سورة آل عمران: آیت 2 - الله لا إله إلا هو... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورة آل عمران

ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ

اردو ترجمہ

اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu la ilaha illa huwa alhayyu alqayyoomu

آیت 2 کی تفسیر

یوں اس سورت کا آغاز ان منکرین اسلام اہل کتاب پر تنقید سے ہوتا ہے ‘ جو رسول ﷺ کی رسالت کا انکار کررہے تھے ‘ حالانکہ وہ اپنے دین کی بنیاد پر اور اہل کتاب ہونے کے ناطے نبوت ‘ رسالت ‘ کتب سماوی اور وحی الٰہی کے تصور سے واقف تھے ‘ اس لئے ان کا فرض تھا کہ سب سے پہلے اسلام لاتے اور رسول ﷺ کی تصدیق کرتے بشرطیکہ ان کی تصدیق صرف دلیل اور حجت کے اطمینان پر موقوف ہوتی۔

اس فیصلہ کن حملے میں ‘ ان تمام شبہات کی بیخ کنی کردی جاتی ‘ جو اہل کتاب کے دلوں میں پائے جاتے تھے ‘ یا جنہیں وہ جان بوجھ کر مومنین کے دلوں میں ڈالنا چاہتے تھے ‘ اس لئے ان کا پروپیگنڈا کرتے تھے ۔ اس تنقید میں ان راستوں اور ان دروازوں کی نشان دہی کردی گئی ہے جن کے ذریعہ یہ شبہات داخل ہوتے تھے ۔ اس لئے یہاں انسدادی طور پر بتادیا گیا کہ اللہ کی آیات سے متعلق سچے مومنوں کا موقف کیا ہے اور ان کے بارے میں مخالفین اور منحرفین کی سوچ کیا ہے ۔ سورت کے اس آغاز میں سچے اہل ایمان کا تعلق باللہ ‘ اللہ کے دربار میں ان کی عاجزی اور ان کی التجاؤں کی ایک خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی صفات کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں ۔ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ…………… ” اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے ‘ جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ “

یہ خالص اور صاف ستھری توحید دراصل ایک مسلمان کے عقیدہ اور تمام غیر مسلموں کے عقائد کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچ دیتی ‘ جن میں ملحدین اور مشرکین بھی شامل ہیں اور منحرفین اہل کتاب بھی شامل ہیں چاہے یہودی ہوں یا نصاریٰ ہوں ‘ اپنے تصورات اور عقائد کے اختلاف کے مطابق ‘ غرض توحید ایک مسلم اور تمام غیر مسلموں کے عقائد کے درمیان ایک خط امتیاز ہے ‘ اس لئے کہ یہاں نظام زندگی کا تعین تصور حیات اور عقائد پر ہوتا ہے ۔ یہ عقیدہ ہی جو نظام زندگی کا تعین کرتا ہے ۔

اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ‘ خدائی میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ‘ وہ زندہ ہے ‘ اور حیات اس کی ذاتی صفت ہے ۔ وہ ہر قید سے آزاد ہے ، زندہ مطلق ہے ‘ وہ القیوم ہے ‘ اس کائنات کو اسی نے تھاما ہوا ہے ‘ زندگی اس کی وجہ سے قائم ہے ‘ ہر موجود اس کی وجہ سے موجود ہے ۔ پھر وہ سب کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔ اس لئے اس کے بغیر کائنات میں نہ کوئی ہستی موجود رہ سکتی ہے اور نہ موجود ہوسکتی ہے۔

یہ ہے خط امتیاز ایک تصور حیات اور عقیدہ میں اور یہی فرق ہے ایک مسلم کے طرزعمل اور نظام زندگی میں بمقابلہ ایک غیر مسلم ‘ اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اسلامی تصور توحید اور اسلامی عقائد اور ان کے عقائد باطلہ اور عقائد جاہلیت کے اندھیروں کے درمیان بھی امتیاز ہوجاتا ہے ۔ جاہلیت کے تصورات میں مشرکین عرب کے اس وقت کے تصورات بھی شامل ہیں اور یہود ونصاریٰ کے وہ منحرف شدہ تصورات بھی جن کے وہ قائل تھے ۔

قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ‘ یہ بات نقل کی ہے کہ وہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کا مقام دیتے تھے ‘ قرآن کریم نے یہودیوں کے جس باطل عقیدے کا ذکر کیا ہے آج یہودی جس کتاب مقدس کے قائل ہیں اس میں موجود ہے ‘ مثلاً سفر تکوین اصحاح ششم میں ذکر ہے۔

” جب روئے زمین پر آدمی بہت بڑھنے لگے اور ان کی بیٹیاں پیدا ہوئیں ‘ تو خدا کے ” بیٹوں “ نے آدمی کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو انہوں نے جنا ان سے بیاہ کرلیا۔ تب خداوند نے کہا کہ میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے اس کی عمر ایک سو بیس برس ہوگی ۔ ان دنوں میں زمین پر جبار تھے اور بعد میں جب خداوند کے بیٹے انسانوں کی بیٹیوں کے پاس گئے تو ان کے لئے ان سے اولاد ہوئی ۔ یہی قدیم زمانے کے سورما ہیں جو بڑے نامور ہوئے۔ “

مسیحی تصور ات میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ‘ قرآن کریم نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” اللہ تینوں میں سے ایک ہے “ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثٌ ثَلَاثَة……………اور ان کا یہ قول اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ المَسِیحُ ابنُ مَریَمَ……………” کہ اللہ مسیح بن مریم ہیں “ اور یہ کہ انہوں نے حضرت مسیح اور ان کی والدہ کو اللہ کے سوا دوالٰہ بنالیا تھا۔ اور انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو بھی اللہ کے علاوہ رب بنالیا تھا ‘ مشہور مصنف آرنلڈ اپنی کتاب تبلیغ اسلام میں لکھتے ہیں :

” ظہور اسلام سے تقریباً ایک سو سال پہلے قیصر یوستینیان روسی سلطنت میں اتحاد پیدا کرنے میں بظاہر کامیاب رہا تھا ‘ مگر اس کی وفات کے بعد سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ‘ کیونکہ دارالسلطنت اور صوبجات کے درمیان ایک مشترکہ قومیت کا جذبہ بالکل باقی نہیں رہا تھا ۔ ہرقل نے کوشش کی تھی کہ شام کے ملک کو مرکزی حکومت کے ساتھ دوبارہ وابستہ کرے اور اسے اس میں کسی قدر کامیابی بھی ہوئی تھی ‘ مگر بدقسمتی سے اس نے مصالحت کے لئے جو طریقے اختیار کئے ‘ ان سے اختلاف رفع ہونے کی بجائے اور شدید ہوگیا ‘ لوگوں کے دلوں میں مذہبی تعصبات نے قومی جذبے کی جگہ لے رکھی تھی لہٰذا قیصر نے کوشش کی کہ دین مسیحی کی تفسیر وتشریح ایسے طریق پر کرے جس سے مخالف فرقوں کے باہمی مناقشات مٹ جائیں اور جو لوگ دین سے منحرف ہوچکے ہیں ان کو آرتھوڈوکس ‘ کلیسا اور مرکزی حکومت کے ساتھ متحد کردیں ۔ خلقیدونہ کے مقام پر مسیحی علماء کی جو مجلس 451 ء میں بیٹھی تھی اس نے اس عقیدے کا اعلان کیا تھا کہ ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دو اقنوم تسلیم کرنے چاہئیں ‘ اس طور پر کہ ان میں کوئی اختلاط یاتبدیلی یا تقسیم یا علیحدگی نہیں ہے ۔ ان کی فطرتوں کا جو اختلاف ہے جو ان کے اجتماع سے باطل نہیں ہوجاتا بلکہ ہر اقنوم کے خواص برقرار ہیں اور ایک ذات اور ایک وجود میں موجود ہیں ۔ مگر اس طرح نہیں کہ یہ خواص دوہستیوں میں منقسم یا الگ الگ ہوں بلکہ وہی ایک بیٹا ہے ، اکلوتا ، کلمۃ اللہ مگر مونوفرائٹ (Monophysites) فرقے نے اس عقیدے کو رد کردیا کیونکہ وہ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ ” مسیح کی ذات میں صرف ایک اقنوم ہے ‘ یہ ذات مرکب ہے جس میں تمام ربانی اور انسانی صفات شامل ہیں ۔ مگر وہ وجود جس میں یہ صفات ہیں ‘ اس میں دوئی نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرکب وحدت ہے ۔ “ اس فرقے کے لوگ خاص طور پر شام ‘ مصر اور رومی سلطنت کے باہر ملکوں میں آباد تھے ۔ چناچہ ان دونوں فرقوں کے درمیان اس مسئلے پر دوصدیوں تک گرماگرم مباحثہ جاری رہا ‘ یہاں تک کہ ہرقل نے آکر فریقین کے درمیان مونوتھیلتزم (Monotheletism) کے عقیدے کے ذریعے سے مصالحت پیدا کرنی چاہی ۔ اس عقیدے کا مفہوم یہ تھا کہ اقانیم کی دوئی کو تسلیم کرتے ہوئے مسیح کی واقعی زندگی میں ذات کی وحدت کو قائم رکھا جائے ‘ اس لئے کہ ایک واحد ذات میں حرکت وعمل کے دوسلسلے قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ چناچہ مسیح ‘ جو ابن اللہ ہیں ‘ ایک ہی ذریعے اور وسیلے سے انسانی اور ربانی دونوں قسم کے نتائج پیدا کرتے ہیں ‘ یعنی کلمہ مجسم میں ایک ہی مشیئت کارفرما ہے۔ “

