واذ تقول للذی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کان اللہ بکل شیء علیما (37 – 40)
اس سورة کے آغاز ہی میں معبنی بنانے کی رسم کو ختم کردیا گیا تھا اور یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ ایسے لوگوں کو اب ان کے حقیقی آباء کی طرف منسوب کردیا جائے اور عائلی تعلقات حقیقی نسب پر قائم ہوں گے ، کہا گیا تھا۔
وما جعل ادعیآء کم ۔۔۔۔۔۔ غفورا رحیما (33: 4 – 5) ” نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے ۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو۔ مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو نبی پر حقیقت ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔ اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہاں کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔ نادانستہ جو بات تم کہو ، اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا دل سے ارادہ کرو۔ اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے “۔
عربی سوسائٹی میں منہ بولے بیٹوں کے پختہ رسم و رواج تھے اور گہرے آثار تھے۔ ان آثار کو منانا اس قدر آسان نہ تھا جس قدر نفس معبنی کو مٹانا آسان تھا۔ اس لیے کہ اجتماعی رسم و رواج دلوں پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کی رسومات کو مٹانے کے لیے ان کے بالمقابل سخت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالعموم پہلے پہل جو اقدامات کیے جاتے ہیں ان کے خلاف شوروغل بھی ہوتا ہے اور ابتدا میں اس کے اثرات بھی نفوس پر پڑتے ہیں۔
اس سے قبل یہ بات آگئی ہے کہ حضرت نبی ﷺ نے زید ابن حادثہ کی شادی کرائی تھی۔ یہ آپ کے معبنی
تھے اور ان کو زید ابن محمد کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد زید ابن حارثہ کہلانے لگا۔ یہ شادی زینب بنت جحش سے کرائی گئی تھی جو آپ کی پھوپھی زاد تھیں ، مقصد یہ تھا کہ غلاموں کو عرب سوسائٹی میں جو دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا تھا ، اسے دور کردیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے شرافت و کرامت کا جو اصول مقرر فرمایا ہے اسے بروئے کار لایا جائے۔
ان اکرمکم عند اللہ اتقالکم ” تمہارے اندر زیادہ شریف وہی ہے ، جو زیادہ متقی ہے “۔ اور یہ مثال عملاً قائم کی جائے جو فی الواقعہ مثال ہو۔ اس کے بعد مشیت الہیہ کا تقاضا یوں ہوا کہ رسالت کی ذمہ داریوں میں اس ذمہ داری کا اضافہ کردیا جائے کہ معبنی کی مطلقہ کے ساتھ نکاح کی مثال بھی حضور ﷺ خود قائم کریں تاکہ معبنی کی رسم کے جو گہرے آثار تھے ، وہ بھی مٹ جائیں اور حضور ﷺ یہ نمونہ معاشرے کے سامنے پیش کریں۔ ان حالات میں کہ کسی اور کی ہمت اس کام کے لیے نہ ہوسکتی تھی اگرچہ رسم معبنی قانوناً اور شرعاً اس سے قبل ختم ہوگئی تھی۔
اللہ نے حضرت نبی ﷺ کو بذریعہ وحی بتا دیا کہ زید عنقریب اپنی بیوی کو طلاق دے دیں گے اور آپ کو یہ نکاح کرنا ہوگا۔ یہ تقاضائے حکمت الہیہ ہے۔ اس دوران زید اور زینب کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اور آثار بتا رہے تھے کہ یہ نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔
