتُهُمْ ۗ وَأُو۟لُوا۟ ٱلْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِى كِتَٰبِ ٱللَّهِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُهَٰجِرِينَ إِلَّآ أَن تَفْعَلُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَوْلِيَآئِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِى ٱلْكِتَٰبِ مَسْطُورًا

اردو ترجمہ

بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alnnabiyyu awla bialmumineena min anfusihim waazwajuhu ommahatuhum waoloo alarhami baAAduhum awla bibaAAdin fee kitabi Allahi mina almumineena waalmuhajireena illa an tafAAaloo ila awliyaikum maAAroofan kana thalika fee alkitabi mastooran

آیت 6 کی تفسیر

النبی اولیٰ بالمومنین ۔۔۔۔۔ فی الکتب مسطورا (6) ” “۔

مہاجرین نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے ، اللہ کی طرف بھاگ نکلے ، صرف دین لے کر بھاگ گئے۔ انہوں نے اپنے عقیدہ کو اپنی برادری کے تعلقات ، اپنے مال کے ذخائر ، اپنے اسباب حیات ، بچپن کی یادوں ، یاروں اور دوستوں کی محفلوں پر ترجیح دے دی۔ یہ لوگ صرف اپنا عقیدہ بچا کر نکل آئے اور اس کے سوا سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا۔ اس انداز پر ہجرت کرکے انہوں نے وہ تمام چیزیں چھوڑ دیں جو ہر انسان کے لیے عزیز ہوتی ہیں۔ اہل و عیال ، بیٹے بیٹیاں اور دوسرے رشتہ دار۔ یہ ایک زندہ مثال تھی اور یہ اس کرہ ارض پر واقع ہوئی کہ لوگوں نے صرف عقائد کی خاطر سب کو چھوڑ دیا۔ ان کے دلوں پر عقیدہ چھایا ہوا تھا۔ چناچہ ان کے دل میں اس عقیدے اور نظریہ کے سوا کوئی چیز باقی ہی نہ رہی۔ ان کی شخصیت مجتمع ہوگئی۔

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ (33: 4) ” اللہ نے کسی انسان کے دھڑ میں دو دل نہیں بنائے “۔ اسی طرح مدینہ میں بھی ایک نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔ بعض خاندانوں کے افراد اسلام میں داخل ہوگئے اور دوسرے لوگ شرک کرتے رہے۔ دونوں کے درمیان تعلقات کٹ گئے۔ غرض خاندانی روابط کے اندر ایک بھونچال سا آگیا اور اجتماعی نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ اسلامی معاشرہ نوزائیدہ تھا۔ اور اسلامی مملکت ابھی مستحکم نہ تھی۔ یہ دراصل ابھی تک ایک مجوزہ نظام ہی تھا جس کا زیادہ حصہ تصورات ہی میں تھا۔ ابھی تک اس کے مستحکم ادارے تشکیل نہ پائے تھے۔

غرض مدینہ میں ایک نظریاتی طوفان اٹھا۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کا طوفان تھا۔ اس نے تمام جذبات ، تمام رسم و رواج اور تمام روابط اور تعلقات کو ختم کردیا اور اس نئی سوسائٹی کے اندر صرف اسلامی رابطہ باقی رہ گیا۔ تمام دل عقیدہ اسلامی پر جمع تھے ، خاندان ، نسب ، قبیلہ ، دوستی اور قومی تعلقات نظریاتی لہروں کے نیچے دب گئے اور یہ نئی اکائیاں جو اسلامی سوسائٹی میں جم وہو چکی تھیں باہم مل گئیں۔ ایک نئی سوسائٹی وجود میں آگئی اور اسلامی اخوت پر لوگ جمع ہوگئے۔ یہ لوگ اسلامی اخوت پر کسی قانون یا حکم کے ذریعہ جمو نہ ہوگئے تھے بلکہ اسلامی نظریہ حیات نے ان کے اندر ایک زبردست اتحادی شعور پیدا کردیا تھا۔ یہ شعور اس قدر پختہ تھا کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہ تھی۔ غرض اس طرح ایک بہت بڑا خاندان وجود میں آگیا۔ ایک جماعت وجود میں آگئی۔ اس قسم کا خاندان نہ حکومت کی اساس پر قائم ہو سکتا تھا ، نہ معاشرتی حالات اسے پیدا کرسکتے تھے۔ بہرحال یہ اخوت اسلامی تھی ، ایک اندرونی شعور تھا۔

