سوال یہ ہے کہ ان یہودی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان دوآسامیوں (Bases) پر استوار ہوکر پھر امت مسلمہ کا منشور اور ہدف کیا ہے ؟ اس کا فریضہ ‘ فریضہ اقامت دین ہے ۔ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام زندگی کا قیام ہے ۔ حق کو باطل پر غالب کرنا ہے ‘ معروف کو منکر پر غالب کرنا ہے ‘ خیر کو پھیلانا ہے اور شر کو روکنا ہے ۔ یہ ہے وہ نصب العین جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھوں سے ‘ اپنی نظروں کے سامنے ‘ اپنے خاص منہاج کے مطابق اس امت کو برپا کیا ہے ۔ اس نصب العین کا تعین ان الفاظ میں کیا جاتا ہے۔
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
” تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ‘ بھلائی کا حکم دیں ‘ اور برائیوں سے روکیں اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔ “ بس یہ ضروری ہوا کہ ایسی جماعت ہر وقت موجود ہو جو بھلائی کی طرف دعوت دے ‘ معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے ۔ ان کے اندر ایک ایسا اقتدار ‘ ایک ایسی قوت ضرور ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے ۔ یہ بات کہ ایک ایسا اقتدار یا ایسا مقتدر اعلیٰ ضروری ہے جو یہ کام کرے ‘ اس پر یہ آیت بصراحت دلالت کرتی ہے ۔ یعنی دعوت الی الخیر ہر وقت ہو اور یہ بات ہر کوئی کرسکتا ہے ‘ لیکن یہاں تو ساتھ ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ بھی وارد ہیں ۔ اگر دعوت اسلامی بغیر اقتدار اعلیٰ کے ممکن العمل بھی ہے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بغیر اقتدار اعلیٰ کے حصول کے ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے صحیح اسلامی تصور حیات یہی ہے کہ ایسا قتدار اعلیٰ ضروری ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے ۔ یہ اقتدار اعلیٰ دعوت الی الخیر کے نصب العین پر قائم ہوگا ۔ اور اس کا مقصد دفعیہ شر ہوگا ۔ یہ اقتدار اعلیٰ ایسا ہوگا جو مکمل اتحاد واتفاق کے نتیجے میں حاصل ہوگا ‘ یہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے نتیجے میں اور اخوت اسلامی کے قیام کے بعد ہوگا ۔ یعنی یہ اقتدار اعلیٰ ‘ یا مملکت یا سلطنت ان دوبنیادوں پر قائم ہوگی یعنی اتحاد اور اخوت اور اس کا نصب العین انسانی زندگی میں اسلامی نظام حیات کا قیام ہوگا۔ اور اس اقتدار اعلیٰ کا قیام اس طرح ہوگا کہ اس نظام کی طرف جو خیر ہی خیر ہے ‘ عام لوگوں کو دعوت دی جائے گی ۔ لوگوں کو اس سے متعارف کرایا جائے گا کہ اس کی نظام کی حقیقت کیا ہے ۔ انہیں یہ بتایا جائے گا کہ اسلامی نظام اقتدار اعلیٰ کا خواہاں ہے تاکہ وہ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے ۔ اور لوگ اس کی اطاعت کریں یا وہ اپنی اطاعت کروائے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَمَا اَرسَلنَا مِن رَّسُولٍ اِلّا لِیُطَاعَ بِاِذنِ اللّٰہِ……………” ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے ‘ وہ صرف اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ “ اس لئے یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام زندگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ صرف وعظ و ارشاد اور تبلیغ بیان جاری ہو ۔ یہ تو اسلامی نظام کا ایک حصہ اور جزء ہے ۔ اس کا دوسرا اہم جزء یہ ہے کہ ایک ایسا اقتدار اعلیٰ قائم کیا جائے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرے ۔ اور انسانی زندگی میں معروف کو رائج کرے ۔ اور منکر کا قلع قمع کرے ۔ اور اس ” جماعت ممتازہ “ کو بھی بچائے رکھے کہ ہر کس وناکس اس امت کو اپنی خواہشات ‘ اپنی مرغوبات اور شہوات کے بھینٹ نہ چڑھاسکے ۔ اور اسے اپنی ذاتی مصلحتوں کی خاطر استعمال نہ کرسکے ۔ اور معاشرہ کے اندر نیکی اور بھلائی پر مبنی اخلاق کو کوئی اپنی خاص رائے اور اپنے مخصوص تصورات کے تحت تباہ نہ کرسکے ‘ اگرچہ وہ سمجھتا ہو کہ وہ جو کچھ کررہا ہے وہ معروف اور درست ہے۔