” مگر ہرقل کا بھی وہی انجام ہوا جو بہت سے صلح کرانے والوں کا ہوا کرتا ہے ‘ کیونکہ نہ صرف مناظرے کی آگ اور بھڑک اٹھی بلکہ لوگوں نے قیصر پر بےدینی کا الزام لگایا اور دونوں فرقوں کو مورد عتاب بننا پڑا۔ “

ایک دوسرے مسیحی مسٹر کینن ٹیلر لکھتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے وقت مشرقی عیسائیوں کی حالت یہ تھی کہ یہ لوگ درحقیقت مشرکین تھے ‘ وہ شہداء کے ایک طبقے کی پوجا کرتے تھے ۔ اسی طرح عیسائی پیروں اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ اور ان کا کم سے کم جو شرکیہ عقیدہ تھا وہ یہ ہے کہ بقول ان کے وہ ان الہٰوں کی بندگی محض اس لئے کرتے ہیں کہ کی بندگی کی وجہ سے انہیں قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى ……………

غلط اعتقادات اور تصورات کے اس جنگل اور ڈھیر میں ‘ جن کی طرف اس سے قبل ہم اشارہ کرچکے ہیں ‘ اسلام آیا اور اس نے اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقیدے کا فیصلہ کن ‘ صریح اور واضح ممتاز تصور دیا۔ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ…………… ” نہیں کوئی الٰہ مگر اللہ ‘ وہی زندہ ہے اور وہی ہے جو تھامنے والا ہے ۔ “………یہ عقیدہ اور یہ تصور حیات ایسا تھا کہ اس نے فریقین کے راستے جدا کردئیے ۔ دونوں کا طرز عمل اور دونوں کا طریق زندگی جدا کردیا ………جس شخص کے نظریہ اور شعور میں یہ ہو کہ اللہ ایک وحدہ لاشریک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ وہ زندہ ہے اور اس کے سوا اس مفہوم میں کوئی زندہ نہیں ہے ‘ تمام دوسرے موجودات کا وجود اس کے ساتھ قائم ہے۔ اور وہی ہے جو تمام موجودات اور تمام زندوں کو تھامے ہوئے ہے ………جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اور ان صفات کے ساتھ ہو ‘ اس کا نظام زندگی اور طرز حیات یقیناً اس شخص سے مختلف ہونا چاہئے جس کی ذہنی دنیا پر غلط اور وہم پرستانہ تصورات کے بادل چھائے ہوئے ہوں جن کا اوپر ہم نے ذکر کیا ۔ اس قسم کے غلط تصورات کے حامل شخص کی زندگی پر وہ اثرات مرتب نہیں ہوسکتے ۔ جو اس شخص کی زندگی پر ہوسکتے ہیں ایسے خدا کا قائل ہو جو اس کی زندگی میں فعال اور متصرف ہے اور علی کل شیئ قدیر ہے۔

