یہاں اب اللہ تعالیٰ ‘ اپنے خاص بندوں کی صفات گنواتے ہیں ‘ یہ کہ اب آپ کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوتا ہے۔ اور وہ کیا اعمال ہوتے ہیں جن کی بناء بندے جنتوں کے انعامات کے مستحق ہوجاتے ہیں ۔
ان کی دعاؤں میں ان کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ ان کے تقویٰ اور اللہ خوفی کا نتیجہ ہوتی ہے وہ اللہ سے ڈر کر پہلے ایمان کا اعلان کرتے ہیں ۔ پھر ایمان کو عنداللہ اپنا شفیع بناتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو آگ سے بچاتے ہیں ۔
ان کی تمام صفات میں سے ‘ انسانی زندگی کی اقدار میں سے ایک اعلیٰ قدر کا ذکر ہے ۔ خصوصاً جماعت مسلمہ کے لئے ان اقدار کی بہت اہمیت ہے ۔ وہ صبر کرنے والے ہیں ‘ صبر میں انسان ہر رنج والم کو برداشت کرتا ہے ۔ اور دعوت اسلامی کی راہ میں جو بھی مشکلادرپیش ہوں ان پر ثابت قدم رہتا ہے۔ دعوت اسلامی کی راہ میں اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے ۔ وہ اللہ کے سامنے تسلیم ورضا کا پیکر بن جاتا ہے اور حالات اس پر مصائب کے جو پہاڑ بھی توڑیں وہ اللہ کے حکم پر راضی برضا ہوتا ہے۔ وہ سچے ہیں ۔ اس لئے کہ سچائی اس کائنات کی بنیاد ہے ۔ سچائی کا دامن تھام کر وہ عام لوگوں سے اونچے ہوجاتے ہیں ۔ جھوٹ کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی فائدے کے لئے یا کسی ضرر سے بچنے کے لئے سچائی چھوڑ دیتا ہے۔
اور فرمان بردار ہیں ‘ یوں حق الوہیت ادا کرتے ہیں اور اپنی جانب سے واجبات بندگی پر کاربند ہوتے ہیں ۔ اور صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں جس کے سوا اور کسی کی بندگی ان کے تصور حیات میں نہیں ہے ۔
انفاق فی سبیل اللہ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان دولت کے ہاتھوں ذلیل نہیں ہوتا ۔ اور اسے بخل سے نجات ملتی ہے ۔ اور انفاق کرکے ایک شخص عملاً انسانی اخوت کو ذاتی خواہش اور لذت پر ترجیح دیتا ہے اور وہ ایسے اجتماعی تحفظ کی فضا پیدا کرتا ہے جو سب انسانوں کے لئے خوشگوار ہو۔
اور رات کے آخری پہر میں استغفار تو ایک ایسا مقام ہے ‘ جہاں گھنی اور خوشگوار چھاؤں ‘ جس کی فضا تروتازہ ہے اور لفظ ” اسْحَارِ “ تو اس خاص وقت یعنی طلوع فجر سے قدرے پہلے ایسی خوشگوار اور پرسکون تصویر کشی کرتا ہے جو اپنی جگہ لاجواب ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب کائنات نہایت ہی پرسکون ہوتی ‘ فضا صاف ہوتی ہے ‘ اس وقت نفس انسانی کے روحانی تصورات جاگ اٹھتے ہیں ۔ اچھے خیالات کا ذہن وقلب پر القاء ہوتا ہے ۔ اس پرکیف فضا میں جب انسان کی جانب سے بارگاہ الٰہی میں استغفار ہورہا ہو ‘ تو پھر اس کا پرتو بھی نفس انسانی پر نہایت ہی روحانی اثرات ڈالتا ہے ۔ اس وقت انسان کی روح اور اس کائنات کی روح رب کائنات اور خالق انسان کے سامنے ہم سبق اور ہم سمت ہوجاتی ہیں۔
ایسے صابروں ‘ ایسے صداقت شعاروں ‘ ایسے ہی اطاعت گزاروں ‘ ایسے ہی دولت نثاروں اور ایسے بخشش کے طلبگاروں کا یہ حق ہوتا ہے کہ اللہ کی رضامندی ان کا استقبال کرے اس لئے کہ وہ اس کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ کی رحمت کی چھاؤں گھنی ہوتی ہے ۔ اور اس کا پھل تروتازہ ہوتا ہے۔ اور وہ ہر لذت اور ہر شہوت سے اپنے اندر زیادہ مٹھاس رکھتی ہے ۔ اگر ذوق سلیم ہو۔
