اس صفحہ میں سورہ As-Saaffaat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الصافات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
ما لکم لاتناصرون (25) ” “۔ اب کیا وجہ ہے کہ تم یہاں کوئی اجتماعی بچاؤ کی تدابیر نہیں کرتے۔ یہاں تو تم سب کھڑے ہو اور اب تمہیں ایک دوسرے کی امداد کی بہت ضرورت بھی ہے ۔ اور وہ دیکھو تمہارے وہ معبود بھی کھڑے ہیں ، جن کی دنیا میں تم بندگی کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس نہ کوئی جواب ہے اور نہ وہ بات کرسکتے ہیں۔ یہ سوال تو کیا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس پر ایک تبصرہ ہو۔
بل ھم الیوم مستسلمون (26) ” “۔ یعنی ہر ایک اپنے آپ کو بےبسی میں دوسرے کے حوالے کر رہا ہے ، بندگی کرنے والے ہوں کہ معبود ہوں۔ اب یہاں خطابی انداز کلام کو بدل کر پھر مطالبتی اور بیانیہ انداز سامنے آتا ہے۔ اس منظر میں یہ ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں۔
واقبل بعضھم۔۔۔۔۔ عن الیمین (27 – 28) ”
“۔ یعنی تم سیدھے رخ سے آکر ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالتے تھے ، بالعموم جب کسی کے کان میں کوئی بات ڈالتا ہے تو وہ دائیں جانب سے آتا ہے۔ لہٰذا تم ہماری اس حالت کے ذمہ دار ہو۔ اور ان کا جواب یہ آتا ہے کہ تمہارا یہ الزام احمقانہ ہے۔ تم خود اپنے کیے کے ذمہ دار ہو ، جو فیصلہ کیا تم نے کیا۔
قالوا بل لم تکونوا مؤمنین (29) ” “۔ یہ ہمارا وسوسہ ہی نہ تھا جس نے تمہیں گمراہ کیا بلکہ تم تو ایمان ہی نہ لائے تھے اور تم نے تو ہدایت کو قبول ہی نہ کیا تھا۔
وما کان ۔۔۔۔ سلطن کہ ہم نے تمہیں اس رائے کے اختیار کرنے پر مجبور کیا جو ہماری تھی۔ ایسا نہ تھا کہ تم ایک رائے کو اختیار کرنا تو نہ چاہتے تھے اور ہم نے تم سے زبردستی کرکے اس رائے کے اختیار کرنے پر مجبور کیا
بل کنتم قوما طغین (30) ” “۔ تم خود ہی حد سے گزرنے والے تھے۔ کسی حد پر رکنے والے نہ تھے۔
فحق علینا ۔۔۔۔۔ کنا غوین (31 – 32) ” لہٰذا ہم لوگ اور تم لوگ دونوں عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ وہ ارادا اب ہم پر حق بن کر آگیا ہے۔ اب ہمارے لیے عذاب کا مزہ چکھنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ تم لوگ ہمارے ساتھ اسلیے آگئے تھے کہ تم ہمارے راتے پر چلنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ تم ہمارے پیچھے لگ گئے تھے
فاغوینکم انا کنا غوین (37: 32) ” سو ہم نے تم کو بہکایا ، ہم خود بہکے ہوئے تھے “۔ اب یہاں اس صورت حال ہر ایک دوسرا تبصرہ آتا ہے۔ یہ گویا عدالت ، کھلی عدالت کا ایک فیصلہ ہے۔ جس کے اندر دلائل بھی موجود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں یہ لوگ ایسے کام کرتے رہے۔ اس لیے آخرت میں ان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا :
فانھم یومئذ فی ۔۔۔۔۔۔ ب (34 – 36) ۔
اور یہ تبصرہ اور یہ فیصلہ ان لوگوں کی سرزنش پر ختم ہوتا ہے جنہوں نے دنیا میں یہ رائے اختیار کی تھی جبکہ یہ رائے نہایت ہی گھٹیا رائے تھی۔
بل جآء بالحق ۔۔۔۔۔ عباد اللہ المخلصین (37 – 40) ”
