سورۃ الاحزاب: آیت 1 - يا أيها النبي اتق الله... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الاحزاب

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ ٱتَّقِ ٱللَّهَ وَلَا تُطِعِ ٱلْكَٰفِرِينَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

اردو ترجمہ

اے نبیؐ! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnabiyyu ittaqi Allaha wala tutiAAi alkafireena waalmunafiqeena inna Allaha kana AAaleeman hakeeman

آیت 1 کی تفسیر

یایھا النبی اتق اللہ۔۔۔۔۔ وکفی باللہ وکیلا (1 – 3)

یہ اس سورة کا آغار ہے جس میں اس نئے اسلامی معاشرے کی اخلاقی اور اجتماعی زندگی کی تنظیم نو کی گئی ہے۔ یہ آغاز ہی بتاتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کا مزاج کیا ہے اور وہ قواعد اور اصول کیا ہیں جن پر اسلامی نظام عملا قائم ہے۔ وہ تصورات کیا ہیں جن کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے ضمیر و اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اسلام محض ہدایات اور وعظ نہیں ہے۔ نہ اسلام محض چند اخلاقی تعلیمات کا نام ہے ، نہ اسلام صرف قوانین کا مجوعہ ہے۔ نہ وہ محض رسم و رواج کا نام ہے۔ اسلام دراصل مذکورہ بالا تمام چیزوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں بھی اسلام نہیں ہیں ۔ اسلام دراصل سرتسلیم خم کردینے کا نام ہے۔ اللہ کی مشیت اور اللہ کی خواہش کے سامنے سرتسلیم خم کردینا۔ اللہ کی تقدیر کے سامنے جھکنا اور سب سے اول بات یہ کہ اللہ کے احکام اوامرو نواہی کے ماننے کے لیے تیار ہوجانا۔ اللہ انسانوں کے لیے جو نظام تجویز کرتا ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرے ، بغیر ادھر ادھر توجہ کرنے کے ، اور اس کے سوا کسی اور طرف رخ کرنے کے۔ بغیر اس کے کہ اللہ کے سوا کسی اور قوت پر بھروسہ کیا جائے ۔ اسلام کا بنیادی شعور یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ وہ ایک ایسے قانون قدرت کا تابع ہے جو خود انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی پوری کائنات کو کنڑول کرتا ہے۔ یہ نظام افلاک و کواکب کو بھی کنڑول کرتا ہے اور تمام وجود کو بھی کنٹرول کرتا ہے خواہ خفیہ ہو یا ظاہر ہو۔ غائب ہو یا حاضر ہو۔ انسان اسے سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہو۔ اس یقین کے ساتھ کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے صرف اللہ کے احکام کا اتباع کرنا ہے اور ان کاموں سے روکنا ہے جن سے رکنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ان اسباب اور ذرائع کو استعمال کرنا ہے جو اللہ نے ان کیلئے فراہم کیے ہیں اور پھر ان نتائج کا انتظار کرنا ہے جو اللہ نے نکالنے ہیں۔ یہ وہ قاعدہ ہے جس کے اوپر تمام شریعتیں اور تمام قوانین قائم ہوتے ہیں ، رسم و رواج قائم ہوتے ہیں ، آداب و اخلاق قائم ہوتے ہیں یعنی وہ عقیدہ جو ضمیر و شعور میں ہوتا ہے وہ انسانی زندگی میں عملاً ظہور پذیر ہو اور انسان کی زندگی میں اس کے عملی آثار موجود ہوں کہ انسان کا نفس اللہ کے سامنے جھک گیا ہے اور وہ اسلامی نظام حیات کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے شریعت پھوٹتی ہے۔ اس شریعت پر بھی ایک پورا نظام زندگی استوار ہوتا ہے اور یہ تینوں امور باہم مربوط اور ہم جسم ہوتے ہیں۔ یہ ہے اسلام۔

چناچہ اس سورة کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے لیے جدید قانون سازی کی جائے یعنی اللہ سے ڈرنا۔ خطاب نبی ﷺ کی طرف ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ ہی اس جدید معاشرے کے منظم اعلیٰ تھے۔

یایھا النبی اتق اللہ (33: 1) ” اے نبی ، اللہ سے ڈرو “۔ اللہ سے ڈرنا اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ اللہ ہمارے اوپر نگران ہے اور وہ بہت جلیل القدر ہے۔ یہ اسلام کا بنیادی شعور اور بنیادی قاعدہ ہے۔ تقویٰ ہی انسان کے اندر ایک پاسبان ہوتا ہے جو انسان کو اللہ کے احکام کی پیروی پر مائل کرتا ہے۔ چناچہ تقویٰ ہی کی وجہ سے اسلامی نظام زندگی عملاً قائم ہوتا ہے۔ دوسرا حکم آیا ہے کہ کافروں اور منافقوں کی خواہشات کی اطاعت نہ کرو۔ ان کی تجاویز اور ان کی ہدایات کو نظر انداز کرو ، نہ ان سے رائے لو اور نہ ان کے اصرار کو تسلیم کرو۔

ولا تطع الکفرین والمنفقین (33: 1) ” کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو “۔ اللہ کے احکام کی اطاعت کرنے کا حکم یہاں بعد میں آتا ہے۔ اس سے بھی پہلے کہا گیا کہ کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو ، اس لیے کہ اس دور میں کفار اور منافقین کی طرف مسلمانوں اور حضور اکرم ﷺ پر بہت ہی دباؤ تھا۔ اس لیے یہاں حکیم دیا گیا کہ آئندہ اسلامی معاشرے کی عملی تنظیم میں بھی ان کی کوئی بات نہ سنو اور ان کے دباؤ کے آگے نہ جھکو۔ حضور ﷺ کو تو اس وقت کے حالات کے مطابق حکم دیا گیا لیکن تحریک اسلامی کو ہر زمان و مکان میں یہی کرنا چاہئے کہ جہاں اپنی حکومت قائم ہو تو وہاں غیروں کی آراء و تجاویز کو قبول نہ کرو تاکہ اسلامی نظام حیات خالص اپنی پالیسی پر آگے بڑھے اور وہ کسی غیر کی پالیسی کے دباؤ میں نہ ہو۔