یوں قرآن کریم ‘ اس زمین کے اوپر سے اسے مخلوق ارضی سمجھتے ہوئے ‘ نفس انسانی کی راہنمائی شروع کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ اسے بلند کرتا ہے اور اسے ایک بلند افق پر ملاء اعلیٰ کی روشنیوں تک لے جاتا ہے ‘ اور یہ عمل بڑے آرام سے ‘ بڑی تسلی سے ‘ بڑی نرمی اور شفقت سے وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ اس روحانی ترقی میں انسان کی فطرت اور اس کے فطری میلانات کو پوری طرح مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس میں اس کی جسمانی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔ اس محبت اور اس کے شوق کو بھی جوش دلایا جاتا ہے۔ اور اس میں کسی فطری جذبے کی بیخٰ کنی نہیں کی جاتی اور نہ ہی اسے کسی کام پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ اس مہم کے دوران عام زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ اس میں تعطل نہیں پیدا کیا جاتا۔ یہ ہے فطرت اللہ ‘ یہ ہے اللہ کا نظام حیات ‘ اس فطرت کے لئے اور اللہ اپنے بندوں کے حال سے اچھی طرح خبردار ہے وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ !
٭………٭………٭………٭………٭
یہاں تک تو اس سورت کا ہدف یہ تھا کہ عقیدہ توحید کو نکھار کر رکھ دیاجائے۔ یوں کہ اللہ ایک ہے ۔ وہی اس کائنات کو تھامے ہوئے ہے ۔ دنیا میں آنے والے رسول بھی ایک ہیں اور ان کی رسالت بھی ایک ہی اکائی ہے ۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ آیات الٰہی اور افکار الٰہیہ کے بارے میں اصل اہل ایمان کا رویہ کیا ہوتا ہے اور جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے وہ ان افکار وآیات کتاب کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ انحراف کرنیوالوں کو اپنے انجام بد سے ڈرایا گیا اور اس سلسلے میں ان کی توجہ ماضی اور حال کے منحرفین کے انجام بد کو بطور مثال پیش کیا گیا ۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ عقیدہ توحید اور اسلامی نظریہ حیات ایک عام فطری نظام ہے اور اس میں فطری میلانات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔ لیکن متقین کی نظر ان سے بلند ہوتی ہے اور وہ ہر وقت اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے ہیں ۔
لیکن اب یہاں سے لیکر اس سبق کے اختتام تک ایک دوسری حقیقت سے ہمیں روشناس کرایا جاتا ہے ۔ اور یہ دوسری حقیقت عقیدہ توحید اور اسلامی نظریہ ٔ حیات کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔ اگر پہلی حقیقت ہے تو دوسری کو بھی موجود ہونا چاہئے ۔ وہ یہ کہ حقیقت توحید کا مصداق اور مظہر ہماری زندگیوں میں ہونا چاہئے ۔ یہ تمام باتیں اس سبق کے آنے والے حصے میں بیان کی گئی ہیں ۔
پہلے حصہ اول کے خلاصے کو پھر ذہن نشین اور مستحضر کیا جاتا ہے تاکہ اس کے نتائج دوسری حقیقت کے ذریعہ مرتب ہوں ‘ اس حصے کا آغاز اس شہادت سے کیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ اس عقیدہ کی شہادت فرشتے بھی دیتے آئے ہیں اور اصحاب العلم بھی اس کی تصدیق کرتے آئے ہیں ۔ الٰہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ قوام بھی ہے یعنی اس کائنات کا نگہبان ‘ اور اس کی قیومیت کا یہ مفہوم ہے کہ وہ اس کائنات اور اس کے اندر انسان دونوں کو عدل کے مطابق چلاتا ہے۔ اور جب یہ بات مسلم ہے کہ اللہ ہی الٰہ اور قیوم ہے تو پھر دوسری بات خود بخود مستلزم ہوجاتی ہے کہ یہ اللہ کی بندگی کا اقرار کریں ۔ یہ بندگی صرف اس کی ہو ‘ اس کا حکم تمام انسانوں کی زندگی میں نازل ہو۔ اس کے مطابق فیصلے ہوں ‘ تمام بندے اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کریں۔ اس کے سامنے جھکیں ‘ اس ہستی کی اطاعت کریں جو قیوم ہے ۔ اس کی نازل کردہ کتاب اور اس کے رسول کی سنت پر عمل پیر اہوں۔
