سورة الدخان: آیت 9 - بل هم في شك يلعبون... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورة الدخان

بَلْ هُمْ فِى شَكٍّ يَلْعَبُونَ

اردو ترجمہ

(مگر فی الواقع اِن لوگوں کو یقین نہیں ہے) بلکہ یہ اپنے شک میں پڑے کھیل رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal hum fee shakkin yalAAaboona

آیت 9 کی تفسیر

اس حد تک قرآن کے مخاطبین کو متاثر کرنے اور جوش دلانے اور حق کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے بعد اب روئے سخن اچانک پھرتا ہے۔ اور تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا جاتا کہ اس عظیم کتاب کی اس سعی کے بعد ان لوگوں کی حالت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ان لوگوں کی جو تصویر کی گئی ہے اسے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن یہ لوگ اس قدر سنگ دل ہیں کہ اس قدر سنجیدہ کوششوں کے باوجود وہ ابھی تک اس تحریک کو مذاق ہی سمجھتے ہیں۔

آیت نمبر 9 تا 16

فرماتے ہیں کہ یہ تو اس قدر حکیمانہ اور عظیم الشان نظریہ اور نظام کے مقابلے میں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور ان نشانیوں میں شک کرتے ہیں جو ثابت شدہ ہیں لہٰذا ان کا صحیح علاج یہی ہے کہ ان کو اس دن کے لئے چھوڑ دیا جائے جو بہت ہی سخت اور اعصاب شکن ہوگا۔

فارتقب یوم ۔۔۔۔ مبین (44 : 10) یغشی الناس ھذا عذاب الیم (44 : 11) ربنا اکشف عنا العذاب انا مومنون (44 : 12) “ اچھا انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ ہے دردناک سزا ، “ پروردگار ہم پر سے عذاب ٹال دے ، ہم ایمان لاتے ہیں ”۔

سلف صالحین کے درمیان آیت دخان کی تفسیر میں اختلاف رہا ہے۔ بعض نے یہ کہا کہ یہ قیامت کے دن کا دھواں ہے ، یہ دھمکی جو دی گئی کہ اس کا انتظار کرو ، یہ ویسی ہی ہے جس طرح قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر عذاب قیامت کے انتظار کے لئے کہا جاتا ہے اور یہ تو آنے ہی والا ہے۔ لوگ بھی انتظار کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے بھی انتظار فرمایا لیکن بعض لوگوں کا خیال یہ تھا کہ یہ واقعہ عملاً گزر گیا ہے۔ جس طرح قرآن نے دھمکی دی ہے اور پھر جب آیا تو مشرکین حضور ﷺ کے پاس آئے۔ آپ نے دعا فرمائی اور یہ عذاب دور ہوگیا۔ یہاں ہم دونوں اقوال اور ان کی سند نقل کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنا تبصرہ کریں گے۔

سلیمان ابن مہران الاعمش نے روایت کی ہے۔ ابو الضحی مسلم ابن صبیح سے انہوں نے مسروق سے ، یہ کہتے ہیں کہ میں ابواب کندہ کے پاس کوفہ کی ایک مسجد میں داخل ہوا ، ایک شخص اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ بیان کر رہا تھا۔

فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین (44 : 10) “ اچھا انتطار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لئے ہوئے آئے گا ”۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ دھواں کیا ہے ؟ یہ ایک دھواں ہے جو قیامت کے دن آئے گا۔ اس سے منافقین اور کفار اندھے اور بہرے ہوجائیں گے۔ اور مومنین پر صرف اس قدر اثر ہوگا جس طرح زکام ہوجاتا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم ابن مسعود ؓ کے پاس آئے۔ یہ بات ہم نے ان سے ذکر کی۔ اس وقت یہ تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے ، پریشان ہو کر اٹھ بیٹھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے نبی ؐ سے کہا :

قل ما اسئلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ، اور نہ ہی مجھے تمہارے ہدایت کا مکلف بنایا گیا ہے ”۔ یہ بھی بہت بڑے علم کی دلیل ہے کہ اگر کسی کو کوئی بات معلوم نہ ہو تو کہے ، واللہ اعلم ! اس کے بارے میں ، میں تمہیں اصل بات بتاتا ہوں۔ جب قریش نے کسی صورت میں اسلام قبول نہ کیا تو حضور ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ان پر ایسے سال لے آیا جو یوسف (علیہ السلام) کے دور میں مصر میں آئے تھے۔ چناچہ ان پر جہدو مشقت اور بھوک اور پیاس کے دن آگئے یہاں تک کہ انہوں نے ہڈیاں کھانا شروع کردیں۔ اور مردار بھی کھانے لگے۔ ایسے حالات ہوگئے کہ وہ آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے اور انہیں دھواں ہی دھواں نظر آتا اور بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں کہ ایک شخص کی طرف نظریں اٹھاتا اور اسے فضا یوں نظر آتی جس طرح دھواں ہو ، اور یہ بدحالی کی وجہ سے ۔ اس کے بارے میں اللہ نے فرمایا :

فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین (44 : 10) یغشی الناس ھذا عذاب الیم (44 : 11) “ انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لئے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ ہے دردناک سزا ”۔ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے کہا گیا رسول اللہ سے مضر عربوں کے لئے دعا مانگیں ، کیونکہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کے لئے باران رحمت کی دعا مانگی اور بارش ہوئی۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

انا کاشفوا العذاب قلیلا انکم عائدون (44 : 15) “ ہم ذرا عذاب ہٹا دیتے ہیں ، تم لوگ پھر ہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے ”۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے مزید کہا کیا یہ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے دن پر ان پر سے عذاب اٹھایا جائے۔ غرض جب ان کو پھر خوشحالی ملی تو وہ اسی پرانی روش کی طرف لوٹ آئے۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

یوم نبطش البطشۃ الکبری انا منتقمون (44 : 16) “ جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے ”۔ اس سے مراد یوم بدر ہے۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ پانچ چیزیں گزریں : دھواں ، روم ، شق قمر ، بطشہ الکبریٰ اور لزام۔ یہ حدیث صحیحین میں مروی ہے۔ امام احمد نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ ترمذی اور نسائی نے بھی کتاب التفسیر میں دی ہے۔ ابن جریر اور ابن ابو حاتم نے اعمش سے متعدد طرق سے نقل کی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن مسعود سے ایک جماعت نے اتفاق کیا ہے کہ دخان کا واقعہ چلا گیا ہے۔ مثلاً مجاہد ، ابو العالیہ ، ابراہیم نخعی ، ضحاک اور عطیہ عوفی اور یہی تفسیر ابن جریر نے اختیار کی ہے۔

لیکن دوسرے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ دخان کا واقعہ گزرا نہیں ہے بلکہ یہ قیامت کی علامات میں سے ہو کر آئے اور ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی جب تک دس نشانیاں نہ ظاہر ہوجائیں : (1) سورج کا مغرب سے طلوع ، (2) دخان ، (3) دابہ ، (4) یا جوج وماجوج کا خروج ، (5) عیسیٰ ابن مریم کا خروج ، (6) دجال ، (7) تین چاند گرہن ، (8) مشرق میں زمین کا دھنسنا ، (9) مغرب میں زمین کا دھنسنا ، (10) جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسنا۔ ایک آگ عدن کی گہرائیوں سے نکلے گی۔ یہ لوگوں کو چلائے گی یا لوگوں کو اٹھائے گی جہاں یہ رات کو ہوں گے وہیں یہ بھی ہوگی جہاں یہ دن کو آرام کریں گے ، یہ بھی آرام کرے گی۔ (مسلم )

علامہ ابن جریر نے روایت کی ہے۔ محمد ابن عوف سے انہوں نے محمد ابن اسماعیل ابن عیاش سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ضیغم ابن زرعہ سے انہوں نے سریج ابن عبید سے اور انہوں نے حضرت مالک اشعری ؓ سے کہ وہ فرماتے ہیں ، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے بیشک تمہارے رب نے تمہیں تین باتوں سے ڈرایا ہے۔ دھواں جو مسلمان کو زکام کی طرح متاثر کرے گا اور کافر پر اثر یہ ہوگا کہ وہ اس سے پھول جائے گا اور وہ اس کی ہر سننے کی جگہ سے نکلے گا۔ دوسری دابتہ الارض اور تیسرا دجال ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ہاشم ابن یزید سے نقل کیا ہے۔ اور اس نے محمد ابن اسماعیل ابن عیاش سے اسی متن کے ساتھ (ابن کثیر نے کہا یہ سند جید ہے) ۔

