اس صفحہ میں سورہ Adh-Dhaariyat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الذاريات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
جب حضرت ابراہیم نے اپنے مہمانوں کی حقیقت معلوم کرلی تو وہ پوچھنے لگے کہ ان کا مشن کیا ہے۔
قال انا ارسلنا الی قوم مجرمین (15 : 13) ” انہوں نے کہا اے فرستادگان الٰہی آپ کو کیا مہم درپیش ہے۔ “ تو انہوں نے جواب دیا ۔
قالو انا ارسلنا الی قوم مجرمین (15 : 23) ” ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں “ یہ قوم لوط کے لوگ تھے جیسا کہ دوسری سورتوں میں تصریح ہے۔
لنرسل ........ للمسرفین (15 : 43)
” تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں جو آپ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لئے نشان زدہ ہیں۔ “
یہ مٹیالے پتھر ، تیار شدہ اور نشان زدہ تھے اور اللہ نے ان کو مسرفین کے لئے تیار کیا تھا اور یہ مسرف قوم لوط کے لوگ تھے جنہوں نے حدود سے تجاوز کرلیا تھا۔ وہ فطرت کی راہ سے تجاوز کرکے غیر فطری عمل کرتے تھے۔ جو حق اور دین کے خلاف راستہ تھا۔ ان پتھروں کے بارے میں کوئی بات اس سے مانع نہیں ہے کہ وہ آتش فشانی کے عمل کے نتیجے میں برسنے والوے پتھر ہوں کیونکہ گرم لاوا جب ہوا میں اڑتا ہے تو وہ پتھر بن جاتا ہے اور یہ رب تعالیٰ کی طرف سے مسلط ہوتا ہے اور اس کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کے مطابق کام کرتا ہے اور اسی شخص پر جاکر پڑتا ہے جس کے بارے میں حکم الٰہی ہو اور ہر پتھر کے لئے اللہ نے اپنے علم سے زمان ومکان مقرر کردیا ہے کہ اس نے اس جگہ فلاں کو گھیر لینا ہے اور ہر پتھر کو فرشتوں کے ذریعہ اللہ نے پھینکنا طے کردیا ہے پھر ہمیں فرشتوں کی حقیقت کا بھی تو پوری طرح علم نہیں ہے اور یہ بھی ہمیں معلوم نہیں کہ اس کائنات کے ساتھ فرشتوں کا تعلق کیا ہے پھر جن قوتوں کو ہم جانتے ہیں اور جن کے انکشافات ہمارے سامنے ہوتے رہتے ہیں اور ہم ان قوتوں کے اپنی جانب سے نام رکھتے رہتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ؟ ہماری کیا مجال ہے کہ ہم اللہ کی اس اطلاع پر اعتراض کریں کہ اس نے اپنی بعض قوتوں کو بعض مسرفین پر مسلط کردیا اور کسی خاص جگہ ایسا کردیا۔ ہمیں بہرحال اللہ تعالیٰ کی اس اطلاع پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کائنات کے بارے میں ہماری معلومات بہت ہی محدود ہیں اور مفروضوں پر مبنی ہیں بلکہ وہ نظریات ہیں اور بالکل ان چیزوں کی سطحی تاویلات ہیں۔ ابھی تک بہت کم معلومات ہیں جو حقائق بن سکے ہیں۔ غرض یہ آتش فشانی کے عمل میں پتھر ہوں یا اور پتھر ہوں۔ بہرحال وہ دست قدرت کا کرشمہ تھے۔ ان کی تخلیق کا عمل تھے اور وہ کیسے تھے یہ بھی ایک غیب ہے۔
فاخرجنا ........ المومنین (15 : 53) ” پھر ہم نے ان سب لوگوں کو نکال لیا جو اس بستی میں مومن تھے “ تاکہ وہ نجات پالیں ، ان کے لئے یہ اللہ کی حمایت تھی۔
فما ........ المسلمین (15 : 63) ” اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا “ یہ نبی زمان حضرت لوط کا گھر تھا جیسا کہ دوسری جگہ تفصیلات آتی ہیں۔ ماسواء اہلیہ لوط (علیہ السلام) باقی لوگ نجات پاگئے۔
