سورۃ الاحزاب: آیت 4 - ما جعل الله لرجل من... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ الاحزاب

مَّا جَعَلَ ٱللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِى جَوْفِهِۦ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَٰجَكُمُ ٱلَّٰٓـِٔى تُظَٰهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَٰتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَٰهِكُمْ ۖ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى ٱلسَّبِيلَ

اردو ترجمہ

اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں، نہ اس نے تم لوگوں کی اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma jaAAala Allahu lirajulin min qalbayni fee jawfihi wama jaAAala azwajakumu allaee tuthahiroona minhunna ommahatikum wama jaAAala adAAiyaakum abnaakum thalikum qawlukum biafwahikum waAllahu yaqoolu alhaqqa wahuwa yahdee alssabeela

آیت 4 کی تفسیر

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ ” اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دل نہیں رکھے “۔ ہر انسان کے اندر ایک ہی دل اور ایک ہی دماغ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا تصور بھی ایک ہوگا اور اس کا نظام بھی ایک ہوگا۔ وہ ایک ہی صراط مستقیم پر چل سکتا ہے۔ اس کے سامنے ایک ہی پیمانہ ہوگا جس سے وہ حسن وقبح کو ناپے گا۔ اور ایک ہی پیمانے سے وہ واقعات اور اقدار کو ناپے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کی زندگی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔ وہ منافق ہوگا۔ اس کی زندگی میں نشیب و فراز ہوں گے اور وہ صراط مستقیم پر نہ ہوگا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان اپنے اخلاق و آداب ایک سرچشمے سے لے اور اپنا دستور و قانون کسی دوسرے سرچشمے سے لے اور اپنا اجتماعی اور معاشی نظام کسی تیسرے سر چشمے سے لے اور اپنے فنون اور فلسفے کسی چوتھے سرچشمے سے لے۔ اس قسم کے مخلوط خیالات کسی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ ایسا شخص اور اس کی شخصیت ٹکڑے ٹکڑے ہوگی اور اس کا وجود قائم نہ رہ سکے گا۔

ایک نظریاتی شخص ، جس کا فی الواقعہ کوئی نظریہ اور عقیدہ ہو ، یہ نہیں کرسکتا کہ وہ زندگی کے چھوٹے یا بڑے معاملے میں کوئی نظریاتی موقف نہ رکھتا ہو۔ وہ ہر وقت اپنے نظریات کے تقاضوں کے مطابق قدریں اپناتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کوئی بات کرے یا کوئی حرکت کرے ، یا کوئی نیت و ارادہ کرے یا کوئی سوچ کرے اور وہ اس کے نظریات سے متاثر نہ ہو یا اس کے عقیدے سے مبرا ہو۔ کیونکہ اللہ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ ایک دل ہوتا ہے ، ایک عقیدہ ہوتا ہے ، ایک عمل ہوتا ہے ، ایک سمت ہوتی ہے اور ایک ہی پیمانہ اور قدر ہوتی ہے۔

کوئی نظریاتی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں کیا ہے اور یہ میں نے ایک مسلمان کی حیثیت میں کیا ہے۔ جیسا کہ آج کل کے سیاست دان ایسا کرتے ہیں ، یا جیسا کہ اجتماعی جمعیتیں کرتی ہیں یا علمی سوسائٹیاں کرتی ہیں۔ غرض انسان ایک ہوتا ہے ، اس کا دل ایک ہوتا ہے ، نظریہ ایک ہوتا ہے ، قبلہ ایک ہوتا ہے ، اس کا تصور ایک ہوتا ہے ، اقدار اور حسن و قبح کے پیمانے ایک ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے عقائد میں ہوتا ہے۔

غرض اسی ایک دل کے ساتھ انسان تنہا بھی زندہ رہتا ہے ، خاندان میں بھی رہتا ہے ، جماعت میں بھی رہتا ہے ، حکومت میں بھی رہتا ہے ، دنیا میں بھی رہتا ہے ، چھپے بھی رہتا ہے اور برملا بھی رہتا ہے۔ مزدور و آقا بھی رہتا ہے ، حاکم و محکوم بھی رہتا ہے۔ مشکلات اور سہولیات میں بھی رہتا ہے۔ غرض یہ اس کا رنگ ہوتا ہے۔ یہ تبدیل نہیں ہوتا۔ نہ اس کا معیار بدلتا ہے اور نہ قیمت بدلتی ہے۔ نہ اس کی سوچ بدلتی ہے۔

