سورہ ذاریات: آیت 1 - والذاريات ذروا... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ ذاریات

وَٱلذَّٰرِيَٰتِ ذَرْوًا

اردو ترجمہ

قسم ہے اُن ہواؤں کی جو گرد اڑانے والی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalththariyati tharwan

آیت 1 کی تفسیر

یہ سرسری اور مختصر آیات وضربات ہیں۔ ایسے الفاظ کے ساتھ جن کا مفہوم واضح نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کہا پردہ احساس پر ایک خاص تاثر چھوڑتی ہیں۔ دل کو ایک نہایت ہی اہم بات سے جوڑ دیتی ہیں اور ایسے معاملے کی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ جو توجہ کا مستحق ہے۔ جن لوگوں نے قرآن کریم کو حضور اکرم ﷺ کی زبان سے سنا ان کو بھی ان الفاظ کا مفہوم ایک دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت پیش آئی کہ ذاریات ، حاملات ، جاریات اور مقسمات کا مفہوم کیا ہے۔

علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں ، شعبہ ابن الحجاج نے روایت کی ، سماک ابن خالد ابن عرعرہ سے کہ انہوں نے حضرت علی ؓ سے سنا نیز روایت کی شعبہ نے قاسم ابوبزہ سے ، انہوں نے ابو طفیل سے ، انہوں نے بھی حضرت علی ؓ سے سنا اور ان کے علاوہ بھی کئی لوگوں کے ذریعہ حضرت ابن ابوطالب ؓ سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ کوٹہ میں ممبر پر چڑھے اور کہا ، تم قرآن کی کسی آیت کے بارے میں مجھ سے پوچھو یا سنت رسول کے بارے میں مجھ سے پوچھو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں۔ ابن کو اء کھڑا ہوا اور دریافت کیا امیر المومنین کہ اللہ کے کلام الذاریات ذروا .... کے کیا معنی ہیں۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : ” ہوا “ تو اس نے پوچھا فالحاملات وقرا کے معنی ؟ تو انہوں نے فرمایا ” بادل “ تو اس نے پوچھا فالجاریات یسرا کے معنی تو آپ نے فرمایا ” کشتیاں “ اس نے کہا فالمقسمات امرا ؟ تو انہوں نے فرمایا ” فرشتے “۔ ایک شخص صیع ابن عسل تمیمی حضرت عمر ابن الخطاب ؓ کے پاس آئے اور حضرت عمر سے ان الفاظ کے معنی پوچھے ، تو حضرت عمر نے بھی حضرت علی ؓ کی طرح جواب دیا۔ حضرت عمر ؓ نے محسوس کیا کہ شاید وہ دشمنی اور عناد کی بنا پر سوال کررہا ہے تو آپ نے اسے سزا دی اور حکم دیا کہ وہ لوگوں کے پاس نہ بیٹھے۔ یہاں تک کہ اس نے توبہ کی اور سخت قسموں کے ساتھ حلف اٹھیا کہ آپ نے جو محسوس کیا ہے میرے دل میں وہ بات نہ تھی اس سے معلوم ہوا کہ ان الفاظ کے مدلول اور معنی کا اجمال اہل عناد اور دشمنان اسلام کو یہ موقع دے رہا تھا کہ وہ ان کے بارے میں لوگوں سے سوال کرتے پھریں۔ اگر کوئی محسوس کرتا تو وہ کہتے ہم تو صرف معنی پوچھتے تھے۔ یہی تفسیر ابن عباس اور ابن عمر ؓ سے منقول ہے۔ مجاہد ، سعید ابن جیر ، حسن ، قتادہ ، سدی وغیرہ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ ابن جریر اور ابن ابو حاتم نے اس کے علاوہ کوئی اور تفسیر نقل نہیں کی۔ (ابن کثیر)

اللہ تعالیٰ ان ہواؤں کی قسم اٹھاتا ہے جو گرد اڑاتی ہیں جو بیجوں کو ادھر ادھر اڑاتی ہیں اور جو پھولوں پر گرد کو اڑاتی ہیں اور بادلوں کو اڑاتی ہیں۔ نیز دوسری چیزوں کو اڑاتی ہیں جو انسان کے علم میں ہوں یا نہ ہوں اور پھر قسم ہے ان بادلوں کی جو پانی کے بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں اور پھر جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے برس جاتے ہیں۔ پھر ان کشتیوں کی قسم جو بڑی سہولت سے چلتی ہیں۔ یہ سطح سمندر پر تیر رہی ہوتی ہیں کہ ان کے مواد میں اور پانی میں اللہ نے ایسی خصوصیات ودیعت کی ہیں اور اس کائنات میں اللہ نے ایسی خصوصیات رکھ دی ہیں جو ان کشتیوں کی رفتار کو آسان کرتی ہیں پھر ملائکہ کی قسم جو اللہ کے احکام کو تقسیم کرتے ہیں۔ یہ اللہ کے پیغام کو تقسیم کرتے ہیں۔ یہ اللہ کا پیغام اس کی مرضی سے تقسیم کرتے ہیں۔ یہ پیغامات مختلف معاملات کے متعلق ہوتے ہیں اور پوری کائنات میں تقسیم ہوتے ہیں۔