مہاجرین انصار بھائیوں کے ہاں آکر اترے۔ جنہوں نے ان کے لیے مدینہ کو خوب سنبھالا۔ استقبال کیا۔ ان کو اپنے دلوں اور گھروں میں اتارا اور آنکھوں پر بٹھایا۔ انہوں نے ان کو اپنے مالوں میں شریک کیا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر ان کو پناہ دی۔ اس قدر مقابلہ ہوا کہ کوئی مہاجر کسی انصاری کے ہاں صرف قرعہ اندازی کے ذریعے جاسکتا تھا۔ کیونکہ مہاجرین کم تھے اور انصار زیادہ تھے جو پناہ دینا چاہتے تھے۔ یہ پناہ نہایت اعتماد اور شوق سے دی گئی ۔ حقیقی خوشی اور دلی مسرت کے ساتھ دی گئی ۔ یہ پناہ ہر قسم کے فطری بخل اور تکبر اور نمائش سے پاک تھی۔

رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم کی۔ یہ نظام نظریاتی سو سائٹیوں کی تاریخ میں ایک بےمثال نظا ، تھا۔ یہ برادری باقاعدہ خون کی برداری کے قائم مقام ہوگئی۔ چناچہ اس نظام کے تحت لوگ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوئے اور اجتماعی تکافل کے دوسرے فرائض و واجبات بھی ادا کرتے رہے۔ مثلاً دیت وغیرہ۔

یہ شعوری اتحاد نہایت بلند مقام تک جا پہنچا اور مسلمانوں نے بڑی سنجیدگی سے ان تعلقات کو مستحکم کیا۔ اسی طرح وہ بھائی بن گئے جس طرح اسلام کے دوسرے احکام انہوں نے قبول کیے۔ چناچہ یہ سوسائٹی ایک مستحکم حکومت کی شکل اختیار کرگئی ہے اور مواخات کے اصول باقاعدہ حکومتی ادارہ ، ایک قانونی نظام اور ایک مستقل صورت حال اختیار کر گئے۔ بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہوگئیں۔ اس نئی جماعت اور سوسائٹی کو کسی دھچکے سے بچانا بھی ضروری تھا۔ یہ نظام جو مستقل شکل اختیار کر رہا تھا اللہ کے منشاء کے مطابق ایک عارضی انتظام تھا۔

جس جماعت کو بھی ایسے حالات کا سامنا ہو جیسا کہ مدینہ کی اسلامی جماعت کو تھا ، اس کے لیے اس قسم کا شعور پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس شعور کے تحت ایک مستقل سوسائٹی اور حکومت وجود میں آجائے۔ ایک قانونی نظام ہو ، اور مسلم ادارے ہوں تکہ غیر معمولی حالات میں ایسے جماعت کو درپیش مسائل حل کیے جاسکیں اور اس طرح جماعتی زندگی کو ترقی دی جاسکی۔ یہ کام اس وقت تک ہوتا رہے جب تک حالات معمول پر نہیں آجاتے۔

اسلام اگرچہ اس قسم کے شعور کو ہر وقت زندگی رکھنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس قسم کی اخوت اور ایثار کے فوارے اسلامی سوسائٹی کے اندر پھوٹتے ہی رہیں۔ ان سے حجت اور قوت کے چشمے جاری رہیں لیکن اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ سوسائٹی کا ارتقاء طبیعی حالات کے مطابق ہو اور اجتماعیت کا نظام محض وقتی جذبات اور وقتی طوفان پر نہ ہو ، جن سے غیر معمولی حالات میں کام لیا جاتا ہے بلکہ سوسائٹی کو طبیعی اور نارمل حالات پر استوار کیا جاتا رہے۔ اور معمول کے مطابق نظام چلتا رہے۔ حتی کہ غیر ضروری اور استثنائی حالات ختم ہوں۔