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ (33: 4) لہٰذا کسی بھی نظریاتی اسلام کا منہاج ایک ہوتا ہے ، راستہ ایک ہوتا ہے ، رخ ایک ہوتا ہے۔ صرف اللہ کے حکم کے سامنے جھکتا ہے۔ دل ایک ہے تو الٰہ بھی ایک ہے ، آقا بھی ایک ہے ، منہاج حیات بھی ایک ہے اور اگر کوئی ایسا نہ ہوگا تو اس کی زندگی منتشر ہوگی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ جائے گا۔ اس فیصلہ کن تبصرے کے بعد اور منہاج حیات کے تعین کے بعد اب سیاق کلام قانونی اصلاحات شروع کرتا ہے۔ پہلے ظہار اور متنبی کا قانون منسوخ کیا جاتا ہے تاکہ خاندان کو بیرونی عناصر سے پاک کرکے خالص رشتہ داری اور قدرتی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے۔

وما جعل ازواجکم الئ۔۔۔۔۔۔ وکان اللہ غفورا رحیما (4 – 5)

” ۔ “۔

جاہلیت میں رواج یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا تھا تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہو۔ یعنی تم مجھ پر اس طرح حرام ہو جس طرح ماں حرام ہے۔ اسی وقت سے اس پر اس کے ساتھ مجامعت حرام ہوجاتی۔ اب یہ معلقہ ہوجاتی نہ یہ مطلقہ ہوتی کہ دوسرا کوئی اس سے نکاح کرتا ، نہ اس کی بیوی بن سکتی۔ اور یہ عورتوں پر ہونے والے مظالم میں سے سب سے بڑا ظلم تھا۔ اور جاہلیت کے دور کی بدسلوکیوں میں سے ایک بدسلوکی تھی۔

اسلام نے اصلاحات کا کام سب سے پہلے خاندانی نظام سے شروع کیا۔ خاندان کے اندر ہونے والے اس ظلم کو ختم کیا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ خاندان انسانی اجتماعیت کا پہلا دائرہ ہے۔ اس لیے اسلام نے خاندانی نظام کی طرف بہت توجہ دی تاکہ جس تربیت گاہ میں بچے پرورش پاتے ہیں ، اس کی فضا خوشگوار ہو ، اور پر امن ہو ، چناچہ عورت کو اس عظیم بوجھ سے نکالا گیا اور اسے اس حالت قید سے رہائی دلا دی گئی۔ اور میاں بیوی کے تعلقات کو ازسرنو عدل و انصاف پر استوار کیا۔ چناچہ یہ قانون وضع کیا گیا۔

وما جعل ازواجکم ۔۔۔۔۔ امھتکم (33: 4) ” اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو ، تمہاری ماں نہیں بنا دیا ہے “۔ کیونکہ صرف زبان سے ماں کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی۔ حقیقت واقعہ کے مطابق ماں ، ماں ہے اور بیوی ، بیوی ہے۔ محض ایک لفظ کہنے سے تعلقات و روابط کی نوعیت نہیں بدل جاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ظہار کی وجہ سے ابدی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ جس طرح ماں حرام ہوتی ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا۔

روایات میں آتا ہے کہ سورة مجادلہ میں ظہار کے ظالمانہ قانون کو باطل کیا گیا اور واقعہ یوں ہوں کہ اوس ابن الصامت نے اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ کے ساتھ ظہار کرلیا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اس نے یہ دعویٰ کیا رسول خدا ﷺ یہ میرا مال کھا گیا ، اس نے میری جوانی کو ختم کردیا ، اور میرا پیٹ پھول گیا۔ اور میری عمر بڑھ گئی اور میری اولاد ختم ہوگئی تو اسنے میرے ساتھ ظہار کرلیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ” میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ تم اس پر حرام ہوگئی ہو “۔ اس نے شکایت بار بار پیش کی۔ اس پر سورة مجادلہ کی یہ آیات نازل ہوئیں :