ابن جریر نے روایت کی ہے ، یعقوب سے ، انہوں نے ابن علیہ سے انہوں نے ابن جریج سے انہوں نے عبد اللہ ابن ابو ملیکہ سے ، انہوں نے کہا کہ میں ایک دن سویرے حضرت ابن عباس ؓ کے پاس گیا ، تو انہوں نے فرمایا کہ میں آج رات صبح تک بالکل نہیں سویا۔ میں نے پوچھا یہ کیوں ! آج ایک دمدار ستارہ طلوع ہوا تو مجھے یہ خوف لاحق ہوگیا کہ شاید دھویں کا وقت آگیا ، اس وقت سے میں صبح تک نہیں سویا۔ ابن ابو حاتم نے اپنے باپ سے ، انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے سفیان سے انہوں نے عبد اللہ بن ابو یزید سے ، عبد اللہ بن ابو ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ، اسی طرح روایت کی ہے۔

علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔ یہ سند حضرت ابن عباس تک صحیح ہے ، جو اس امت سے بڑے عالم ہیں اور ترجمان القرآن ہیں۔ اور یہی قول اپنایا ہے ، صحابہ وتابعین میں سے ان لوگوں نے جنہوں نے ان سے اتفاق کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں کئی مرفوع اور حسن احادیث بھی انہوں نے پیش کی ہیں جن سے پوری تسلی ہوجاتی ہے کہ یہ دھواں جس کا یہاں ذکر ہے یہ ان نشانیوں میں سے ہے جن کا انتظار ہے اور قرآن کریم کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے۔ اللہ نے فرمایا :

فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین (44 : 10) “ انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا ”۔ یعنی دھواں بالکل واضح ہوگا اور اسے ہر شخص دیکھ سکے گا اور حضرت ابن مسعود نے جو روایت کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی تخیل تھا اور لوگ بھوک اور مشقت کی وجہ سے وھواں دیکھ رہے تھے۔ پھر یغشی الناس (44 : 11) “ وہ ولوگوں پر چھا جائے گا ”۔ یعنی ان کو ڈھانپ کر اندھا کر دے گا۔ اگر یہ ایک خیال معاملہ تھا اور صرف اہل مکہ نے اسے محسوس کیا تھا تو پھر یغشی الناس کا لفظ استعمال نہ ہوتا۔ پھر آگے ہے۔

ھذا عذاب الیم (44 : 11) “ یہ ہے دردناک عذاب ”۔ یعنی ان سے یہ کہا جائے گا ، بطور سرزنش و ملامت کے جس طرح دوسری جگہ ہے۔

یوم یدعون الی نار جھنم دعا (52 : 13) ھذہ النار التی کنتم بھا تکذبون (52 : 14) “ جس دن انہیں دکھے مار مار کر نار جہنم کی طرف چلایا جائے گا اس وقت ان سے کہا جائے گا ، یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے ”۔

ہو سکتا ہے کہ وہ خود ایک دوسرے سے یہ بات کہیں گے کہ یہ عذاب الیم ہے اور اس کے بعد آیت۔

ربنا اکشف عنا العذاب انا مومنون (44 : 12) “ پروردگار ، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے ، ہم ایمان لاتے ہیں ”۔ یعنی کافر یہ کہیں گے جب انہوں نے دیکھ لیا کہ عذاب الٰہی آگیا اور یہ تو سزا ہے ۔ تو وہ سوال کریں گے کہ اے رب اس عذاب کو ٹال دے ، جس طرح دوسری جگہ اللہ نے فرمایا :

ولو تری اذ ۔۔۔۔ من المومنین (6 : 27) “ کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے ، اس وقت وہ کہیں گے کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ”۔ اور اسی طرح اس آیت میں بھی یہی مضمون ہے۔

وانذر الناس یوم ۔۔۔۔۔ من زوال ۔ “ اے نبی اس دن سے تم انہیں ڈرا دو جبکہ عذاب انہیں آلے گا۔ اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ اے ہمارے رب ، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے ، ہم تیری دعوت کو لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے ”۔ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو ابھی سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے ”۔ زیر بحث آیت سے اگلی آیت میں اللہ فرماتا ہے۔

انی لھم الذی وقد جاءتھم رسول مبین (44 : 13) ثم تولوا ۔۔۔۔ مجنون (44 : 14) “ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے ان کا حال تو یہ تھا کہ ان کے پاس رسول امین آیا تھا۔ یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا “ یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے ” ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کس طرح یاددہانی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، ہم نے ان کی طرف رسول بھیجا ، جس نے واضح طور پر ان کے سامنے دعوت پیش کی۔ ان کو ڈرایا ، اس کے باوجود انہوں نے منہ پھیرلیا۔ اور انہوں نے اس کی کوئی بات نہ مانی بلکہ تکذیب کی اور کہا کہ یہ تو سکھایا ہوا مجنون ہے۔