یہ صرف توحید خالص کی برکت ہے جس کے نتیجے میں ایک انسان صرف ایک ہی الٰہ کی بندگی کرسکتا ہے ۔ ایسے تصور میں کوئی شخص کسی غیر اللہ سے کوئی امداد طلب نہیں کرتا ۔ وہ صرف اللہ سے نصرت کا طلبگار ہوتا ہے ۔ نہ وہ غیر اللہ سے نظام حیات اور نظام قانون اخذ کرتا ہے ‘ نہ وہ اخلاق وآداب غیر اللہ سے اخذ کرتا ہے ۔ نہ وہ اجتماعی اور اقتصادی نظام اغیار سے لیتا ہے ۔ غرض ایک موحد اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے میں غیر اللہ سے کچھ اخذ نہیں کرتا اور نہ ہی حیات بعد الممات کے تصور میں غیر اللہ کو اہمیت دیتا ہے ۔ رہے وہ کھوٹے ‘ ٹیڑھے ‘ پیچیدہ شرکیہ جاہلی عقائد تو ان کے حاملین کا ایک رخ ہوتا ہے نہ ان کو قرار وثبات حاصل ہوتا ہے ‘ نہ ان میں حدود حلال و حرام ہوتے ہیں ‘ نہ ان میں صحیح اور غلط کے اندر کوئی تمیز ہوتی ہے ‘ نہ نظام اور شریعت میں ‘ نہ آداب واخلاق میں ‘ نہ طرزعمل اور سلوک میں ‘ غرض یہ تمام امور تب طے ہوتے جب کسی شخص کے عقیدے اور نظریے میں ان کی جہت طے ہوتی ہے ‘ اس کے بعد ایک انسان ‘ اس مصدر ‘ اس جہت کی طرف متوجہ ہوکر اس کی بندگی اور اطاعت کرتا ہے۔

اور جب اسلام نے طے کردیا کہ …………… اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُتو اس طرح ایک مسلمان اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہوگیا اور اس طرح اس کے اور دوسرے عقائد والوں کے راستے جدا ہوگئے۔

یہی وجہ ہے کہ اس اعتقادی جدائی کی وجہ سے اسلامی نظام زندگی کا مزاج بالکل علیحدہ ہوگیا ہے ۔ اسلامی زندگی ‘ اپنے تمام عناصر ترکیبی کے ساتھ پوری کی پوری اسلامی تصور حیات سے تشکیل پاتی ہے ۔ اور اسلامی تصور حیات ایک خالص اور مکمل توحید پر مبنی ہے اور یہ عقیدہ توحید اس وقت انسانی ضمیر میں مستقلاً قرار نہیں پکڑتا جب تک اس کے کچھ عملی آثار زندگی میں مرتب نہ ہوں ‘ مثلاً زندگی کے ہر شعبے میں عقیدہ توحید کے ساتھ انسانی نظام شریعت بھی اللہ تعالیٰ سے اخذ کرے اور زندگی کی ہر سرگرمی اور تگ ودو میں ذات خداوندی کی طرف متوجہ ہو۔

توحید خالص کے بیان کے بعد ‘ ایسی جامع توحید کہ اللہ کی ذات میں بھی اس کا کوئی شریک نہ اور اس کی صفات میں کوئی شریک نہ ہو ‘ اب اس منبع اور مصدر کا بیان ہوتا ہے جس سے کہ ایک مسلمان اپنا دین اخذ کرتا ہے۔ جہاں سے کتب سماوی اور رسولوں کی تعلیمات نازل ہوتی ہیں ۔ یعنی جہاں سے ہر دور اور ہر زمانے میں انسانوں نے اپنے نظام زندگی اخذ کیا ہے ۔

