سورۃ الاحزاب: آیت 14 - ولو دخلت عليهم من أقطارها... - اردو

آیت 14 کی تفسیر, سورۃ الاحزاب

وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا۟ ٱلْفِتْنَةَ لَءَاتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا۟ بِهَآ إِلَّا يَسِيرًا

اردو ترجمہ

اگر شہر کے اطراف سے دشمن گھس آئے ہوتے اور اُس وقت انہیں فتنے کی طرف دعوت دی جاتی تو یہ اس میں جا پڑتے اور مشکل ہی سے انہیں شریک فتنہ ہونے میں کوئی تامل ہوتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw dukhilat AAalayhim min aqtariha thumma suiloo alfitnata laatawha wama talabbathoo biha illa yaseeran

آیت 14 کی تفسیر

ولو دخلت علیھم ۔۔۔۔۔۔ الا یسیرا (14)

یہ ہے ان منافقین کی اندرونی تصویر۔ دشمن ابھی تو مدینہ سے باہر ہے۔ ابھی تو وہ شہر کے اندر گھسنے نہیں پایا۔ اگرچہ حالات بہت ہی خوفناک تھے لیکن ابھی تو حملہ آور باہر ہی پڑے تھے۔ کوئی خطرہ ابھی واقع نہ ہوا تھا ۔ اگر لشکر مدینہ کے اطراف سے حمہ آور ہوجاتا اور پھر

سئلوا الفتنۃ (33: 14) ” پھر ان کو فتنے کی دعوت دی جاتی یعنی ان سے مطالبہ کیا جاتا کہ تم مرتد ہوجاؤ تو یہ لوگ فوراً مرتد ہوجاتے اور کچھ دیر نہ کرتے اور نہ ہی کوئی تردد کرتا۔

الا قلیلا یعنی اگر دیر کرتے تو تھوڑی ہی دیر کرتے یا ان میں سے قلیل لوگ تردد کرتے۔ یعنی مرتد ہونے سے قبل کچھ دیر کے لیے سوچتے ۔ یہ ہے نقشہ ڈھیلے عقیدے اور نظریہ کا ہے۔ یہ گہری کمزوری ہے اس کے ساتھ یہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یوں قرآن مجید ان کی حقیقت کا اظہار کرتا ہے اور ان کی اندرونی کیفیت سے پردہ اٹھا دیتا ہے اور اس کے بعد ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے عہد توڑ دیا اور وعدے کے خلاف ورزی کردی۔ یہ عہد کس کے ساتھ تھا ؟ یہ عہد انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا تھا کہ بھاگیں گے نہیں۔ ان کے ساتھ یہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔

آیت 14 { وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَیْہِمْ مِّنْ اَقْطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَۃَ لَاٰتَوْہَا } ”اور اگر کہیں ان پر دشمن گھس آئے ہوتے مدینہ کے اطراف سے ‘ پھر ان سے مطالبہ کیا جاتا فتنے ارتداد کا ‘ تو وہ اسے قبول کرلیتے“ اگر خدانخواستہ کفار و مشرکین کے لشکر واقعی مدینہ میں داخل ہوجاتے اور وہ ان منافقین کو علانیہ ارتداد اور مسلمانوں سے جنگ کی دعوت دیتے تو ایسی صورت حال میں یہ لوگ بلا تردد ان کی بات مان لیتے۔ { وَمَا تَلَبَّثُوْا بِہَآ اِلَّا یَسِیْرًا } ”اور اس میں بالکل توقف نہ کرتے مگر تھوڑا سا۔“ چونکہ ایمان ابھی ان کے دلوں میں راسخ ہوا ہی نہیں تھا ‘ اس لیے جونہی انہیں ایمان کے دعوے سے پھرنے کا موقع ملتا وہ فوراً ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کردیتے۔

جہاد سے پیٹھ پھیرنے والوں سے باز پرس ہوگی جو لوگ یہ عذر کرکے جہاد سے بھاگ رہے تھے کہ ہمارے گھر اکیلے پڑے ہیں جن کا بیان اوپر گذرا۔ ان کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ اگر ان پر دشمن مدینے کے چو طرف سے اور ہر ہر رخ سے آجائے پھر ان سے کفر میں داخل ہونے کا سوال کیا جائے تو یہ بےتامل کفر کو قبول کرلیں گے لیکن تھوڑے خوف اور خیالی دہشت کی بنا پر ایمان سے دست برداری کررہے ہیں۔ یہ ان کی مذمت بیان ہوئی ہے۔ پھر فرماتا ہے یہی تو ہیں جو اس سے پہلے لمبی لمبی ڈینگیں مارتے تھے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے ہم میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنے والے نہیں۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ جو وعدے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کئے تھے اللہ تعالیٰ ان کی باز پرس کرے گا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ موت وفوت سے بھاگنا لڑائی سے منہ چھپانا میدان میں پیٹھ دکھانا جان نہیں بچاسکتا بلکہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اچانک پکڑ کے جلد آجانے کا باعث ہوجائے اور دنیا کا تھوڑا سا نفع بھی حاصل نہ ہوسکے۔ حالانکہ دنیا تو آخرت جیسی باقی چیز کے مقابلے پر کل کی کل حقیر اور محض ناچیز ہے۔ پھر فرمایا کہ بجز اللہ کے کوئی نہ دے سکے نہ دلاسکے نہ مددگاری کرسکے نہ حمایت پر آسکے۔ اللہ اپنے ارادوں کو پورا کرکے ہی رہتا ہے۔

آیت 14 - سورۃ الاحزاب: (ولو دخلت عليهم من أقطارها ثم سئلوا الفتنة لآتوها وما تلبثوا بها إلا يسيرا...) - اردو