اس صفحہ میں سورہ Saad کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ ص کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 17 { اِصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ } ”اے محمد ﷺ ! آپ صبرکیجیے اس پر جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں“ { وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِج اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ} ”اور آپ ﷺ تذکرہ کیجیے ہمارے بندے دائود کا جو بہت قوت والا تھا ‘ بیشک وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والا تھا۔“
آیت 18 { اِنَّاسَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ } ”ہم نے تو اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا ‘ جو اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے شام کو بھی اور صبح کے وقت بھی۔“
آیت 19 { وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃًط کُلٌّ لَّہٗٓ اَوَّابٌ} ”اور پرندے بھی ‘ جو کہ جمع کردیے جاتے تھے۔ یہ سب کے سب اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔“ یعنی حضرت دائود علیہ السلام ‘ پہاڑ اور پرندے سب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تھے ‘ یا یہ کہ پہاڑ اور پرندے حضرت دائود علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور پھر حضرت دائود علیہ السلام ان سب کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اس طرح وہ سب مل کر حضرت دائود علیہ السلام کی آواز میں آواز ملا کر اللہ کی حمد کے ترانے الا پتے تھے۔
آیت 20 { وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ } ”اور ہم نے اس کی حکومت کو خوب مضبوط کیا تھا ‘ اور ہم نے اسے حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بھی۔“ یعنی ایسی واضح ‘ فیصلہ کن اور دو ٹوک بات جو تمام مخاطبین و متعلقین کے لیے موجب ِاطمینان ہو۔ اب آگے اس سورت میں چند ایسے واقعات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو مشکلات القرآن میں سے ہیں۔ دراصل ان واقعات کا بیان یہاں اشاروں کنایوں میں ہوا ہے۔ تفصیلات کی تحقیق کے لیے اگر ہم تورات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں ان واقعات کے حوالے سے جو معلومات ملتی ہیں وہ انبیائِ کرام علیہ السلام کے شایانِ شان نہیں۔ یوں ہمارے لیے شش و پنج کی سی صورت ِحال بن جاتی ہے۔ بہر حال ان واقعات کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں خطا یا لغزش کا کوئی معاملہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء و رسل علیہ السلام معصوم تھے ‘ لیکن انسان تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ان میں کبھی غلطی کا رجحان ہی پیدا نہ ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ فرشتے ہوتے ‘ انسان نہ رہتے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندے ہونے کے سبب تمام انبیاء و رسل علیہ السلام ہر وقت اللہ کی حفاظت میں رہتے تھے۔ خود حضور ﷺ کی زندگی میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً کتب سیرت میں حضور ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ جوانی میں ظہورِنبوت سے پہلے دو مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ ﷺ نے کسی میلے میں جانے کا ارادہ کیا۔ عرب میں ہر سال بہت سے ایسے میلے لگتے تھے جن میں فحش گوئی اور لہو و لعب کا سامان بھی ہوتا تھا اور بےہودہ مشاعرے بھی سجائے جاتے تھے۔ ان میلوں میں عکاظ کا بازار بہت مشہور تھا جوہر سال خصوصی اہتمام سے سجتا تھا اور اس میں شرکت کے لیے پورے عرب سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ روایات کے مطابق آپ ﷺ نے دو مرتبہ ایسے کسی بازار یا میلے میں جانے کا ارادہ فرمایا ‘ مگر دونوں مرتبہ ایسا ہوا کہ راستے میں جہاں آپ ﷺ آرام کے لیے رکے ‘ وہاں آنکھ لگ گئی اور پھر ساری رات سوتے میں ہی گزر گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اس لہو و لعب میں شریک ہونے سے آپ ﷺ کو کلیۃً محفوظ رکھا۔ اگرچہ یہ دونوں واقعات حضور ﷺ کے منصب ِنبوت پر فائز ہونے سے پہلے کے ہیں ‘ لیکن ایک نبی تو پیدائشی طور پر ہی نبی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں حضور ﷺ کا فرمان ہے : کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ 1 ”میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسد میں نہیں پھونکی گئی تھی“۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور ﷺ کی روح مبارک کی ایک خصوصی امتیازی شان تھی۔ بہر حال آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور چالیس سال کی عمر میں ہوا لیکن آپ ﷺ بچپن سے ہی براہ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے اور اس حفاظت کا مطلب یہی ہے کہ بشری سطح پر اگر کبھی کوئی غلط ارادہ پیدا ہو بھی گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر عمل کی نوبت نہ آنے دی۔ آئندہ آیات میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس کی جو تفصیل محرف شدہ تورات میں ملتی ہے اس میں حضرت دائود علیہ السلام پر بہت شرمناک الزامات عائد کیے گئے ہیں ‘ جو عصمت ِ انبیاء کے یکسر منافی ہیں۔ قرآن حکیم کے اشارات سے اصل بات یوں معلوم ہوتی ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کی بہت سی بیویاں تھیں واضح رہے کہ چار بیویوں کی پابندی شریعت ِمحمدی ﷺ میں ہے ‘ اس سے قبل ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس کے باوجود آپ علیہ السلام کے دل میں ایک ایسی عورت سے نکاح کی رغبت پیدا ہوئی جو کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اس پر متنبہ فرمایا اور اس سے روکنے کی ایک صورت پیدا فرما دی۔
آیت 21 { وَہَلْ اَتٰٹکَ نَبَؤُا الْخَصْمِ } ”اور کیا آپ کے پاس خبر آئی ہے جھگڑنے والوں کی ؟“ یہ ایک مقدمہ تھا جو دو دعویداروں نے فیصلے کے لیے حضرت دائود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا۔ { اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ } ”جب وہ دیوار پھلانگ کر محراب میں داخل ہوگئے۔“ حضرت دائود علیہ السلام تنہائی میں محو عبادت تھے کہ دو اشخاص اچانک آپ علیہ السلام کے حجرے میں آدھمکے۔
آیت 22 { اِذْ دَخَلُوْا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْہُمْ } ”جب وہ دائود علیہ السلام کے پاس آئے تو وہ ان سے ڈرا۔“ تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود دو افراد کا آپ علیہ السلام کی خلوت گاہ میں اچانک در آنا ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ چناچہ آپ علیہ السلام کو بجا طور پر تشویش ہوئی کہ نہ معلوم یہ لوگ کس نیت سے آئے ہیں۔ { قَالُوْا لَا تَخَفْج خَصْمٰنِ بَغٰی بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ } ”انہوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں ‘ ہم دو مخالف فریق ہیں ‘ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے“ عربی میں ”خصم“ سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کے بالمقابل ہو ‘ یعنی دشمن یا مخالف فریق۔ { فَاحْکُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِط } ”تو آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیجیے اور آپ اسے ٹالیے نہیں“ یعنی یہ مقدمہ ہمارے لیے بہت اہم ہے اور ہم اس کا فوری طور پر فیصلہ چاہتے ہیں۔ آپ علیہ السلام اسے کسی اور وقت پر نہ ٹال دیجیے گا۔ { وَاہْدِنَآ اِلٰی سَوَآئِ الصِّرَاطِ } ”اور سیدھی راہ کی طرف ہماری راہنمائی کیجیے۔“ ہمارے بیانات سن کر آپ علیہ السلام ہمیں درست لائحہ عمل اختیار کرنے کی ہدایت فرمائیں۔ چناچہ ان میں سے جو مدعی تھا اس نے اپنا مقدمہ اس طرح پیش کیا :ـ
آیت 23 { اِنَّ ہٰذَآ اَخِیْقف لَہٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّلِیَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌقف } ”یہ میرا بھائی ہے ‘ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میری ایک ہی دنبی ہے۔“ اگر ہم اس کی توجیہہ تورات کے مطابق کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مدعی نے کنائے کے انداز میں بات کی۔ وہ دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ میری ایک ہی بیوی ہے جبکہ میرے مخالف کی ننانوے بیویاں ہیں۔ { فَقَالَ اَکْفِلْنِیْہَا وَعَزَّنِیْ فِی الْْخِطَابِ } ”اب یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کر دو ‘ اور گفتگو میں اس نے مجھے دبا لیا ہے۔“
