آیت 3 { مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ } ”اور ہم نے نہیں پید ا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے مگر حق کے ساتھ“ یہ ایک مستحکم نظام اور ایک با مقصد تخلیق ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ سورة الدخان میں اس بارے میں یوں فرمایا گیا ہے : { وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ۔ } ”اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے محض کھیل کے طور پر تو تخلیق نہیں فرمایا۔“ { وَاَجَلٍ مُّسَمًّی } ”اور ایک اجل معین کے لیے“ { وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ } ”اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اعراض کر رہے ہیں اس سے جس سے انہیں خبردار کیا جا رہا ہے۔“ اس جملے میں الفاظ کی ترتیب دراصل یوں ہے : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُعْرِضُوْنَ عَمَّآ اُنْذِرُوْا۔ لیکن ایک مخصوص صوتی آہنگ rhythm برقرار رکھنے کے لیے یہاں الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ میں ”تعارفِ قرآن“ پر اپنے لیکچر زمین قرآن کے صوتی آہنگ پر گفتگو کرتے ہوئے یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ ہم معروف معنوں میں جسے شاعری کہتے ہیں قرآن ویسی شاعری تو نہیں ہے لیکن ایک خاص آہنگ اور روانی کی وجہ سے قرآن کی آیات میں blank verse کا سا انداز پایا جاتا ہے اور جملوں میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر ہوجاتی ہے۔ اور غالباً یہ قرآنی اسلوب ہی دنیا میں blank verse کے رواج کا باعث بنا ہے۔