کسی مسلمان کو یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ ان کفار اور منافقین کے پاس مہارت ہے اور وہ علم و تجربہ رکھتے ہیں جس طرح آج کل اپنے لیے اپنی کمزوری کے دور میں یہ وجہ جواز تلاش کرتے ہیں اس لیے کہ اللہ ہی علیم و حکیم ہے۔ اس نے مسلمانوں کو جو نظام زندگی دیا ہے وہ اس نے علم و حکمت کی اساس پر دیا ہے۔ اس میں کوئی فتور اور قصور نہیں ہے اور لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی علم و حکمت نہیں ہے۔ اور اس کے بعد متصلا یہ حکم دیا جاتا ہے۔

واتبع ما یوحی الیک من ربک (33: 2) ” اور پیروی کرو اس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جارہا ہے “۔ کیونکہ مسلمانوں کے لیے ہدایات اللہ سے آیا کرتی ہیں۔ کفار اور منافقین کی طرف سے نہیں۔ مسلمان خدا کا اتباع کرتے ہیں کسی اور کا نہیں۔ اس آیت کی طرز تعبیر ہی میں بعض گہرے اشارات پائے جاتے ہیں یعنی اتباع کرو اس بات کی جو تمہارے طرف وحی (اشارہ) کی جا رہی ہے ، خصوصیت کے ساتھ۔ پھر یہ اشارہ رب کی طرف سے ہے۔ گویا یہاں یہ خاص اشارات کئے جا رہے ہیں ، ان کو سمجھو۔ اور یہ اشارات اللہ مطاع کی طرف سے ہیں۔

ان اللہ کان بما تعملون خبیرا (33: 2) ” اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ اللہ جو ہدایات دیتا ہے وہ اعلیٰ درجے کے علم اور مہارت پر مبنی ہیں۔ وہ تمہارے اعمال کی حقیقت سے باخبر ہے۔ تمہارے رجحانات اور تمہاری خواہشات سے باخبر ہے۔ اور آخری ہدایت یہ ہے کہ

و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا (33: 3) ” اللہ پر توکل کرو ، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے “ یہ بات اہم نہیں ہے کہ کفار و منافقین تمہارے ساتھ ہیں یا تمہارے خلاف ہیں۔ نہ ان کی مکاریوں اور سازشوں کو کوئی حیثیت ہے۔ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ، اللہ تمہارے معاملات کے اندر اپنے علم ، اپنی خبرداری اور مہارت سے تصرف کرے گا۔ معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا ہی وہ چیز ہے جس پر آخر کار انسان کا دل مطمئن ہوکر شرح صدر حاصل کرلیتا ہے اور وہ اپنے حدود وقیود سے باخبر ہوجاتا ہے۔ اپنے حدود سے باہر کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اپنی حدود پر رک جاتا ہے اور آگے کی بات ، بات والے پر چھوڑ دیتا ہے۔ نہایت اطمینان ، پورے بھروسے اور پورے یقین کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرتا ہے۔

یہ تین عناصر ، خدا کا خوف ، وحی الٰہی کا پورا اتباع اور اللہ وحدہ پر بھروسہ یہ کسی بھی داعی کے اصل زاد راہ ہیں۔ بشرطیکہ وہ کفار اور منافقین سے کٹ جائے۔ یہ عناصر دعوت اسلامی کو اپنے منہاج پر قائم رکھتے ہیں یعنی اللہ سے (خوف) اللہ کی طرف سے آنے والے حکم کا اتباع اور اللہ پر بھروسہ۔ یہ ہدایات ایک زبردست ، گہرے تبصرے پر رقم ہوتی ہیں اور یہ تبصرہ ایک حسی مشاہدے پر مبنی ہے۔

آیت 1 { یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ } ”اے نبی ﷺ ! اللہ کا تقویٰ اختیار کیجیے اور کافرین و منافقین کی باتیں نہ مانیے۔“ جس طرح لفظ امر میں ”حکم“ کے ساتھ ساتھ ”مشورہ“ کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ‘ اسی طرح ”اطاعت“ کے معنی حکم ماننے کے بھی ہیں اور کسی کی بات پر توجہ اور دھیان دینے کے بھی۔ چناچہ یہاں وَلَا تُطِع کے الفاظ میں نبی مکرم ﷺ کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کی باتوں پر دھیان مت دیں۔ { اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا } ”یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔“

تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنا ہوجائے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات تاکید سے کہے تو ظاہر ہے کہ اوروں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے۔ تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے۔ اور فرمان باری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں۔ کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا۔ علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے چونکہ وہ اپنے وسیع علم سے ہر کام کا نتیجہ جانتا ہے اور اپنی بےپایاں حکمت سے اس کی کوئی بات کوئی فعل غیر حکیمانہ نہیں ہوتا تو تو اسی کی اطاعت کرتا رہ تاکہ بد انجام سے اور بگاڑ سے بچا رہے۔ جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں۔ اپنے تمام امور و احوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے۔

آیت 1 - سورۃ الاحزاب: (يا أيها النبي اتق الله ولا تطع الكافرين والمنافقين ۗ إن الله كان عليما حكيما...) - اردو