قد سمع اللہ قول التی ۔۔۔۔۔۔۔ وللکفرین عذاب الیم (58: 1 – 4) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے ۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے ، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کا جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور حقیقت یہ کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور درگزر فرمانے والا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ایک غلام آزاد کرنا ہوگا ، اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اس سے باخبر ہے اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے ، قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک سزا ہے “۔

اس قانون کی رو سے ظہار کی وجہ سے میاں بیوی کو وقتی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا گیا اور سابق قانون میں جو ابدی حرمت تھی ، اسے ختم کردیا گیا۔ اور اگر میاں بیوی باہم دوبارہ ازدواجی زندگی اختیار کرنا چاہیں تو اسے سے قبل وہ ایک غلام آزاد کریں یا مسلسل دو ماہ روزے رکھیں یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلائیں۔ یوں دوبارہ بیوی خاوند کے لیے حلال ہوجائے گی اور دونوں کی ازدواجی زندگی حسب سابق شروع ہوجائے گی۔ اور یہ نیا قانون واقعیت پسندانہ ہے اور واقعی صورت حالات پر مبنی ہے۔

وما جعل ازواجکم الئی تظھرون منھن امھتکم (33: 4) ” اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو ، تمہاری مائیں نہیں بنایا “۔ اس جاہلی عادت کی وجہ سے خاندان ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا تھا اور دوسری جانب عورت پر ایک دائمی ظلم تھا اور وہ زندہ درگور ہوجاتی تھی۔ یوں خاندانی روابط کے اندر اضطراب ، طوائف الملوکی اور پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی تھیں اور یہ سب کچھ مرد کی ذاتی خواہشات اور جاہلی سوسائٹی میں ان کی برتری اور تشدد کی وجہ سے تھا۔ یہ تو تھا مسئلہ ظہار رہا قانون متنبی اور لوگوں کو اپنے باپوں کے سوا دوسروں کے نام سے پکارنا “ یہ بھی خاندانی نظام کے لیے باعث پریشانی تھا اور اسکی وجہ سے ایک خاندان کی ہم آہنگی میں خلل پڑتا تھا۔ اس کے باوجود کہ عربی معاشرے میں عفت اور نسب کا بہت بڑا خیال رکھا جاتا تھا اور نسب پر فخر کیا جاتا تھا لیکن اس فخر و مباہات کے ساتھ ساتھ بعض کمزور پہلو بھی عرب معاشرے میں پائے جاتے تھے۔ معدودے چند خاندانوں کے سوا یہ کمزوریاں عموماً تھیں۔

بعض لوگوں کے ہاں ایسے بیٹے بھی تھے جن کے سرے سے باپ معلوم ہی نہ تھے۔ بعض لوگوں کو اس قسم کے نوجوان پسند آئے تو وہ انہیں اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں اس کو اپنے نسب میں شمار کرلیتے اور دونوں ایک دوسرے کی میراث کے حقدار ہوجاتے۔

بعض بیٹے ایسے تھے کہ ان کے باپ معلوم تھے لیکن بعض اوقات ایک شخص کو کوئی ایسا لڑکا پسند آجاتا ، وہ اسے اپنا بیٹا بنا لیتا۔ اور اسے اپنے نسب میں شریک کرلیتا ۔ لوگوں کے اندر وہ ابن فلاں مشہور ہوتا۔ وہ اس کے خاندان کا فرد بن جاتا۔ یہ معاملہ خصوصاً جنگی قیدیوں اور اغوا شدہ لوگوں کے ساتھ ہوتا۔ جنگ اور ڈاکوں میں بچے اور نوجوان لڑکے قید ہوجاتے۔ بعض لوگ ایسے لوگوں کو اپنا بیٹا بنا لیتے۔ اسے اپنا نام دے دیتے اور وہ اس کے ساتھ مشہور ہوجاتا اور وہ بیٹے کے حقوق و فرائض ادا کرتا۔

انہی میں سے زیاد ابن حارثہ کلبی بھی تھا۔ یہ ایک عربی قبیلہ ہے ، ایام جاہلیت کے دور میں ڈکیتیوں میں سے کسی ڈکیتی میں یہ قید ہوکر آگیا۔ اسے حکم ابن حزام نے اپنی پھوپھی خدیجہ کے لیے خرید لیا۔ جب حضور ﷺ نے خدیجہ کو اپنے نکاح میں لے لیا تو اس نے یہ حضور ﷺ کو بخش دیا۔ اس کے بعد اس کے باپ اور بیٹے نے اسے آزاد کرنے کا مطالبہ کیا تو حضور اکرم ﷺ نے اسے اختیار دے دیا تو زید نے حضور ﷺ کو اختیار کرلیا۔ حضور اکرم ﷺ نے اسے آزاد کرکے معبنی بنا دیا اور لوگ اسے زید ابن محمد کہنے لگے۔ غلاموں میں سے حضور ﷺ پر وہ سب سے پہلے ایمان لائے۔