حضرت زید بار بار رسول اللہ ﷺ سے یہ شکایت کر رہے تھے کہ ان کی زندگی زینب کے ساتھ بہت مضطرب ہے اور یہ کہ وہ مزید ان کے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ ﷺ بڑی بےباکی سے اسلامی نظریہ حیات کی تبلیغ فرماتے تھے اور اس سلسلے میں کسی کی پرواہ نہ فرماتے تھے لیکن زینب کے ساتھ نکاح کرنے کے معاملے میں آپ بھی متامل تھے۔ اس سلسلے میں آپ بھی عوام کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے اور آپ ہمیشہ زید سے کہتے ، جن پر اللہ کا انعام ہوا تھا کہ وہ مسلمان ہوئے اور پھر رسول اللہ ﷺ کے قریب ہوئے اور رسول اللہ ﷺ آپ سے محبت فرماتے تھے اور یہ محبت ایسی تھی کہ بلا استثناء سب سے زیادہ تھی۔ پھر رسول اللہ نے ان پر یہ مہربانی کی کہ انہیں آزاد کردیا۔ ان کی تربیت کی اور ان سے بہت پیار کرتے۔ حضرت زید سے رسول اللہ ﷺ یہی کہتے۔
امسک علیک زوجک واتق اللہ (33: 37) ” کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو “۔ اور دراصل حضور اکرم ﷺ اس طرح اس عظیم معاملے کو موخر کرنا چاہتے تھے جس کے وقوع کے بعد آپ کو عوام کا سامنا کرنے میں تردد تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی۔
وتخفی فی نفسک ۔۔۔۔۔۔ ان تخشہ (33: 37) ” اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے جس کا اللہ نے آپ کو یہ سبب بتا دیا تھا کہ اگر حضرت زید ان کو طلاق دیں گے تو آپ ﷺ کو نکاح کرنا ہوگا۔ یہ معاملہ صریح حکم نہ تھا ، ورنہ حضور ﷺ اس میں تردد نہ فرماتے ، نہ موخر کرتے اور نہ یہ کوشش کرتے کہ کسی طرح ٹل جائے اور حضور ﷺ اس وقت اس کا اعلان کردیتے۔ نتائض جو بھی ہوتے ، البتہ حضور ﷺ کے دل میں بطور الہام یہ بات ڈال دی گئی تھی اور حضور ﷺ اس وقت پریشان تھے کہ لوگ غوغا آرائی کریں گے یہاں تک کہ خدا کے حکم سے زید نے طلاق دے دی اور یہ تصور نہ زید کا تھا اور نہ زینب کا کہ اس کے بعد حضور ﷺ سے نکاح ہوگا کیونکہ عربوں میں یہ قانونی رواج تھا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ کے ساتھ نکاح جائز نہ تھا۔ یہاں تک کہ معبنی بنانے کے قانون اور رواج کو ختم کردینے کے بعد بھی لوگ مطلقہ معبنی کو حرام سمجھتے تھے اور ابھی ان کے حلال ہونے کا حکم بھی نہ آیا تھا۔ صرف اس واقعہ سے یہ رسم ختم ہوئی لیکن یہ واقعہ بہرحال اس سوسائٹی میں ایک دھماکہ اور ایک انوکھی اور نئی بات تھی۔
اس تفسیر سے وہ تمام روایات ختم ہوجاتی ہیں جن پر اعتماد کرکے دشمنان اسلام نے قدیم دور میں بھی اور جدید دور میں بھی افسانے تصنیف کیے ہیں اور حاشیہ آرائیاں کی ہیں۔ معاملہ بس اس قدر تھا۔
فلما قضی زید۔۔۔۔۔ منھن وطرا (33: 37) ” پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس کا تم سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں کوئی تنگی رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں “۔ اور یہ واقعہ رسالت کی ان بھاری ذمہ داریوں میں سے ایک تھا جو رسول اللہ ﷺ نے خود اٹھایا۔ یوں آپ نے ایک ایسے معاملے میں جاہلی معاشرے کی ایک رسم متانے میں نمونہ پیش کیا جسے ایام جاہلیت میں ایک مکروہ فعل سمجھا جاتا تھا۔ یہ فعل اس قدر مکروہ سمجھا جاتا تھا کہ حضور اکرم ﷺ نے اسلامی نظریہ حیات کے حوالے سے بڑی بڑی باتوں میں تامل نہ فرمایا تھا مگر اس میں مترو و تھے۔ مثلاً عربوں کے خود ساختہ الٰہوں کی مذمت آپ نے بےدھڑک فرمائی اور یہ آپ نے بر ملا اعلان فرمایا کہ ہمارے آباء و اجداد غلطی پر تھے۔
وکان امر اللہ مفعولا (33: 37) ” اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا “۔ حضرت زینب سے حضور اکرم کا نکاح عدت پوری ہونے کے بعد طے ہوا تھا “۔ یعنی اسے ردنہ کیا جاسکتا تھا اور نہ اس سے کوئی مفر تھا۔ یہ ایک حقیقت تھی اور اٹل حقیقت تھی اور اس سے کوئی پہلو تہی نہ کرسکتا تھا۔
