سورہ لیل (92): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Lail کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الليل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ لیل کے بارے میں معلومات

Surah Al-Lail
سُورَةُ اللَّيۡلِ
صفحہ 596 (آیات 15 سے 21 تک)

سورہ لیل کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ لیل کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اُس میں نہیں جھلسے گا مگر وہ انتہائی بد بخت

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yaslaha illa alashqa

آیت 15{ لَا یَصْلٰـٹہَآ اِلَّا الْاَشْقَی۔ } ”نہیں پڑے گا اس میں مگر وہ جو انتہائی بدبخت ہے۔“ ظاہر ہے جس انسان کو آخری رسول ﷺ کے آجانے کے بعد بھی حقیقت نظر نہ آئی اس سے بڑا بدبخت اور کون ہوسکتا ہے اور اس سے زیادہ جہنم کے گڑھے میں گرنے کا مستحق کون ہوسکتا ہے ؟ کیونکہ اگر کوئی شخص اندھیرے میں یا کم روشنی میں ٹھوکر کھاجائے تو اس کی ٹھوکر کا پھر بھی کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دن کی روشنی میں اس وقت راستہ پہچاننے سے انکار کر دے جب سورج نصف النہار پر چمک رہا ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے وہ خود ہی قصور وار ہوگا۔

اردو ترجمہ

جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee kaththaba watawalla

اردو ترجمہ

اور اُس سے دور رکھا جائیگا وہ نہایت پرہیزگار

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wasayujannabuha alatqa

آیت 17{ وَسَیُجَنَّـبُـہَا الْاَتْقَی۔ } ”اور بچالیا جائے گا اس سے جو انتہائی متقی ہے۔“ اس آیت کے بارے میں تقریباً تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس کے مصداق حضرت ابوبکر صدیق رض ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں آیت 5 اور 6 میں جن تین اوصاف کا ذکر ہوا ہے وہ اس امت کی جس شخصیت میں بتمام و کمال نظر آتے ہیں وہ حضرت ابوبکر صدیق رض کی شخصیت ہے۔ ”تصدیق بالحسنی“ کے حوالے سے آپ رض کے بارے میں خود حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ میں نے جس کسی کو بھی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر رض کے۔ ان رض کے سامنے جونہی میں نے اپنی نبوت کا ذکر کیا وہ فوراً مجھ پر ایمان لے آئے۔ آپ رض کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ رض توحیدپر کاربند اور بت پرستی سے دور رہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے میں بھی آپ رض کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپ رض نے کئی نادار خاندانوں کی کفالت مستقل طور پر اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ مکہ کے بہت سے غلاموں اور لونڈیوں کو آپ رض نے منہ مانگی قیمت میں خرید کر آزاد کرایا تھا اور غزوئہ تبوک کے موقع پر تو آپ رض نے اپنا پورا اثاثہ لا کر حضور ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا تھا۔ غرض مذکورہ تینوں اوصاف بدرجہ اتم امت کے َمردوں میں آپ رض کی شخصیت میں ‘ جبکہ خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رض کی شخصیت میں پائے جاتے ہیں۔

اردو ترجمہ

جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee yutee malahu yatazakka

آیت 18{ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَـہٗ یَتَزَکّٰی۔ } ”جو اپنا مال دیتا ہے اپنے نفس کو پاک کرنے کے لیے۔“ یعنی مال خرچ کرتے ہوئے دنیاداری کا کوئی مفاد اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رض نے حضرت بلال رض کو آزاد کرانے کے لیے امیہ بن خلف کو جب منہ مانگی قیمت ادا کی تو اس پر امیہ خود بھی حیران رہ گیا۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر رض کے والد حضرت ابوقحافہ رض آپ رض فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے نے بھی آپ رض سے گلہ کیا کہ اتنی بڑی رقم تم نے کسی طاقتور غلام پر کیوں نہ خرچ کی جو تمہارے کام بھی آتا ! اس زمانے میں اگر کوئی شخص کسی غلام کو آزاد کراتا تھا تو وہ غلام زندگی بھر اسی شخصیت کے حوالے سے پہچاناجاتا تھا اور اخلاقی لحاظ سے بھی وہ اس کے تابع رہتا تھا۔ عرب رواج کے مطابق ایسے آزاد کردہ غلام کو متعلقہ شخصیت کا مولیٰ کہا جاتا تھا ‘ جیسے حضرت زید بن حارثہ رض اور حضرت ثوبان رض حضور ﷺ کے مولیٰ تھے۔ بہرحال مال خرچ کرنے کا یہ فلسفہ ان لوگوں کی سمجھ سے بالا ہے جن کی نظر ہر وقت دنیا کے مفادات پر رہتی ہے۔

