اس صفحہ میں سورہ Al-Qalam کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القلم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 16{ سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ۔ } ”ہم عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے۔“ ممکن ہے اس کی ناک زیادہ لمبی اور نمایاں ہو۔ وہ خود بھی ازراہِ تکبر اپنے آپ کو بڑی ناک والا سمجھتا تھا ‘ جس کے لیے حقارت کے طور پر سونڈ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل ہے۔ اب آئندہ آیات میں ایمان بالآخرت کے حوالے سے بہت عمدہ اور عام فہم تمثیل کے طور پر باغ والوں کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔
آیت 17{ اِنَّا بَلَوْنٰہُمْ کَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِج } ”یقینا ہم نے ان اہل مکہ کو اسی طرح آزمایا ہے جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا۔“ اللہ تعالیٰ لوگوں کو طرح طرح کے امتحانات سے آزماتا رہتا ہے۔ ایک انسان کو اگر دولت کی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ‘ تو کسی دوسرے کو غربت کے امتحان سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ سورة الملک کی اس آیت میں تو انسان کی زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد ہی آزمائش بتایا گیا ہے : { الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۔ } ”اس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی۔“ { اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِیْنَ۔ } ”جبکہ انہوں نے قسم کھائی کہ وہ ضرور اس کا پھل اتار لیں گے صبح سویرے۔“
آیت 18{ وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ۔ } ”اور انہوں نے اس پر ان شاء اللہ بھی نہ کہا۔“ باغ کے پھل پک کر تیار ہوچکے تھے۔ انہوں نے ایک رات پروگرام طے کرلیا کہ وہ صبح سویرے جائیں گے اور سارا پھل اتار لائیں گے۔ گویا وہ اپنے اسباب و وسائل کے گھمنڈ میں مسبب ِحقیقی کو بالکل ہی بھول گئے۔
آیت 20{ فَاَصْبَحَتْ کَالصَّرِیْمِ۔ } ”تو وہ ایسے ہوگیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو۔“ یعنی رات کو وہ باغ کسی بگولے کی زد میں آیا اور جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔
آیت 22{ اَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ۔ } ”کہ صبح سویرے چلو اپنے کھیت کی طرف اگر تم پھل توڑنا چاہتے ہو۔“ وہ صبح سویرے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق پھل توڑنے کی تیاریاں کر رہے تھے ‘ جبکہ ان کا باغ رات کو جل کر تباہ ہوچکا تھا۔ اسی طرح انسان اپنی دھن میں مگن طرح طرح کے منصوبے بناتا رہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ایک فیصلے کے سامنے اس کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو کوئی جان لیوا مرض لاحق ہوچکا ہوتا ہے ‘ مگر وہ اس سے بیخبر اپنی لمبی لمبی امیدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے رات دن ایک کیے رہتا ہے۔ پھر جب مرض کی تشخیص ہوتی ہے تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
آیت 24{ اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّہَا الْیَوْمَ عَلَیْکُمْ مِّسْکِیْنٌ} ”کہ دیکھو آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں ہرگز داخل نہ ہونے پائے۔“ دراصل انہوں نے پھل اتارنے کے لیے منہ اندھیرے جانے کا پروگرام بنایا ہی اس لیے تھا تاکہ ایسے مواقع پر آجانے والے غرباء و مساکین کو چکمہ دے سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ باغ پر سارا سال محنت ہم نے کی ہے ‘ اس کی حفاظت کی ہے ‘ اب پھل اتارنے کے موقع پر ہم اس میں سے غرباء و مساکین کو کس لیے دیں ؟ وہ ہمارے کیا لگتے ہیں ؟ یہ تھا ان کا اصل جرم جس کی انہیں سزا ملی۔ انسان کے کردار میں ایسی پستی آخرت پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے آتی ہے۔