آپ کا نکاح زینب سے عدت گزر جانے کے بعد ہوا اور حضور ﷺ نے ان کو انہیں حضرت زید کے ذریعہ پیغام بھیجا تھا۔ یہ زید حضور ﷺ کو بہت ہی محبوب تھے۔ یہ گئے اور انہوں نے حضور ﷺ کا پیغام ان کو دیا۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ جب زینب کی عدت ختم ہوگئی تو حضور ﷺ نے زید ابن حارثہ سے کہا ” آپ جائیں اور زینب کو میرے لیے پیغام دیں “۔ زید گئے ، اس وقت وہ آٹے میں خمیر ڈال رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے اسے دیکھا تو میرا انکے ساتھ سامنا کرنا مشکل ہوگیا۔ میں ان کو دیکھ نہ سکا اور نہ کہہ سکا کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کا تذکرہ کیا ہے میں نے ان کی طرف اپنی پیٹھ پھیرلی اور واپس جاتے ہوئے یہ کہا ” اے زینب تمہارے لیے خوشخبری ہے ، حضور ﷺ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں ان کا پیغام آپ تک پہنچا دوں “۔ اس نے کہا ” میں کوئی بات اس وقت تک کرنے والی نہیں ہوں جب تک میں اپنے رب کے ساتھ اس معاملے میں مشورہ نہ کرلوں۔ وہ اٹھی اور اپنی جائے نماز پر نماز پڑھنے لگی “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئیں اور رسول اللہ ﷺ اس کے بعد اس سے اجازت لینے کے بغیر اس کے پاس آگئے۔ (روایت احمد ، مسلم اور نسائی بطریقہ سلیمان ابن مغیرہ) ۔
بخاری شریف میں حضرت انس کی روایت ہے کہ حضرت زینب دوسری ازواج مطہرات پر یہ فخر کرتی تھی کہ تمہارا نکاح تمارے رشتہ داروں نے کیا ہے اور میرا نکاح اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔ یہ معاملہ اسی طرح آسانی سے طے نہ پا گیا بلکہ اسلامی سوسائٹی میں اس کی وجہ سے ایک بھونچال آگیا اور منافقین کو ایک مسئلہ مل گیا کہ حضور ﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔ چونکہ یہ معاملہ اسلامی معاشرے میں قانون اصلاحات سے متعلق تھا اور اسلامی معاشرے کے لیے ایک نیا اصول طے کرنا تھا۔ اس لیے اللہ نے اس کی تاکید مزید کردی اور پھر اس میں لوگوں کے نزدیک جو انوکھا پن تھا اسے یوں زائل کیا اور معاملات کو اپنی اصل حقیقت کی طرف لوٹا دیا۔
ما کان علی النبی من حرج فیما فرض اللہ لہ (33: 38) ” نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہو “۔ اللہ نے نبی پر فرض کردیا تھا کہ زینب کے ساتھ اس کا نکاح ہوتا کہ یہ جاہلی رسم ٹوٹے کہ کسی کا نکاح ان کے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نہیں ہوسکتا جبکہ اس نے اسے طلاق دے دی ہو یا مر گیا ہو ، اور یہ کہ نبی ﷺ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔
سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل (33: 38) ” یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاء کے معاملے میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں “۔ تو یہ معاملہ سنت الہیہ کے مطابق جا رہا ہے اور اس میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ان رسوم اور رواجات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکتا رہا ہے جو معاشرے میں رائج رہی ہیں اور جن کی کوئی حقیقت و افادیت نہ تھی۔
وکان امر اللہ قدرا مقدورا (33: 38) ” اور اللہ کا حکم قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے “۔ اللہ کا حکم نافذ ہوتا ہے اور اسے نافذ کیا جانا ہی چاہئے۔ اس کے سامنے کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی اور نہ بننا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تمام امور کو نہایت مہارت سے طے کرتا ہے ، نہایت حکمت سے طے کرتا ہے اور اس کی تہہ میں وہ مقاصد ہوتے ہیں جو اللہ کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ اللہ ہی ان احکام کی ضرورت اور کسی زمان و مکان میں ان کی اہمیت کو جانتا ہے اور اللہ نے رسول اللہ کو حکم دے دیا ہے کہ وہ اس عادت کو محو کردیں ، اس کے عملی آثار کا بھی قلع قمع کردیں اور یہ کام وہ بنفس خود کریں۔ اللہ کے حکم کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکتی اور اللہ کے رسولوں کی یہ سنت رہی ہے۔ تمام گزرے ہوئے رسولوں کی :
