اس صفحہ میں سورہ Al-Qalam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القلم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
سنسمہ ............ الخرطوم (86 : 61) ” ہم اس کی اس سونڈ پر داغ لگائیں گے “۔ خرطوم کے معانی میں سے ایک یہ ہے کہ خرطوم خنزیر کی ناک کے کنارے کو کہتے ہیں۔ شاید یہی یہاں مراد ہے اور عربی میں انف عزت کو کہا جاتا ہے ۔ اونچی ناک والا۔ اور غم الانف ناک کا خاک آلود ہونا ذلت کے معنی میں آتا ہے۔ کہا جاتا ہے ورم انفہ ، حمی فنہ ، یعنی غضبناک ہوا اس سے الانطة (عزت نفس) ہے۔ خرطوم پر داغ لگانے کے معنی ہے اسے ذلیل کیا جائے گا۔ ایک تو اس پر داغ لگادیا جائے گا جس طرح غلاموں پر داغ لگائے جاتے تھے اور دوسرے یوں کہ اس کی ناک کو خنزیر کی ناک کی طرح بنایا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ولید پر یہ آیات بم کی طرح آکر گریں ہوں گی کیونکہ وہ ایک ایسی قوم سے تھا جس میں شاعروں کی ہجو سے بھی ، شریف لوگ بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن یہاں تو خالق سموات نے اس پر ایسی سنگباری کی اور اس انداز سے کی جس کی مثال نہیں ہے۔ اور پھر اس ہجو کو ایک ایسے نوشتے میں ریکارڈ کردیا گیا ، جس کے ایک ایک لفظ کو اس پوری کائنات میں پڑھا اور تلاوت کیا جاتا ہے اور یہ اس پوری کائنات میں قرار پکڑتا ہے اور اسے دوام نصیب ہوتا ہے۔
یہ تھی رب ذوالجلال کی طرف سے سنگباری ، اس ذلیل شخص پر جو اس کے دین کا دشمن تھا ، جو رسول کریم کا دشمن تھا ۔ وہ رسول کریم جو خلق عظیم کے مالک تھے اور یہ دشمن اسلام جو بھی ہو ، وہ اس کا مستحق تھا۔
مال اور اولاد کے اشارے کی مناسبت سے اور تکذیب کرنے والوں کی سرکشی اور دست درازیوں کے حوالے سے ایک ایسی کہانی کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے جو ان کے ہاں معروف تھی۔ اور عوام کے اندر اس کا بہت چرچا تھا۔ نعمت خداوندی پر ناشکری کی سزا اسے اللہ خبردار کرتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، بھلائی سے منع کرتے ہیں۔
مناع للخیر (86 : 21) ہیں ، ان کو خبردا کیا جاتا ہے کہ یہ مال واولاد تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بھی ایک آزمائش ہے ، جس طرح باغ والے آزمائش میں تھے۔ ہر چیز کا ایک انجام ہے اور ہر کوئی ایک حالت میں نہیں ہوتا۔
انا بلونھم ................ یعلمون
ہوسکتا ہے کہ یہ قصہ اہل مکہ کے درمیان معروف ہو۔ لیکن یہاں مقصود یہ ہے کہ اس دنیا کے تمام کام دست قدرت میں ہیں۔ اور یہاں کوئی خوشحال ہے یا بدحال ہے ، وہ اللہ کی آزمائش میں ہے۔ اور یہی اس قصے سے یہاں مقصود ومطلوب ہے۔
اس قصے کے کرداروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت ہی پسماندہ قسم کے سادہ لوح لوگ ہیں۔ جس طرح دیہات کے سادہ لوح باشندے ہوتے ہیں۔ زیادہ گہرے افکار سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ اور سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں۔ اس دور میں جب یہ آیات اتررہی تھیں تو قرآن کے مخاطب اکثر ایسے ہی سادہ لوگ تھے۔ جو اسلام سے دشمنی رکھتے تھے اور اسلام کا انکار کرتے تھے ، لیکن ان کے دماغ زیادہ پیچیدہ نہ تھے اور نہ فلسفیانہ افکار وہ رکھتے تھے۔ اکثر لوگ سادہ لوح اور سیدھے تھے۔