آیت 25{ وَّغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ۔ } ”اور وہ صبح سویرے چلے جلدی جلدی یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اس ارادہ پر پوری طرح قادر ہیں۔“ یہ آیت لفظی تصویر کشی کی بہترین مثال ہے۔ اس وقت ان لوگوں کی جو ذہنی ‘ نفسیاتی اور ظاہری کیفیت تھی ان الفاظ میں اس کی ہوبہو تصویر کھینچ کر رکھ دی گئی ہے۔ انہیں زعم تھا کہ انہوں نے بڑی کامیاب منصوبہ بندی کی ہے ‘ ابھی تھوڑی ہی دیر میں وہ پھل اتار کرلے جائیں گے اور بھیک منگوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔ ] حَرْدکا معنی قصد اور ارادہ ہے۔ یعنی انہوں نے جو یہ ارادہ کیا تھا کہ آج کسی غریب کو باغ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور صبح سویرے باغ کا پھل اتار لیں گے ‘ وہ خیال کر رہے تھے کہ ہم اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ [
آیت 26{ فَلَمَّا رَاَوْہَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَآلُّوْنَ۔ } ”پھر جب انہوں نے اس باغ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم تو کہیں بھٹک گئے ہیں۔“ فوری طور پر تو وہ یہی سمجھے کہ وہ اندھیرے میں راستہ بھول کر کسی اور جگہ آگئے ہیں اور یہ ان کا باغ نہیں ہے۔ پھر جب انہیں اصل صورت حال کا ادراک ہوا تو کہنے لگے :
آیت 27{ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ۔ } ”نہیں نہیں باغ تویہی ہے ہم تو محروم ہوگئے ہیں۔“ ہماری تو قسمت ہی پھوٹ گئی ہے۔
آیت 28{ قَالَ اَوْسَطُہُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُوْنَ۔ } ”ان کے درمیان والے نے کہا : میں تمہیں کہتا نہ تھا کہ تم اپنے رب کی تسبیح کیوں نہیں کرتے ؟“ یہ انہی کے کسی نیک فطرت بھائی کا ذکر ہے جو گاہے بگاہے انہیں روکتا ٹوکتا تھا اور انہیں یاد دہانی کراتا رہتا تھا کہ تم اللہ کو بھولے ہوئے ہو اور اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلوتہی کرتے ہو۔
آیت 30{ فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ۔ } ”پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔“ اب وہ اپنی گمراہی اور شومئی قسمت کی ذمہ داری آپس میں ایک دوسرے کے سر تھوپنے لگے۔
آیت 32{ عَسٰی رَبُّنَـآ اَنْ یُّـبْدِلَـنَا خَیْرًا مِّنْہَآ اِنَّـآ اِلٰی رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ۔ } ”اُمید ہے ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر عطا کر دے گا ‘ اب ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔“ اب ہم نے توبہ کرلی ہے۔ اب ہم اپنی روش تبدیل کرلیں گے اور آئندہ باقاعدگی سے اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق ادا کیا کریں گے۔ ہمیں امید ہے ہمارا رب ہمارے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے ہمارے نقصان کی بھی تلافی کر دے گا اور اگلے سال ہمارا باغ اس سے بہتر پیداوار دے گا۔ رَغِبَ جب اِلٰی کے صلے کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی کسی کی طرف رغبت کرنے کے ہوتے ہیں لیکن جب یہی لفظ عَنْ کے صلے کے ساتھ آئے تو بالکل متضاد معنی دیتا ہے۔ چناچہ رَغِبَ عَنْ کے معنی ہوں گے : رُخ پھیرلینا اور پہلوتہی کرنا۔ جیسا کہ سورة البقرۃ کی آیت 130 میں آیا ہے : { وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰہٖمَ اِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗط } ”اور کون ہوگا جو ابراہیم علیہ السلام کے طریقے سے منہ موڑے ؟ سوائے اس کے جس نے اپنے آپ کو حماقت ہی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہو !“ اب اگلی آیت میں گویا اس تمثیل یا واقعہ کا اخلاقی سبق moral lesson بیان ہوا ہے :