الذین یبلغون رسلت۔۔۔۔۔۔۔ الا اللہ (33: 39) ” جو لوگ اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے “۔ ایسے لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے نظام کو عملاً قائم کرتے ہیں اور لوگوں کی باتوں سے نہیں ڈرتے۔ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ وہ اللہ کے احکام پہنچاتے ہیں اور نافذ کرتے ہیں۔
وکفی باللہ حسیبا (33: 39) ” اور محاسبہ کے لیے اللہ ہی کافی ہے “۔ حساب و کتاب نیک و بد کا اللہ ہی لے گا اور لوگوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے نبی کا محاسبہ کریں۔
ما کان محمد ابآ احد من رجالکم (33: 40) ” محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں “۔ لہٰذا زینب محمد کے کسی بیٹے کی مطلقہ نہیں ہے۔ زید ابن محمد دراصل زید ابن حارثہ ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے اگر حقیقت پسند انہ نظروں سے دیکھا جائے حضرت محمد ﷺ اور تمام لوگوں کا آپس میں تعلق نبی اور قوم کا تعلق ہے وہ ان میں سے کسی کا باپ نہیں ہے۔
ولکن رسول اللہ وخاتم النبین (33: 40) ” وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں “۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ قانون بناتے ہیں۔ اور یہ دائمی اور آخری شریعت ہے اور یہ قیامت تک رہنی ہے۔ اس کے بعد ان قوانین میں کوئی تغیر و تبدل ہونے والا نہیں۔
وکان اللہ بکل شئ علیما (33: 40) ” اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے “۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ انسانیت کیلئے کون سا قانون مفید ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے نبی پر یہ کام کرنا فرض کیا اور اس کیلئے یہ آسائش مقرر کی تاکہ لوگوں کے لیے منہ بولے بیٹوں کے معاملہ میں پابندی ختم ہو۔ جبکہ وہ کسی بیوی کو طلاق دت چکے ہوں اور ان سے اپنی ضرورت پوری کرچکے ہوں اور ان کو آزاد کرچکے ہوں۔ اللہ نے اپنے علم کے مطابق فیصلہ فرمایا ہے اور اللہ ہی ہے جو اپنی حکمت اور علم کے مطابق قانون بنانے والا ہے۔
اب سیاق کلام میں اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے کہ اللہ کو یاد کرو ، صبح و شام ، اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے رہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مہربانی اور رحمت سے تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل کیا۔ وہ مومنین پر کس قدر رحیم ہے۔ جب یہ مومنین قیامت میں حاضر ہوں گے تو ہر طرف سے مبارک سلامت ہوگی۔