اردو ترجمہ

اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اُسے دینا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama liahadin AAindahu min niAAmatin tujza

اردو ترجمہ

وہ تو صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa ibtighaa wajhi rabbihi alaAAla

اردو ترجمہ

اور ضرور وہ (اُس سے) خوش ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walasawfa yarda

آیت 21{ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔ } ”اور وہ عنقریب راضی ہوجائے گا۔“ یہاں پر یَرْضٰی کی ضمیر کا اشارہ بیک وقت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور اس شخصیت کی طرف بھی جس کی صفات کا ذکر ان آیات میں ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجائے گا اور ابوبکر صدیق رض بھی راضی ہوجائیں گے۔ گویا یہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ جیسی بشارت ہے کہ اگر اللہ کا یہ بندہ اپنا مال صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے لٹارہا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے راضی ہوجائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں اتنا کچھ عطا کرے گا کہ وہ بھی خوش ہوجائے گا۔ یہاں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ معنوی اعتبار سے اس آیت کا اگلی سورت سورۃ الضحیٰ کی آیت 5 کے ساتھ خصوصی ربط وتعلق ہے جس کی وضاحت سورة الضحیٰ کے مطالعہ کے دوران کی جائے گی۔ یہاں پر زیر مطالعہ سورتوں سورۃ الشمس ‘ سورة اللیل ‘ سورة الضحیٰ اور سورة الانشراح کے مرکزی مضمون کے اہم نکات ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ سورة الشمس کی ابتدائی آٹھ آیات قسموں پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد مقسم علیہ کے طور پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نفس انسانی کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کردیا گیا ہے ‘ اور پھر اس کے بعد دو آیات میں اس حوالے سے کامیابی اور ناکامی کا معیار بھی بتادیا گیا ہے : { قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰٹہَا - وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا۔ } کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا وہ کامیاب ٹھہرا اور جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا وہ ناکام ہوگیا۔ اگلی سورت یعنی سورة اللیل میں نفس کو سنوارنے اور بگاڑنے کے طریقوں یا راستوں کے بارے میں مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ جو انسان اعطائے مال ‘ تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ کے اوصاف اپنائے گا وہ صدیقیت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس بخل ‘ استغناء حلال و حرام اور جائز و ناجائز سے متعلق لاپرواہی اور حق کی تکذیب کی راہ پر چلنے والا انسان بالآخر خود کو جہنم کے گڑھے میں گرائے گا۔ پھر کامیابی کے راستے کی مثال کے طور پر امت کی ایک ایسی شخصیت کی طرف اشارہ بھی کردیا گیا جسے پہلے تین اوصاف کو اپنانے کے باعث اعلیٰ مدارج و مراتب سے نوازا گیا۔ لیکن ظاہر ہے اس منزل کا بلند ترین مقام تو محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے مختص ہے جو معراجِ انسانیت ہیں۔ چناچہ اس مضمون کے حوالے سے اب اگلی دو سورتوں کا تعلق خصوصی طور پر حضور ﷺ کی ذات اقدس سے ہے۔ اسی نسبت سے ان سورتوں کا مطالعہ سیرت النبی ﷺ کے بعض پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے بھی مفید ہے۔ متقدمین میں سے تصوف کا ذوق رکھنے والے اکثر مفسرین نے ان سورتوں میں بعض باطنی حقائق کی نشاندہی بھی کی ہے۔ متعلقہ آیات کے مطالعہ کے دوران جہاں جس حد تک ممکن ہوا ایسے کچھ نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ظاہر ہے موجودہ دور کے ”عقلیت پسند“ مفسرین نہ تو تصوف کا ذوق رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسے موضوعات سے دلچسپی ہے۔ الا ماشاء اللہ !

596