اس صفحہ میں سورہ Al-Muddaththir کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المدثر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
انہ فکر .................... البشر (74:18 تا 25) ” اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی تو خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ ہاں ، خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر (لوگوں کی طرف) دیکھا۔ پھر پیشانی سیکڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑگیا۔ آخر کار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلاآرہا ہے ، یہ تو ایک انسانی کلام ہے “۔
انداز تعبیر ایسا ہے کہ ایک ایک لمحے ، ایک ایک سوچ اور ایک ایک حرکت کی تصویر کشی کی جارہی ہے۔ گویا ایک ماہر عکاس کی قلم ہے جو تصویر بناتی جاتی ہے ، الفاظ نہیں بلکہ رنگ بھرے جارہے ہیں۔ نہیں گویا ایک ریل چل رہی ہے اور ایک ایک منظر نظروں کے سامنے آرہا ہے۔ جو لمحہ بہ لمحہ بدل رہا ہے۔
ایک تصویر میں یوں نظرآتا ہے کہ ہر شخص سخت غور وفکر میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس منظر میں اسے ایک بددعا بھی دی جاتی ہے۔
فقتل (74:19) ” یہ مارا جائے “ پھر ایک شدید استہزاء ہے۔
کیف قدر (74:19) ” کیسی بات بنانے کی کوشش کی اس نے “۔ اس کے بعد دوبارہ بددعا دی جاتی۔
ثم قتل ........ قدر (74:20) ” پھر خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی “۔
پھر اگلی تصویر میں وہ ، ادھر ادھر دیکھتا ہے ، منہ بناتا ہے ، پیشانی سیکڑتا ہے اور مضحکہ خیر صورت بناتا ہے۔ جس کے اندر نہایت درجہ مصنوعیت ہے۔
اس کی یہ تمام بناوٹ اور سوچ اسے کوئی معقول نتیجہ نہیں دیتی۔ پس وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ روز روشن کو رات کہے اور حق کو باطل کہے۔
ان ھذا ........................ البشر (74:25) ” یہ کچھ نہیں مگر ایک جادو جو پہلے سے چلاآرہا ہے ، یہ تو ایک انسانی کلام ہے “۔
یہ زندہ لمحات ہیں جن کو قرآن مجید الفاظ کی شکل دیتا ہے۔ یہ اس قدر قومی اور واضح تخیل دیتے ہیں کہ تصویر سے زیادہ واضح ہے ، اور متحرک قلم سے زیادہ اثر انگیز اور سحر آفریں ہے۔ جس شخص کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اسے قیامت تک اضحوکہ اور قابل نفرت اور نہایت ہی بدنما تصویر دے دی جاتی ہے۔ جسے نسلوں تک لوگوں نے دیکھا پڑھا اور دیکھیں گے اور پڑھیں گے۔ اس تصویر کشی کے بعد اب اس شخص کو ایک خوفناک دھمکی دی جاتی ہے۔
ساصلیہ سقر (74:26) ” اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ ؟ “ یہ بہت ہی خوفناک چیز ہے۔ ہماری قوت مدرکہ سے وراء ہے۔ اور اس اجمال اور عدم علم کے بعد دوزخ کی بعض شدید خصوصیات بتائی جاتی ہیں۔
لا تبقی ولا تذر (74:27) ” نہ باقی رکھے اور نہ چھوڑے “۔ جھاڑو دے کر سب کچھ نکل جانے والی ہے اور سب کچھ مٹا دینے والی ہے۔ کوئی چیز بھی اس کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکتی۔ اور نہ اس سے کوئی چیزرہتی ہے۔ اور نہ اس سے کوئی چیز زیادہ ہوتی ہے ، وہ سب کچھ فنا کردیتی ہے۔
اب انسان کے ساتھ اس کا سلوک کیا ہے۔
لواحہ للبشر (29:74) ” کھال جھلس دینے والی ہے “۔ جس طرح سورة معارج میں کہا گیا۔