آیت 37 { وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ } ”اور اے نبی ﷺ ! جب آپ کہتے تھے اس شخص سے جس پر اللہ نے بھی انعام کیا تھا اور آپ نے بھی انعام کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو اور اللہ سے ڈرو“ اس سے مراد حضرت زید رض ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم ﷺ کا انعام و احسان یہ تھا کہ وہ گردش زمانہ سے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے تھے اور آپ ﷺ کے گھر میں گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے رہے تھے۔ ان کے والد حارثہ بن شراحیل کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا۔ حضرت زید رض جب آٹھ سال کے بچے تھے تو اپنی ماں کے ساتھ اپنے ننھیال گئے۔ ان کے قافلے پر دشمن قبیلے نے حملہ کردیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن آدمیوں کو پکڑ کرلے گئے ان میں یہ بھی تھے۔ پھر انہوں نے عکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا۔ خریدنے والے حکیم بن حزام تھے ‘ جنہوں نے ان کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رض کی خدمت میں پیش کردیا۔ جب نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہ رض کا نکاح ہوا تو یہ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ اس وقت ان کی عمر 15 برس تھی۔ کچھ مدت کے بعد حضرت زید رض کے والد اور چچا ان کو تلاش کرتے ہوئے حضور ﷺ تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کو تیار ہیں ‘ آپ ہمارا بچہ ہمیں دے دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں لڑکے کو بلاتا ہوں اور اس کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پاس رہنا چاہتا ہے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جاناچا ہے گا تو میں کوئی فدیہ نہیں لوں گا اور اسے جانے دوں گا ‘ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں اسے زبردستی آپ کے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔ وہ دونوں حضرات بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ تو آپ نے عدل و انصاف سے بھی بڑھ کر درست بات کی ہے۔ حضور ﷺ نے زید رض کو بلایا اور ان سے کہا کہ ان دونوں صاحبوں کو جانتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ‘ یہ میرے والد اور میرے چچا ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا ‘ تم ان کو بھی جانتے ہو اور مجھے بھی۔ اب تمہیں پوری آزادی ہے کہ چاہو تو ان کے ساتھ چلے جائو اور چاہو تو میرے ساتھ رہو۔ زید رض نے جواب میں کہا کہ میں آپ کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ ان کے باپ اور چچا نے ساتھ چلنے پر اصرار کیا اور کہا کہ کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے ؟ لیکن حضرت زید رض کسی طرح بھی حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ حضور ﷺ نے اسی وقت زید رض کو آزاد کردیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمع عام میں اعلان فرمایا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں ‘ آج سے زید میرا بیٹا ہے۔ چناچہ اس روز سے انہیں زید بن محمد ﷺ پکارا جانے لگا۔ یہ سب واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں۔ نزولِ وحی کے بعد جب نبی اکرم ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو چار ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایک لمحہ شک و تردد کے بغیر آپ ﷺ کے دعوائے نبوت کی تصدیق کی۔ ایک حضرت خدیجہ ‘ دوسرے حضرت زید ‘ تیسرے حضرت علی اور چوتھے حضرت ابوبکر صدیق رض۔ اس وقت حضرت زید رض کی عمر 30 سال تھی اور ان کو حضور ﷺ کی خدمت میں رہتے ہوئے 15 برس بیت چکے تھے۔ ہجرت کے بعد 4 ھ میں حضور ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رض سے ان کا نکاح کردیا۔ اپنی طرف سے ان کا مہر ادا کیا اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔ یہی حالات ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ ”جس پر اللہ نے بھی انعام کیا تھا اور آپ ﷺ نے بھی انعام کیا تھا۔