جب اسلام نے خاندانی تعلقات کو اپنی طبیعی اور فطری بنیادوں پر استوار کرنا شروع کیا ، خاندانی روابط کو مستحکم بنانے کی سعی کی اور خاندان کو خالص خاندانی حد تک محدود کیا تو جاہلی قانون متنبی کو ختم کردیا اور خاندانی روابط کو نسب کی بنیاد پر قائم کردیا۔ یعنی خونی رشتے باپ بیٹے کی اساس پر ۔ اور یہ حکم دیا۔

وما جعل ادعیاء کم ابناء کم (33: 4) ” اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں بنایا “۔

ذلکم قولکم بافواھکم (33: 4) ” یہ وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکالتے ہو “۔ صرف باتوں سے واقعات اور حقائق نہیں بدلتے۔ اور صرف باتوں سے خونی رشتے بھی قائم نہیں ہوتے اور وراثت کے حقوق بھی پیدا نہیں ہوجاتے۔ اور محض زبان سے یہ رشتے ایسے نہیں ہوتے جو اس وقت ہوتے ہیں جب ایک زندہ بچہ زندہ ماں سے پیدا ہوتا ہے یا حقیقی باپ سے پیدا ہوجاتا ہے۔

واللہ یقول الحق وھو یھدی ۔۔۔۔ (33: 4) ” مگر اللہ جو بات کہتا ہے وہی حقیقت ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے “۔ وہ مطلق حق کہتا ہے جس کے اندر کوئی باطل نہیں ہوتا اور ان سچائیوں میں سے ایک سچائی یہ ہے کہ خاندانی قوانین اور رشتے حقیقت پر مبنی ہوں۔ یعنی خون اور نسب کے روابط ہوں۔ نہ محض زبانی باتوں پر۔ وہ قانون سازی میں سیدھا راستی اختیار کرتا ہے اور اسی کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ یہ فطری قانون ہوتا ہے اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین ان فطری قوانین کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ خصوصاً جبکہ وہ حقائق نہ ہوں۔ محض خالی خولی باتیں ہوں۔ ایسے الفاظ ہوں جن کا کوئی مفہوم نہ ہو ، لہٰذا ایسے قوانین و روابط پر حقیقی قوانین و روابط غالب ہوجاتے ہیں جو سیدھے راستے پر مبنی ہوں۔

ادعوھم لابآئھم اقسط عند اللہ (33: 5) ” منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے “۔ منصفانہ بات یہ ہے کہ بیٹے کو باپ کے نام سے پکارا جائے۔ یہی اس والد کے ساتھ انصاف ہے جس کے جسم سے یہ ٹکڑا علیحدہ ہو کر شخص بنا۔ بیٹے کے ساتھ بھی انصاف ہے اور انہی دونوں کے درمیان وراثت بھی انصاف ہے۔ باپ اور بیٹے ہی ایک دوسرے کے حقیقی معاون ہو سکتے ہیں۔ بیٹا باپ کی خفیہ خصوصیات کا بھی امین ہو سکتا ہے اور آباؤاجداد کے خصائص کا بھی امین ہے۔ یہ اسطرح بھی عدل ہے کہ ہر حق کو اس کی جگہ رکھ دیا گیا اور روابط کو فطری اصولوں پر قائم کردیا گیا۔ نہ والد کی حق تلفی ہو اور نہ بیٹے کی حق تلفی ہو۔ غیر حقیقی والد کو معبنیٰ ہونے کے ذمہ داریاں نہ اٹھانی پڑیں گی اور نہ اسے وہ مفادات ملیں گے جن کا وہ مستحق نہ تھا۔ نہ معبنی غیر ضروری ذمہ داریاں اٹھائے گا اور نہ وہ مفادات لے سکے گا جس کا وہ مستحق نہ تھا۔