آیت 2 اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ لا الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ یہ الفاظ سورة البقرۃ میں آیت الکرسی کے آغاز میں آ چکے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اسم اعظم ہے ‘ جس کے حوالے سے اگر اللہ سے کوئی دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ یہ تین سورتوں البقرۃ ‘ آل عمران اور طٰہٰ میں ہے۔ 1آنحضور ﷺ نے تعینّ کے ساتھ نہیں بتایا کہ وہ اسم اعظم کون سا ہے ‘ البتہ کچھ اشارے کیے ہیں۔ جیسے رمضان المبارک کی ایک شب لیلۃ القدرجو ہزار مہینوں سے افضل ہے ‘ اس کے بارے میں تعین کے ساتھ نہیں بتایا کہ وہ کون سی ہے ‘ بلکہ فرمایا : فَالْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ فِی الْوِتْرِ 2 اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو“۔ تاکہ زیادہ ذوق و شوق کا معاملہ ہو۔ اسی طرح اسم اعظم کے بارے میں آپ ﷺ نے اشارات فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تین سورتوں سورة البقرۃ ‘ سورة آل عمران اور سورة طٰہٰ میں ہے۔ ان تین سورتوں میں جو الفاظ مشترک ہیں وہ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ہیں۔ سورة البقرۃ میں یہ الفاظ آیت الکرسی میں آئے ہیں ‘ سورة آل عمران میں یہاں دوسری آیت میں اور سورة طٰہٰ کی آیت 111 میں موجود ہیں۔

آیت الکرسی اور اسم اعظم آیت الکرسی کی تفسیر میں پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ اسم اعظم اس آیت اور آیت الکرسی میں ہے اور الم کی تفسیر سورة بقرہ کے شروع میں بیان ہوچکی ہے جسے دوبارہ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں، آیت (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ) 2۔ البقرۃ :255) کی تفسیر بھی آیت الکرسی کی تفسیر میں ہم لکھ آئے ہیں۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر اے محمد ﷺ قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس میں کوئی شک نہیں بلکہ یقینا وہ اللہ کی طرف سے ہے، جسے اس نے اپنے علم کی وسعتوں کے ساتھ اتارا ہے، فرشتے اس پر گواہ ہیں اور اللہ کی شہادت کافی وافی ہے۔ یہ قرآن اپنے سے پہلے کی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ کتابیں بھی اس قرآن کی سچائی پر گواہ ہیں، اس لئے کہ ان میں جو اس نبی ﷺ کے آنے اور اس کتاب کے اترنے کی خبر تھی وہ سچی ثابت ہوئی۔ اسی نے حضرت موسیٰ بن عمران پر توراۃ اور عیسیٰ بن مریم پر انجیل اتاری، وہ دونوں کتابیں بھی اس زمانے کے لوگوں کیلئے ہدایت دینے والی تھیں۔ اس نے فرقان اتارا جو حق و باطل، ہدایت و ضلالت، گمراہی اور راہ راست میں فرق کرنے والا ہے، اس کی واضح روشن دلیلیں اور زبردست ثبوت ہر معترض کیلئے مثبت جواب ہیں، حضرت قتادہ حضرت ربیع بن انس کا بیان ہے کہ فرقان سے مراد یہاں قرآن ہے، گو یہ مصدر ہے لیکن چونکہ قرآن کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے اس لئے یہاں فرقان فرمایا، ابو صالح سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے توراۃ ہے مگر یہ ضعیف ہے اس لئے کہ توراۃ کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے واللہ اعلم۔ قیامت کے دن منکروں اور باطل پرستوں کو سخت عذاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے بڑی شان والا ہے اعلیٰ سلطنت والا ہے، انبیاء کرام اور محترم رسولوں کے مخالفوں سے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں سے جناب باری تعالیٰ زبردست انتقام لے گا۔

آیت 2 - سورة آل عمران: (الله لا إله إلا هو الحي القيوم...) - اردو