جہاں تک اس قصے کی طرزادا کا تعلق ہے تو یہ قرآن کے انداز بیان کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جو کسی قصے میں اچانک نمودار ہوتی ہیں اور پڑھنے اور معلوم کرنے کا شوق بڑھاتی ہیں اور اس میں انسانی تدابیر اور ان کے فیل ہونے کے مناظر بھی ہیں کہ انسان کس طرح اپنی طرف سے کوشش کرتا ہے مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ اور یہ قصہ یوں بیان ہوتا ہے کہ گویا کردار ہمارے سامنے یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ ذرا اسے دیکھئے خود قرآن کے الفاظ میں۔
اب ہم باغ والوں کے سامنے ہیں۔ یہ دنیا کی جنت ہے ، آخرت کی جنت نہیں ہے۔ یہ اس باغ کے بارے میں رات فیصلہ کرتے ہیں ، بالعموم جب باغ توڑا جاتا ہے تو ہر معاشرہ میں مساکین بھی اس دن حاضر ہوتے ہیں اور وہ بھی پیداوار میں سے اپنا حصہ پاتے ہیں۔ اور اس باغ کے سلسلے میں بھی یہی معمول تھا۔ لیکن اس باغ کے وراثت میں پانے والے موجودہ مالکان نے ، یہ اسکیم بنائی ہے کہ مساکین کو محروم کردیا جائے۔ واقعات یوں آگے بڑھتے ہیں۔
انا بلونھم .................... یستثنون (81) (86 : 71۔ 81) ”” ہم نے ان (اہل مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا ، جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے اور وہ کوئی استثناء نہیں کررہے تھے “۔ انہوں نے یہ طے کیا کہ صبح تڑکے باغ کا پھل توڑ لائیں لیکن اس قرارداد کے بعد انہوں نے انشاء اللہ نہ کہا۔ یا یہ نہ طے کیا کہ مساکین کے لئے بھی کچھ چھوڑیں گے اور اس پر انہوں نے قسم بھی اٹھائی کہ ایسا ضرور کریں گے اور اس امر کا فیصلہ کرلیا ۔ اور رات کو انہوں نے یہ شریر فیصلہ کیا۔ انہوں نے جو سازش کی یہ انہی کے دلوں میں رہی اور ان کو پتہ ہی نہ چلا کہ رات کی تاریکی میں باغ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اس کا انہیں تصور بھی نہ تھا۔ یہ تو سوگئے لیکن اللہ تو نہیں سوتا۔ اللہ نے وہ کام کیا جو ان کی تدبیر کے برعکس تھا۔ اور یہ بطور سزا ہوا کہ انہوں نے نعمت کا شکر ادا کرنے کی بجائے سرکشی کی اور مساکین اور فقراء کا حصہ کاٹنے کا فیصلہ کیا حالانکہ وہ پہلے سے چلاآرہا تھا۔ یہ اک اچانک آفت ہے جو اس مرحلے پر سامنے آتی ہے۔ رات کی تاریکی میں دست قدرت کے بھیجے ہوئے کچھ سائے حرکت میں آتے ہیں۔ لوگ سوئے ہوئے ہیں۔
فطاف ............................ کالصریم (02) (86 : 91۔ 02) ” رات کو وہ سوئے پڑے تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک بلا اس باغ میں پھر گئی اور اس کا ایسا حال ہوگیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو “۔ یعنی اس بلانے رات کو اس کے تمام پھل ختم کردیئے۔ لیکن اس باغ کا منظر اب نظروں سے ہٹا لیجئے .... اب ان لوگوں کا منظر سامنے آتا ہے جنہوں نے رات کو تدبیر کی تھی اور حلفیہ فیصلہ کیا تھا۔ یہ لوگ صبح سویرے ایک دوسرے پر آوازیں بھی دے رہے ہیں تاکہ وہ اپنے منصوبے پر عمل کریں۔