یہ وہ عائلی نظام ہے جس کی وجہ سے خاندان کی ذمہ داریوں میں توازن پیدا ہوتا ہے اور خاندان نہایت ہی مستحکم اور گہری اور واقعیت پسندانہ بنیادوں پر قائم ہوتا ہے ۔ اس کی اساس میں سچائی ، حق پسندی اور فطرت سے ہم آہنگی ہے۔ ہر وہ نظام جو خاندانی نظام کو نظر انداز کرتا ہے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہ ضعیف کمزور اور جعلی بنیادوں پر اٹھا ہوا ہوتا ہے اور کوئی ایسا نظام زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دور جاہلیت میں خاندان کے روابط میں بہت انتشار تھا۔ اسی طرح جنسی تعلقات میں بھی انتشار تھا ، اس کے نتیجے میں انساب کے اندر بہت ہی اختلاط پیدا ہوگیا تھا اور بعض اوقات لوگوں کے باپوں کا بھی پتہ نہ لگتا تھا۔ اسلام نے اس معاملے کے اندر سہولت پیدا کردی کیونکہ اسلام کا منشا یہ تھا کہ خاندانی نظام کو ازسرنو منظم کیا جائے۔ اور اسلام خاندان کی اساس پر اجتماعی نظام کی تشکیل کے درپے تھا۔ اس لیے جن لوگوں کے آباء و اجداد کا پتہ نہ تھا ، ان کو اسلامی جماعت میں ایک مقام دے دیا۔ یہ اخوت اسلامی کا مقام تھا۔

فان لم تعلموا ابآءھم فاخوانکم فی الدین (33: 5) ” اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور رفیق ہیں “۔ اخوت فی الدین کا تعلق ایک اخلاقی اور روحانی تعلق ہے اور اس پر کوئی قانونی حقوق و فرائض مرتب نہیں کیے گئے ۔ مثلاً وراثت کی کفالت اور ادائیگی دے کر ، جبکہ معبنی بنانے پر یہ قانونی حقوق و فرائض مرتب ہوتے تھے۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں کا بھی اسلامی جماعت میں کوئی نہ کوئی مقام اور رابطہ ہونا چاہئے۔

فان لم تعلموا ابآءھم (33: 5) ” اگر تمہیں ان کے آباؤ و اجداد معلوم نہ ہوں “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جاہلیت کے معاشرے میں نسب کے اعتبار سے بہت بڑا انتشار تھا۔ اس کے نتیجے میں جنسی تعلقات کے معاملے میں بھی انتشار تھا۔ اس انتشار سے بچنے کے لیے اسلام نے خاندانی نظام کو ازسر نو مرتب کیا۔ یوں خاندانی نظام مستحکم بنیادوں پر استوار ہوگیا۔

انساب کو اپنی حقیقت کی طرف واپس کردینے کے بعد اب یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو اپنا نسب صحیح معلوم نہ ہو اور وہ نسب کے سلسلے میں کوئی غلب بات کہہ دے تو اس کا کوئی قصور نہ ہوگا۔

ولیس علیکم جناح فیما اخطاتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم (33: 5) ” نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے کہ تم دل سے ارادہ کرو۔ یہ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ اللہ کسی پر کوئی ایسا حکم عائد نہیں کرتا جس کے بجا لانے کی ان میں طاقت نہ ہو۔

وکان اللہ غفورا رحیما (33: 5) ” اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے “۔ نبی ﷺ نے نسب کے سلسلے میں بہت ہی تاکید اور تشدید فرمائی ہے کیونکہ اسلام کا مقصد یہ تھا کہ جدید معاشرے کو ایسے خطوط پر منظم کیا جائے جس میں کوئی انتشار نہ ہو جس طرح جاہلی معاشروں میں کسی کے بارے میں کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کون کس کی اولاد سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنا نسب چھپاتے ہیں ان کو سخت وعید کی گئی اور ان پر کفر کا اطلاق کیا گیا۔ ابن جریر نے ، یعقوب ابن ابراہیم سے ، ابن علیہ سے ، عینیہ ابن عبد الرحمن نے ان کے باپ سے ، ابوبکر ؓ سے فرماتے ہیں ، اللہ نے فرمایا۔

