اس صفحہ میں سورہ Al-Mulk کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الملك کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 27{ فَلَمَّا رَاَوْہُ زُلْـفَۃً سِیْــٓئَـتْ وُجُوْہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ”پھر جب وہ دیکھیں گے اس کو اپنے قریب آتے تو ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے“ { وَقِیْلَ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَدَّعُوْنَ۔ } ”اور کہا جائے گا ‘ یہ ہے وہ چیز جس کا تم مطالبہ کرتے ‘ تھے۔“ ہماری وعیدوں اور تنبیہات کے جواب میں تم لوگ طنزیہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ لائو دکھائو کیسی ہے وہ جہنم ! لائو ابھی لے آئو ہمارے اوپر وہ عذاب موعود ! تو لو دیکھ لو اب ‘ یہ ہے جہنم ! تمہارا اصل اور دائمی ٹھکانہ !
آیت 28{ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَہْلَکَنِیَ اللّٰہُ وَمَنْ مَّعِیَ اَوْ رَحِمَنَالا فَمَنْ یُّجِیْرُ الْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ } ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہیے کہ اگر اللہ مجھے اور جو لوگ میرے ساتھ ہیں ‘ ان کو ہلاک کردے یا وہ ہم پر رحم کرے ‘ تو کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا ؟“ یعنی ہم نے تو اپنا معاملہ اپنے اللہ کے سپرد کر رکھا ہے۔ ہم اللہ کے بتائے ہوئے جس راستے پر چل رہے ہیں اس میں یا تو ہماری جانیں چلی جائیں گی یا ہم فتح یاب ہوں گے۔ ان میں سے جو صورت بھی ہو ‘ ہمارے لیے تو کامیابی ہی کامیابی ہے۔ بلکہ ہماری اصل اور ابدی کامیابی تو وہ ہے جسے تم ہلاکت سمجھتے ہو۔ بہرحال صورت ِحال جو بھی ہو ‘ ان دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی اِحْدَی الْحُسْنَـیَیْنِ التوبۃ : 52 تو ہمیں مل کر ہی رہے گی۔ ہمارے غلبے اور فتح کی صورت میں تو تم بھی ہمیں کامیاب قرار دو گے ‘ لیکن ہم اگر بقول تمہارے ہلاک بھی ہوگئے تو تم اپنے بارے میں بھی تو سوچو کہ تم لوگوں کو اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا ؟
آیت 29{ قُلْ ہُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے کہ وہ تو رحمن ہے ‘ ہم اس پر ایمان لاچکے ہیں اور اسی پر ہمارا توکل ّہے۔“ یاد رہے کہ زیر مطالعہ مکی سورتیں بالکل ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھیں ‘ اسی لیے ان میں حضور ﷺ اور اہل ایمان کے ساتھ کفار و مشرکین کی بالکل ابتدائی ردّوقدح کا عکس نظرآتا ہے۔ اس کشمکش کا نقطہ عروج سورة الانعام ‘ سورة الاعراف اور سورة ہود میں دیکھا جاسکتا ہے۔ { فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ہُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ } ”تو عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون تھا !“ آنے والا وقت واضح کر دے گا کہ ہم گمراہ تھے یا تم۔
آیت 30{ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَآئٍ مَّعِیْنٍ۔ } ”آپ ﷺ کہیے کہ ذرا سوچو ! اگر تمہارا پانی گہرائی میں اتر جائے تو کون ہے جو لائے گا تمہارے پاس صاف ‘ نتھرا ہواپانی ؟“ آج کے دور میں اس آیت کا مفہوم واضح تر ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ آج متعلقہ ماہرین بار بار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پانی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور بارشوں کی کمی کے باعث مستقبل قریب میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاسکتی ہے۔ بیشتر علاقوں میں انسانی ‘ حیوانی اور نباتاتی زندگی کا زیادہ تر دار و مدار زیرزمین پانی پر ہی ہے جو عموماً آسانی سے دستیاب بھی ہے۔ صاف شفاف اور میٹھے پانی کا یہ عظیم الشان ذخیرہ ”زندگی“ کے لیے قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ اگر یہ پانی واقعی ایسی گہرائی میں چلا جائے جہاں سے اس کا نکالنا ناممکن یا مشکل ہوجائے تو اس کے نتائج کا تصور بھی روح فرسا ہے۔