وترکنا ........ الالیم (15 : 73) ” اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی ان لوگوں کے لئے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے تھے “ جو لوگ عذاب سے ڈرتے ہیں وہی نشانیاں بھی دیکھ سکتے ہیں اور ان کو سمجھ سکتے ہیں اور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ رہے دوسرے لوگ تو وہ اندھے ہوتے ہیں۔ ان کو اس پوری کائنات میں اللہ کی نشانیاں نہیں آتیں نہ زمین میں نہ ان کے نفوس میں اور نہ تاریخ میں۔
اب دوسری نشانی قصہ حضرت موسیٰ میں۔ اس قصے کی طرف بھی ایک سر سری اشارہ ہے کیونکہ یہاں انبیاء کی تاریخ سے نشانات راہ گنوا کر بتاتے ہیں۔
وہ صریح دلیل اور سند جس کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا ، وہ صریح اور قاطع دلیل تھی اور وہ عظیم الشان رعب تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت میں تھا اور موسیٰ اور ہارون کے ساتھ ذات باری تھی جو سنتی تھی اور دیکھتی تھی لیکن فرعون غرور کرکے منہ پھیر گیا اور اس نے واضح سچائی دیکھتے ہوئے بھی اور قاطع دلیل دیکھتے ہوئے بھی پہلو تہی سے کام لیا۔ اس نے حضرت موسیٰ خدا کے نبی کو کہا کہ وہ ساحر اور مجنون ہے حالانکہ انہوں نے اس کو ایسے معجزات دکھا دیئے تھے جن کے سامنے وہ لوگ لاجواب ہوگئے تھے۔ اس طرز عمل سے معلوم ہوگیا کہ جب کوئی ہدایت کے لئے تیار نہ ہو تو اسے بڑے سے بڑا معجزہ ہدایت پر لانے کے لئے کارگر نہیں ہوسکتا اور نہ کسی ایسی زبان کو خاموش کرایا جاسکتا ہے جو باطل پر مصر ہو۔
یہاں سیاق کلام میں اس قصے کی تفصیلات نہیں دی جاتیں بلکہ یہاں اس کا فقط انجام دے دیا جاتا ہے جو اس قصے سے بطور نشانی اور تاریخی سبق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی ہے۔
فاخذنہ ........ ملیم (15 : 04) ” آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہوکر رہ گیا “ یعنی اس نے جو سرکشی اور حق کو جھٹلایا اس کی وجہ سے وہ ملامت کا مستحق ہوکر رہ گیا۔
انداز تعبیر میں واضح طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کو اور اس کے لشکروں کو براہ راست اللہ نے پکڑا اور دریا میں پھینک دیا۔ یہ پہلو اس لئے اجاگر کیا گیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے میں نشانی کا پہلو ظاہر ہوجائے کیونکہ یہاں آفاق وانفس اور تاریخ سے اللہ کی نشانیوں کو گنوایا جارہا ہے۔ تاریخ سے رسولوں کے قصص دراصل نشانات راہ ہیں۔
اور پھر ایک دوسری تاریخی نشانی قوم عاد پر ایک نظر :
وفی عاد ........ العقیم (14) ما تذر ........ کالرمیم (15 : 24) ” اور (تمہارے لئے نشانی ہے) عاد میں ، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بےخیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔ “
اور قوم عاد پر جو ہوا بھیجی گئی اسے یہاں عقیم (بانجھ) کہا گیا ہے ۔ یہ اس لئے کہ اس ہوا میں نہ پانی تھا نہ خیر کی کوئی چیز جو سبب حیات ہو جیسا کہ اس ہوا سے قوم عاد توقع کرتی تھی۔ اس کے برعکس اس میں تباہی اور ہلاکت ہی تھی۔ یہ ہوا جس چیز کو بھی لگتی اسے مردہ کردیتی تھی۔ اس طرح جس طرح کوئی مردہ بوسیدہ ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ ہوا ان کائناتی قوتوں میں سے ایک قوت ہے اور یہ اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے اور اللہ کے لشکروں کو اللہ ہی جانتا ہے۔ ان لشکروں کو اللہ اپنی مشیت اور ناموس کے دائرے کے اندر بھیجتا ہے اور ان لشکروں کے کام کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ یہ لشکر جس پر جاتے ہیں اللہ کے ارادے سے اس کے مقرر وقت پر جاتے ہیں کسی کو ہلاک وتباہ کردیتے ہیں اور کسی کو زندہ وتابندہ کردیتے ہیں لہٰذا ایسے مقامات پر کسی کو ان سطحی اور سادہ اعتراضات کا کوئی حق نہیں ہے کہ ہوا تو کائناتی نظام کے مطابق چلتی ہے اور یہ ادھر اور ادھر طبیعاتی عوامل واسباب کے مطابق چلتی ہے ہم کہتے ہیں کہ یہ طبعی نظام اور کائناتی عوامل بھی خالق ہی چلاتا ہے وہ اپنی تدبیر اور تقدیر کے ساتھ کسی کو تباہ اور کسی کو زندہ کردیتا ہے۔ یہ عوامل اس نے پیدا کئے اور اسباب اسی کے ہیں اور طبعیاتی اصول اسی نے وضع کئے ہیں اور انہیں کے ساتھ وہ ان عوامل کو کسی پر مسلط کرتا ہے ، اگر کوئی خالق کائنات کو مانتا ہے تو پھر ایسے اعتراضات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اور تیسری نشانی قوم ثمود کی :
وفی ثمود ........ منتصرین (54) (15 : 14 تا 54)
” اور (تمہارے لئے نشانی ہے) ثمود میں جب ان سے کہا گیا تھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کرلو مگر اس تنبیہ پر بھی انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ آخر کار ان کے دیکھتے دیکھتے اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے ان کو آلیا۔ پھر نہ ان میں اٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کرسکتے تھے۔ “
اذ قیل لھم تمتعوا حتی حین (15 : 34) ” ایک خاص وقت تک مزے کرلو “ سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کو تین دنوں کی مہلت دی گئی تھی یعنی ناقہ کے بعدذ جیسا کہ دوسری جگہ ہے۔
قال تمتعوا ........ ایام ” پھر صالح نے ان کو خبردار کردیا کہ بس اب تین دن دن اپنے گھروں میں اور رہ لو “ اور اس سے مراد وہ وقت بھی ہوسکتا ہے یعنی رسالت کرنے سے قتل ناقہ تک کا وقت جبکہ انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے ناقہ کو قتل کردیا اور ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہوگیا۔
قوم لوط پر پتھروں کی بارش ہوئی ان کے بارے میں ہم نے جو کچھ کہا ہے وہی بات اس ہوا کے بارے میں بھی ہے جو قوم عاد پر بھیجی گئی اور وہی بات اس چیخ کے بارے میں بھی ہے جو قوم ثمود پر آئی۔ یہ تمام کائناتی قوتیں ہیں جو اللہ کی تدبیر سے کنٹرول ہوتی ہیں۔ یہ اللہ کی مشیت اور اس کے قوانین کے مطابق چلتی ہیں اور اپنے قوانین کے دائرے کے اندر اللہ جس قوم پر چاہتا ہے ان کو بطور عذاب مسلط کردیتا ہے۔ لہٰذا یہ قوتیں وہی کام کرتی ہیں جو اللہ ان کے حوالے کرتا ہے اور اللہ کے لشکر لاتعداد اور بےمثال ہیں۔
وقوم ........ فسقین (15 : 64) ” اور ان سب سے پہلے ہم نے نوح کی قوم کو ہلاک کیا کیونکہ وہ فاسق لوگ تھے۔ “
یہ قصہ نوح کی طرف نہایت ہی سرسری اشارہ ہے۔ بغیر تفصیلات کے اور بغیر اضافوں کے کہ ذرا قوم نوح کو بھی یاد کرلو ، جہاں قوم نوح کے قصے میں (فی نوح) کی بجائے (قوم نوح) کے الفاظ آئے ہیں اصل عبارت یوں ہے۔
اذکرقوم نوح کہ قوم نوح کا تذکرہ بھی کردے اور اس کے بعد آیات کا آغاز ہوتا ہے۔
والسماء بنیناھا کو اس پر عطف کیا گیا ہے تو قوم نوح کی نشانی ایک تاریخی نشانی ہے اور آسمان کی نشانی تکوینی نشانی ہے۔ یہاں دونوں کو باہم حرف عطف کے ذریعے مربوط کردیا گیا اور ان دونوں کے ذریعے اس پیراگراف کو اس سورة کے تیسرے پیراگراف سے مربوط کردیا گیا۔