یہی وجہ ہے دعوت الی الخیر ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کوئی آسان اور سہل کام نہیں ہے ۔ خصوصاً جب اس کے مزاج پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ لوگوں کی خواہشات اور میلانات کے ساتھ متصادم ہے ۔ وہ بعض لوگوں کی ذاتی مصلحتوں اور مفادات کے ساتھ ٹکراتا ہے ‘ بعض لوگوں کے غرور اور کبریائی پر اس کی زد پڑتی ہے ‘ بعض غاصب جابروں اور زبردستی مسلط ہونے والے حکام بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں ‘ بعض گرے ہوئے طبقات جن میں ترقی اور بلندی کا داعیہ ہی نہیں ہے ‘ وہ اسے مصیبت سمجھتے ہیں ‘ بعض اس قدر کامل ہوں کہ اس کی مشقتیں برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں ‘ بعض ظالم طبقات ہوں جس کے ساتھ عدل لگانہ کھاتا ہو۔ بعض ایسے گم کردہ راہ اور کجرو ہوں کہ انہیں صراط مستقیم اچھا ہی نہ لگتا ہو ‘ اور ان میں سے بعض ایسے بھی موجود ہوں جو منکر کو پسند کرتے ہوں اور معروف کے دشمن ہوں……حالانکہ انسانیت اور امت مسلمہ صرف اس وقت فلاح پاسکتی ہے کہ اس میں خیر غالب ہو ‘ معروف ہو معروف سمجھا جاتا ہو ‘ منکر کو منکر سمجھا جاتا ہو ‘ اور ان تمام امور کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا اقتدار اعلیٰ ہو جس میں خیر غالب ہو اور وہ نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کا فریضہ ادا کرتاہو ۔ اور پھر اپنے اوامر اور نواہی کو منوانے کی قوت بھی رکھتا ہو۔
لہٰذا ایک ایسی جماعت کا قیام ازحد ضروری ہے جس کی بنیاد پر ان دو ستونوں پر ہو ‘ اللہ پر ایمان اور اخوت اسلامی تاکہ وہ اپنی قوت ایمانی ‘ قوت خدا خوفی اور باہم الفت اور محبت اور اتفاق و اتحاد کی قوت کے بل بوتے پر وہ فریضہ ادا کرسکے جس کے لئے اسے اٹھایا گیا ہو ‘ اس لئے کہ جماعت مسلمہ کو جو نصب العین دیا گیا ہے اور جو فریضہ اس پر عائد کیا گیا ہے کہ وہ ان دوخصوصیات کے بغیر اس میں عہدہ برآ نہیں ہوسکتی اور نہ کامیاب وکامران ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ……………” یہی لوگ فلاح پائیں گے ۔ “
غرض اس قسم کی جماعت کا قیام اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے ۔ یہ اسلامی نظام کی ذاتی ضرورت ہے ۔ یہ جماعت وہ ماحول فراہم کرے گی جس کے اندر اسلامی نظام سانس لے گا ‘ زندہ ہوگا اور ایک حقیقت کے روپ میں نمودار ہوگا ۔ یہ ماحول بھلائی کا ماحول ہوگا ‘ باہم متعاون ومتکافل ہوگا ‘ اور اس میں دعوت الی الخیر کا چرچا ہوگا۔ اس میں بھلائی ‘ نیکی ‘ سچائی ‘ انصاف معروف ہوں گے ۔ شر ‘ رذالت ‘ باطل اور ظلم اس میں منکر تصور ہوں گے ۔ اس ماحول میں بھلائی آسان ہوگی اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوگا۔ اس میں بھلائی پر عمل پیرا ہونے میں اس قدر مشقت نہ کرنا ہوگی جس قدر برائی پر مشقت ہوگی ۔ اس میں حق باطل کے مقابلے میں طاقتور ہوگا۔ اس میں ظلم کے مقابلے میں عدل سے زیادہ نفع ہوگا ‘ اس میں بھلائی کرنے والے کو معاونین بسہولت دستیاب ہوں گے ۔ اور اس میں برائی کا ارتکاب کرنے والے مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا ‘ یہی وجہ ہے کہ ایسی سوسائٹی کا قیام ضروری ہے ‘ جس میں سچائی اور بھلائی بلاجدوجہد نشوونما پاسکے ۔ اس کے لئے اس کا پورا ماحول اور اس کا ہر فرد اس میں معاون ہوگا اور جس میں باطل اور شر کی نشو ونما کی راہ میں بےحد مشکلات اور رکاوٹیں ہوں گی ‘ اس لئے کہ پورا ماحول اس کے لئے ساز گار نہ ہوگا۔