تدعوا ................ وتولی (70:17) ” یہ ہر اس شخص کو بلاتی ہے جو پیٹھ پھیر کر جائے اور منہ موڑے “۔ وہ سب کو اپنی طرف بلانے والی ہے اور اس کا منظر بہت ہی خوفناک ہے .... پھر اس کے اوپر چوکیدار اور نگران کھڑے ہیں :
علیھا ............ عشر (74:30) ” اس کے اوپر انیس کارکن مقرر ہیں “۔ یہ نگران ملائکہ ہیں۔ جو نہایت ہی شدید القوت ہیں یا ملائکہ کی صفت کی کوئی اور مخلوق ہے۔ یا ملائکہ کی ایک نوع ہے۔ بہرحال ، اللہ نے یہ بتایا کہ انیس ہیں۔ ہمارا اس پر ایمان ہے۔
جہاں تک اہل ایمان کا تعلق ہے وہ چونکہ ذات باری تعالیٰ پر پختہ یقین رکھتے تھے تو انہوں نے کلام الٰہی سنتے ہی یقین کرلیا۔ اور ایسا رویہ اختیار کیا جس طرح بندے کو رب تعالیٰ کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے۔ اس لئے انہوں نے کوئی شک نہ کیا۔ رہے مشرک تو انہوں نے فرشتوں کی اس تعداد کو ایک فتنہ بنا دیا۔ کیونکہ ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔ ان کے دلوں میں ذات باری تعالیٰ کا مناسب احترام نہ تھا۔ وہ اس عظیم معاملے میں سنجیدہ ہی نہ تھے۔ اس لئے یہ سنتے ہی وہ طنز ومذاب کرنے لگے اور انہوں نے اسے عجیب شے سمجھ کر مذاق شروع کردیا۔ بعض نے کہا کیا تم میں سے دس آدمی ان انیس میں سے ایک کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بعض نے کہا صرف دو کا مقابلہ تم کرلو باقی کو میرے ذمہ چھوڑ دو ۔ میں ان کا بندوبست کرلوں گا۔ اس قسم کی اندھی ، تنگ نظر اور ہٹ دھرم روح کے ساتھ انہوں نے اس کتاب عظیم کو لیا۔
آنے والی آیات اس بارے میں نازل ہوئیں۔ ان میں اس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ اللہ کے غیب کے خفیہ خزانوں میں سے ایک نکتے کا علم کیوں ظاہر کیا گیا۔ اور یہ کہ انیس کی تعداد کیوں مقرر کی گئی ہے اور اس معاملے کو اللہ کے علم غیب کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ جہنم اور اس کے فرشتوں اور کارکنوں کی تعداد کے ذکر سے کیا مطلوب اور مقصود ہے۔
آیت کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ یہ فرشتے انیس ہیں اور مشرکین اس تعداد میں شک کرتے ہیں۔
وما جعلنا ............................ ملئکة (74:31) ” ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں “۔ تو یہ کارکن ان فرشتوں میں سے ہیں جو نہایت ہی قدرت والے ہیں اور ان کی طبیعت اور مزاج کو اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ نہایت ہی قوی ہیں اور ان کے بارے اللہ نے فرمایا ہے۔
لا یعصون .................... یومرون ” وہ ان احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور ان کو جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں “۔ یعنی وہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔ اور ان کے اندر اس بات کی طاقت ہے کہ اللہ جو حکم دے وہ اس کی تعمیل کریں ۔ اللہ نے ان کو ایسی قوت دے رکھی ہے کہ وہ ان کو جو حکم دے ، اس کی تعمیل وہ فوراً کردیں۔ اگر اللہ نے ان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آگ کے اندر اللہ کے احکام کی تعمیل کریں تو اللہ نے ان کو قدرت دی ہے کہ وہ ایسے حالات میں کام کرسکیں۔ جس طرح اللہ نے ان کو سکھایا۔ لہٰذا ان فرشتوں کے ساتھ یہ بیچارے کب پنجہ آزمائی کرسکتے ہیں ، ان لوگوں نے جو یہ کہا کہ ان فرشتوں کو وہ قابو کرلیں گے تو یہ محض جہالت کی وجہ سے کہا ، ان لوگوں کو دراصل اللہ کی قوتوں اور اللہ کی فوجوں کی طات کا کوئی پتہ ہی نہیں۔ اور یہ معلوم ہی نہیں کہ اپنے معاملات کو کس طرح چلاتا ہے۔