فتنادوا ................ صرمین (86 : 22) (86 : 12۔ 22) ” صبح سویرے انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا کہ اگر پھل توڑنے ہیں تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف نکل چلو “۔ صبح وہ ایک دوسرے کو اٹھاتے جگاتے ہیں اور رات کے فیصلے کو یاد دلاتے ہیں اور چپکے چپکے یہ عمل ہورہا ہے۔ اس کے بعد سیاق کلام میں ان کے ساتھ ایک مذاق بھی ہوتا ہے۔ ان کے اٹھنے اٹھانے ، چلنے اور باہم گفتگو کی تصویر خوب کھینچی جاتی ہے۔ یہ نہایت دھیمی آواز سے بات کرتے ہیں تاکہ ان کی تدبیر پوری طرح کامیاب ہو ، تاکہ پورا پھل توڑلیں اور مساکین کو پوری طرح محروم کردیں۔
فانطلقوا .................... مسکین (42) (86 : 32۔ 42” چناچہ وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے کہ آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں نہ آنے پائے “۔ اب حالت یہ ہے کہ ہم جو قرآن پڑھ رہے ہیں ہمیں تو معلوم ہے کہ آگے کیا آرہا ہے لیکن ان چاروں کو تہ پتہ نہیں ہے کہ آگے وہ کیا دیکھنے جارہے ہیں۔ ہم نے تو یہ منظر دیکھ لیا ہے کہ رات کو دست قدرت اپنا کام کر گیا ہے۔ باغ میں تو اب کچھ نہیں توڑنے کے لئے۔ باغ یوں ہے کہ گویا کسی نے اس کے تمام پھل توڑ لئے ہیں اور وہاں کچھ بھی باقی نہ ہو۔ اور خفیہ ہاتھ نے یہ کام کردیا۔ اب ہماری سانس رک رہی ہے کہ یہ لوگ کس صورت حال سے دو چار ہونے والے ہیں۔ ان کی تمام تدابیر ان پر الٹ گئی ہیں۔
سیاق کلام مزید مذاق کررہا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ۔
وغدوا ................ قدرین (86 : 52) ” وہ کچھ نہ دینے کا فیصلہ کیے ہوئے صبح سویرے جلدی جلدی اس طرح وہاں گئے جیسے کہ وہ (پھل منع کرنے پر) قادر ہیں “۔ وہ اس ارادے سے چلے کہ وہ مساکین سے پھل روکنے اور انہیں منع کرنے پر قادر ہیں۔ اب پہلی مرتبہ وہ ایک ایسی صورت حال سے دو چار ہوتے ہیں جس کی توقع وہ نہ کرتے تھے۔ اب مزاح کی جگہ سنجیدگی آجاتی ہے۔
فلما .................... لضالون (86 : 62) ” مگر جب باغ کو دیکھا تو کہنے لگے ، ” ہم راستہ بھول گئے ہیں “۔ یہ تو ہمارا باغ ہی نظر نہیں آتا۔ ہمارا باغ تو پھل سے لدا تھا۔ شاید ہم راستہ بھول کر کسی دوسری جگہ آگئے ہیں۔ لیکن جب معلوم ہوتا ہے کہ راستہ تو نہیں بھولے وہی معروف راستہ ہے جس سے آئے۔
بل نحن محرومون (86 : 72) ” نہیں ، بلکہ ہم محروم رہ گئے “۔ اور یہ ہے اصل حقیقت۔ اب سازش اور مکاری کے انجام نے انہیں گھیر لیا تھا۔ سرکشی اور دوسروں کے حقوق مارنے کا انجام انہوں نے دیکھا۔ اب ان میں سے معتدل ، عقلمند اور صالح آدمی یہ تبصرہ کرتا ہے :
معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ لوگ اس حرکت کا فیصلہ کررہے تھے تو اس نے ان کو غریبوں کی اس حق تلفی سے منع کیا تھا۔ اس نے چونکہ اپنی رائے پر اصرار نہ کیا تھا اس لئے اسے بھی دوسروں کے ساتھ نقصان میں شریک ہونا پڑا۔ لیکن وہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ تم نے میری بات نہ سنی۔