جب غزوہ بدر کے بعد مدینہ میں حالات قدرے معمول پر آگئے ، اسلامی حکومت مستحکم ہوگئی ، اجتماعی حالات معمول کے مطابق مستحکم ہوگئے اور لوگوں کے لیے روزگار کا انتظام ہوگیا۔ اسلامی لشکروں نے جو چھوٹی موٹی لشکر کشیاں شروع کردی تھیں ، بدر کی جنگ کے بعد ان کی وجہ سے لوگوں کے مالی حالات درست ہوگئے ، خصوصاً بنی قینقاع کی جلاوطنی کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس کافی اموال جمع ہوگئے۔ جو نہی سوسائٹی کے اندر دوسرے ذرائع سے سوشل سیکورٹی کا انتظام ہوگیا قرآن کریم نے مواخات کے اس غیر معمولی نظام کو ازوائے قانون ختم کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائی اور اجتماعی کفالیت کا نظام خاندانی اور نسب کے نظام کے ساتھ منسلک کردیا گیا ۔ البتہ اسلام نے اسلامی اخوت اور مواخات کے پیچھے جو شعوری جذبہ تھا ، اسے بہرحال بحال رکھا کہ اگر پھر اس قسم کے غیر معمولی حالات پیدا ہوجائیں تو دوبارہ یہ نظام قائم ہوسکے۔ اس طرح جماعت مسلمہ کے اندر اجتماعی کفالت کا نظام اپنی حقیقی حالت کی طرف لوٹا دیا گیا ، غرض وراثت ، دیات میں تکافل خون اور نسب کی طرف لوٹا دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ کی کتاب میں پہلے ہی یہ درج تھا۔

واولوا الارحام بعضھم ۔۔۔۔۔ فی الکتب مسطورا (33: 6) ” مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کرسکتے ہیں۔ یہ حکیم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے “۔ فیصلہ کردیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ ولی عام ہیں اور یہ وہ ولایت ہے جو رشتہ داری بلکہ اپنے نفوس پر بھی مقدم ہے۔

النبی اولی بالمومنین من انفسھم (33: 6) ” نبی مومنین کے لیے ان کے نفسوں سے بھی مقدم ہے “۔ اور یہ بھی فیصلہ کردیا گیا کہ ازواج مطہرات روحانی مائیں ہیں۔

وازواجہ امھتھم (33: 6) ” آپ ﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں “۔ نبی ﷺ کی ولایت عام ولایت ہے ، آپ کو اختیارات حاصل تھے کہ آپ امت مسلمہ کو زندگی کا پورا نظام دے دیں۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ رسول اللہ پر درود وسلام بھیجیں اور ان کے لیے کوئی راہ اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ان امور کو اپنالیں جو ان کے لیے نبی ﷺ نے اختیار کرلیے۔

لایومن احدکم ۔۔۔۔۔ جئت بہ ” تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات ان احکام کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لے کر آیا ہوں “۔ اس میں مسلمانوں کا شعور بھی شامل ہے ، لہٰذا ان کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہونی چاہئے۔ اپنی جان سے بھی وہ بمقابلہ رسول زیادہ محبت نہیں کرسکتے۔ ان کے دلوں میں کوئی ذات یا کوئی چیز ذات رسول سے مقدم نہ ہونی چاہئے۔ حدیث صحیح میں ہے۔