اس کی مثال بھی قرآن کریم میں ہے۔

یومئذ یتذکر الانسان وانی لہ الذکری (89 : 23) “ اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل ”۔ اور اسی طرح ایک دوسری آیت میں ہے۔

ولو تری اذ ۔۔۔۔۔ مکان قریب (34 : 51) وقالوا امنا ۔۔۔۔۔ مکان بعید (34 : 53) “ کاش تم دیکھ سکو ، انہیں اس وقت جب یہ لوگ گھبرائے پھر رہے ہوں گے اور کہیں بچ کر نہ جاسکیں گے بلکہ قریب ہی سے پکڑے جائیں گے۔ اس وقت یہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے حالانکہ اب دور نکلی ہوئی چیز کہاں ہاتھ آسکتی ہے۔ مذکورہ بالا آیت نمبر 14 کے بعد یہ آیت آتی ہے :

انا کاشفوا العذاب قلیلا انکم عائدون (44 : 15) “ ہم عذاب ذرا ہٹا دینے والے ہیں مگر تم پھر وہی کرو گے جو پہلے کر رہے تھے ”۔ اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اگر ہم عذاب کو ہٹا دیں اور تمہیں پھر دنیا میں لوٹا دیں تو تم نے پھر وہی کچھ کرتا ہے جو پہلے کیا ، یعنی کفرو تکذیب اور اس کی مثال دوسری آیات میں بھی ہے۔

ولو رحمنھم ۔۔۔۔۔ طغیانھم یعمھون (23 : 75)

“ اگر ہم ان پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج یہ مبتلا ہیں ، دور کردیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے ”۔ اور جس طرح دوسری آیت میں ہے :

ولو ردوا ۔۔۔۔ لکذبون (6 : 28) “ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا اور وہ تو ہیں ہی جھوٹے ”۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے ، ہم تم سے عذاب کو عملاً روکے رکھتے ہیں یا روکے رکھنے والے ہیں حالانکہ تم سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے چلے جاتے ہو۔ کیونکہ کشف عذاب کے لئے لازم نہیں ہے کہ عملاً ان پر عذاب آبھی گیا ہو۔ دوسری جگہ اللہ نے فرمایا :

الا قوم یونس ۔۔۔۔۔ الی حین (10 : 98) “ ماسوائے قوم یونس کے کہ وہ جب ایمان لائے تو ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقعہ دے دیا تھا ”۔ حالانکہ ابھی عذاب نے ان کو چھوا نہیں تھا بلکہ عذاب کے اسباب فراہم ہوگئے تھے۔ قتادہ نے تو یہ معنی لیے ہیں کہ تم عذاب الٰہی کی طرف لوٹنے والے ہو ، آگے آیت ہے۔

یوم نبطش البطشۃ الکبری انا منتقمون (44 : 16) “ جس روز ہم پکڑ دھکڑ کریں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے ”۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس کی تفسیر بدرکبریٰ سے کی ہے اور یہ قول کچھ دوسرے لوگوں بھی اختیار کیا ہے جنہوں نے ابن مسعود کے ساتھ اتفاق رائے کیا ہے۔ اور یہی تفسیر حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے۔ ان سے یہ روایت عوفی نے نقل کی ہے اور یہی رائے حضرت ابی ابن کعب کی ہے اور اس کا احتمال بھی ہے لیکن ظاہر بات یہی ہے کہ اس سے بھی مراد یوم القیامہ ہے۔ اگرچہ یوم بدر کفار کے لئے بھی بڑی پکڑ کا دن تھا۔ ابن جریر نے روایت کی ہے ، یعقوب سے انہوں نے ابن علیہ سے انہوں نے خالد حذاء سے انہوں عکرمہ سے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا “ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں بطشۃ الکبریٰ سے بدر کا دن مراد ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ قیامت کا دن ہے ”۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ حسن بصری اور عکرمہ بمطابق صحیح روایت اسی کے قائل ہیں ”۔ یہاں ابن کثیر کا کلام ختم ہوا۔