اب روئے سخن پر اس کائنات کی نمائش گاہ کی طرف لوٹ جاتا ہے جس کے ساتھ اس سورة کا افتتاح ہوا تھا۔ اس کائنات میں قلب ونظر کے جلا کے لئے کئی تصاویر ہیں تو اب اس کائنات کے البم سے ایک نئی تصویر آپ کے سامنے لائی جاتی ہے اور اس کے ذریعے اس نمائش گاہ کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو تلاش کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یوں حضرت نوح کے قصے کی نشانی اب زمین و آسمان کی تصویری کہانیوں کے ساتھ مل جاتی ہے اور اس کے بعد پھر انسانوں کو بلند آواز سے پکارا جاتا ہے کہ دوڑو اللہ کی طرف ! خالص نظریہ توحید کے ساتھ۔
والسمائ ........ لموسعون (15 : 74) ” آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا اور ہم بہت ہی وسعت رکھتے ہیں۔ “
الاید سے مراد قوت ہے۔ ہولناک وسیع اور عریض آسمانوں کی تخلیق اور ان کو ضبط میں رکھنے ہی سے اللہ کی عظیم قوت ظاہر ہے۔ آپ آسمان کے لفظ سے جو بھی مراد لیں خواہ آپ اس سے سیاروں کے مدارات لیں یا اس سے آپ مراد ستاروں کے مجموعے کہکشاں کو لیں جس میں کئی ملین ستارے ہوتے ہیں یا آپ اس سے مراد بلند فضاؤں کے وہ طبقات لیں جن کے اندر یہ ستارے اور سیارے بکھرے ہوئے ہیں یا اس کے علاوہ اس لفظ کا کوئی بھی مفہوم لیں بہرحال یہ کرشمہ قدرت الیہ ہے۔
اسی طرح وسعت سے مراد بھی یہی سیارے ہیں جو بڑے بڑے حجم والے ہیں اور ملین کی تعداد ہیں اور یہ اس ہولناک اور سرچکرانے والی وسیع فضائے کائنات میں بکھرے پڑے ہیں جس طرح ذرات بکھرے ہوئے ہیں بس یہی وسعت ہے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وسعت سے مراد وہ خزانے ہوں جو اللہ نے انسانوں کے رزق اور خوراک کے لئے رکھے ہوئے ہیں اور یہ خزانے آسمانوں میں ہیں۔ اس سورة میں یہاں آسمان سے مراد صرف وہ ہوگا جو اللہ کے ہاں ہے لیکن قرآن کا انداز تعبیر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کسی لفظ کے مفہوم کی طرف ایک اشارہ ہوتا ہے۔ تعبیر پر اس مفہوم کا سایہ ڈالا جاتا ہے اور یہ بالاارادہ ہوتا ہے تاکہ انسانی شعور اس سے تاثر لے۔
ایک اشارہ یہاں بچھائی ہوئی زمین کی طرف بھی آتا ہے۔
والارض ........ المھدون (15 : 84) ” اور زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بہت اچھے ہموار کرنے والے ہیں “
اللہ نے اس زمین کو تیار کیا کہ یہ زندگی کے لئے ایک گہوارہ ثابت ہو جس طرح اس سے قبل ہم نے تفصیل دے دی ہے۔ فرش انسان کے لئے آرام اور راحت کا سبب ہوتا ہے۔ زمین کو اس طرح تیار کردہ ، ہموار کردہ اور سہولتوں کا اور زندگی کا گہوارہ بنایا گیا ہے۔ اس لئے فرش سے تعبیر کیا گیا۔ اس کی ہر چیز کو نہایت ہی گہرائی سے زندگی کی کفالت کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
فنعم المھدون (15 : 84) ” ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں۔ “
ومن ........ تذکرون (15 : 94) ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے شاید کہ تم اس سے سبق لو۔ “
یہ ایک عجیب حقیقت ہے جو اس زمین کی تخلیق کا بنیادی اصول بتاتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہی اصول پوری کائنات میں بھی کار فرما ہو کیونکہ انداز تعبیر میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ صرف زمین اندر ہی یہ اصول کار فرما ہے۔ یہ اصول تخلیق میں زوجیت اور جوڑے کا اصول ، زندہ چیزوں میں زوجیت کا اصول تو بالکل ظاہر و باہر ہے لیکن ” شئی “ کے لفظ کا اطلاق دوسری چیزوں پر بھی ہوتا ہے تو معنی یہ ہوئے کہ تمام اشیاء بھی زوجیت کے اصول پر تخلیق کردہ ہیں۔