آیت 24 { قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ } ”دائود علیہ السلام نے کہا کہ یہ تو واقعتا اس نے بہت ظلم کیا ہے ‘ تمہاری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے۔“ { وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآئِ لَیَبْغِیْ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ } ”اور یقینا مشترک معاملہ رکھنے والوں میں سے اکثر ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں“ قریبی رشتہ داروں کے باہمی اشتراک کو پنجابی میں ”شریکا“ کہا جاتا ہے اور شری کے والوں میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جس کسی کو جہاں موقع ملتا ہے وہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے میں نہیں چوکتا۔ { اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ } ”سوائے ان لوگوں کے جو صاحب ِ ایمان اور نیک عمل والے ہوں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔“ { وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ } ”اور دائود علیہ السلام کو اچانک خیال آیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے“ حضرت دائود علیہ السلام سمجھ گئے کہ ان دو اشخاص کا ان کے پاس آنا اور آکر مقدمہ پیش کرنا اللہ کی طرف سے تھا اور اللہ نے یہ ساری صورت حال انہیں متنبہ کرنے کے لیے پیدا فرمائی تھی۔ { فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ } ”تو اس نے فوراً اپنے رب سے استغفار کیا اور اس کے حضور جھک گیا پوری طرح متوجہ ہو کر۔“ رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں ‘ لہٰذا یہاں رَاکِعًا سے رکوع بھی مراد ہوسکتا ہے اور سجدہ بھی۔ اس واقعہ کے حوالے سے جو اسرائیلی روایت دستیاب ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رض کا ایک اثر قول بھی موجود ہے جس کے مرفوع ہونے کے بارے میں کوئی واضح اشارہ یا ثبوت موجود نہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے حضور ﷺ سے اس بارے میں سنا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اسرائیلی روایت سنی ہو اور اسی کو بیان کردیا ہو واللہ اعلم۔ بہر حال میری رائے اس حوالے سے یہی ہے کہ انبیاء کے معاملے میں بشری تقاضوں کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ سورة الاحزاب کی آیت 52 ہم پڑھ چکے ہیں ‘ جس میں حضور ﷺ سے فرمایا گیا ہے : { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْم بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ } ”اس کے بعد اب مزید عورتیں آپ ﷺ کے لیے نکاح میں لانا جائز نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان کی جگہ دوسری بیویاں بدل لیں اگرچہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو !“ ان الفاظ میں حضور ﷺ کی خواہش کے امکان کا ذکر بہت واضح انداز میں ملتا ہے کہ اگر آپ ﷺ کی طبیعت میں کسی خاتون سے نکاح کرنے کے بارے میں آمادگی پیدا ہو بھی جائے تو بھی آپ ﷺ ایسا نہ کریں۔ چناچہ اس سے یہی ثا بت ہوتا ہے کہ انبیاء انسان تھے اور ان کی شخصیات میں انسانی و بشری تقاضے بھی موجود تھے ‘ لیکن اس کے باوجود بھی وہ معصوم تھے۔ اس لیے کہ اگر کبھی کسی بشری تقاضے کے تحت کسی نبی کو کوئی ایسا خیال آتا بھی تھا جو کہ نہیں آنا چاہیے تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا اور اس خیال کی تکمیل کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتا تھا۔ اسی کا نام عصمت ِانبیاء ہے۔
آیت 25 { فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَ وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ } ”تو ہم نے اسے معاف کردیا۔ اور یقینا ہمارے پاس اس کے لیے مقام قرب اور اچھا انجام ہے۔“ جب وہ ہمارے پاس لوٹ کر آئے گا تو ہم اسے بہت اعلیٰ مقام عطا کریں گے۔
آیت 26 { یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ } ”ہم نے کہا : اے دائود علیہ السلام ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے ‘ لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو“ { وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ”اور دیکھو ! اپنی خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔“ { اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌم بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ } ”یقینا وہ لوگ جو بھٹک جاتے ہیں اللہ کے راستے سے ان کے لیے بڑا سخت عذاب ہے ‘ بسبب اس کے کہ وہ بھول گئے حساب کے دن کو۔“ اگر حساب کا دن یاد رہے اور آخرت کی زندگی کا یقین دل میں موجود ہو تو انسان راہ راست پر رہتا ہے۔