سورۃ الاحزاب: آیت 10 - إذ جاءوكم من فوقكم ومن... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورۃ الاحزاب

إِذْ جَآءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ ٱلْأَبْصَٰرُ وَبَلَغَتِ ٱلْقُلُوبُ ٱلْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِٱللَّهِ ٱلظُّنُونَا۠

اردو ترجمہ

جب وہ اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith jaookum min fawqikum wamin asfala minkum waith zaghati alabsaru wabalaghati alquloobu alhanajira watathunnoona biAllahi alththunoona

آیت 10 کی تفسیر

اذ جاء وکم من فوقکم ۔۔۔۔۔۔ یریدون الا فرارا (10 – 13)

یہ وہ ہولناک صورت حال ہے جس نے مدینہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہر شخص خوف اور کرب میں مبتلا تھا۔ اس صورت حال سے کوئی ایک شخص بھی غیر متاثر نہ تھا۔ قریش اور اس کے حوالی و موالی ، بنی غطفان اور ان کے زیر اثر قبائل ، اور یہودیاں بنی قریظہ ہر طرف سے اٹھ آئے تھے ، اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی۔ ایسے حالات تھے کہ ان کا خوف ایک دل اور دوسرے دل میں جدا نہ تھا۔ اختلاف جو تھا وہ ردعمل میں تھا۔ اللہ کے بارے میں یقین میں اختلاف تھا۔ طرزعمل ، اقدار ، اسباب کے تصور اور نتائج کے ظہور میں اختلاف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک ہمہ گیر آزمائش تھی اور اس نے مومنین اور منافقین میں بالکل جدائی کردی۔

آج ہم جب اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم اسی موقف میں کھڑے ہیں۔ وہی حالات ہیں ، وہی تاثرات ہیں ، وہی خلجانات ہیں ، وہی حرکات ہیں اور ان نصوص کے شیشے کے اندر ہمیں اپنے چہرے صاف صاف نظر آتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں اور یہ منظر ہمیں صاف صاف نظر آتا ہے۔

اذجآء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم (33: 10) ” جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے “۔ اور اس کے بعد لوگوں پر اس موقف کے اثرات۔ واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر (33: 10) ” جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے “۔ یہ ایک نہایت ہی مکمل تصویر ہے اس شخص کی جو انتہائی تنگی ، خوف اور کرب میں مبتلا ہو۔ اس تصویر میں چہرے کی حالت اور دلوں کی حرکت دونوں کو دکھایا گیا ہے۔

وتظنون باللہ الظنونا (33: 10) ” اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے “۔ ان گمانوں کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ ان کو مجمل چھوڑ کر تمام حالات اضطراب ، تمام خلجانات اور تمام برے احساسات کو اس میں شامل کردیا گیا ہے۔ مختلف دلوں میں ظنون کی تفصیل مختلف ہوگی۔ اب ذرا اس خوفناک صورت حالات کو مزید کھولا جاتا ہے۔ اور اس کے خدوخال اور اس کی حرکات کو سامنے لایا جاتا ہے۔

ھنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا (33: 11) ” اس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بری طرح ہلا مارے گئے “۔ وہ خوف جو اہل ایمان کو ہلا مارتا ہے ، لازم ہے کہ وہ بہت ہی شدید اور ہولناک ہوگا۔

محمد ابن مسلمہ وغیرہ نے روایت کی کہ خندق میں ہماری رات بھی دن ہوتا تھا جبکہ مشرکین نے اپنے لیے باری مقرر کر رکھی تھی ۔ ایک دن ابوسفیان ابن حرب اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کے لیے آتا ، ایک دن خالد ابن ولید اپنے ساتھیوں سے میت آتا ، اور ایک دن عمروابن عاص آتا ، ایک دن ہبیرہ ابن ابو وھب آتا اور ایک دن عکرمہ ابن ابو جہل آتا اور ایک دن ضرار ابن الخطاب۔ یہاں تک کہ یہ مصیبت بہت بڑھ گئی اور لوگوں کے اندر شدید خوف پھیل گیا۔

مقریزی نے اپنی کتاب امتاع الاسماع میں مسلمانوں کے حال کی تصویر کشی یوں کی ہے : ” مشرکین نے صبح کے تڑکے اچانک حملہ کیا اور حضور اکرم ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو تیار کیا۔ اس دن رات کے ایک حصے تک لڑائی رہی اور رسول اللہ ﷺ اور مومنین میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔ حضور ﷺ ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نماز نہ پڑھ سکے۔ آپ ﷺ کے ساتھی یہ کہنے لگے رسول ﷺ خدا ہم نے نماز نہیں پرھی۔ اس پر رسول ﷺ اللہ نے فرمایا ، خدا کی قسم میں نے بھی نماز نہیں پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ نے مشرکین کو ہٹا دیا۔ دونوں فریق اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے۔ اسید ابن حضیر خندق کے کنارے پر دو سو آدمیوں کو لے کر کھڑے ہوئے ، خالد بن ولید کی سرکردگی میں مشرکین نے حملہ کردیا ، یہ اچانک حملہ کرنا چاہتے تھے ۔ تھوڑی دیر انہوں نے مقابلہ کیا۔ وحشی نے طفیل ابن نعمان ، ابن جنا انصاری سلمی کو ایک نیزے کے ساتھ مارا۔ اسے اسی طرح قتل کردیا جس طرح احد میں حضرت حمزہ کو قتل کیا تھا۔ اس دن حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ” مشرکوں نے ہمیں درمیانی نماز ، نماز عصر سے مشغول رکھا اللہ ان کے دلوں اور پیٹوں کو آگ سے بھر دے “۔

