اس صفحہ میں سورہ Taa-Haa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ طه کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 38 اِذْ اَوْحَیْنَآ اِلآی اُمِّکَ مَا یُوْحٰٓی ”یعنی اب ہم آپ علیہ السلام کو وحی کے ذریعے بتا رہے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی والدہ کو اس وقت ہم نے کیا وحی کی تھی ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے زمانے میں بھی فرعون کا حکم تھا کہ بنی اسرائیل میں سے کسی کے ہاں اگر بیٹا پیدا ہو تو اسے قتل کردیا جائے اور صرف ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو وحی یا الہام کے ذریعے ان کے نومولود بچے کے بارے میں ہدایت کی :
فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بالسَّاحِلِ یَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہٗ ط ”حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف کی جانے والی وحی کے بارے میں یہاں مزید تفصیل بیان نہیں فرمائی گئی ‘ بلکہ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے براہ راست خطاب شروع ہو رہا ہے۔ یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ کچھ چیزیں پڑھنے اور سننے والے پر چھوڑ دی جاتی ہیں کہ وہ سیاق وسباق کے مطابق خود سمجھ جائے۔ بہر حال اس واقعہ کی مزید تفصیلات یوں ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے آپ علیہ السلام کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا۔ آپ علیہ السلام کی بڑی بہن اپنی والدہ کی ہدایت کے مطابق صندوق پر نظر رکھے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ صندوق کے شاہی محل میں پہنچنے کی خبر بھی بچی کے ذریعے والدہ کو مل گئی۔ ادھر فرعون بچے کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اس کی بیوی حضرت آسیہ رض جو بنی اسرائیل میں سے تھیں اور نیک خاتون تھیں نے اس کو سمجھایا کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں ہے ‘ یہ بچہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوگا ‘ ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے ‘ چناچہ آپ اسے قتل نہ کریں۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر آپ علیہ السلام کے چہرے کو انتہائی پر کشش بنا دیا تھا۔ چناچہ آپ علیہ السلام کی صورت ایسی من مو ہنی تھی کہ ہر شخص دیکھتے ہی آپ علیہ السلام کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ ”اور اے موسیٰ علیہ السلام ! لِتُصْنَعَ کے لفظی معنی ہیں : ”تاکہ تم کو بنایا جائے“۔ اسی مادہ سے لفظ مَصْنَع مشتق ہے جس کے معنی کارخانہ کے ہیں۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کا کارخانہ فرعون کا محل قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر آپ علیہ السلام کی شکل میں ایسی کشش پیدا کردی تھی کہ دشمن بھی دیکھتے تو گرویدہ ہوجاتے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ آپ علیہ السلام کی پرورش کے انتظامات خصوصی طور پر شاہی محل میں کیے جانے منظور تھے۔
آیت 40 اِذْ تَمْشِیْٓ اُخْتُکَ ”اور وہ چلتے چلتے فرعون کے محل تک پہنچ گئی جہاں بچے کو فوری طور پر دودھ پلانے کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے منع کردیا تھا۔ جب بہت سی عورتیں بلائی گئیں اور وہ سب کی سب آپ علیہ السلام کو دودھ پلانے میں ناکام رہیں تو آپ علیہ السلام کی بہن جو یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی بول پڑی :فَتَقُوْلُ ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ یَّکْفُلُہٗ ط ”آپ علیہ السلام کی بہن نے اپنی ہی والدہ کے بارے میں ان لوگوں کو مشورہ دیا۔ چناچہ جب آپ علیہ السلام کی والدہ کو بلایا گیا تو آپ علیہ السلام نے ان کا دودھ فوراً پی لیا۔