فاقبل ................ یتلاومون (86 : 03) ” پھر ان میں سے ہر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگا “۔ لیکن آخر کار وہ جان لیتے ہیں کہ سب کی غلطی ہے ، اب نادم ہوتے ہیں۔ اور توبہ کے بعد امید کرتے ہیں کہ شاید اللہ ان کو یہ باغ دوبارہ عطا کردے۔ دوبارہ اسے باردار کردے کیونکہ اب وہ مساکین کے خلاف سازش اور بخل سے باز آنے کا عزم کرچکے ہیں۔
قالوا ........................ رغبون (23) (86 : 13۔ 23) ” آخر کار انہوں نے کہا ” افسوس ہمارے حال پر ، بیشک ہم سرکش ہوگئے تھے۔ بعید نہیں کہ ہمارا رب ہمیں بدلے میں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے ، ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں “۔ اور قبل اس کے کہ اس منظر پر سے پردہ گر جائے ، ہم یہ نصیحت سنتے ہیں :
کذلک .................... یعلمون (86 : 33) ” ایسا ہوتا ہے عذاب۔ اور آخرت کا عذاب اس سے بڑا ہے ، کاش یہ لوگ اس کو جانتے “۔ یوں ہوتی ہے نعمتوں میں بھی آزمائش۔ اس لئے اہل مکہ کو معلوم ہونا چاہئے۔
انا بلونھم ................ الجنة (86 : 71) ” ہم نے ان کو اسی طرح آزمائش میں ڈال دیا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا “۔ لہٰذا ان کو دیکھنا چاہئے کہ ان کی بھلائی کس میں ہے۔ اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ دنیا کی آزمائش اور عذاب تو مختصر ہوتا ہے۔ اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔
ولعذاب ................ یعلمون (86 : 33) ” لیکن آخرت کا عذاب اس سے بہت بڑا ہے ، کاش یہ لوگ جانتے “۔
یوں قریشی کے سامنے خود ان کے بدوی معاشرے کا ایک مشہور واقعہ رکھا جاتا ہے۔ چناچہ بتایا جاتا ہے کہ یہ پرانا واقعہ پھر دہرایا جاسکتا ہے۔ ان کو چاہئے کہ اپنی دولت کو دین اسلام پر ظلم کے لئے استعمال نہ کریں۔ ورنہ اللہ اس کو ضائع کرسکتا ہے۔ اور اہل ایمان کو یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ کبراء قریش کو جو مال و دولت اور جاہ و مرتبہ دیا گیا ہے اور وہ اسے غلط استعمال کررہے ہیں ، یہ سخت آزمائش میں ہیں۔ بہت جلد نتائج سامنے آجائیں گے۔ اور اگر یہ باز آجائیں تو ان کے لئے بہتر ہے ، کاش کہ وہ ہوش کے ناخن لیتے۔
والعذاب .................... یعلمون (86 : 33) ” لیکن آخرت کا عذاب اس سے بہت بڑا ہے ، کاش یہ لوگ جانتے “۔ رہے وہ لوگ جو ڈرنے والے ہیں اور چوکنے ہیں تو ان کے لئے درجات ہیں۔
ان للمتقین ................ النعیم
” یہ ہے دونوں کے انجام کا فرق۔ اور یہ ہے دونوں کے طرز عمل اور حقیقت کا فرق۔ دونوں کی راہ الگ ہے تو یقینا دونوں کا انجام بھی الگ الگ ہوگا۔
اب اس کے بعد قرآن کریم ان کے ساتھ ایک ایسا مکالمہ کرتا ہے جو بالکل قابل فہم ہے اور سورت کے ماقبل کے مضامین نے اسے واضح کردیا ہے۔ اور ان پر اب سوال پر سوال کیا جاتا ہے۔ ایسا سوال جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لئے وہ جواب نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ان سوالات کا واحد جواب ہے جو کڑوا ہے۔ اس کے سوا یہ کوئی جواب نہیں دے سکتے اور آخرت میں ان کے لئے ایک خوفناک منظر ہے۔ اور دنیا میں ان کے ساتھ رب تعالیٰ کا اعلان جنگ ہے۔
