ولقد کانوا عاھدوا ۔۔۔۔۔۔ عھد اللہ مسئولا (15)
ابن ہشام نے ابن اسحاق کی روایت اپنی سیرۃ میں نقل کی ہے کہ یہ لوگ بنو حارثہ تھے۔ یہی لوگ تھے جو احد کے دن بھی بھاگنا چاہتے تھے اور بنو مسلمہ اور ان دونوں نے واپسی کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ لیکن بعد میں انہوں نے اللہ کے ساتھ عہد کرلیا تھا کہ وہ ایسا ہرگز نہ کریں گے۔ یہاں یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ تم نے خود یہ عہد اللہ کے ساتھ کیا تھا کہ آئندہ ایسا نہ کریں گے۔
احد کے دن تو اللہ کے فضل و کرم سے وہ بچ گئے تھے۔ اللہ نے ان کو ثابت قدمی دے دی تھی۔ اور ان کو فرار کے نتائج سے بچا لیا تھا۔ ابتدائی زمانے میں جہاد کے اسباق میں سے یہ ایک سبق تھا لیکن آج تو تحریک اسلامی پر طویل دورگزر گیا ہے۔ کافی تجربات ہوگئے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم ان پر سخت تبصرہ کرتا ہے۔
آج جب انہوں نے عہد توڑ دیا۔ آج وہ خطرے سے بچنے کیلئے اور خوف کی حالت سے بھاگنے کے لیے عہد توڑ چکے ، تو قرآن کریم ان کو بتاتا ہے اور ہر وقت بتاتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات میں اعلیٰ قدر کیا ہے اور اسلامی تصور حیات میں موت اور زیست کا تصور کیا ہے۔ کیا فرار اور نقص عہد زندگی کا ضمان ہے ؟
آیت 15 { وَلَقَدْ کَانُوْا عَاہَدُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ } ”حالانکہ اس سے قبل وہ اللہ سے وعدہ کرچکے تھے کہ وہ کبھی پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔“ اس سے پہلے وہ بحیثیت مسلمان اللہ سے عہد کرچکے تھے کہ وہ باطل کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں گے۔ { وَکَانَ عَہْدُ اللّٰہِ مَسْئُوْلًا } ”اور اللہ سے کیے گئے عہد کی باز پرس تو ہونی ہے۔“