ہم یہاں حضرت ابن عباس کا قول اختیار کرتے ہیں کہ دخان قیامت کے دن ہوگا۔ اور اس کی تفسیر علامہ ابن کثیر نے بہت اچھی کی ہے۔ یہ کفار کے لئے تہدید اور ڈراوا ہے اور اس کے نظائر قرآن کریم میں بہت ہیں۔ جن کے مطابق یہی مفہوم دوسرے مقامات پر بھی دہرایا گیا ہے۔ اس طرح مفہوم یہ ہوگا یہ لوگ شک کرتے ہیں اور کھیل کود میں مصروف ہیں ، ان کو چھوڑ دیں اور اس دن کا ، خوفناک دن کا انتظار کریں ، جب آسمان سے دھواں آئے گا ، تمام لوگوں کو ڈھانپ لے گا اور یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے عذاب الیم۔ اور پھر ان کی فریاد کی تصویر کشی کی گئی کہ اے ہمارے رب ، اس عذاب کو ہم سے دور کر دے ہم ایمان لاتے ہیں اور ان کی اس درخواست کو رد کردیا جاتا ہے کہ اس کی منظوری محال ہے کیونکہ وقت چلا گیا ہے۔ اب یہ نصیحت بھی پاسکتے ہیں ، ان کے پاس تو رسول مبین آگیا تھا اور یہ اس وقت یہ کہتے ہوئے منہ موڑ گئے تھے کہ یہ سکھایا ہوا جادوگر ہے۔ اسے یہ سب کچھ ایک عجمی غلام سکھا رہا ہے۔ اور یہ باطل ہے۔

اس منظر میں جہاں یہ لوگ عذاب کے ٹلنے کی درخواست کرتے ہیں ، ان سے بطور جملہ معترضہ یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو ابھی تو تم دنیا میں ہو۔ فرصت کے قلیل لمحات موجود ہیں اور ابھی تو عذاب سے بچے ہوئے ہو ، ایمان لے آؤ، تمہیں ڈرایا جارہا ہے کہ تم ہی ہوگے جو آخرت میں ایمان لانے پر آمادہ ہوگے مگر وہاں ایمان قبول نہ ہوگا۔ ابھی تو تم امن و عافیت میں ہو اور یہ امن و عافیت دائمی نہیں ہے۔ تم ہمارے سامنے آنے والے (عائدون ) ہو۔

یوم نبطش البطشۃ الکبری (44 : 16) “ جس دن یہ دھواں ہوگا جس کی تصویر کشی قرآن کر رہا ہے اور پکڑ دھکڑ ہوگی تو انا منتقمون (44 : 16) “ تو ہم انتقام لیں گے ”۔ تمہاری اس لاپرواہی کا ، تمہاری اس بہتان طرازی کا ، جو تم رسول اللہ ﷺ پر کرتے ہو اور کہتے ہو ، معلم مجنون (44 : 14) “ سکھایا پڑھایا مجنون ہے ” حالانکہ وہ صادق و امین ہے۔

اس طرح تمام آیات کی تفسیر درست ہوجاتی ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق ۔ واللہ اعلم !

٭٭٭٭

اس کے بعد قرآن مجید ان کو تاریخ کی ایک وادی میں لے جاتا ہے۔ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا ایک مختصر حصہ ہے اور اس کا خاتمہ اس زمین پر ایک عظیم پکڑ نبطش البطشۃ الکبری (44 : 16) کا نمونہ ہے۔ اس سے قبل جس کا نمونہ ان کو دخان کی نقشہ کشی میں بتا دیا گیا تھا۔

آیت 9 { بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ یَّلْعَبُوْنَ } ”لیکن یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔“ رسول اللہ ﷺ جب اہل ِمکہ ّکے سامنے قرآن پیش کرتے تھے تو ان میں سے اکثر لوگ اسے کلام اللہ ماننے کے بجائے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے تھے۔ پھر اسی بنا پر وہ حضور ﷺ کا مذاق بھی اڑاتے تھے کہ دیکھیں جی ! یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔

دھواں ہی دھواں اور کفار فرماتا ہے کہ حق آچکا اور یہ شک شبہ میں اور لہو لعب میں مشغول و مصروف ہیں انہیں اس دن سے آگاہ کر دے جس دن آسمان سے سخت دھواں آئے گا حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ کوفے کی مسجد میں گئے جو کندہ کے دروازوں کے پاس ہے تو دیکھا کہ ایک حضرت اپنے ساتھیوں میں قصہ گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس دھوئیں کا ذکر ہے اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کے دن منافقوں کے کانوں اور آنکھوں میں بھر جائے گا اور مومنوں کو مثل زکام کے ہوجائے گا۔ ہم وہاں سے جب واپس لوٹے اور حضرت ابن مسعود سے اس کا ذکر کیا تو آپ لیٹے لیٹے بےتابی کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمانے لگے اللہ عزوجل نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے میں تم سے اس پر کوئی بدلہ نہیں چاہتا اور میں تکلف کرنے والوں میں نہیں ہوں۔ یہ بھی علم ہے کہ انسان جس چیز کو نہ جانتا ہو کہہ دے کہ اللہ جانے سنو میں تمہیں اس آیت کا صحیح مطلب سناؤں جب کہ قریشیوں نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی اور حضور ﷺ کو ستانے لگے تو آپ نے ان پر بددعا کی کہ یوسف کے زمانے جیسا قحط ان پر آپڑے۔ چناچہ وہ دعا قبول ہوئی اور ایسی خشک سالی آئی کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار چبانا شروع کیا۔ اور آسمان کی طرف نگاہیں ڈالتے تھے تو دھویں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ بوجہ بھوک کے ان کی آنکھوں میں چکر آنے لگے جب آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو درمیان میں ایک دھواں نظر آتا۔ اسی کا بیان ان دو آیتوں میں ہے۔ لیکن پھر اس کے بعد لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ہلاکت کی شکایت کی۔ آپ کو رحم آگیا اور آپ نے جناب باری تعالیٰ میں التجا کی چناچہ بارش برسی اسی کا بیان اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ عذاب کے ہٹتے ہی پھر کفر کرنے لگیں گے۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ یہ دنیا کا عذاب ہے کیونکہ آخرت کے عذاب تو ہٹتے کھلتے اور دور ہوتے نہیں۔ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ پانچ چیزیں گذر چکیں۔ دخان، روم، قمر، بطشہ، اور لزام (صحیحین) یعنی آسمان سے دھوئیں کا آنا۔ رومیوں کا اپنی شکست کے بعد غلبہ پانا۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونا بدر کی لڑائی میں کفار کا پکڑا جانا اور ہارنا۔ اور چمٹ جانے والا عذاب بڑی سخت پکڑ سے مراد بدر کے دن لڑائی ہے حضرت ابن مسعود، نخعی، ضحاک، عطیہ، عوفی، وغیرہ کا ہے اور اسی کو ابن جریر بھی ترجیح دیتے ہیں۔ عبدالرحمن اعرج سے مروی ہے کہ یہ فتح مکہ کے دن ہوا۔ یہ قول بالکل غریب بلکہ منکر ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں یہ گذر نہیں گیا بلکہ قرب قیامت کے آئے گا۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ صحابہ قیامت کا ذکر کر رہے تھے اور حضور ﷺ آگئے۔ تو آپ نے فرمایا جب تک دس نشانات تم نہ دیکھ لو قیامت نہیں آئے گی سورج کا مغرب سے نکلنا، دھواں، یاجوج ماجوج کا آنا، مشرق مغرب اور جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسایا جانا، آگ کا عدن سے نکل کر لوگوں کو ہانک کر ایک جا کرنا۔ جہاں یہ رات گذاریں گے آگ بھی گذارے گی اور جہاں یہ دوپہر کو سوئیں گے آگ بھی قیلولہ کرے گی۔ (مسلم) بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابن صیاد کے لئے دل میں آیت (فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ 10 ۙ) 44۔ الدخان :10) چھپا کر اس سے پوچھا کہ بتا میں نے اپنے دل میں کیا چھپا رکھا ہے ؟ اس نے کہا (دخ) آپ نے فرمایا بس برباد ہو اس سے آگے تیری نہیں چلنے کی۔ اس میں بھی ایک قسم کا اشارہ ہے کہ ابھی اس کا انتظار باقی ہے اور یہ کوئی آنے والی چیز ہے چونکہ ابن صیاد بطور کاہنوں کے بعض باتیں دل کی زبان سے بتانے کا مدعی تھا اس کے جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لئے آپ نے یہ کیا اور جب وہ پورا نہ بتا سکا تو آپ نے لوگوں کو اس کی حالت سے واقف کردیا کہ اس کے ساتھ شیطان ہے کلام صرف چرا لیتا ہے اور یہ اس سے زیادہ پر قدرت نہیں پانے کا۔ ابن جریر میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے اولین نشانیاں یہ ہیں۔ دجال کا آنا اور عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کا نازل ہونا اور آگ کا بیچ عدن سے نکلنا جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی قیلولے کے وقت اور رات کی نیند کے وقت بھی ان کے ساتھ رہے گی اور دھویں کا آنا۔ حضرت حذیفہ نے سوال کیا کہ حضور ﷺ دھواں کیسا ؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ دھواں چالیس دن تک گھٹا رہے گا جس سے مسلمانوں کو تو مثل نزلے کے ہوجائے گا اور کافر بیہوش و بدمست ہوجائے گا اس کے نتھنوں سے کانوں سے اور دوسری جگہ سے دھواں نکلتا رہے گا۔ یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو پھر دخان کے معنی مقرر ہوجانے میں کوئی بات باقی نہ رہتی۔ لیکن اس کی صحت کی گواہی نہیں دی جاسکتی اس کے راوی رواد سے محمد بن خلف عسقلانی نے سوال کیا کہ کیا سفیان ثوری سے تو نے خود یہ حدیث سنی ہے ؟ اس نے انکار کیا پوچھا کیا تو نے پڑھی اور اس نے سنی ہے ؟ کہا نہیں۔ پوچھا اچھا تمہاری موجودگی میں اس کے سامنے یہ حدیث پڑھی گئی ؟ کہا نہیں کہا پھر تم اس حدیث کو کیسے بیان کرتے ہو ؟ کہا میں نے تو بیان نہیں کی میرے پاس کچھ لوگ آئے اس روایت کو پیش کی پھر جا کر میرے نام سے اسے بیان کرنی شروع کردی بات بھی یہی ہے یہ حدیث بالکل موضوع ہے ابن جریر اسے کئی جگہ لائے ہیں اور اس میں بہت سی منکرات ہیں خصوصًا مسجد اقصیٰ کے بیان میں جو سورة بنی اسرائیل کے شروع میں ہے واللہ اعلم۔ اور حدیث میں ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تین چیزوں سے ڈرایا، دھواں جو مومن کو زکام کر دے گا اور کافر کا تو سارا جسم پھلا دے گا۔ روئیں روئیں سے دھواں اٹھے گا دابتہ الارض اور دجال۔ اس کی سند بہت عمدہ ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں دھواں پھیل جائے گا مومن کو تو مثل زکام کے لگے گا اور کافر کے جوڑ جوڑ سے نکلے گا یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری کے قول سے بھی مروی ہے اور حضرت حسن کے اپنے قول سے بھی مروی ہے حضرت علی فرماتے ہیں دخان گذر نہیں گیا بلکہ اب آئے گا۔ حضرت ابن عمر سے دھویں کی بابت اوپر کی حدیث کی طرح روایت ہے ابن ابی ملکیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت حضرت ابن عباس کے پاس گیا۔ تو آپ فرمانے لگے رات کو میں بالکل نہیں سویا میں نے پوچھا کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ لوگوں سے سنا کہ دم دار ستارہ نکلا ہے تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہی دخان نہ ہو پس صبح تک میں نے آنکھ سے آنکھ نہیں ملائی۔ اس کی سند صحیح ہے اور (حبرالامتہ) ترجمان القرآن حضرت ابن عباس کے ساتھ صحابہ اور تابعین بھی ہیں اور مرفوع حدیثیں بھی ہیں۔ جن میں صحیح حسن اور ہر طرح کی ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ دخان ایک علامت قیامت ہے جو آنے والی ہے ظاہری الفاظ قرآن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ قرآن نے اسے واضح اور ظاہر دھواں کہا ہے جسے ہر شخص دیکھ سکے اور بھوک کے دھوئیں سے اسے تعبیر کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ وہ تو ایک خیالی چیز ہے بھوک پیاس کی سختی کی وجہ سے دھواں سا آنکھوں کے آگے نمودار ہوجاتا ہے جو دراصل دھواں نہیں اور قرآن کے الفاظ ہیں آیت (دخان مبین) کے۔ پھر یہ فرمان کہ وہ لوگوں کو ڈھانک لے گی یہ بھی حضرت ابن عباس کی تفسیر کی تائید کرتا ہے کیونکہ بھوک کے اس دھوئیں نے صرف اہل مکہ کو ڈھانپا تھا نہ کہ تمام لوگوں کو پھر فرماتا ہے کہ یہ ہے المناک عذاب یعنی ان سے یوں کہا جائے گا جیسے اور آیت میں ہے (يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا 13؀ۭ) 52۔ الطور :13) ، جس دن انہیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلا رہے تھے یا یہ مطلب کہ وہ خود ایک دوسرے سے یوں کہیں گے کافر جب اس عذاب کو دیکھیں گے تو اللہ سے اس کے دور ہونے کی دعا کریں گے جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀) 6۔ الانعام :27) ، یعنی کاش کے تو انہیں دیکھتا جب یہ آگ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے کاش کے ہم لوٹائے جاتے تو ہم اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور باایمان بن کر رہتے اور آیت میں ہے لوگوں کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا اس دن گنہگار کہیں گے پروردگار ہمیں تھوڑے سے وقت تک اور ڈھیل دے دے تو ہم تیری پکار پر لبیک کہہ لیں اور تیرے رسولوں کی فرمانبرداری کرلیں پس یہاں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے لئے نصیحت کہاں ؟ ان کے پاس میرے پیغامبر آچکے انہوں نے ان کے سامنے میرے احکام واضح طور پر رکھ دئیے لیکن ماننا تو کجا انہوں نے پرواہ تک نہ کی بلکہ انہیں جھوٹا کہا ان کی تعلیم کو غلط کہا ان کی تعلیم کو غلط کہا اور صاف کہہ000دیا کہ یہ تو سکھائے پڑھائے ہیں، انہیں جنوں ہوگیا ہے جیسے اور آیت میں ہے اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا لیکن اب اس کے لئے نصیحت کہاں ہے ؟ اور جگہ فرمایا ہے آیت (وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 52؀ښ) 34۔ سبأ :52) ، یعنی اس دن عذابوں کو دیکھ کر ایمان لانا سراسر بےسود ہے پھر جو ارشاد ہوتا ہے اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ اگر بالفرض ہم عذاب ہٹا لیں اور تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں تو بھی تم پھر وہاں جا کر یہی کرو گے جو اس سے پہلے کر کے آئے ہو جیسے فرمایا آیت (وَلَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجُّوْا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ 75؀) 23۔ المؤمنون :75) ، یعنی اگر ہم ان پر رحم کریں اور برائی ان سے ہٹا لیں تو پھر یہ اپنی سرکشی میں آنکھیں بند کر کے منہمک ہوجائیں گے اور جیسے فرمایا آیت (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ 28؀) 6۔ الانعام :28) ، یعنی اگر یہ لوٹائے جائیں تو قطعًا دوبارہ پھر ہماری نافرمانیاں کرنے لگیں گے اور محض جھوٹے ثابت ہوں گے۔ دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اگر عذاب کے اسباب قائم ہو چکنے اور عذاب آجانے کے بعد بھی گو ہم اسے کچھ دیر ٹھہرا لیں تاہم یہ اپنی بد باطنی اور خباثت سے باز نہیں آنے کے اس سے یہ لازم آتا کہ عذاب انہیں پہنچا اور پھر ہٹ گیا جیسے قوم یونس کی حضرت حق تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قوم یونس جب ایمان لائی ہم نے ان سے عذاب ہٹا لیا۔ گویا عذاب انہیں ہونا شروع نہیں ہوا تھا ہاں اس کے اسباب موجود و فراہم ہوچکے تھے ان تک اللہ کا عذاب پہنچ چکا تھا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ اپنے کفر سے ہٹ گئے تھے پھر اس کی طرف لوٹ گئے۔ چناچہ حضرت شعیب اور ان پر ایمان لانے والوں سے جب قوم نے کہا کہ یا تو تم ہماری بستی چھوڑ دو یا ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ تو جواب میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ گو ہم اسے برا جانتے ہوں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے رکھی ہے پھر بھی اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں تو ہم سے بڑھ کر جھوٹا اور اللہ کے ذمے بہتان باندھنے والا اور کون ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ حضرت شعیب ؑ نے اس سے پہلے بھی کبھی کفر میں قدم نہیں رکھا تھا اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ تم لوٹنے والے ہو۔ اس سے مطلب اللہ کے عذاب کی طرف لوٹنا ہے بڑی اور سخت پکڑ سے مراد جنگ بدر ہے حضرت ابن مسعود اور آپ کے ساتھ کی وہ جماعت جو دخان کو ہوچکا مانتی ہے وہ تو (بطشہ) کے معنی یہی کرتی ہے بلکہ حضرت ابن عباس سے حضرت ابی بن کعب سے ایک اور جماعت سے یہی منقول ہے گو یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے لیکن بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن کی پکڑ ہے گو بدر کا دن بھی پکڑ کا اور کفار پر سخت دن تھا ابن جریر میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ گو حضرت ابن مسعود اسے بدر کا دن بتاتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس سے مراد قیامت کا دن ہے اس کی اسناد صحیح ہے حضرت حسن بصری اور عکرمہ سے بھی دونوں روایتوں میں زیادہ صحیح روایت یہی ہے واللہ اعلم۔

آیت 9 - سورة الدخان: (بل هم في شك يلعبون...) - اردو