اسلام کا تصور کائنات ، اس کا تصور حیات ‘ اس کا تصور اقتدار ‘ اس کا تصور اعمال ‘ اس کا تصور واقعات ‘ اس کا تصور اشیاء اور افراد تمام دوسرے جاہلی تصورات سے ‘ اپنی اساس اور نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ اس لئے اسلام کے اس وسیع تصور حیات کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے ایک ماحول ہو ‘ جس میں یہ تصور حیات پھلے پھولے اور اس میں اس کی اپنی اقدار حیات پروان چڑھیں ۔ لہٰذا اسلام کے جاہلی ماحول سے جدا ایک عمدہ ماحول کی ضرورت ہے اور اسے ایک جاہلی معاشرے کے سوا اس کا اپنا معاشرہ درکا رہے ۔
یہ ماحول اور یہ معاشرہ اسلامی تصور حیات کے لئے ہو جس میں یہ تصور زندہ رہے اور یہ ماحول بھی اس کے لئے زندہ ہو ‘ اس ماحول میں یہ تصور پھلے پھولے ‘ اور آزادی کے ساتھ وہ اس ماحول میں سانس لے سکے ‘ اس میں ذاتی ترقی کرسکے ‘ اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ‘ نہ داخلی رکاوٹیں جو اس کی راہ میں مشکلات پیدا کریں اور نہ خارجی رکاوٹیں جو مزاحمت کریں ۔ اور اگر ایسی رکاوٹیں کسی وقت وجود میں آجائیں تو دعوت اسلامی ان کا مقابلہ کرے ‘ اس لئے کہ یہ دعوت الی الخیر ہے ‘ دعوت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ۔ اور جب اس قسم کی کوئی قاہرانہ قوت دعوت اسلامی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالے تو اس معاشرے میں اس کی مدافعت کرنے والے موجود ہوں اور یہ لوگ اسلامی نظام کے محافظین ہوں۔
یہ ماحول اسلامی جماعت کی صورت میں فراہم ہوتا ہے اور یہ جماعت دوبنیادوں پر قائم ہوتی ہے ۔ ایمان باللہ اور اخوت اسلامی ۔ ایمان باللہ اس لئے ضروری ہے تاکہ اس کا تصور کائنات ، تصور حیات ‘ اس کی اقدار ‘ تصور اعمال اور تصور اشخاص واشیاء میں مطابقت ہو۔ یہ تمام تصورات ایک ہی پیمانے کے مطابق ہوں اور ایک ہی منبع سے ماخوذ ہوں ‘ انہی کے مطابق زندگی کے تمام مسائل حل کئے جائیں اور پوری زندگی کے فیصلے اللہ کی طرف سے آئی ہوئی شریعت کے مطابق ہوں ۔ اور وہ جماعت محبت کے ساتھ اس قیادت کی پیروی کرے جو اسلامی نظام حیات کے مطابق قائم ہو ۔ وہ اسلامی اخوت پر قائم ہو۔ اس کی تشکیل محبت اور باہم تعاون وتکافل کے اصولوں پر ہو ‘ یہ ایسے اصول ہیں جن کے سایہ میں خود غرضی اور لالچ ختم ہوجاتی ہے اور ایثار اور قربانی کے جذبات دوچند ہوجاتے ہیں ‘ لوگ بڑی سہولت اور آزادی سے اور بڑی گرمجوشی سے ایثار کرتے ہیں اور نہایت ہی اطمینان ‘ خوشی اور اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔
غرض مدینہ طیبہ میں پہلی اسلامی جماعت انہی دواصولوں پر قائم ہوئی تھی ‘ اس کا ایمان باللہ نہایت ہی پختہ تھا جو معرفت الٰہی پر مبنی تھا۔ معرفت الٰہی کی وجہ سے صفات باری کا پرتو ان کے ضمیروں پر پڑگیا ‘ خدا خوفی ‘ خدا کی نگرانی کا شعور ‘ مسلسل بیداری ‘ ذات باری کا احساس اس جماعت کے اندر اس ھد تک پہنچا ہوا تھا کہ جس کی نظیر تاریخ انسانی میں بڑی نادر ہے ۔ اور معرفت کردگار کے ساتھ ساتھ خوبصورت اور میٹھی محبت کے پیکر تھے ۔ معاشی لحاظ سے باہم معاون متکافل اور گہری اور سچی ہمدردی رکھتے تھے ۔ اور وہ اس میدان میں اس قدر اونچے مقام تک پہنچے ہوئے تھے کہ اگر انہوں نے یہ معیار عملاً پیش نہ کیا ہوتا تو وہ محض خواب ہی خواب ہوتا ۔ غرض مہاجرین اور انصار کے درمیان برادری اور مواخات کا قصہ تو ایک حقیقت تھا ‘ لیکن وہ اس قدر ممتاز اور بلند معیار کا تھا کہ آج بھی وہ محض افسانہ نظر آتا ہے ‘ حالانکہ وہ حقیقت تھی ۔ اور وہ قصہ اس سرزمین پر بطور واقعہ پیش آیا تھا۔ اگرچہ وہ محیر العقول اور افسانہ نظر آتا تھا ۔ غرض اس قسم کے ایمان اور اس قسم کی اخوت اور بھائی چارے پر ہر دور میں اسلامی نظام قائم ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ سیاق کلام میں مکرر ‘ جماعت مسلمہ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ تفرقے اور بےجا اختلاف سے باز رہیں ۔ ان سے پہلے جن لوگوں کو اس امانت کے اٹھانے کے لئے منتخب کیا گیا تھا ‘ اور جنہوں نے تفرقہ بازی کی تھی اور انجام کار وہ جس طرح تباہ وبرباد ہوئے تھے ‘ اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ اعزاز چھین لیا تھا اور جماعت مسلمہ کے سپرد کردیا تھا ‘ اس لئے وہ باہم جڑے ہوئے تھے ۔ نیز ان لوگوں کا جو برا انجام قیامت میں ہونے والا ہے وہ مستزاد ہے ‘ کہ جس دن کچھ چہرے سیاہ ہوں گے اور کچھ سفید ہوں گے اور یہ لوگ سیاہ چہروں والے ہوں گے ۔
آیت 104 وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط اس جماعت کے کرنے کے تین کام بتائے گئے ہیں ‘ جن میں اوّلین دعوت الی الخیر ہے ‘ اور واضح رہے کہ سب سے بڑا خیر یہ قرآن ہے۔ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یہاں لفظ منکُمْ بڑا معنی خیز ہے کہ تم میں سے ایک ایسی امت وجود میں آنی چاہیے۔ گویا ایک تو بڑی امت ہے امت مسلمہ ‘ وہ تو ایک سو پچاس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ‘ جو خواب غفلت میں مدہوش ہیں ‘ اپنے منصب کو بھولے ہوئے ہیں ‘ دین سے دور ہیں۔ لہٰذا اس امت کے اندر ایک چھوٹی امت یعنی ایک جماعت وجود میں آئے جو جاگو اور جگاؤکا فریضہ سرانجام دے۔ اللہ نے تمہیں جاگنے کی صلاحیت دے دی ہے ‘ اب اوروں کو جگاؤ اور اس کے لیے طاقت فراہم کرو ‘ ایک منظم جماعت بناؤ ! فرمایا کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ وہ بڑی امت جو کروڑوں افراد پر مشتمل ہے اور یہ کام نہیں کرتی وہ اگر فلاح اور نجات کی امید رکھتی ہے تو یہ ایک امید موہوم ہے۔ فلاح پانے والے صرف یہ لوگ ہوں گے جو تین کام کریں گے : i دعوت الی الخیر ii امر بالمعروف iii نہی عن المنکر۔ میں نے منہج انقلاب نبوی ﷺ کے مراحل و مدارج کے ضمن میں بھی یہ بات واضح کی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے آخری اقدام بھی نہی عن المنکر بالیدہو گا۔ اس لیے کہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے نہی عن المنکر کے تین مراتب بیان کیے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ 1تم میں سے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے زور بازو سے روک ‘ دے۔ پس اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکے۔ پھر اگر اس کی بھی ہمت نہیں ہے تو دل میں برائی سے نفرت ضرور رکھے۔ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ‘ ہے۔اگر دل میں نفرت بھی ختم ہوگئی ہے تو سمجھ لو کہ متاع ایمان رخصت ہوگئی ہے۔ بقول اقبال : وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا !ہاں ‘ دل میں نفرت ہے تو اگلا قدم اٹھاؤ۔ زبان سے کہنا شروع کرو کہ بھائی یہ چیز غلط ہے ‘ اللہ نے اس کو حرام ٹھہرایا ہے ‘ یہ کام مت کرو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی ایک طاقت بناتے جاؤ۔ ایک جماعت بناؤ ‘ قوت مجتمع کرو۔ جب وہ طاقت جمع ہوجائے تو پھر کھڑے ہوجاؤ کہ اب ہم یہ غلط کام نہیں کرنے دیں گے۔ پھر وہ ہوگا نہی عن المنکر بالید یعنی طاقت کے ساتھ برائی کو روک دینا۔ اور یہ ہوگا انقلاب کا آخری مرحلہ۔تو ان تین آیات کے اندر عظیم ہدایت ہے ‘ انقلاب کا پورا لائحہ عمل موجود ہے ‘ بلکہ اسی میں منہج انقلاب نبوی ﷺ کا جو آخری اقدامی عمل ہے وہ بھی پوشیدہ ہے۔