اور دوسری حقیقت کا اظہار یوں کیا گیا إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإسْلام …………… ” اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ “ اس لئے اللہ اسلام کے سوا کوئی دین قبول نہیں فرماتے ‘ اور اسلام کیا ہے۔ وہ سر تسلیم خم کرنا ‘ اطاعت کرنا ‘ اور ہر معاملے میں اتباع کرنا۔ اس لئے اللہ کے ہاں مقبول دین صرف عقلی تصور نہیں ہے۔ نہ صرف تصدیق بالقلب دین ‘ دین یہ ہے کہ اس تصور حیات اور اس تصدیق ویقین کے تقاضے بھی پورے کئے جائیں اور تقاضے یہ ہیں کہ لوگ اپنے تمام امور میں شریعت کے مطابق فیصلے کریں ۔ اور پھر شریعت جو فیصلہ کرے اسے بطیب خاطر قبول کریں اور اس نظام میں رسول خدا کی اطاعت کریں ۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بڑے تعجب خیز انداز میں اہل کتاب کے بارے میں اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے دین پر ہیں لیکن ان کارویہ یہ ہے کہ جب انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے کہ آؤ اس کے مطابق فیصلہ کریں تو ان میں سے ایک گروہ رو گردانی کرتا ہے جس سے ان کے دعوائے دین کی قلعی کھل جاتی ہے اور وہ باطل ہوجاتا ہے اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے ‘ اور اسلام بغیر سر تسلیم خم کرنے کے نہیں ہے ۔ اسلام یہ ہے کہ رسول خدا کی اطاعت ہو اور امور زندگی میں فیصلے کتاب اللہ کے مطابق ہوں۔
یہاں کتاب اللہ سے اعراض اور روگردانی کی علت کا ذکر بھی کردیا گیا ہے ‘ اور اس کی ایسی حسی اور واقعی تعبیر کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرے سے دین پر ایمان ہی نہیں رکھتے ۔ اس لئے کہ وہ یوم الحساب کے عدل و انصاف کے تصور پر پوری طرح یقین نہیں رکھتے ۔ وہ اس لئے کہ ان کا خیال تھا ” کہ انہیں دوزخ کی آگ میں صرف چند دن رہنا ہوگا۔ اس لئے کہ وہ اہل کتاب ہیں اور ان کے دین کے معاملے میں انہیں ان عقیدوں نے فریب میں ڈال دیا تھا جو انہوں نے جھوٹے طور گھڑے ہوئے تھے ۔ “ اور یہ ان کے لئے عجیب دھوکہ تھا ‘ غرض اس وقت وہ نہ اہل کتاب ہیں اور نہ اہل دین ہیں ۔ نہ مومن ہیں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ جب انہیں بلایا جاتا ہے کہ آؤ تمہاری کتاب کے مطابق کسی قضئیے کا فیصلہ کریں تو وہ منہ موڑ کر بھاگتے ہیں۔
غرض قرآن کریم اس قطعیت اور جزم کے ساتھ دین کا مفہوم اور دین کی حقیقت یہاں بیان کرتا ہے ۔ اس لئے تمام لوگوں کی جانب سے اب اللہ کے ہاں مقبول دین صرف دین اسلام ہے جو واضح صاف اور قطعی ہے ۔ یعنی دین اسلام اور اسلام کا معنی ہے کتاب اللہ کے مطابق عدالتوں میں فیصلہ کرنا اور اس کے بعد اسے تسلیم کرنا اور اس پر عمل کرنا ۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ دین دار نہیں ہے ۔ وہ مسلم نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ دعوائے دین کرے اور دعوائے اسلام کرے ۔ اللہ تعالیٰ دین کی جو حد بیان فرماتے ہیں ‘ جو تعریف کرتے ہیں ‘ جس کی تائید کرتے ہیں وہ وہی ہے جو اوپر ہم نے بیان کیا اور اللہ دین کی تعریف بیان کرنے میں کسی انسان کی خواہش کے تابع نہیں ‘ وہ جس طرح جانتا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ جو شخص کفار کو دوست بناتا ہے ۔ (اور سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار وہ ہیں جو عدالتوں کے اندر کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ۔ ) تو اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہوگا۔ “ کسی معاملے میں بھی اللہ سے متعلق نہ ہوگا۔ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رابطہ نہ رہا ۔ یعنی صرف اس لئے کہ اس شخص نے کافروں سے دوستی کی ‘ یا کافروں کی نصرت کی یا کافروں سے نصرت طلب کی ۔ اور کافر وہ جو اللہ کی کتاب پر اپنی عدالتوں میں فیصلے نہیں کرتے ۔ اگرچہ زبانی طور پر وہ دعویٰ کریں کہ وہ دین اللہ پر ہیں۔