ہوا ، بادل ، سفینے اور فرشتے اللہ کی مخلوقات میں سے مخلوق ہیں۔ اللہ ان کو اپنی قدرت کا سبب اور الہ بنایا ہے۔ یہ اللہ کی مشیت کا ایک پردہ ہیں اور ان کے ذریعہ اللہ زمین پر اپنی مرضی چلاتا ہے۔ اللہ ان چیزوں کے ساتھ قسم اس لئے اٹھاتا ہے کہ یہ بہت ہی اہم چیزیں ہیں اور انسانوں کو اس اس طرف متوجہ ہونا چاہئے اور ان کے پیچھے جو قوتیں کام کرتی ہیں ان پر غور کریں اور پھر انسان ان چیزوں پر غور کریں کہ اللہ نے کس طرح ان کو پیدا کیا ہے وہ ان کے ذریعے سے اس دنیا میں کیا کیا تصرفات کرتا ہے اور اپنی اس تقدیر کو پردے سے باہر لاتا جاتا ہے جو اس سے پہلے سے طے کر رکھی ہے۔ یہاں اس سورة میں ان چیزوں کا تذکرہ ایک مخصوص انداز میں کیا گیا ہے اور اس لئے کیا گیا ہے کہ انسانی دل و دماغ ان کے اسرار و رموز کو جان سکیں اور پھر ان چیزوں کو کرشمہ قدرت قرار دے کر تعلق باللہ قائم کریں۔

پھر ان چیزوں کا رزق کے ساتھ ایک گونہ تعلق بھی ہے اور اس سورة کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسان کو اس رزق سے بالکل ظاہر ہے۔ اب فرشتے جو رزق تقسیم کرتے ہیں تو من جملہ اور احکام کے وہ احکام رزق بھی تقسیم کرتے ہیں لہذا ان تمام چیزوں کا تعلق رزق سے زیادہ واضح ہوجاتا ہے جس کا تذکرہ اس سورة میں کئی جگہ آیا جس غرض کے لئے اللہ ان چار امور پر قسم اٹھاتا ہے وہ یہ ہے کہ :

انما ........ لواقع (15 : 6)

” جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جارہا ہے وہ سچی ہے اور جزائے اعمال ضرور پیش آنی ہے۔ “ اللہ نے لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ احسان کے بدلے احسان کرے گا اور برائی کا بدلہ برائی سے دے گا۔ اس دنیا میں تو اس نے تمہیں مہلت حساب دی ہے لیکن آخرت میں کوئی مہلت نہ ہوگی لہٰذا وہاں حساب لازمی ہوگا۔ وان .... لواقع (15 : 6) ” جزائے اعمال ضرور پیش آنی ہے “ لہٰذا یہ وعدہ سچا ہے دنیا کا ہو یا آخرت کا۔ اور جو وعدہ اس نے کئے ہیں ان میں رزق کا بھی وعدہ ہے۔ رزق وہ دے گا کسی کو زیادہ کسی کو تھوڑا۔ اپنی مشیت کے مطابق۔ یہ وعدہ بھی سچا ہے جس طرح اللہ تمام معاملات میں سچا ہے۔ لہٰذا اللہ نے لوگوں کے ساتھ جو وعدہ کیا ہے وہ سچا ہے اور وہ پورا ہوگا جس طرح اللہ چاہتا ہے اور جس وقت وہ چاہے گا ایسا ہوگا۔ اللہ کی جانب سے اس پر کسی قسم کی ضرورت نہ تھی لیکن اللہ اپنی بعض مخلوقات کی قسم اس لئے اٹھاتا ہے کہ لوگ ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوں جیسا کہ پہلے بھی کیا گیا ، اور ان چیزوں کے اندر جو کمال تخلیق ہے اور ان کی تدبیر میں قدرت الٰہیہ جس طرح کام کررہی ہے اس پر غور وفکر کریں اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کریں کہ اللہ کا وعدہ حشرونشر برحق ہے کیونکہ اللہ کی اس تخلیق اور اس کے اس نظام کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ حشر ونشر ہو اور اس میں اچھائی اور برائی اور صلاح اور فساد پر لوگوں کا محاسبہ ہو کیونکہ اس کائنات کی ساخت کا یہ تقاضا ہے کہ یہ عبث نہیں ہے۔ نہ اتفاقاً وجود میں آگئی ہے۔ یوں یہ مخلوق جس کی قسم اٹھالی گئی ہے یہ اس قسم کی وجہ سے حشرونشر پر ایک دلیل وبرہان بن جاتی ہے اور انسان اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور انسانی احساس و شعور اس پر غور کرتا ہے۔ یہ قرآن مجید کی تعلیم وتربیت کا ایک انداز ہے۔ قرآن مجید انسانی فطرت کا کائناتی زبان میں براہ راست خطاب کرتا ہے اور یہ خطاب نہایت موثر ہوتا ہے۔