وما جعلنا ................ کفروا (74:31) ” اور ہم نے ان کی تعداد کو کافروں کے لئے فتنہ بنادیا ہے “۔ یہ کافر دراصل ان فرشتوں کی تعداد پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ مقامات کیا ہیں جہاں تسلیم کے بغیر بات نہیں بنتی اور وہ مقامات کیا ہیں جہاں جدل وجدال اور بحث ومباحثے کی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ معاملہ غسیلت کا ہے۔ اور اس میں تسلیم ورضا کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان غیبی شعبوں اور موضوعات پر انسان کے پاس نہ قلیل علم ہے اور نہ کثیر علم ہے۔ جب الہل نے اپنے نبی کے ذریعہ یہ اطلاع کردی اور نبی سچا ہے اور اللہ سچا ہے تو پھر بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انسان کا مقام یہ ہے کہ بس نبی کی بات تسلیم کرے اور یہ اطمینان رکھے کہ جس قدر خبر اللہ نے بتا دی اسی قدر بتانے میں خیر ہے اور اس میں مباحثے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ انسان مناقشہ اس موضوع پر کرسکتا ہے جس کے بارے میں اس کے پاس کوئی سابقہ علم ہو اور جدید علم کے بارے میں وہ اعتراض کرتا ہو۔ تو فرشتوں کی تعداد کے بارے میں انسان کے پاس سرے سے کوئی سابقہ علم ہی نہیں ہے اور یہ کہ ” وہ “ انیس ہیں تو اس کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ کیا ہیں اور انیس کیوں ہیں ؟ تو اعتراض کرنے والے بیس پر بھی اعتراض کرسکتے ہیں۔ آخر آسمان سات کیوں بنائے ہیں ، اس پر بھی اعتراض ہوسکتا ہے اور انسان کو موجودہ شکل میں کیوں بنایا اور سوکھی مٹی سے کیوں بنایا اور جنوں کو آگ کے شعلہ سے کیوں بنایا ؟ اور انسان کیوں ماں کے پیٹ میں 9 ماہ رہتا ہے اور کچھوے کیوں ہزار ہا سال زندہ رہتے ہیں اور یہ کیوں ؟ اور یہ کیوں ؟ جواب صرف یہی ہے کہ یہ اللہ کی مرضی ہے اور یہی حقیقی جواب ہے ایسے معاملات کا۔
لیستیقن ............................ والمومنون (74:31) ” تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے ، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں “۔ اور یہ دونوں فریق دوزخ کے نگرانوں کی تعداد میں یقین کا مواد پائیں گے اور اہل ایمان کا تو ایمان زیادہ ہوگا۔ رہے اہل کتاب ، تو ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی علم ضرور ہوگا۔ اور جب وہ سنیں گے کہ قرآن کریم بھی اس بات کی تصدیق کررہا ہے تو وہ بات درست ہے کیونکہ قرآن کریم کتب سابقہ کی تصدیق کرنے والا ہے۔ رہے اہل ایمان ، تو ان کا ایمان تو ہر نئی آیت کے بعد زیادہ ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے دل کھلے ہیں اور عالم بالا سے ان کا بذریعہ رسول ہر وقت رابطہ رہتا ہے۔ اور جو حقائق بھی وارد ہوتے ان کے ایمان میں اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ ان کے دلوں میں عنقریب یہ حکمت بیٹھ جائے گی کہ کیوں اللہ نے انیس فرشتے مقرر کیے ہیں ، کیونکہ اللہ کے نظام تخلیق وتدبیر میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے اور ان دونوں کے ذہن میں جب یہ حقیقت بیٹھ جائے گی تو یہ دونوں فریق شک نہ کریں گے کیونکہ یہ بات اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔
ولیقول ............ مثلا (74:31) ” اور دل کے بیمار اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے “۔ یوں اس ایک ہی حقیقت کا اثر مختلف دلوں میں مختلف ہوتا ہے ، جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ یقین کرتے ہیں اور جو مومن ہیں ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور جن لوگوں کے دل میں بیماری ہے اور جو ضعیف الایمان اور منافق ہیں وہ حسرت واستعجاب میں پوچھتے ہیں :
ماذارا ............ مثلا (74:31) ” اللہ کا اس بات سے مطلب کیا ہے ؟ “۔ کیونکہ اس تعداد کی حکمت وہ نہیں سمجھتے۔ اور نہ وہ اصولاً اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خالق کائنات کی تمام باتوں میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ وہ خدا اور رسول اللہ ﷺ کی خبروں کی تصدیق پیش کرتے ہیں اور نہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے ہر کام میں خیر اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔
کذلک .................... من یساء (74:31) ” اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، ہدایت بخش دیتا ہے “۔” اسی طرح “ یعنی حقائق کے بیان کے ذریعہ اور آیات قرآنیہ کے بیان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مختلف دلوں کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔ ایک گروہ اللہ کی مشیت کے مطابق ان سے ہدایت لیتا ہے اور دوسرا گروہ اللہ کے نظام مشیت کے تحت گمراہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر امر کا آخری سبب اللہ کا ارادہ مطلقہ ہوتا ہے۔ ان انسانوں کو قدرت الٰہیہ نے دونوں طرز کی صلاحتیں دی ہیں۔ ان کے اندر ہدایت کی صلاحیت بھی ہے اور گمراہی کی صلاحیت بھی ہے۔ اور یہ صلاحیت اللہ کے نظام مشیت کے اندر ہے۔ پس جو گمراہ ہو ، وہ بھی مشیت کے اندر ہے اور جو ہدایت پائے وہ بھی اس دائرے کے اندر ہے ، کیونکہ ان کی تخلیق کے اندر دونوں قسم کی صلاحیتیں رکھ دی گئی ہیں۔ دونوں راستے ان کے لئے آسان کردیئے گئے ہیں ، جو کوئی جس راستہ کو اختیار کرتا ہے ، اللہ کے دائرہ مشیت کے اندر ہی ہوتا ہے اور یہ دائرہ اللہ کی گہری حکمت پر مبنی ہے۔
یہ تصور کہ اللہ کی مشیت مطلق اور بےقید ہے اور اس کائنات میں جو امر واقع ہوتا ہے وہ اس مشیت کے دائرہ کے اندر ہوتا ہے۔ یہ ایک وسیع تصور ہے اور یہ متکلمین کی ان محدود بحثوں سے وسیع تر ہے جو وہ انسان کی جبریت اور اختیار کے بارے میں کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا کسی فیصلہ کن انجام تک پہنچنا ہی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جبرواختیار کی مباحث نہایت ہی تنگ زاویہ سے کی جاتی ہیں۔
یہ بحثیں انسان کی محدود سوچ ، محدود طرز استدلال کے انداز میں اور انسان کے محدود تصورات کے اندر کی جاتی ہیں جبکہ اللہ کے نظام مشیت کا تعلق اللہ کی غیر محدود الوہیت کے نظام سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت اور ضلالت کا راستہ بتا دیا اور وہ منہاج بھی بتادیا جس پر چل کر ہم سعادت اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اور وہ طریقے بھی بتادیئے جن کے ذریعہ انسان گمراہ ہوتے ہیں اور برے انجام تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے ہمیں مکلف نہیں بنایا کہ اس سے زیادہ بھی ہم جان لیں ، نہ اللہ نے اس سے زیادہ ہمیں قدرت اور طاقت دی ہے۔ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ میرا ارادہ بےقید ہے اور میں جو کچھ چاہتا ہوں وہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے فہم اور ادراک کے مطابق اللہ کی بےقید مشیت اور ارادہ مطلق کو سمجھنا چاہئے اور اس کے مطابق چلنا چاہئے۔ ہمیں اس منہاج پر چلنا چاہئے جس کے نتیجے میں ہدایت ملتی ہے اور اس منہاج سے بچنا چاہئے جس سے ہم گمراہ ہوتے ہیں اور ان سائل پر ہمیں فضول اور لاحاصل بحث نہیں کرنا چاہئے جن تک انسانی قوائے مدرکہ کی رسائی ممکن ہی نہیں ہے۔ اس اصول کے مطابق متکلمین مسئلہ قدرواختیار کے موضوعات پر جو مباحث کیے ہیں وہ لا حاصل ہیں۔
ہم اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے کہ اللہ کی مشیت ہمارے بارے میں کیا کرتی ہے۔ البتہ ہم اس حقیقت کو پاسکتے ہیں کہ انسان اللہ کے فضل وکرم کے مستحق کس طرح ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی قوتیں ان کاموں میں صرف کریں جن کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اور اللہ کے پوشیدہ اور مشتبہ امور کو اللہ پر چھوڑدیں۔ جب اللہ کی مشیت ظاہر ہوجاتی ہے تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کی مشیت تھی اور ایسا ہوگیا۔ مشیت کے ظہور سے قبل ہم سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ہر مشیت کے پیچھے ایک حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ حکمت بھی اللہ جانتا ہے ، صرف اللہ وحدہ۔ یہ تو ہے ایک سچے مومن کا طریقہ کار۔
وما یعلم ................ الا ھو (47 : 13) ” اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا “۔ اس لئے اللہ کی افواج ، ان کی حقیقت ان کے وظائف اور ان کی قوت کا ہمیں علم نہیں ہے ، کیونکہ یہ اللہ کے غیبی امور میں سے ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ ان امور میں سے کسی چیز کا انکشاف کردے۔ اور اللہ جو بات کردے وہ فیصلہ کن اور اٹل ہوتی ہے۔ اللہ کے قول کے بعد کوئی مجادلہ نہیں کرسکتا ، کسی کو کوئی بات کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ کسی بات کے معلوم کرنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ یہ کام کوئی کر ہی نہیں سکتا۔
وماھی ................ للبشر (74:31) ” اور اس دوزخ کا ذکر اس کے سوا کسی غرض کے لئے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو “۔ ھی کی ضمیر یا تو اللہ کے ” جنود “ کی طرف راجح ہے یا جہنم کی طرف۔ اور اس پر جو فرشتے ہیں ان کی طرف۔ اور یہ بھی اللہ کی افواج میں سے ہیں۔ اور ان کا ذکر لوگوں کو متنبہ کرنے اور ڈرانے کے لئے کیا گیا ہے۔ محض جدل وجدال کے لئے نہیں۔ اللہ کے کلام سے صرف اہل ایمان ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ، رہے گمراہ دل ، تو وہ ان چیزوں کو محض جدل وجدال کا ذریعہ بناتے ہیں۔