کفار کی دوستی سے اس قدر سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ اگر تم باز نہ آئے تو اس سے تمہارا دین اپنی اساس سے ختم ہوجائے گا اور قرآن کریم اس تنبیہ اور ڈراوے کے ساتھ ساتھ انہیں اچھی طرح سمجھاتا بھی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بصیرت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ ہی اس پوری کائنات میں اصل متصرف الامور ہے ۔ وہ سردار ہے ۔ اور اسی کے تصرف میں تمام امور ہیں ۔ وہی مالک الملک ہے ۔ وہ جسے چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے جس سے چاہتا ہے ملک لے لیتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس سے چاہتا ہے عزت واپس لے لیتا ہے ۔ اور لوگوں کی زندگی کے امور میں اس کا یہ تصرف بھی اس تکوینی تصرف کا ایک حصہ ہے ‘ جو وہ اس کا ئنات کو چلانے کے لئے کرتا ہے ۔ دیکھئے ‘ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ وہ مردہ چیزوں سے زندہ چیزوں کو نکالتا ہے اور زندہ چیزوں سے مردہ چیزیں نکالتا ہے ۔ اور یہی اس کا قیام بالعدل ہے ۔ جس کے ساتھ وہ انسانوں کو تھامے ہوئے ہے ۔ اور کائنات کو بھی تھامے ہوئے ہے۔ اس لئے اہل ایمان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر کفار کے ساتھ دوستیاں قائم کریں ۔ چاہے اہل کفار کی قوت بہت زیادہ ہو ‘ ان کا مال بہت زیادہ ہو اور اولاد بہت زیادہ ہو ۔
اس مکرر اور موکد ڈراوے اور تنبیہ سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس وقت نوخیز جماعت مسلمہ پر اس نکتے کی اچھی طرح وضاحت نہ ہوئی تھی ۔ اور اس وقت اہل اسلام میں سے بعض لوگوں نے اپنے سابقہ خاندانی ‘ قومی اور اقتصادی روابط بحال رکھے ہوئے تھے ۔ یہ روبط مشرکین مکہ اور یہودیان مدینہ کے ساتھ بیک وقت تھے ، اس لئے دین اسلام کی یہ تفسیر کی گئی اور انہیں اہل کفر کے ساتھ دوستانہ روابط نہ رکھنے کا حکم دیا گیا ۔ نیز اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے ‘ دنیا میں انسان کی ظاہری قوتوں کی طرف میلان رکھتا ہے ‘ ان سے متاثر ہوتا ہے ‘ اس لئے انہیں بتایا جاتا ہے کہ اصلی قوت کون ہے ‘ اصلی حقیقت ان لوگوں کی کیا ہے ‘ اور یہ کہ اسلامی نظریہ ٔ حیات کیا ہے ۔ اور اس کے تقاضے کیا ہیں یعنی عملی زندگی میں۔
اور اس سبق کا خاتمہ اس قطعی فیصلے پر ہوتا ہے کہ اسلام اللہ اور رسول کی اطاعت کا نام ہے اور یہ کہ اللہ کی جانب چلنے کا واحد راستہ یہ ہے رسول اللہ کی اطاعت کی جائے ۔ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ کلمہ شہادت پر دل سے مجرد یقین کرلیاجائے اور زبان سے اس کا اقرار کرلیا جائے ۔ فرماتے ہیں ” کہہ دیجئے ‘ اگر تم اللہ کو محبوب رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تمہیں محبوب رکھے گا۔ “ ……………
” کہہ دو ‘ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ‘ اگر وہ اس سے منہ پھیریں ‘ تو جان لو کہ اللہ کافروں کے ساتھ محبت نہیں رکھتا۔ “ ……………پس یا تو اتباع ہوگا اور مکمل تابعداری کروگے تو اللہ بھی اسے پسند کرے گا یا پھر کفر ہوگا جسے اللہ نہایت ہی ناپسند کرتا ہے ۔ یہ ہے وہ مقام جس سے ایک مسلمان اور ایک کافر کے راستے جدا ہوتے ہیں ۔ اس سبق کے اس دوسرے حصے پر اب تفصیل سے غور ہوگا۔