“ ماخوذ از تفہیم القرآن۔ - اضافہ از مرتب { وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ } ”اور آپ ﷺ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے وہ بات جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا“ { وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ } ”اور آپ ﷺ لوگوں سے ڈر رہے تھے ‘ حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ آپ ﷺ اس سے ڈریں۔“ نبی اکرم ﷺ محسوس فرما رہے تھے کہ اگر زید رض نے طلاق دے دی تو مجھے خود زینب رض سے نکاح کرنا پڑے گا ‘ لیکن ساتھ ہی آپ ﷺ کو مخالفین کی طرف سے منفی پراپیگنڈے کا خدشہ بھی تھا۔ اگرچہ اس سورت کی ابتدائی آیات میں منہ بولے بیٹے کی شرعی اور قانونی حیثیت واضح فرما دی گئی تھی اور متعلقہ آیات کے نزول کے بعد لوگ انہیں زید رض بن محمد ﷺ کے بجائے زید رض بن حارثہ کہنے لگے تھے ‘ لیکن پھر بھی اندیشہ تھا کہ منافقین اس مسئلے کو بہانہ بنا کر حضور ﷺ کے خلاف واویلا کریں گے۔ { فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰـکَھَا } ”پس جب زید رض نے اس سے اپنا تعلق منقطع کرلیا تو اسے ہم نے آپ ﷺ کی زوجیت میں دے دیا“ یعنی جب حضرت زید رض نے حضرت زینب رض کو طلاق دے دی اور عدت بھی پوری ہوگئی تو ہم نے اس کا نکاح آپ ﷺ سے کردیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ سے حضرت زینب رض کے نکاح کی نسبت خصوصی طور پر اپنی طرف فرمائی۔ کلام اللہ کا یہ اندازِ بیاں حضرت زینب رض کے لیے یقینا ایک بہت بڑا عزاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت زینب رض ان الفاظ پر فخر کرتے ہوئے دوسری ازواجِ مطہرات رض سے کہا کرتی تھیں کہ آپ سب لوگوں کے نکاح زمین پر ہوئے جبکہ میرا نکاح آسمانوں پر ہوا اور اللہ نے خود میرا نکاح پڑھایا۔ کلام اللہ کے ان الفاظ سے یہ صراحت بھی ہوتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ نکاح خود اپنی خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر کیا تھا۔ { لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا } ”تاکہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنا تعلق بالکل کاٹ لیں۔“ یعنی حضور ﷺ کے اس نکاح کے ذریعے عرب معاشرے سے جاہلیت کی اس رسم کا خاتمہ بھی ہوجائے اور قیامت تک کے لیے ایک قانون بھی وضع ہوجائے تاکہ آئندہ منہ بولے بیٹے کی بیوہ یا مطلقہ کے معاملے کو ”محرماتِ ابدیہ“ کے ساتھ گڈ مڈ نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ محرماتِ ابدیہ کی فہرست سورة النساء آیت 23 اور 24 میں دی گئی ہے۔ { وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا } ”اور اللہ کا فیصلہ تو پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔“ اس سارے معاملے میں یہی حکمت اور مصلحت پوشیدہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس فضول رسم کا خاتمہ حضور ﷺ کے ذاتی عمل سے کرنا چاہتا تھا۔ بعض نظریات اور خیالات معاشرے میں اس قدر پختہ اور گہرے ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی عمل یا بات لوگ آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ ٰمتبنی ّکی بیوہ یا مطلقہ کے ساتھ منہ بولے باپ کے نکاح کے بارے میں عرب معاشرے کے اندر مروّجہ خود ساختہ قانون بھی اسی زمرے میں آتا تھا۔ اس لیے اس قانون یا روایت کو خود حضور ﷺ کی ذاتی مثال کے ذریعے سے توڑنا مناسب خیال کیا گیا۔ چناچہ آپ ﷺ کے حضرت زینب رض سے نکاح کے بعد اس مسئلے میں کسی قسم کا ابہام یا شک باقی نہ رہا۔