فَرَجَعْنٰکَ الآی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہَا وَلَا تَحْزَنَ ط ”چنانچہ مامتا کی تسلی و تسکین کے لیے بچے کو واپس والدہ کی گود میں پہنچا دیا گیا۔ مقام غور ہے ! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے جذبات و احساسات کا کس حد تک پاس ہے۔ وَقَتَلْتَ نَفْسًا ”پھر جب آپ علیہ السلام جوان ہوئے اور مصر میں آپ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہوگیا :فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْٓ اَہْلِ مَدْیَنَ ”آپ علیہ السلام کے مدین پہنچنے اور وہاں ٹھہرنے کے بارے میں تفصیل سورة القصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف اشارہ کیا گیا ہے۔ثُمَّ جِءْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی ”یعنی اس وقت آپ علیہ السلام کا یہاں پہنچنا کسی حسن اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ ہے۔ میں نے آپ علیہ السلام کے سب معاملات کے متعلق باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس سے پہلے جو کچھ کیا ‘ آپ علیہ السلام جہاں جہاں رہے ‘ یہ سب اس منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور اب اسی منصوبہ بندی اور ایک طے شدہ فیصلے کے مطابق آپ علیہ السلام اس جگہ پہنچ گئے ہو۔
آیت 41 وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِیْ ”اِصْطَنَعْتُ ‘ صَنَعْتُ سے باب افتعال ہے۔ ص کی مناسبت سے ت یہاں ط سے بدل گئی ہے۔ یعنی میں نے آپ علیہ السلام کی شخصیت کو خصوصی طور پر تیار کیا ہے۔ شاہی محل کے اندر مخصوص ماحول میں آپ علیہ السلام کی پرورش کرائی ہے اور بعض خصوصی صلاحیتیں آپ علیہ السلام کی شخصیت میں پیدا کی ہیں۔ اس لیے کہ مجھے آپ علیہ السلام سے ایک بڑا کام لینا ہے۔
آیت 48 اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ”چنانچہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں پہنچ کر اللہ کا پیغام پوری تفصیل کے ساتھ اس تک پہنچا دیا۔
آیت 49 قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی ”ہم تو کسی ایسے رب سے واقف نہیں ہیں جس کے بارے میں تم دونوں بات کر رہے ہو۔ تمہارا ربّ ہے کون ؟
آیت 50 قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ”یعنی اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو ایک خاص شکل اور ہیئت کے مطابق تخلیق کیا ہے اور پھر ہر مخلوق کی خلقت کے عین مطابق اسے جبلی ہدایت بھی عطا کی ہے۔ مثلاً اس نے بکری کو جبلی ہدایت دی ہے کہ اس کی غذا گوشت نہیں ہے ‘ گھاس وغیرہ ہے اور شیر کو جبلی ہدایت دی ہے کہ اس کی غذا گھاس نہیں ‘ گوشت ہے ‘ اسی طرح ہرچیز کو جبلی طور پر اس نے مخصوص عادات واطوار اور خصوصیات کا پابند کردیا ہے۔
آیت 51 قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی ”یعنی اگر ہم تمہارا یہ دعویٰ تسلیم کرلیں کہ تم اللہ کے رسول ہو اور تمہاری پیروی میں ہی ہدایت ہے تو پھر ہمارے آباء و اَجداد جو اس سے پہلے فوت ہوچکے ہیں ‘ ہماری کئی نسلیں جو اس دنیا سے جا چکی ہیں ‘ ان کے پاس تو کوئی رسول نہیں آیا تھا ‘ ان تک ایسی کوئی دعوت نہیں پہنچی تھی اور وہ اسی طریقے پر فوت ہوئے جسے تم گمراہی قرار دے رہے ہو۔ تو ان سب لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا فتویٰ ہے ؟ ان سب کا کیا بنے گا ؟یہ ایک ٹیڑھا سوال تھا جس کا جواب بڑے حکیمانہ انداز میں دینے کی ضرورت تھی۔ ہمارے جیسا کوئی داعی ہوتا تو کہہ دیتا کہ وہ سب جہنمی ہیں ! ایسے جواب کے ردِّ عمل کے طور پر مخاطبین کی اپنے اسلاف کے بارے میں عصبیت و حمیت کو ہوا ملتی اور صورت حال بگڑ جاتی۔ بہر حال حکمت تبلیغ کا تقاضا یہی ہے کہ دعوت کے دوران مخاطبین کے جذبات اور مخصوص موقع محل کو مد نظر رکھا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی منفی صورت حال پیدا نہ ہونے پائے۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کمال حکمت سے جواب دیا :