مجرموں کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے اوپر اللہ کی مخلص بندوں کو مستثنیٰ کردیا گیا تھا کہ وہ عذاب الیم سے بچ گئے تھے۔ اس مناسبت سے قیامت میں ان کے انجام کی ایک جھلک بھی دکھا دی جاتی ہے۔ ان مجرموں کے عذاب الیم کے بالمقابل وہ انعامات بھی رکھ دئیے جاتے ہیں ۔ جن میں وہ مزے لے رہے ہوں گے۔ انداز یوں ہے کہ ایک منظر کے بالمقابل دوسرا منظر۔
اولئک لھم رزق۔۔۔۔۔۔ کانھن بیض مکنون (41 – 49 “۔
جنت کی نعمتیں کیسی ہوں گی ؟ اس میں نعمتوں کا ہر رنگ ہوگا جس میں نفس انسانی کی غذا بھی ہوگی اور انسانی احساسات اور انسانی جسم سب کے لیے متاع ہوگا ۔ مزید یہ کہ وہاں جو نفس جو کچھ چاہے گا وہ اسے ملے گا ۔ قسماقسم انعامات ، اس لیے کہ یہ لوگ سب سے پہلے تو اللہ کے مکرم بندے ہیں ، اللہ کی بندگی انسان کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے ۔ پھر عالم بالا میں وہ معزز ترین مہمان ہوں گے ۔ یہ ان کے آرام کی جگہ ہوگی اور وہاں ان کو کوئی مشقت اور ذیوئی نہ کرنا ہوگی ۔ پھر مزید یہ کہ آرام کے ساتھ اللہ کی رضامندی بھی انہیں حاصل ہوگی ۔ جو سب سے بڑی نعمت ہوگی ۔
یطاف علیھم ۔۔۔۔۔۔ عنھا ینزفون (37: 45-47) ” شران کے چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان بھرائے جائیں گے چمکتی ہوئی شراب جو پینے والوں کے لیے لذت ہوگی ۔ نہ ان کے جسم کو اس سے کوئی ضرر ہوگا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہوگی “۔ یہ جنت کی شراب کی نہایت ہی خوبصورت تعریف ہے کہ اس سے شراب کی لذت تو ہوگی لیکن شراب کے مضرات اس میں نہ ہوں گے ۔ اس میں نشہ نہ ہوگا جس سے سرچکراجائیں گے ۔ اور نہ اس میں کمی ہوگی کہ کبھی ملے اور کبھی نہ ملے مزہ جاتا رہے ۔
وعندھم قصرت الطرف عین (37: 48) ” اور ان کے پاس نکا ہیں بچا بےوالی خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی “۔ نہایت حیادار ، نظریں اپنے خاوندوں کے سوا کسی پر نہ ڈالیں گی بوجہ حیادصفت ۔ اور ان کی آنکھیں بہت ہی خوبصورت ہوں گی ۔ وہ نہایت محفوظ ، نرم ونازک اور پتلی ہوں گی ۔
کانھن بیض مکنون (37: 49) ” جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی “ یہ جھلی ایسی ہوتی ہے کہ نہ اس کو کسی کا ہاتھ لگ سکتا ہے اور نہ آنکھ دیکھ سکتی ہے اور ہوتی بھی نرم ونازک ہے ۔ یہ تصویر کشی ابھی جاری ہے ۔ اللہ کے یہ مخلص اور نیک بندے جو جنت کے متاع اور عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں ؛ نہایت ہی خوشگوار موذ میں باہم گفتگو بھی کرتے ہیں ۔ اس گفتگو میں اپنے ماضی اور حال پر بحث کرتے ہیں جبکہ اس سے قبل ہم پڑھ آئے ہیں کہ مجرمین بھی باہم لعن طعن کرتے تھے ۔ چنانچہ
جنتیوں میں ایک شخص دوسروں کے سامنے اپنے حالات رکھتا ہے ۔
فاقبل بعضھم ۔۔۔۔۔۔۔ انا لمدینون (50-53) ”
اس جتنی کا یہ دوست وقوع قیامت اور حسان و کتاب کا منکر تھا اور وہ اس جتنی کو ملا مت کرتا تھا کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ لوگ قیامت میں دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کا حساب و کتاب ہوگا۔ اس کے بعد کہ وہ مٹی ہوجائیں اور محض ہڈیاں رہ جائیں گی ۔ یہ جتنی اپنے ساتھیوں کے ساتھ محو گفتگو ہے کہ اچانک اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ ذرا تلاش تو کرے کہ اس کے دوست کا انجام کیا ہوا ہے ۔ اسے یقین ہے کہ جنت میں تو وہ ہو نہیں سکتا لازما جہنم میں ہوگا۔ وہ خود بھی تلاش کرتا ہے اور دوستوں سے بھی کہتا ہے کہ اسے تلاش کیا جائے ۔