یوم آخرت منافق اور مومن کی پہچان حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس جماعت سے مراد خاص صحابہ اور خاص راویان حدیث ہیں یعنی مجاہد اور علماء امام ابو جعفر باقر ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا صبر سے مراد قرآن و حدیث کی اتباع ہے، یاد رہے کہ ہر ہر متنفس پر تبلیغ حق فرض ہے لیکن تاہم ایک جماعت تو خاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہئے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے دفع کر دے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو اپنے دل سے نفرت کرے یہ ضعیف ایمان ہے، ایک اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں، (صحیح مسلم) مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اچھائی کا حکم اور برائیوں سے مخالفت کرتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل فرما دے گا پھر تم دعائیں کرو گے لیکن قبول نہ ہوں گی۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو کسی اور مقام پر ذکر کی جائیں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم سابقہ لوگوں کی طرح افتراق و اختلاف نہ کرنا تم نیک باتوں کا حکم اور خلاف شرع باتوں سے روکنا نہ چھوڑنا، مسند احمد میں ہے حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ حج کیلئے جب مکہ شریف میں آئے تو ظہر کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اہل کتاب اپنے دین میں اختلاف کر کے بہتر گروہ بن گئے اور اس میری امت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے خواہشات نفسانی اور خوش فہمی میں ہوں گے بلکہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی رگ رگ میں نفسانی خواہشیں اس طرح گھس جائیں گی جس طرح کتے کے کاٹے ہوئے انسان کی ایک ایک رگ اور ایک ایک جوڑ میں اس کا اثر پہنچ جاتا ہے اے عرب کے لوگو اگر تم ہی اپنے نبی کی لائی ہوئی چیز پر قائم نہ رہو گے تو اور لوگ تو بہت دور ہوجائیں گے۔ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں پھر فرمایا اس دن سفید چہرے اور سیاہ منہ بھی ہونگے۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ اہل سنت والجماعت کے منہ سفید اور نورانی ہونگے مگر اہل بدعت و منافقت کے کالے منہ ہونگے، حسن بصری فرماتے ہیں یہ کالے منہ والے منافق ہونگے جن سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان کے بعد کفر کیوں کیا اب اس کا مزہ چکھو۔ اور سفید منہ والے اللہ رحیم و کریم کی رحمت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ حضرت ابو امامہ ؓ نے جب خارجیوں کے سر دمشق کی مسجد کے زینوں پر لٹکے ہوئے دیکھے تو فرمانے لگے یہ جہنم کے کتے ہیں ان سے بدر مقتول روئے زمین پر کوئی نہیں انہیں قتل کرنے والے بہترین مجاہدین پھر آیت (يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ) 3۔ آل عمران :106) تلاوت فرمائی، ابو غالب نے کہا کہ جناب نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا ہے ؟ فرمایا ایک دو دفعہ نہیں بلکہ سات مرتبہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہی نہیں، ابن مردویہ نے یہاں حضرت ابوذر کی روایت سے ایک لمبی حدیث نقل کی ہے جو بہت ہی عجیب ہے لیکن سنداً غریب ہے۔ دنیا اور آخرت کی یہ باتیں ہم تم پر اے نبی کھول رہے ہیں اللہ عادل حاکم ہے وہ ظالم نہیں اور ہر چیز کو آپ خوب جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ کسی پر ظلم کرے (جن کے کالے منہ ہوئے وہ اسی لائق تھے) زمین اور آسمان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں اور ہر کام کا آخری حکم اسی کی طرف ہے متصرف اور با اختیار حکم دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے۔