افنجعل ............................ فھم یکتبون
اس مکالمے اور تحدیات کے درمیان یہ دھمکی بھی آتی ہے کہ آخرت میں تو ان کے لئے عذاب ہے ہی لیکن دنیا میں بھی ان کے خلاف جنگ ہوگی۔ یوں مکالمے میں گرمی پیدا ہوجاتی ہے اور چیلنج زور دار ہوجاتا ہے۔
چناچہ اہل مکہ کو چیلنج کے انداز میں کہا جاتا ہے۔
فنجعل ............ کالمجرمین (86 : 53) ”” فرمانبرداروں کا حال مجرموں کا سا کردیں ؟ “ یہ سوال آیات سابقہ میں پائے جانے والے لوگوں کے حوالے سے ہے جو مجرم تھے اور اس کا جواب صرف ایک ہے کہ مسلمین مجرمین کی طرح نہیں ہوسکتے۔ مسلمین رب کے سامنے جھکنے والے ہیں۔ یہ کبھی بھی ان لوگوں کی طرح نہیں ہوا کرتے جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ، جن کی اوصاف آیات سابقہ میں بیان کردی گئی ہیں اور جو اہل مکہ پر چسپاں ہوتی ہیں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مجرموں اور مسلموں کا انجام ایک طرح کا نہ ہو۔ چناچہ دوسرا سوال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی سرزنش کا سوال ہے۔
مالکم ............ تحکمون (86 : 63) ” تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے تم کیسے حکم لگاتے ہو “۔ یعنی آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے ، تمہاری عقل کیوں کام نہیں کررہی ہے۔ تم فیصلے کن دلائل پر کرتے ہو ؟ آخر حسن وقبح کے پیمانے تمہارے ہاں کیا ہیں ؟ کہ تمہارے میزان کے مطابق ایک مسلم اور مجرم برابر ہے .... اس سرزنش اور استکاری سوالات کے بعد اب قرآن کے ساتھ مزاحیہ انداز اختیار کرتا ہے کہ یہ کسی سنجیدہ گفتگو کے قابل ہی نہیں۔
ام لکم ............................ تخیرون (83) (86 : 73۔ 83) ” کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ پڑھتے ہو کہ تمہارے لئے ضرور وہاں وہی کچھ ہے جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو “۔ یہ ان کے ساتھ ایک مذاق ہے کہ کس کتاب سے یہ علم لے کر آئے ہو ، کیونکہ عقل وعدل کا کوئی معیار تمہارے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ تمہارے فیصلے کا خلاصہ تو یہ ہے کہ مسلموں اور مجرموں کا ایک ہی انجام ہے۔ پھر یہ عجیب مضحکہ خیز کتاب ہوگی جو تمہاری خواہشات اور تمہاری مرغوبات کے مطابق فیصلے کرتی ہے کہ جو تم چاہتے ہو ، وہی فیصلے اس میں درج ہیں۔ حق اور عدل پر مبنی نہیں ہیں۔ نہ معقول ومعروف کے کسی اصول پر مبنی ہیں۔
ام لکم .................... تحکمون (86 : 93) ” یا پھر کیا تمہارے لئے روز قیامت تک ہم پر کچھ عہدوپیمان ثابت ہیں کہ تمہیں وہی کچھ ملے گا جس کا تم حکم لگاﺅ“۔ اگر کتاب نہیں ہے تو پھر اللہ کا کوئی عہد تمہارے ساتھ ہوگا پھم ؟ اور یہ عہد قیامت تک کے لئے ہوگا۔ اور اس کے مطابق تمہارا یہ حق تسلیم کرلیا گیا ہوگا ، کہ تمہارے نفس کے بارے میں تمہارا اپنا اختیار ہے تم جو چاہو ، کرو لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے ، اللہ کے ہاں ایسا عہد کسی کے ساتھ نہیں ہے۔ آخر وہ کس بنیاد پر ایسی باتیں کرتے ہیں اور ان کی دلیل کیا ہے ؟