اس غیبی حقیقت کی وضاحت اور ہدایت لینے اور گمراہ ہونے کے طریقے اور اسباب بتانے کے بعد اب حقیقت آخرت حقیقت جہنم اور رب تعالیٰ کی خفیہ قوتوں کو اس کائنات کے ظاہری مشاہد اور نشانیوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ ان ظاہری نشانیوں کو تو انسان دیکھتے ہوئے بھی غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ غیبی حقائق معلوم کرنے کے لئے تیر تکے چلاتے ہیں ، حالانکہ ان ظاہری امور اور نشانات سے اللہ کے ارادے اور قوتیں اچھی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور ان ظاہری نشانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے بڑا مقصد اور ایک طاقتور ارادہ ہے۔
چاند کے مناظر ، رات کے مناظر جب وہ ختم ہوتی ہے اور صبح نمودار ہوتی ہے ، یہ زبردست مشاہد اور مناظر ہوتے ہی۔ یہ آنکھیں کھول دینے والے مناظر ہیں اور انسانی دل و دماغ پر ان کے بیشمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور انسان ان پر اگر غور کرے تو اس پر کئی راز کھلتے ہیں اور انسانی دل و دماغ پر ان کے بیشمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور اس ان ان پر اگر غور کرے تو اس پر کئی راز کھلتے ہیں۔ کئی گہرے تصورات انسان کے پردہ خیال پر آتے ہیں اور اسے پختہ شعور ملتا ہے۔ قرآن کریم انسان کو ان مظاہر کی طرف متوجہ کرکے انسان کے دل میں ان تصورات کو بٹھاتا ہے۔ اور ان احساسات کو اچھی طرح جانتا ہے۔
جب چاند طلوع ہوتا ہے ، فضائے کائنات میں چلتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے۔ اگر انسان اس پر غور کرے تو وہ انسان کے کان میں اس کائنات کے کچھ نہ کچھ راز ضرور ڈال دیتا ہے اور بعض اوقات تو چاند کی روشنی میں کھڑے ہوکر غوروفکر کرنے سے انسان پر یہ اثر ہوتا ہے کہ گویا اس نے نور کا غسل کرلیا ہے۔
اور رات کے جانے کا منظر بھی عجیب ہوتا ہے ، صبح کی نموداری کے وقت اور سورج کے طلوع سے پہلے کے ان پر سکون لمحات میں ، اگر انسان چشم بینا سے دیکھے تو اس کو نظر آتا ہے کہ ایک شعوری ارادہ اور دست قدرت کا ایک صورت حال کو ہٹا کر دوسری حالت کو بڑھا دیا ہے۔ اس منظر میں جس طرح دنیا آہستہ آہستہ منور ہوتی ہے ، قلب بینا بھی منور ہوتا چلا جاتا ہے۔ غرض صرف چشم بینا کی ضرورت ہے اور احساس و شعور کی۔
اللہ تعالیٰ انسان قلب ونظر کا خالق ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ مناظر انسانی احساسات پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو یہ اثرات اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ انسان یہ سمجھتا کہ وہ از سر نو پیدا کردیا گیا ہے اور پہلی مرتبہ یہ دیکھ رہا ہے۔
اور ان موثرات ، اشراقات اور تاثرات کے استقبال کے پیچھے ، شمس وقمر اور لیل ونہار اور نموداری صبح میں ایک دوسری عظیم حقیقت بھی پوشیدہ ہے جس کی طرف قرآن انسان کو متوجہ کررہا ہے۔ انسانی قلب ونظر کو آمادہ کررہا ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرے کہ ان مظاہر میں اللہ کی قدرت تخلیق ، اللہ کی حکمت تدبیر اور اس کائنات کے زبردست نظم ونسق کے نشانات ہیں اور یہ کہ یہ کائنات اس قدر دقیق اور پیچیدہ نظم کے ساتھ چل رہی ہے کہ اسے دیکھ کر انسانی عقل حیرت زدہ ہوجاتی ہے۔
ان عظیم کائناتی حقائق کے ساتھ قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ غفلت میں ڈوبے ہئے لوگوں کو جگاتا ہے کہ اللہ کی عظیم قدروں کو ذرا سمجھنے کی کوشش کرو ، اور ان کے اندر جو آثار ونشانات ہیں ان سے عبرت لو۔ یہ کہ جہنم اور اس کے اوپر متعین افواج الٰہیہ اور آخرت اور اس کی ہولناکیاں دراصل ان عظیم امور میں سے ہیں جو عجیب بھی ہیں اور خوفناک بھی ہیں اور یہ واقعات نہایت ہی پر خطر ہیں۔ انہیں سنجیدگی سے لو۔