جب ہم اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہم چودہ سو سال سے اس آیت کو پڑھ رہے ہیں اور زوجیت کے اصول کی اس قدر ہمہ گیری کا تصور اس وقت نہ تھا جو اب ہوگیا ہے ، اس وقت تو زندہ چیزوں میں بھی یہ اصول اس قدر ہمہ گیر متصور نہ تھا چہ جائیکہ کوئی تمام اشیاء کے اندر زوجیت کا تصور کرتا ہے۔ اگر ہم یہ حقیقت سوچ لیں تو پھر ہمارے سامنے ایک عجوبہ آجاتا ہے اور یہ ہمیں بتایا ہے کہ اس پوری کائنات کی ہر چیز زوجیت کے اصول پر ہے۔
یہ آیت ہمیں حقیقت بھی بتاتی ہے کہ دور جدید کے تمام انکشافات ہمیں حقیقت کبریٰ کے بہت قریب کرتے جارہے ہیں۔ تمام تحقیقات اس پر متفق ہوتی جارہی ہیں کہ کائنات کی تخلیق ذرے سے ہوتی ہے اور ذرہ دو کہربائی جوڑوں سے مرکب ہے۔ مثبت اور منفی لہٰذا جدید طبعی تحقیقات اس حقیقت کے ثبوت کی طرف جارہی ہیں۔
عبارت اور الفاظ کے لحاظ سے چھوٹے اور مختصر اور مفہوم کے اعتبار سے بڑے اور محیرالعقول اشارات کی روشنی میں آسمان کی دوریوں ، زمین کے اطراف واکناف اور مخلوقات کے انفس کے مکالمے اور مشاہدے کی روشنی میں اب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو نہایت ہی بلند آواز سے پکارتا ہے کہ دوڑو خالق ارض وسماء کی طرف ، خالص ہوکر ، تمام بوجھ اپنے کاندھوں سے پرے پھینک کر ، ہلکی روح ، بےقید دل کے ساتھ اور توحید کے جھنڈے ہاتھوں میں لئے ہوئے دوڑ پڑو۔
ولا تجعلوا ........ مبین (15 : 15) ” اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ، میں تمہارے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔ “
اللہ کی طرف آنے کو فرار سے تعبیر کرنا درحقیقت ایک عجیب اور معنی خیز تعبیر ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ اس زمین میں انسانوں کو کس طرح ناجائز طور پر برباد کردیا گیا۔ کس طرح اسے پابندیوں میں جکڑ دیا گیا ہے کس طرح اسے بیڑیاں پہنا کر جیلوں کے گڑھوں میں بند کردیا گیا ہے جنہوں نے انسانوں کو اس زمین کے ساتھ چپکا دیا ہے ، اس پر گرادیا ہے اور اس کو قسم قسم کے بندھنوں سے باندھ دیا گیا ہے۔ خصوصاً رزق اور مال و دولت کی لالچ کے ذریعے اور اپنے حصے کا رزق حاصل کرنے کے لئے ظاہری اسباب رزق میں انسانوں کو منہمک کردیا گیا ہے۔ اس لئے انسانوں کو ان بندھنوں سے چھڑانے کے لئے بھی نہایت ہی زور دار دعوت اور بلند آواز کے ساتھ پکار کی ضرورت تھی اور الفاظ کے استعمال میں بھی ایسا لفظ لیا گیا کہ شدت سے بھاگو ، اور بھاگو بھی اللہ کی طرف بغیر کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے اور حجت تمام کرنے کے لئے کہا گیا۔
انی لکم منہ نذیر مبین (15 : 15) ” میں تمہارے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں “ دونوں آیات کے اندر اس بات کا تکرار تاکید مزید بردلالت ہے۔ پہلی آیت میں بھی کہا گیا۔
انی لکم منہ نذیر مبین (15 : 15) یہ تکوینی آیات اور نشانات آسمانوں کی نشانیوں ، زمین کی نشانیوں ، تخلیق کی نشانیوں اور ان کے ساتھ رسولوں کی تاریخ کے نشانات یہ ایک مسلسل بیان تھا نشانات الجہ کے لئے اور ۔
والسماء بنینھا (15 : 74) بھی انہی کا نتیجہ تھا۔ اس لئے اب رسولوں کی تاریخی نشانیوں پر ایک تبصرہ آتا ہے اور آپ کو تسلی دی جاتی ہے۔