سلھم ................ زعیم (86 : 04) ” ان سے پوچھو تم میں سے کون اس کا ضامن ہے “۔ یعنی اس معاہدے کے اوپر کوئی ہے دستخط کرنے والا اور اس پر عمل کروانے کی ضمانت دینے والا کہ اللہ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ ہوا ہے اور جو قیامت تک کے لئے قابل عمل اور قابل نفاذ ہے۔ یہ اس قسم کا مزاح ہے ، اس قدر فصیح وبلیغ مزاح ہے کہ اسے سن کر ایک معقول آدمی تو پانی پانی ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ اسے ایک نہایت ہی کھلی اور روشن حقیقت کا سامنا ہوتا ہے۔
ام لھم ................ صدقین (86 : 14) ” یا پھر ان کے ٹھہرائے ہوئے کچھ شریک ہیں (جنہوں نے اس کا ذمہ لیا ہو) ؟ یہ بات ہے تو لائیں اپنے ان شریکوں کو اگر یہ سچے ہیں “۔ یہ لوگ اللہ کے ساتھ کئی الہوں کو شریک ٹھہراتے تھے ، لیکن قرآن مجید ان کو اپنا شریک نہیں کہتا ، ان کا شریک کہتا ہے۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ اللہ کا شریک تو اللہ کو معلوم نہیں ہے۔ اور چیلنج دیتا ہے کہ یہ جو سمجھتے ہیں کہ ہیں تولے آئیں تاکہ ان کو دیکھا جائے ، لیکن کہاں سے لائیں ؟
یوم یکشف ................................ وھم سلمون (34) (86 : 24۔ 34) ” جس روز سخت وقت آپڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لئے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے ، ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ، ذلت ان پر چھارہی ہوگی۔ یہ جب صحیح وسالم تھے ، اس وقت انہیں سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا (اور یہ انکار کرتے تھے) “۔ یوں یہ لوگ قیامت کے اس منظر کے سامنے ہیں۔ گویا قیامت برپا ہے اور ان کو بلایا جارہا ہے ، کہ لاﺅ شریکوں کو جن کا تم دعویٰ کرتے تھے۔ اور اللہ کے علم میں تو یہ دن حقیقتاً حاضر ہے۔ کیونکہ اللہ کے علم میں ماضی ، حال اور مستقبل نہیں ہے۔ یوں اللہ کے علم کو پیش کرنا ، نہایت گہرا اثر ڈالتا ہے اور قرآن مجید کا مخصوص انداز بیان ہے۔
یکشف عن ساق ” جب پنڈلی کھل جائے گی “۔ یہ عربی محاورے میں سختی اور کرب کے لئے آتا ہے۔ یعنی مشکل وقت میں انسان آستین چڑھاتا ہے اور پائنچے اٹھاتا ہے اور پنڈلی کھل جاتی ہے۔ بالعموم مشکل وقت میں انسان ایسا کرتا ہے ، اور اس وقت ان کو دعوت دی جائے گی کہ اللہ کے سامنے سجدہ کرو ، یہ نہ کرسکیں گی ، کیونکہ وقت چلا گیا ہوگا اور یا اس لئے کہ اس وقت جس طرح دوسری جگہ کہا گیا :
مھطعین ............ روسھم ” سر اٹھائے بھاگے چلے جارہے ہوں گے “ حالت یہ ہوگی کہ ان کے اعصاب اور اجسام خوف کے مارے اکڑے ہوئے ہوں اور وہ غیر ارادی طور پر سجدہ نہ کرسکیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت ہی خوفزدہ پریشان ہوں گے۔ مزید ہیئت کذائی یہ ہوگی۔