والذی نفسی بیدہ ۔۔۔۔۔ والناس اجمعین ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے نفس اس کے مال ، اور اس کی اولاد بلکہ تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ صحیح حدیث میں ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ۔ میں نے کہا حضور ، آپ میرے نفس کے سوا مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے عزیز ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں اے عمر ، یہاں تک کہ میں آپ کے لئے تمہاری جان سے بھی محبوب نہ ہوجاؤں “۔ اس پر اس نے کہا رسول خدا ، خدا کی قسم بیشک آپ مجھے تمام چیزوں سے محبوب ہیں یہاں تک میرے نفس سے بھی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا ” اب اے عمر “۔ یہ صرف باتیں ہی نہ تھیں۔ یہ ایک بلند معیار تھا جس تک اسلامی سوسائٹی پہنچی ہوئی تھی اور اس تک کوئی دل تب ہی پہنچ سکتا ہے جب تک کسی دل کو عالم بالا کی جانب سے مساس حاصل نہ ہوجائے اور وہ اپنی نظریں افق بلند تک اونچی نہ کردے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ذات کی کشش اور اس کی گہری محبت بھی رسول اللہ ﷺ کے لیے ہوجاتی ہے۔ انسان اپنی ذات اور اپنی ذات کے متعلقات سے ناقابل تصور محبت کرتا ہے۔ بعض اوقات اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے جذبات اور احساسات پر قابو پالیا ہے۔ اپنے نفس کر رام کو لیا ہے اور حب ذات کی بلندیوں سے وہ اتر آیا ہے لیکن جب اس کی ذات اور اس کے مفادات پر زد پڑتی ہے تو وہ یوں اچھل پڑتا ہے جیسا کہ اسے سانپ نے ڈس لیا ہے۔ وہ اس چبھن کو اس طرح محسوس کرتا ہے کہ اسے برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ اگر برداشت کر بھی لے تو یہ درد اس کے شعور میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کی گہرائیوں میں گھر کرلیتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنی پوری زندگی بھی قربان کردینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن اپنی ذاتی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ نہ وہ کوئی ایسا عیب برداشت کرسکتا ہے جو اس کی ذات وصفات کی طرف منسوب کیا جائے اگرچہ کوئی بظاہر یہ ظاہر کرے کہ وہ ان باتوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ، یا ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ غرض اپنی ذات پر قابو پانا اور اپنی ذات سے بھی حضور اکرم ﷺ اور اپنے نظریہ کو زیادہ اہمیت دینا ، محض زبانی بات نہیں ہے کہ کوئی آسانی سے کہہ دے۔ یہ ایک ایسا مقام بلند ہے جس تک عالم بالا کے مساس کے بغیر کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے لیے طویل جدوجہد ، طویل مشق اور دائمی بیداری اور مخلصانہ خواہش کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اللہ کی خاص مدد شامل حال رہے۔ یہ ہے عظیم جہاد۔ جیسا کہ اسے رسول اللہ ﷺ کے جہاد اکبر کہا اور یہ وہ مقام ہے کہ حضرت عمر ؓ جیسی شخصیت کو بھی نبی ﷺ کی جانب سے تنبیہ اور تصحیح کی ضرورت پڑگئی۔ یہ ان کے قلب صافی کی ایک چن کی تھی جس کے نتیجے میں حضرت عمر ؓ اس مقام بلند تک پہنچ گئے اور ایک سیکنڈ میں۔ ولایت عامہ میں بھی نبی ﷺ کے حوالے سے امت کے افراد پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ حدیث صحیح میں ہے ” جو بھی مومن ہیں میں ان کے لئے تمام لوگوں سے محبوب ہوں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ، اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔

النبی اولی بالمومنین من انفسھم (33: 6) ” نبی مومنین کے لیے ان کے نفسوں سے بھی مقدم ہے “۔ اس لیے جس مومن نے مال چھوڑا تو یہ اس کے عصبات کو ملے گا جو بھی ہوں اور اگر اس پر قرض ہو یا کوئی نادان ہو تو وہ میرے پاس آئے ، میں اس کا والی ہوں “۔ معنی یہ ہے کہ اگر مومن مر جائے اور اس کی میراث میں مال نہ ہو جس سے اس کا قرضہ ادا کردیا جائے تو میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اگر اس کے عیال ہوں تو میں ان کی پرورش کروں گا ، اگر چھوٹے ہوں ۔ اس کے علاوہ عام حالات میں ، عام لوگوں کی زندگی طبعی حالات کے مطابق اپنی جدوجہد کے مطابق گزرے گی ، اس کے لیے اس قوم کے غیر معمولی جوش و خروش پیدا کرنے کی ضرورت نہیں جو غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے۔ اگرچہ نظام مواخات قانونی اعتبار سے تو ختم کردیا گیا مگر اخلاقی دائرے میں موجود رہا۔ لہٰذا اگر کوئی دوست اپنے دوست کے لیے کوئی وصیت کرتا ہے تو اسے ثلث مال تک وصیت کی اجازت ہے۔