آیت 16 اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَاب النَّارِ آگے ان کی مدح میں الفاظ استعمال ہو رہے ہیں کہ جو یہ دعائیں کرتے ہیں ان کے یہ اوصاف ہیں۔ اس میں گویا تلقین ہے کہ اگر اللہ سے یہ دعا کرنا چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے گناہ بخش دے اور تمہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے تو اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرو۔
متقیوں کا تعارف اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اے پروردگار ہم تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسول ﷺ پر ایمان لائے، ہمارے اس ایمان کے باعث جو تیری ذات اور تیری شریعت پر ہے تو ہمارے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے، یہ متقی لوگ اللہ کی اطاعت بجا لاتے ہیں اور حرام چیزوں سے الگ رہتے ہیں، صبر کے سہارے کام لیتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے میں بھی سچے ہیں، کل اچھے اعمال بجا لاتے ہیں خواہ وہ ان کے نفس کو کتنے بھاری پڑیں، اطاعت اور خشوع خضوع والے ہیں، اپنے مال اللہ کی راہ میں جہاں جہاں حکم ہے خرچ کرتے ہیں، صلہ رحمی میں رشتہ داری کا پاس رکھنے میں برائیوں کے روکنے آپس میں ہمدردی اور خیرخواہی کرنے میں حاجت مندوں، مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ احسان کرنے میں سخاوت سے کام لیتے ہیں اور سحری کے وقت پچھلی رات کو اٹھ اٹھ کر استغفار کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت استغفار افضل ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہی فرمایا تھا کہ آیت (سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ) 12۔ یوسف :98) رب میں ابھی تھوڑی دیر میں تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، اس سے مراد بھی سحری کا وقت ہے، اپنی اولاد سے فرماتے ہیں کہ سحری کے وقت میں تمہارے لئے استغفار کروں گا، بخاری و مسلم وغیرہ کی حدیث میں جو بہت سے صحابیوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات آخری تہائی باقی رہتے ہوئے آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ کوئی سائل ہے ؟ جسے میں دوں، کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اسے بخشوں، حافظ ابو الحسن دارقطنی نے تو اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اور اس میں حدیث کی تمام سندوں کو اور اس کے کل الفاظ کو وارد کیا ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اول رات درمیانی اور آخری رات میں وتر پڑھے ہیں، سب سے آخری وقت حضور ﷺ کے وتر پڑھنے کا سحری تک تھا، حضرت عبداللہ بن عمر رات کو تہجذ پڑھتے رہتے اور اپنے غلام حضرت نافع سے پوچھتے کیا سحر ہوگئی، جب وہ کہتے ہاں تو آپ صبح صادق کے نکلنے کی دعا استغفار میں مشغول رہتے، حضرت حاطب فرماتے ہیں سحری کے وقت میں نے سنا کہ کوئی شخص مسجد کے کسی گوشہ میں کہہ رہا ہے اے اللہ تو نے مجھے حکم کیا میں بجا لایا، یہ سحر کا وقت ہے مجھے بخش دے، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عبداللہ بن مسعود تھے۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ہمیں حکم کیا جاتا تھا کہ ہم جب تہجد کی نماز پڑھیں تو سحری کے آخری وقت ستر مرتبہ استغفار کریں اللہ سے بخشش کی دعا کریں۔