سورة آل عمران: آیت 8 - ربنا لا تزغ قلوبنا بعد... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورة آل عمران

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ

اردو ترجمہ

وہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ: "پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana la tuzigh quloobana baAAda ith hadaytana wahab lana min ladunka rahmatan innaka anta alwahhabu

آیت 8 کی تفسیر

جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں ان کا اپنے رب کے ساتھ یہ تعلق ہے ‘ اور یہ ایسا تعلق ہے جو ایک صحیح مومن کا ہونا چاہئے ‘ جو اللہ کے کلام اور اللہ کے عہد پر پورا بھروسہ ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ وہ اللہ کے فضل و رحمت کے صحیح شعور کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے ‘ خصوصاً اس وقت جب ایک مومن اللہ کی قضا وقدر پر پختہ یقین بھی رکھتا ہو اور اللہ کا خوف بھی اس کے دل میں موجزن ہو۔ اور ایک مومن نہ غافل ہوتا ہے ‘ نہ مغرور ہوتا ہے ‘ نہ اپنے روز وشب میں کبھی اپنے فرائض بھولتا ہے۔

قلب مومن کی ضلالت اور گمراہی کے بعد دولت ایمان ملنے کی بڑی قدر دانی ہوتی ہے ۔ اور کسی دھندلے تصور کے بعد اپنی آنکھوں سے حقیقت کو دیکھ لینے کی اس کے دل میں بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ اور حیرانی و پریشانی کے کے بعد راہ راست پانے سے اسے شعور ہوتا ہے ۔ خلجان اور بےیقینی کے بعد اطمینان پانے پر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے ‘ وہ دنیا کی تمام غلامیوں سے آزاد ہوکر ایک اللہ کی غلامی میں داخل ہوکر پر مسرت ہوتا ہے اور اسے یہ شعور ہوتا ہے کہ دولت ایمان دیکر اللہ تعالیٰ نے اسے بہت کچھ دیدیاہے……………اس لئے وہ دوبارہ گمراہی کی راہ سے بہت ہی ڈرتا ہے ‘ چونکہ وہ راہ راست پر آچکا ہوتا ہے اس لئے دوبارہ گمراہی کے نشیب و فراز اور تاریک راہوں میں پھنس جانے سے بہت خوف کھاتا ہے ‘ وہ یوں ڈرتا ہے جس طرح وہ شخص جو ایک خوش گوار موسم میں گھنی چھاؤں میں بیٹھا ہو تو جھلسادینے والی گرمی اور بےآب وگیاہ صحرا کے تصور سے بھی ڈر رہا ہو ‘ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی قدر اور ذوق یقین وہی شخص پاسکتا ہے جس نے بدبختی کے کڑے دن اور الحاد وزندگی کی ذہنی خشکی کے دن دیکھے ہوں ۔ ایسا ہی شخص اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ بےدینی گمراہی اور فسق وفجور کی زندگی کے مقابلے میں ایمانی زندگی کے اندر کس قدر مٹھاس ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے مقامات پر ایک مومن ایسے خضوع وخشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا……………” اے ہمارے رب ! راہ ہدایت دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کردیجیو۔ “ یہ پکارتے ہیں کہ انہیں گمراہی کے بعد ایک عظیم رحمت مل گئی ہے ۔ کہیں وہ لٹ نہ جائے ‘ یہ ایک ایسا انعام ہے جس سے بڑا کوئی انعام نہیں ہے ۔

وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ……………” ہمیں اپنے خزانہ غیب سے رحمت عطاکر تو ہی فیاض حقیقی ہے۔ “ یعنی یہ لوگ اپنے شعور ایمان کے ذریعہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے فضل و رحمت کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔ خود ان کے دل بھی ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں ۔ اس لئے وہ اپنی ہدایت اور نجات اخروی کے لئے بھی اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں۔

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ اکثر اوقات یہ دعا فرمایا کرتے تھے ۔” تمام دل اللہ رحمان کی دوانگلیوں کی گرفت میں ہیں ‘ جب وہ دلوں کو سیدھا کرنا چاہے تو سیدھا کردیتا ہے۔ اور جب وہ ٹیڑھا کرنا چاہے تو وہ ٹیڑھا کردیتا ہے۔ “ اور جب ایک مومن کو صحیح طرح اس بات کا شعور حاصل ہوتا ہے تو وہ نہایت گرم جوشی کے ساتھ آستانہ درگاہ الٰہی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے ‘ اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کی معاونت اور توفیق کا طلب گار ہوجاتا ہے اور اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کی رحمت اور اس کے فضل وکرم کا طلبگار ہوتا ہے تاکہ وہ خزانہ محفوظ رہے ‘ جو اس نے اس مومن کو عطا کیا ہے اور وہ کرم باقی رہے جن سے اسے نوازا گیا ہے۔

اس کے بعد روئے سخن اہل کفر کی طرف مڑجاتا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ ان کے بارے میں وہ سنت الٰہی کیا ہے۔ جس میں کوئی تبدیلی کبھی واقعہ نہیں ہوتی ۔ معنی یہ کہ ان کے گناہوں پر ان سے ضرور مواخذہ ہوگا ۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ ‘ اس دین کا انکار کرتے ہیں اور اس کی راہ روکے کھڑے ہوتے ہیں انہیں یہ دہمکی کی جاتی ہے کہ وہ باز آجائیں ‘ رسول ﷺ کے واسطہ سے انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کفار مکہ کے انجام بد سے عبرت حاصل کریں ‘ جوان کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا ‘ جن میں ایک قلت قلیلہ کے مقابلے میں ان کے بھاری لشکر کو شکست ہوئی۔

آیت 8 رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ ہمیں جو بھی ملے گا تیری ہی بارگاہ سے ملے گا۔ تو ہی فیاض حقیقی ہے۔

آیت 8 - سورة آل عمران: (ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة ۚ إنك أنت الوهاب...) - اردو