آیت 33{ کَذٰلِکَ الْعَذَابُط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ 7} ”اسی طرح آتا ہے عذاب ! اور آخرت کا عذاب تو یقینا بہت ہی بڑا ہے۔“ اس واقعے میں تو دنیا کے عذاب کا ذکر ہے۔ لیکن یاد رکھو دنیا کے عذاب تو نسبتاً چھوٹے اور وقتی ہوتے ہیں اور توبہ کرنے پر ٹل بھی جاتے ہیں۔ مثلاً ایک سال اگر پکی پکائی فصل برباد ہوگئی تو اللہ کی طرف رجوع کرنے سے ہوسکتا ہے اگلے سال اس کی تلافی ہوجائے ‘ لیکن آخرت کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ آخرت کا عذاب بہت بڑا ہوگا اور اس وقت پلٹنے کا راستہ اور توبہ کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہوگا۔ { لَــوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ } ”کاش کہ یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے !“
آیت 35{ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ۔ } ”کیا ہم اپنے فرمانبرداروں کو مجرموں کے برابر کردیں گے ؟“ اگر بعث بعد الموت کے منکرین کی منطق درست تسلیم کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیکوکار اور مجرمین میں سرے سے کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ طبعی طور پر تو موت بلاشبہ سب کو برابر کردیتی ہے ‘ جیسا کہ مشہور انگریزی نظم Death the Leveller میں بتایا گیا ہے۔ یعنی کوئی بادشاہ ہو ‘ کوئی فقیرہو ‘ کوئی شریف ہو ‘ کوئی مجرم ہو ‘ مرنا سبھی کو ہے۔ اس اعتبار سے تو یقینا موت کے سامنے سب انسان برابر ہیں ‘ لیکن یہ سمجھنا کہ موت آنے پر اخلاقی لحاظ سے بھی سب انسان برابر ہوجائیں گے انتہائی غیر منطقی اور احمقانہ سوچ ہے۔
آیت 36{ مَا لَـکُمْقف کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ۔ } ”تمہیں کیا ہوگیا ہے ‘ تم کیسے حکم لگاتے ہو ؟“ کیا تمہاری َمت ماری گئی ہے جو ایسی رائے بناتے ہو ؟ کیا اللہ کے ہاں ایسا ہی اندھیر مچاہوا ہے کہ وہاں مسلمین اور مجرمین برابر ہوجائیں گے ؟ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حکومت اپنے باغیوں اور اپنے وفاداروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دے ؟
آیت 42{ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ } ”جس دن پنڈلی کھولی جائے گی“ پنڈلی کھولے جانے کا مفہوم ہمارے تصور سے ماوراء ہے۔ ممکن ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص تجلی کا ذکر ہو جس کا ظہور میدانِ محشر کے کسی مرحلے پر لوگوں کی چھانٹی کرنے کے لیے ہونا ہو۔ واللہ اعلم ! اس اعتبار سے یہ آیت آیات متشابہات میں سے ہے۔ 1 { وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۔ } ”اور انہیں پکارا جائے گا اللہ کے حضور سجدے کے لیے تو وہ کر نہیں سکیں گے۔“ جیسا کہ قبل ازیں سورة الحدید کی آیت 11 کے تحت بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ میدانِ حشر میں اچھے اور برے لوگوں کو الگ الگ کرنے کے لیے بنی نوع انسان کو مختلف مراحل میں سے گزارا جائے گا۔ ”پنڈلی کا ظہور“ بھی ایسا ہی کوئی مرحلہ ہوگا۔ وہ صاحب ایمان لوگ جو اپنی دنیوی زندگی میں نماز کی پابندی کرتے رہے تھے اس تجلی کو دیکھتے ہی سجدے میں گرجائیں گے ‘ لیکن وہ لوگ جن کی گردنیں اکڑی رہتی تھیں اور جو نماز کی پابندی کا اہتمام نہیں کرتے تھے وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس وقت سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ گویا اس مرحلے پر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے والے لوگوں سے الگ کرلیا جائے گا۔