آیت 1{ وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا۔ } ”قسم ہے ان ہوائوں کی جو بکھیرنے والی ہیں جیسے کہ بکھیرا جاتا ہے۔“ ہوائیـں بہت سی چیزوں کو بکھیرتی ہیں۔ مثلاً پودوں کے پھولوں کے زردانے pollens ہوائوں کی مدد سے ایک پودے سے دوسرے تک پہنچ کر اسے بارور کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے درختوں کے بیج ہوائوں کے دوش پر سفر کرتے ہوئے دور دراز علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یوں ہوائیں پودوں کے پھلنے پھولنے اور جنگلات کے بڑھانے میں بھی مدد دیتی ہیں۔

خلیفۃ المسلمین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفے کے منبر پر چڑھ کر ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ قرآن کریم کی جس آیت کی بابت اور جس سنت رسول ﷺ کی بابت تم کوئی سوال کرنا چاہتے ہو کرلو۔ اس پر ابن الکواء نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ (ذاریات) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا، پوچھا (حاملات) سے ؟ فرمایا ابر۔ کہا (جاریات) سے ؟ فرمایا کشتیاں، کہا (مقسمات) سے ؟ فرمایا فرشتے اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے۔ بزار میں ہے (صبیغ) تمیمی امیر المومنین حضرت عمر کے پاس آیا اور کہا بتاؤ (ذاریات) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا۔ اور اسے اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہوا نہ ہوتا تو میں کبھی یہ مطلب نہ کہتا۔ پوچھا (مقسمات) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا فرشتے اور اسے بھی میں نے حضور ﷺ سے سن رکھا ہے۔ پوچھا (جاریات) سے کیا مطلب ہے ؟ فرمایا کشتیاں۔ یہ بھی میں نے اگر رسول اللہ ﷺ سے نہ سنا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا۔ پھر حکم دیا کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں چناچہ اسے درے مارے گئے اور ایک مکان میں رکھا گیا جب زخم اچھے ہوگئے تو بلوا کر پھر کوڑے پٹوائے، اور سوار کرا کر حضرت ابو موسیٰ کو لکھ بھیجا کہ یہ کسی مجلس میں نہ بیٹھنے پائے کچھ دنوں بعد یہ حضرت موسیٰ کے پاس آئے اور بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر انہیں یقین دلایا کہ اب میرے خیالات کی پوری اصلاح ہوچکی اب میرے دل میں بد عقیدگی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ چناچہ حضرت ابو موسیٰ نے جناب امیر المومنین کی خدمت میں اس کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ میرا خیال ہے کہ اب وہ واقعی ٹھیک ہوگیا ہے۔ اس کے جواب میں دربار خلافت سے فرمان پہنچا کہ پھر انہیں مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے۔ امام ابوبکر بزار فرماتے ہیں اس کے دو راویوں میں کلام ہے پس یہ حدیث ضعیف ہے۔ ٹھیک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث بھی موقوف ہے یعنی حضرت عمر کا اپنا فرمان ہے مرفوع حدیث نہیں۔ امیر المومنین نے اسے جو پٹوایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بد عقیدگی آپ پر ظاہر ہوچکی تھی اور اس کے یہ سوالات ازروئے انکار اور مخالفت کے تھے واللہ اعلم۔ صبیغ کے باپ کا نام عسل تھا اور اس کا یہ قصہ مشہور ہے جسے پورا پورا حافظ ابن عساکر لائے ہیں۔ یہی تفسیر حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حضرت مجاہد حضرت صعید بن جبیر حضرت حسن حضرت قتادہ حضرت سدی وغیرہ سے مروی ہے۔ امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم نے ان آیتوں کی تفسیر میں اور کوئی قول وارد ہی نہیں کیا حاملات سے مراد ابر ہونے کا محاورہ اس شعر میں بھی پایا جاتا ہے۔ واسلمت نفسی لمن اسلمت لہ المزن تحمل عذباز لالا یعنی میں اپنے آپ کو اس اللہ کا تابع فرمان کرتا ہوں جس کے تابع فرمان وہ بادل ہیں جو صاف شفاف میٹھے اور ہلکے پانی کو اٹھا کرلے جاتے ہیں جاریات سے مراد بعض نے ستارے لئے ہیں جو آسمان پر چلتے پھرتے رہتے ہیں یہ معنی لینے میں یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہوگی۔ اولًا ہوا پھر بادل پھر ستارے پھر فرشتے۔ جو کبھی اللہ کا حکم لے کر اترتے ہیں کبھی کوئی سپرد کردہ کام بجا لانے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ چونکہ یہ سب قسمیں اس بات پر ہیں کہ قیامت ضرور آنی ہے اور لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اس لئے ان کے بعد ہی فرمایا کہ تمہیں جو وعدہ دیا جاتا ہے وہ سچا ہے اور حساب کتاب جزا سزا ضرور واقع ہونے والی ہے۔ پھر آسمان کی قسم کھائی جو خوبصورتی رونق حسن اور برابری والا ہے بہت سے سلف نے یہی معنی (حبک) کے بیان کئے ہیں حضرت ضحاک وغیرہ فرماتے ہیں کہ پانی کی موجیں، ریت کے ذرے، کھیتیوں کے پتے ہوا کے زور سے جب لہراتے ہیں اور پر شکن لہرائے دار ہوجاتے ہیں اور گویا ان میں راستے پڑجاتے ہیں اسی کو حبک کہتے ہیں، ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تمہارے پیچھے کذاب بہکانے والا ہے اس کے سر کے بال پیچھے کی طرف سے حبک حبک ہیں یعنی گھونگر والے۔ ابو صالح فرماتے ہیں حبک سے مراد شدت والا خصیف کہتے ہیں مراد خوش منظر ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس کی خوبصورتی اس کے ستارے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اس سے مراد ساتواں آسمان ہے ممکن ہے آپ کا مطلب یہ ہو کہ قائم رہنے والے ستارے اس آسمان میں ہیں اکثر علماء ہیئت کا بیان ہے کہ یہ آٹھویں آسمان میں ہیں جو ساتویں کے اوپر ہے واللہ اعلم ان تمام اقوال کا ماحصل ایک ہی ہے یعنی حسن و رونق والا آسمان۔ اس کی بلندی، صفائی، پاکیزگی، بناوٹ کی عمدگی، اس کی مضبوطی، اس کی چوڑائی اور کشادگی، اس کا ستاروں کا جگمگانا، جن میں سے بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ٹھہرے ہوئے ہیں اس کا سورج اور چاند جیسے سیاروں سے مزین ہونا یہ سب اس کی خوبصورتی اور عمدگی کی چیزیں ہیں پھر فرماتا ہے اے مشرکو تم اپنے ہی اقوال میں مختلف اور مضطرب ہو تم کسی صحیح نتیجے پر اب تک خود اپنے طور پر بھی نہیں پہنچے ہو۔ کسی رائے پر تمہارا اجتماع نہیں، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان میں سے بعض تو قرآن کو سچا جانتے تھے بعض اس کی تکذیب کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے یہ حالت اسی کی ہوتی ہے جو خود گمراہ ہو۔ وہ اپنے ایسے باطل اقوال کی وجہ سے بہک اور بھٹک جاتا ہے صحیح سمجھ اور سچا علم اس سے فوت ہوجاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت (اِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيْمِ01603) 37۔ الصافات :163) یعنی تم لوگ مع اپنے معبودان باطل کے سوائے جہنمی لوگوں کے کسی کو بہکا نہیں سکتے حضرت ابن عباس اور سدی فرماتے ہیں اس سے گمراہ وہی ہوتا ہے جو خود بہکا ہوا ہو۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس سے دور وہی ہوتا ہے جو بھلائیوں سے دور ڈال دیا گیا ہے حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں قرآن سے وہی ہٹتا ہے جو اسے پہلے ہی سے جھٹلانے پر کم کس لئے ہو پھر فرماتا ہے کہ بےسند باتیں کہنے والے ہلاک ہوں یعنی جھوٹی باتیں بنانے والے جنہیں یقین نہ تھا جو کہتے تھے کہ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں حضرت معاذ بھی اپنے خطبے میں یہی فرماتے تھے، یہ دھوکے والے اور بدگمان لوگ ہیں پھر فرمایا جو لوگ اپنے کفر و شک میں غافل اور بےپرواہ ہیں۔ یہ لوگ ازروئے انکار پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن کب آئے گا ؟ اللہ فرماتا ہے اس دن تو یہ آگ میں تپائے جائیں گے جس طرح سونا تپایا جاتا ہے یہ اس میں جلیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ جلنے کا مزہ چکھو۔ اپنے کرتوت کے بدلے برداشت کرو۔ پھر ان کی اور زیادہ حقارت کے لئے ان سے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی جلدی مچا رہے تھے کہ کب آئے گا کب آئے گا، واللہ اعلم۔

آیت 1 - سورہ ذاریات: (والذاريات ذروا...) - اردو