عظمت زید بن حارثہ ؓ۔ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کے نبی ﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کو ہر طرح سمجھایا۔ ان پر اللہ کا انعام تھا کہ اسلام اور متابعت رسول ﷺ کی توفیق دی۔ اور حضور ﷺ کا بھی ان پر احسان تھا کہ انہیں غلامی سے آزاد کردیا۔ یہ بڑی شان والے تھے اور حضور ﷺ کو بہت ہی پیارے تھے یہاں تک کہ انہیں سب مسلمان حب الرسول کہتے تھے۔ ان کے صاحبزادے اسامہ کو بھی حب بن حب کہتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا فرمان ہے کہ جس لشکر میں انہیں حضور ﷺ بھیجتے تھے اس لشکر کا سردارانہی کو بناتے تھے۔ اگر یہ زندہ رہتے تو رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ بن جاتے (احمد) بزار میں ہے حضرت اسامہ ؓ فرماتے ہیں میں مسجد میں تھا میرے پاس حضرت عباس اور حضرت علی ؓ آئے اور مجھ سے کہا جاؤ حضور ﷺ سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو۔ میں نے آپ کو خبر کی آپ نے فرمایا جانتے ہو وہ کیوں آئے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں ! آپ نے فرمایا لیکن میں جانتا ہوں جاؤ بلا لاؤ یہ آئے اور کہا یارسول اللہ ﷺ ذرا بتایے آپ کو اپنے اہل میں سب سے زیادہ کون محبوب ہے ؟ آپ نے فرمایا میری بیٹی فاطمہ۔ انہوں نے کہا ہم حضرت فاطمہ کے بارے میں نہیں پوچھتے۔ آپ نے فرمایا پھر اسامہ بن زید بن حارثہ ؓ جن پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے بھی۔ حضور ﷺ نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی امیمہ بنت جحش اسدیہ سے کرادیا تھا۔ دس دینار اور سات درہم مہر دیا تھا، ایک ڈوپٹہ ایک چادر ایک کرتا پچاس مد اناج اور دس مد کھجوریں دی تھیں۔ ایک سال یا کچھ اوپر تک تو یہ گھر بسا لیکن پھر ناچاقی شروع ہوگئی۔ حضرت زید نے حضور ﷺ کے پاس آکر شکایت شروع کی تو آپ انہیں سمجھانے لگے کہ گھر نہ توڑو اللہ سے ڈرو۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے اس جگہ بہت سے غیر صحیح آثار نقل کئے ہیں جن کا نقل کرنا ہم نامناسب جان کر ترک کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بھی ثابت اور صحیح نہیں۔ مسند احمد میں بھی ایک روایت حضرت انس سے ہے لیکن اس میں بھی بڑی غرابت ہے اس لئے ہم نے اسے بھی وارد نہیں کیا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ یہ آیت حضرت زینب بنت جحش اور حضرت زید بن حارثہ ؓ کے بارے میں اتری ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اپنے نبی ﷺ کو خبر دے دی تھی کہ حضرت زینب ؓ آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ یہی بات تھی جسے آپ نے ظاہر نہ فرمایا اور حضرت زید کو سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو الگ نہ کریں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں حضور ﷺ اگر اللہ کی وحی کتاب اللہ میں سے ایک آیت بھی چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے۔ وطر کے معنی حاجت کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب زید ان سے سیر ہوگئے اور باوجود سمجھانے بجھانے کے بھی میل ملاپ قائم نہ رہ سکا بلکہ طلاق ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب کو اپنے نبی کے نکاح میں دے دیا۔ اس لئے ولی کے ایجاب و قبول سے مہر اور گواہوں کی ضرورت نہ رہی۔ مسند احمد میں ہے حضرت زینب کی عدت پوری ہوچکی تو رسول ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ سے کہا کہ تم جاؤ اور انہیں مجھ سے نکاح کرنے کا پیغام پہنچاؤ۔ حضرت زید گئے اس وقت آپ آٹاگوندھ رہی تھیں۔ حضرت زید پر ان کی عظمت اس قدر چھائی کہ سامنے پڑ کر بات نہ کرسکے منہ پھیر کر بیٹھ گئے اور ذکر کیا۔ حضرت زینب نے فرمایا ٹھہرو ! میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلوں۔ یہ تو کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں ادھر رسول ﷺ پر وحی اتری جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے ان کا نکاح تجھ سے کردیا۔ چناچہ اسی وقت حضور ﷺ بےاطلاع چلے آئے پھر ولیمے کی دعوت میں آپ نے ہم سب کو گوشت روٹی کھلائی۔ لوگ کھا پی کر چلے گئے مگر چند آدمی وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ آپ باہر نکل کر اپنی بیویوں کے حجرے کے پاس گئے۔ آپ انہیں السلام علیک کرتے تھے اور وہ آپ سے دریافت کرتی تھیں کہ فرمائیے بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟ مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو خبر دی یا آپ خبر دیئے گئے کہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔ اس کے بعد آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی آپ کے ہمراہ تھا میں نے آپ کے ساتھ ہی جانے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے پردہ گرا دیا اور میرے اور آپ کے درمیان حجاب ہوگیا اور پردے کی آیتیں اتریں اور صحابہ کو نصیحت کی گئی اور فرما دیا گیا کہ نبی کے گھروں میں بےاجازت نہ جاؤ۔ (مسلم وغیرہ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت زینب ؓ اور ازواج مطہرات سے فخر اً کہا کرتی تھیں کہ تم سب کے نکاح تمہارے ولی وارثوں نے کئے اور میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر کرا دیا۔ سورة نور کی تفسیر میں ہم یہ روایت بیان کرچکے ہیں کہ حضرت زینب نے کہا میرا نکاح آسمان سے اترا اور ان کے مقابلے پر حضرت عائشہ نے فرمایا میری برات کی آیتیں آسمان سے اتریں جس کا حضرت زینب نے اقرار کیا۔ ابن جریر میں ہے حضرت زینب نے رسول ﷺ سے ایک مرتبہ کہا مجھ میں اللہ تعالیٰ نے تین خصوصیتیں رکھی ہیں جو آپ کی اور بیویوں میں نہیں ایک تو یہ کہ میرا اور آپ کا دادا ایک ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مجھے آپ کے نکاح میں دیا۔ تیسرے یہ کہ ہمارے درمیان سفیر حضرت جبرائیل ؑ تھے۔ پھر فرماتا ہے ہم نے ان سے نکاح کرنا تیرے لئے جائز کردیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کو بیویوں کے بارے میں جب انہیں طلاق دے دی جائے کوئی حرج نہ رہے۔ یعنی وہ اگر چاہیں ان سے نکاح کرسکیں۔ حضور ﷺ نے نبوت سے پہلے حضرت زید کو اپنا متنبی بنا رکھا تھا۔ عام طور پر انہیں زید بن محمد ﷺ کہا جاتا تھا۔ قرآن نے اس نسبت سے بھی ممانعت کردی اور حکم دیا کہ انہیں اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت کر کے پکارا کرو پھر حضرت زید نے جب حضرت زینب کو طلاق دے دی تو اللہ پاک نے انہیں اپنے نبی ﷺ کے نکاح میں دے کر یہ بات بھی ہٹادی۔ جس آیت میں حرام عورتوں کا ذکر کیا ہے وہاں بھی یہی فرمایا کہ تمہارے اپنے صلبی لڑکوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں۔ تاکہ لے پالک لڑکوں کی لڑکیاں اس حکم سے خارج رہیں۔ کیونکہ ایسے لڑکے عرب میں بہت تھے۔ یہ امر اللہ کے نزدیک مقرر ہوچکا تھا۔ اس کا ہونا حتمی، یقینی اور ضروری تھا۔ اور حضرت زینب کو یہ شرف ملنا پہلے ہی سے لکھا جا چکا تھا کہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین میں داخل ہوں ؓ۔