سورہ عادات: آیت 6 - إن الإنسان لربه لكنود... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ عادات

إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ لِرَبِّهِۦ لَكَنُودٌ

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alinsana lirabbihi lakanoodun

آیت 6 کی تفسیر

ان الانسان ............................ لشدید (6:100 تا 8) ” حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے ، اور وہ خود اس پر گواہ ہے ، اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے “۔ بیشک انسان اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے اور اللہ کے فضل وکرم کا عملی انکار کرتا ہے۔ اور اس کی یہ ناشکری اور کفران نعمت کئی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے افعال سے اور اس کے اقوال سے ، چناچہ اس کے اعمال واقوال ہی اس کے اس جرم پر گواہ ہوتے ہیں۔ گویا آفتاب آمد دلیل آفتاب ، وہ اپنے اوپر خود گواہ بن جاتا ہے ، اور قیامت میں بھی ایسا ہی ہوگا۔

وانہ .................... ذلک لشھید (7:100) ” وہ خود اس پر گواہ ہے “۔ اور ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ سچائی کی شہادت خود اپنے خلاف دے گا۔ جس میں کوئی شک اور نزاع نہیں۔

وانہ ................ لشدید (8:100) ” اور یہ مال اور دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے “۔ یہ اپنی جان اور اپنے مفاد کو بہت ہی محبوب رکھتا ہے۔ اس لئے اسے دولت کے ساتھ بہت محبت ہے ، دولت کو یہاں ” خیر “ سے تعبیر کیا گیا ہے ، کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ اس کی بھلائی مال ومتاع اور اقتدار و حکومت میں ہے جو دنیا کے سازو سامان ہیں۔

یہ ہے انسان کی فطرت ، یہ ہے اس کا مزاج اور یہ تب بدل سکتا ہے جب اس کے مزاج اور اس کی نفسیات میں ایمان داخل ہوجائے۔ ایمان کی وجہ سے اس کے تصورات ، اس کی قدریں اور اس کے پیمانے ہی بدل جاتے ہیں۔ اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ جب اس کی نفسیات میں ایمان داخل ہوتا ہے تو پھر انکار اور ناشکری اللہ کے فضل کے اعتراف اور شکر میں بدل جاتی ہے۔ جبکہ بخل اور دولت کی محبت ، ایثار اور محبت سے بدل جاتی ہے۔ یہ امان انسان کو ایسی قدریں عطا کرتا ہے جن کے لئے انسان حرص ، لالچ ، مناقست اور جدوجہد کرتا ہے۔ اور یہ قدریں مال و دولت اور اقتدار اور حکومت سے زیادہ بلند ہوتی ہیں ، اور وہ تمام دنیاوی اور حیوانی قدروں سے برتر ہوتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان ایمان کے بغیر نہایت ہی چھوٹا اور حقیر ہوتا ہے ، جس کی امیدیں حقیر ، جس کی ترجیحات حقیر اور جس کے اہداف حقیر ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ بہت عظیم مقاصد نظر آئیں۔ جوں جوں انسان کا حرص اور اس کی طمع بڑھتی ہے اور جوں جوں اس کا لالچ شدید ہوتا ہے ، اسکے مقاصدبلند ہوتے ہیں ، وہ زمینی قدروں کے دلدل میں گرتا جاتا ہے۔ اس کی تمام سرگرمیاں اس عمر کے لئے ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ذات کے اندر محدود اور قید ہوجاتا ہے اور اس قید سے اسے رہائی صرف اس صورت میں نصیب ہوسکتی ہے جب وہ اس دنیا سے ایک بڑی دنیا کے ساتھ مربوط ہوجائے ۔ جو اس دنیا سے بہت بلند اور دور ہے ، جو اس کی ذاتی محدود دنیا سے بہت وسیع ہے۔ وہ ایسی دنیا ہے جو اللہ ازلی کی تخلیق ہے ، جس میں تمام امور اللہ ازلی وابدی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اور جس میں اس محدود دنیا کی سرحدیں ایک وسیع اور لازوال دنیا سے جاملتی ہیں۔

چناچہ سورت کی آخری جھلک اسی کے بارے میں ہے تاکہ انکار اور ناشکری کا علاج ہوسکے ، تاکہ خود غرضی اور مفاد پرستی کی بیماری کا علاج کیا جاسکے تاکہ نفس پرستی کے قلعے کو توڑ کر حقیقی انسان کو اس سے رہائی دلائی جاسکے۔ چناچہ حشر ونشر کے منظر کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ انسان اس دنیا پرستی اور خود غرضی کو ، مارے خوف کے بھول جائے اور خواب خرگوش سے بیدار ہوکر چوکنا ہوجائے۔

آیت 6{ اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ۔ } ”یقیناانسان اپنے رب کا بہت ہی ناشکرا ہے۔“ مطلب یہ کہ ایک طرف وہ جانور ہے جو اپنے مالک کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کردیتا ہے ‘ جو اس کا خالق نہیں ہے ‘ بلکہ صرف اس کے دانے پانی کا انتظام کرتا ہے ‘ اور دوسری طرف یہ باشعور ‘ صاحب عقل و دانش اشرف المخلوقات انسان ہے جو اپنے خالق اور مالک کا شکر ادا نہیں کرتا۔

آیت 6 - سورہ عادات: (إن الإنسان لربه لكنود...) - اردو