یوں ہوا کہ مسلمانوں کے دو دستے رات کو نکلے۔ وہ آپس میں الجھ پڑے کسی کو علم نہ تھا کہ وہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہر ایک کا خیال تھا کہ ہم دشمن سے لڑ رہے ہیں۔ ان کے درمیان بھی قتل ہوئے اور بعض لوگ زخمی ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے اسلامی شعار سے پکارا۔ کو ڈورڈ تھا۔

(حم لا ینصرون) چناچہ وہ رکئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تمہارا زخمی ہونا اللہ کے لیے ہے اور جو قتل ہوگیا وہ شہید ہے “۔ مسلمانوں پر شدید مشکلات اس وقت آئیں جب وہ خندق کے دہانے پر مصروف جنگ تھے۔ ادھر بنو قریظہ کی طرف سے خبریں آرہی تھیں کہ وہ وعدہ خلافی پر مائل ہوگئے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو ہر وقت یہ ڈر رہتا تھا کہ کسی وقت بھی مشرکین کا لشکر خندق کی جانب سے حملہ آور ہو سکتا ہے اور پیچھے سے یہودی حملہ کرسکتے ہیں اور وہ ان عظیم لشکروں کے درمیان ایک قلیل تعداد میں ہیں۔ یہ لشکر آتے اس لیے ہیں کہ مسلمانوں کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکیں اور یہ معرکہ فیصلہ کن اور آخری معرکہ ہو۔

یہ حالات اس کے علاوہ تھے۔ مدینہ میں منافقین سازشیں کر رہے تھے اور افواہیں پھیلا رہے تھے خود اسلامی صفوں میں بددلی پھیلائی جا رہی تھی۔

واذ یقول المنفقون ۔۔۔۔۔ الا غرورا (33: 12) ” یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا ، صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے “۔ ان شدید حالات میں ان لوگوں کو بھی موقع مل گیا کہ وہ اپنے خبث باطن کا اظہار کردیں جبکہ مسلمان شدید کرب میں مبتلا تھے اور کلیجے منہ کو آرہے تھے۔ ایسے حالات میں کوئی نہ تھا جو ان کو ملامت کرتا۔ ان لوگوں کو مسلمانوں کی توہین اور تذلیل اور شکوک پھیلانے کا موقع مل گیا۔ اور انہوں نے برملا کہنا شروع کردیا کہ اللہ اور رسول کے وعدے جھوٹے تھے حالانکہ اللہ اور رسول ﷺ کے وعدے تو پورے والے تھے۔ یہ منافقین یہ باتیں اس لیے کرتے تھے کہ ان حالات میں ان پر گرفت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ بظاہر حالات ایسے تھے کہ ان کی بات درست معلوم ہوتی تھی۔ وہ اپنے خیال میں درست مو قف پر تھے ۔ مسلمان جن ہولناک حالات سے دوچار تھے ان کی وجہ سے ان منافقین کے چہروں پر ایک جو مہین پردہ تھا ، جس کی وجہ سے وہ رکھ رکھاؤ کرتے تھے وہ بھی اتر گیا۔ اور ان کے نفوس نے ان کو اس پر آمادہ کردیا کہ وہ اس ظاہری رواداری کو بھی ختم کردیں۔ چناچہ انہوں نے اپنے حقیقی شعور کا اظہار کردیا اور رکھ رکھاؤ کا پردہ چاک کردیا۔

اس قسم کے منافقین اور افواہیں پھیلانے والے ہر جماعت میں ہوتے ہیں اور مشکل حالات میں ان کا موقف بھی ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ان کے بھائیوں کا موقف ہوتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے لوگ تمام نسلوں میں ایک مکرر نمونہ ہوتے ہیں۔ زمان و مکان کی قید کے بغیر اس قسم کے لوگ ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔

واذ قالت طائفۃ ۔۔۔۔۔ لکم فارجعوا (33: 13) ” جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا : اے اہل یثرب ، تمہارے لیے اب ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ، پلٹ چلو “۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ لوگ صف بندی کو ترک کرکے گھروں میں بیٹھ جائیں اور یہ کہہ دیں کہ خندق کے سامنے اس طرح صف بندی کر کے کھڑے رہنے کا کیا موقع و محل ہے۔ پیچھے سے گھروں کو خطرہ ہے۔ یہ ایک ایسی دعوت تھی جہاں سے لوگ متاثر ہو سکتے تھے کیونکہ عورتیں اور بچے خطرے میں تھے۔ خطرہ حقیقی تھا۔ خوف ہر طرف سے لاحق تھا اور حالات بہت ہی مخدوش تھے۔ کسی کا دل قرار نہ پکڑتا تھا۔