ادعوھم لابآءھم ۔۔۔۔۔ الدین وموالیکم (33: 5) ” منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک بہت ہی منصفانہ بات ہے۔ اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں “۔ میرے باپ نے کہا ” عینیہ ابن عبد الرحمن کہتے ہیں “۔ خدا کی قسم میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر کسی کو یقین ہوتا کہ میرا باپ گدھا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرتا “۔ اور حدیث میں آیا ہے۔

من اوعی الی غیر ابیہ وھو یعلم الا کفر ” جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا اور کسی طرف منسوب کیا اور وہ جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا “۔ یہ تہدید اس پالیسی کے مطابق ہے جس کے ذریعے اسلام خاندان اور خاندانی روابط کو ہر شک و شبہ سے پاک رکھنا چاہتا ہے اور اسلام سلسلہ نسب کو صحیح ، سلامت ، مسلم الثبوت رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس پر اسلامی معاشرے کی تعمیر کی جائے اور یہ معاشرہ صحیح اور پاک معاشرہ ہو۔

اس کے بعد ایک دوسرے عبوری قانون کے اندر ترمیم کردی جاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ جب وارد مدینہ ہوئے تو وہاں آپ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کی۔ اسلام سے قبل جاہلیت میں اس قسم کا کوئی نظام نہ تھا۔ یہ نظام ہجرت کے بعد اسلام نے ایجاد کیا تھا کیونکہ مہاجرین اپنی دولت مکہ میں چھوڑ آئے تھے۔ یہاں تہی دست وارد ہوئے۔ اسی طرح مدینہ میں بھی ایسے لوگ تھے جن کو ان کے خاندان والوں نے گھروں سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے تھے۔ مواخات کو ختم کرکے نبی ﷺ کو دلایت عامہ دے دی گئی اور یہ ولایت تمام دوسری ولایتوں پر مقدم قرار دے دی گئی۔ نبی ﷺ کے ولی عام بننے کے ساتھ ساتھ آپ کی ازدواج کو بھی روحانی مائیں قرار دے دیا گیا۔

آیت 4 { مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ } ”اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔“ جوف کے معنی خالی جگہ کے ہیں اور یہاں اس سے سینے کا اندرونی حصہ chest cavity مراد ہے جس کے بائیں جانب دل ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان کے سینے میں اللہ نے ایک ہی دل رکھا ہے۔ اور اگر محاورۃً یوں کہا جائے کہ فلاں اور فلاں کے دل یکجا ہوگئے ہیں یا فلاں کا دل فلاں کے دل سے مل گیا ہے تو محض اس طرح کہہ دینے سے کسی کے سینے کے اندر حقیقت میں دو دل نہیں ہوجاتے۔ چناچہ جس طرح یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ‘ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی شخص کی دو مائیں نہیں ہوتیں۔ کسی شخص کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا اور کسی انسان کا باپ صرف وہی ہے جس کے صلب سے وہ پیدا ہوا۔ { وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الّٰیِْٔ تُظٰہِرُوْنَ مِنْہُنَّ اُمَّہٰتِکُمْ } ”اور نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کر بیٹھتے ہو۔“ ”ظِھار“ عرب کے دور جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ناراض ہو کر کبھی یوں کہہ دیتا کہ اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ اب تو میرے اوپر اپنی ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے تو اب اسے طلاق مغلظ ّدر مغلظ شمار کیا جاتا اور اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی۔ یہاں اس خودساختہ تصور کی نفی کردی گئی کہ تم میں سے کسی کے اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے یا ماں کے ساتھ تشبیہہ دے دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ ”ظہار“ کے بارے میں واضح احکام سورة المجادلہ پارہ 28 کی ابتدائی آیات میں دیے گئے ہیں۔ { وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَ کُمْ اَبْنَآئَ کُمْ } ”اور نہ ہی اس نے تمہارے ُ منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔“ { ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاہِکُمْ } ”یہ سب تمہارے اپنے ُ منہ کی باتیں ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری ان خود ساختہ باتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کسی کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے اور کسی شخص کا بیٹا بھی صرف وہی ہے جو اس کے ُ صلب سے پیدا ہوا۔ فقط کسی کے کہہ دینے سے کوئی عورت کسی کی ماں نہیں بن جاتی اور کسی کے زبانی دعویٰ سے کوئی کسی کا بیٹا نہیں بن جاتا۔ { وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیْلَ } ”اور اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔“

سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا مقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلا ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے۔ بیان فرمایا کہ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہوجاتی۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنالینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہوجاتا۔ اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہہ دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتیں مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں۔ ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں۔ یہ آیت حضرت زید بن حارث ؓ کے بارے میں اتری ہے جو حضور کے آزاد کردہ تھے انہیں حضور نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنارکھا تھا۔ انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا۔ اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے۔ جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے آیت (مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40؀) 33۔ الأحزاب :40) تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد ﷺ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے۔ یہاں فرمایا یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں۔ اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل وفہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کردی۔ ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نماز میں تھے آپ کو کچھ خطرہ گذرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ زہری فرماتے ہیں یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہوسکتے۔ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کردیا ہے اور فرمادیا ہے کہ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم حضرت زید کو زید بن محمد ﷺ کہا کرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا۔ بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں۔ چناچہ اس آیت کے اترنے کے بعد حضرت سہلہ بنت سہل ؓ حاضر خدمت نبوی ﷺ ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آجاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حضرت حذیفہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں۔ آپ نے فرمایا پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہوجاؤگی۔ الغرض یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی مداخلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لئے بیان فرمادی۔ اور جب حضرت زید ؓ نے اپنی بیوی صاحبہ حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ ﷺ نے خود اپنا نکاح ان سے کرلیا اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے فالحمد للہ اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا آیت (وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ 23؀ۙ) 4۔ النسآء :23) یعنی تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں۔ ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ ﷺ نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کردیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور نے فرمایا بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا۔ یہ واقعہ سنہ0100ہجری ماہ ذی الحجہ کا ہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے۔ حضرت زید بن حارثہ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ008ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ حضرت انس ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا۔ اسے بیان فرما کر کہ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہیں انکے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں۔ حضور جب عمرۃ القضا والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو حضرت ؓ کی صاحبزادی چچاچچا کہتی ہوئی آپ کے پیچھے دوڑیں۔ حضرت علی ؓ نے انہیں لے کر حضرت فاطمہ زہرا ؓ کو دے دیا اور فرمایا یہ تمہاری چچازاد بہن ہیں انہیں اچھی طرح رکھو۔ حضرت زید اور حضرت جعفر فرمانے لگے اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی حضرت علی ؓ نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ حضرت زید ؓ فرماتے ہیں میرے بھائی کی لڑکی ہے۔ جعفر بن ابی طالب ؓ کہنے لگے میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں یعنی حضرت اسماء بنت عمیس ؓ۔ آخر حضور ﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے۔ حضرت علی ؓ سے فرمایا تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں۔ حضرت جعفر ؓ سے فرمایا تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے حضرت زید ؓ سے فرمایا تو میرا بھائی ہے اور ہمارا مولیٰ ہے اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا۔ اور آپ نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید ؓ سے فرمایا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔ حضرت ابو بکرہ ؓ نے فرمایا اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں۔ ابی فرماتے ہیں واللہ اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا۔ اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔ پھر فرماتا ہے جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں۔ چناچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں آیت (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا02806) 2۔ البقرة :286) اے اللہ ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عز اسمہ نے فرمایا میں نے یہ دعاقبول فرمائی۔ صحیح بخاری شریف میں ہے جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا ہوجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے درگذر فرمالیا ہے۔ یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمدا کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ باوجود جاننے کے۔ آیت قرآن جو اب تلاوتا منسوخ ہے اس میں تھا آیت (فان کفرابکم ان ترغبوا عن ابائکم) یعنی تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا آپ کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور ﷺ نے خود بھی رجم کیا (یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا) اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے ساتھ ہوا۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا۔ ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے۔ اور حدیث میں ہے تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں۔ نسب میں طعنہ زنی، میت پر نوحہ، ستاروں سے باراں طلبی۔

آیت 4 - سورۃ الاحزاب: (ما جعل الله لرجل من قلبين في جوفه ۚ وما جعل أزواجكم اللائي تظاهرون منهن أمهاتكم ۚ وما جعل أدعياءكم...) - اردو