الا ان تفعلوا الی اولیئکم معروفا (33: 6) ” الا یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی احسان کرنا چاہو “۔ ان تمام اقدامات کو مضبوطی سے اس کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا ارادہ اور مشیت ہے اور کان ذلک فی الکتب مسطورا (33: 6) ” یہ قانون کتاب میں لکھا ہوا تھا “۔ لہٰذا دل مطمئن رہیں اور اس اصل کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں جس کی طرف تمام قوانین لوٹتے ہیں۔ یوں اب لوگوں کی معاشی زندگی اپنے قدرتی اصولوں پر استوار ہوجاتی ہے اور نہایت ہی سنجیدگی اور اطمینان سے چلتی ہے۔ اور اس کو ایسے معیار پر نہیں رکھا گیا جو غیر معمولی حالات میں قائم کیے جاسکتے ہیں۔ محدود جماعتوں اور محدود افراد کے اندر۔

لیکن اسلام اس فیاض سرچشمے کو بند بھی نہیں کرتا تاکہ اگر مستقبل میں اسلامی جماعت کو کسی استثنائی حالت میں ضرورت پڑے تو وہ اس جذبہ کو کام میں لائے یعنی ہنگامی حالات میں۔ اس بات کی مناسبت سے کہ یہ سب کچھ پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا اور اللہ کی مشیت نے طے کردیا تھا کہ وہ باقی رہنے والا دائمی قانون بن جائے اور مسلسل طریقہ کار ہو۔ اس حوالے سے نبیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے۔ خصوصاً اولو العزم نبیوں سے کہ وہ اسلامی نظام کے قیام کی ذمہ داری قبول کریں اور اس تحریک پر جمے رہیں لوگوں کے اندر تبلیغ و تحریک کا کام جاری رکھیں اور ان اقوام میں اس دعوت کو جاری رکھیں جن کی طرف ان کو بھیجا گیا ہے تاکہ یہ بات لوگوں کے خلاف حجت ہو کہ ان تک پیغام پہنچا تھا اور وہ اپنی ضلالت و ہدایات کے ذمہ دار ہیں کفر اور ایمان کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ پیغمبروں کی تبلیغ کے بعد تو حجت تمام ہوجاتی ہے۔

آیت 6 { اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ } ”یقینا نبی ﷺ کا حق مومنوں پر خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ ہے“ تمام اہل ِایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانوں سے زیادہ حضور ﷺ کی جان کی فکر کریں اور آپ ﷺ کو اپنے ماں باپ ‘ اپنی اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر محبوب رکھیں۔ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان صحیحین میں ذرا سے لفظی فرق کے ساتھ نقل ہوا ہے : لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ 1”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ ‘ اس کی اولاد اور سب انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔“ { وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ } ”اور نبی ﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔“ یہاں پر اس فقرے سے پہلے ”وَھُوَ اَبٌ لَّھُمْ“ کے الفاظ کو محذوف سمجھا جانا چاہیے ‘ یعنی حضور ﷺ مومنوں کے لیے بمنزلہ باپ کے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ : اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ 2 یعنی تم سب کے لیے میری حیثیت والد کی سی ہے۔ قرآن مجید کے ان الفاظ کی رو سے نبی کریم ﷺ کی بیویاں مسلمانوں کے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں قابل احترام ہیں۔ چناچہ ازواجِ مطہرات رض کے ناموں کے ساتھ ”اُمّ المومنین رض“ کے الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اُمّ المومنین حضرت خدیجہ رض ‘ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رض ‘ اُمّ المومنین حضرت صفیہ رض ‘ اُمّ المومنین حضرت زینب بنت جحش رض ! { وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ } ”اور رحمی رشتے رکھنے والے ‘ اللہ کی کتاب کے مطابق ‘ مومنین و مہاجرین کی نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں“ { اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِِکُمْ مَّعْرُوْفًا } ”سوائے اس کے کہ تم لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی ُ حسن ِسلوک کرنا چاہو۔“ اس سے پہلے ”اُولُوا الْاَرْحَامِ“ کے بارے میں یہی الفاظ سورة الانفال کی آخری آیت میں بھی آچکے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کے قانون میں رحمی اور خونی رشتے دوسرے تمام رشتوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یہاں پر مومنین و مہاجرین کا ذکر کر کے مدینہ کے مقامی معاشرے میں ایک مخصوص صورت حال کی بھی وضاحت کردی گئی کہ اگرچہ تمہارے مہاجرین اور انصار کے درمیان ”مواخات“ کے تحت بےمثال رشتے قائم ہوچکے ہیں اور تم لوگوں نے ان رشتوں کے حوالے سے ایثار کی نئی نئی مثالیں بھی قائم کر کے دکھائی ہیں ‘ لیکن اللہ کے قانونِ وراثت میں ایسے رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چناچہ قانونِ وراثت میں نہ تو انصار و مہاجرین جیسے کسی بھائی چارے کا لحاظ ہوگا اور نہ ہی ُ منہ بولے رشتوں کے لیے کوئی حصہ مخصوص کیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنے تعلقات کی بنا پر کسی دینی بھائی ‘ عزیز یا دوست کو کوئی چیز تحفۃً دینا چاہے یا کسی کے حق میں کوئی چیزہبہ کرنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ { کَانَ ذٰلِکَ فِی الْْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا } ”یہ سب باتیں پہلے سے کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔“ کتاب میں لکھے ہوئے سے مراد لوح محفوظ یا اس موضوع پر تورات کے احکام بھی ہوسکتے ہیں اور خود قرآنی احکام بھی ‘ جو اس سے پہلے سورة النساء اور سورة الانفال میں نازل ہوچکے تھے۔