ویستاذن فریق ۔۔۔۔۔ عورۃ (33: 13) ” جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبی ﷺ سے اجازت مانگے کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں “۔ یعنی ہمارے گھر دشمن کے سامنے کھلے ہیں اور ان کا کوئی دفاع نہیں ہے۔ لیکن قرآن یہاں اصل حقیقت بھی کھول دیتا ہے :

وما ھی بعورۃ (33: 13) ” حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے “۔ چناچہ یہاں صاف صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بزدل ہیں۔ بھاگنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے یہ جھوٹے حیلے گھڑتے ہیں۔

ان یریدون الا فرارا (33: 13) ” دراصل وہ بھاگنا چاہتے ہیں “۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی حارث نے اوس ابن قیطی کو رسول اللہ ؐ کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں اور انصاریوں میں سے کسی کا گھر ہمارے گھروں کی طرف نہیں ہے۔ ہمارے اور خطفان کے درمیان کوئی نہیں ہے جو ان کو روک سکے۔ تو آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم گھروں کی طرف لوٹ جائیں تاکہ گھروں اور عورتوں کی حفاظت کرسکیں۔ حضور ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ یہ بات سعد ابن معاذ تک پہنچی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ حضور ﷺ ان کو اجازت نہ دیں کیونکہ ہمیں اور ان کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے ، انہوں نے ایسا ہی کیا ہے خدا کی قسم ! چناچہ حضور ﷺ نے ان کو واپس کردیا۔ غرض قرآن ان کو ملامت کرتا ہے کہ یہ محض فرار چاہتے ہیں ، وہ تھے ہی ایسے۔

یہاں سیاق کلام قدرے رک جاتا ہے۔ ایک بہترین تصویر پر غور کرنے کے لیے جس میں اس وقت کے خوفناک اور پریشان کن حالات اور باہم حیلہ بازی کے موقف کی تصویر کشی کی گئی ہے تاکہ ان بیمار دلوں والے منافقین کی نفسیاتی تصویر بھی دکھا دی جائے۔ یہ ان کی داخلی تصویر ہے اور یہ حالت ان کی اس لیے ہے کہ ان کا عقیدہ اور نظریہ کمزور ہے۔ یہ بزدل ہیں اور اسلامی صفوں سے یہ لوگ ایک معمولی بہانہ اور عذر کی وجہ سے بھی بھاگنے کے لئے تیار ہوئے ہیں۔ یہ کسی موقف پر جمنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ اس سلسلے میں کوئی رکھ رکھاؤ کرنے والے ہیں۔

آیت 10 { اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ } ”جب وہ لشکر آئے تم پر تمہارے اوپر سے بھی اور تمہارے نیچے سے بھی“ جزیرہ نمائے عرب کا جغرافیائی محل وقوع پہلے بھی کئی بار زیر بحث آچکا ہے۔ اس میں شمالاً جنوباً حجاز کا طویل پہاڑی سلسلہ ہے۔ مکہ ‘ طائف اور مدینہ حجاز ہی میں واقع ہیں ‘ جبکہ اسی علاقے میں اوپر شمال کی طرف تبوک کا علاقہ ہے۔ اس پہاڑی سلسلے اور ساحل سمندر کے درمیان ایک وسیع میدان ہے جس کا نام تہامہ ہے۔ حجاز کے پہاڑی سلسلے اور تہامہ کے درمیان سطح مرتفع ہے جو اگرچہ پہاڑی علاقہ تو نہیں مگر میدانی سطح سے بلند ہے۔ اس علاقے میں بنو غطفان وغیرہ قبائل آباد تھے۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ مدینہ کے اوپر کی طرف سے بنو غطفان وغیرہ جبکہ نیچے تہامہ کی طرف سے قریش مکہ حملہ آور ہوئے تھے۔ { وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ } ”اور جب خوف کے مارے نگاہیں پتھرا گئی تھیں اور دل حلق میں آگئے تھے“ یہ اس غیر معمولی کیفیت کا نقشہ ہے جب انتہائی خوف اور دہشت کی وجہ سے انسان کی آنکھیں حرکت کرنا بھول جاتی ہیں ‘ اس کے دل کی دھڑکن غیر معمولی طور پر تیز ہوجاتی ہے اور اسے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا دل اچھل کر اب سینے سے باہر نکل جائے گا۔ { وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا } ”اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔“

آیت 10 - سورۃ الاحزاب: (إذ جاءوكم من فوقكم ومن أسفل منكم وإذ زاغت الأبصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون بالله الظنونا...) - اردو