تکمیل ایمان کی ضروری شرط چونکہ رب العزت وحدہ لاشریک کو علم ہے کہ حضور ﷺ اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔ اس لئے آپ کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیاردیا۔ یہ خود اپنے لئے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول کو بدل وجان قبول کرتے جائیں جیسے فرمایا آیت (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀) 4۔ النسآء :65) ، تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو بدن و جان و کشادہ پیشانی قبول نہ کرلیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اسکی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ ایک اور صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا یارسول اللہ آپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں عمر جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔ یہ سن کر جناب فاروق ؓ فرمانے لگے قسم اللہ کی یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے ہر چیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا اب ٹھیک ہے۔ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو آیت (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا) 33۔ الأحزاب :6) سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے۔ اور اگر کوئی مرجائے اور اسکے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس کے قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمے ہے۔ پھر فرماتا ہے حضور ﷺ کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود کی اپنی مائیں۔ ہاں ماں کے اور احکام مثلا خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھا ہے جیسے کہ حضرت امام شافعی ؒ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ حکم کا اثبات۔ حضرت معاویہ ؓ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المومنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی ؒ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور ﷺ کو ابو المومنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ خیال رہے کہ ابو المومنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آجائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مونث بھی شامل ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا فرمان ہے کہ نہیں کہہ سکتے امام شافعی ؒ کے دو قولوں میں بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ ابی بن کعب اور ابن عباس ؓ کی قرأت میں امھاتھم کے بعد یہ لفظ ہیں وھو اب لھم یعنی آپ ان کے والد ہیں۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے۔ اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا میں تمہارے لے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھے۔ نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجاکرے۔ آپ تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت فرماتے تھے (نسائی وغیرہ) میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت (مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40؀) 33۔ الأحزاب :40) حضور تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ بہ نسبت عام مومنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں۔ اس سے پہلے رسول کریم ﷺ نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کردیا۔ پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی ﷺ نے بھائی چارہ کرادیا تھا۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ کا بیان ہے کہ یہ حکم خاص ہم انصاری و مہاجرین کے بارے میں اترا ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس مال کچھ نہ تھا یہاں آکر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے۔ حضرت ابوبکر کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید ؓ کے ساتھ تھا۔ حضرت عمر ؓ کا فلاں کے ساتھ۔ حضرت عثمان کا ایک زرقی شخص کے ساتھ۔ خود میرا حضرت کعب بن مالک ؓ کے ساتھ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہوجاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لئے بھی ہوگیا۔ پھر فرماتا ہے ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو۔ پھر فرماتا ہے اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم و تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لئے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا واللہ اعلم۔

آیت 6 - سورۃ الاحزاب: (النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم ۖ وأزواجه أمهاتهم ۗ وأولو الأرحام بعضهم أولى ببعض في كتاب الله من المؤمنين والمهاجرين...) - اردو