انھا ........ الکبر (35) نذیر للبشر (74:36) ” یہ دوزخ بھی بڑی چیزوں میں سے ایک ہے ، انسانوں کے لئے ڈراوا “۔ یہ قسم اور اس کے مشمولات اور وہ بات جس پر اس انداز میں قسم اٹھائی جارہی ہے۔ یہ سب باتیں انسانی قلب ونظر کو جھنجھوڑنے والی ہیں اور انسان کو بڑی شدت سے جھٹکے دینے والی ہیں اور یہ بات اپنے مضمون اور صوتی ہم آہنگی کے اعتبار سے ، صور میں پھونکے جانے (القرفی الناقور) کے نیز سورت کے آغاز میں مدثر کے نام سے پکارنے اور نہایت ہی سخت حکم بلکہ کاشن۔
قم فانذر (74:2) کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ گویا حالات خطرناک ہیں ، فضا پر خوف طاری ہے اور ہنگامی حالت کا ہائے وہوبرپا ہے۔
اب ان شدید جھٹکوں اور تنبیہات اور نہایت ہی اگر انگیز نداﺅں کی روشنی میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر نفس اپنے کیے کا حق دار اور ذمہ دار ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ جو راہ وہ اختیار کرتا ہے ، پوری پوری ذمہ داری کے ساتھ اختیار کرے۔ یہ کہ ہر نفس خود مختار ہے اور وہ اپنے لئے جو انجام چاہے اختیار کرلے۔ وہ اپنے اعمال اور کسب کا ذمہ دار ہے۔ ہر شخص اپنے حق کا حقدار ہوگا اور اپنے گناہوں کا بوجھ خود اٹھائے گا۔
ہر شخص اپنے نفس کا ذمہ دار ہے ، جس حالت میں اسے چاہے ، رکھ دے ، جو بوجھ چاہے اٹھالے ، جو قدم چاہے اٹھائے۔ اچھائی کی طرف آگے بڑھے ، یا پیچھے رہ جائے۔ اپنے آپ کو عزت دے یا ذلیل کرے۔ ہر نفس اپنی کمائی کے ہاتھ رہن ہے اور اپنے اعمال کے ہاں قید ہے۔ اللہ نے ہر شخص کو راہ ہدایت بھی بتادی ہے اور راہ ضلالت بھی دکھا دی ہے اور اس کائنات کے ان مناظر کی روشنی میں اور جہنم کی منظر کشی کے بعد وہ ہر اس چیز کو فنا کردینے والی ہے ، جو اس کے دائرے کے اندر آجائے۔
اس منظر کے بعد کہ ہر نفس اپنے کیے کا ذمہ دار ہے اور جو کچھ اس نے کیا اس کا مرہون ہے۔ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اصحاب الیمین ان جکڑ بندیوں اور ان پابندیوں سے آزاد ہوں گے اور وہ حساب و کتاب کے بعد رہائی پالیں گے۔ اور اس کامیابی کے بعد اب وہ مجرمین سے پوچھیں گے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے وہ اس انجام سے دوچار ہوئے۔
اصحاب الیمین کی رہائی اور قیدوبند سے ان کے چھوٹ جانے کا واقعہ کیونکر پیش آیا کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ان کی نیکیوں کو دوگنا کردیا اور ایسے مشکل حالات میں ان کی رہائی اور کامیابی کا اعلان دلوں کو گرما دیتا ہے اور انسان اللہ کی رحمتوں کے یقین سے سرشار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس بات کا اثر مجرموں اور تکذیب کرنے والوں پر بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو سخت ترین حالات میں محصور پاتے ہیں۔ نہایت ہی اہانت آمیزی کے ساتھ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ اور ایک طویل بیان ریکارڈ کراتے ہیں ، جبکہ وہ اہل ایمان جن کو وہ اس دنیا میں کچھ چیز ہی نہ سمجھتے تھے اور ان کو ذرہ برابر اہمیت بھی نہ دیتے تھے ، وہ اب عزت و تکریم کی بلندیوں پر ہیں۔ اور وہ ان سے اس انداز میں سوال کرتے ہیں جس طرح کوئی نہایت ہی شکست خوردہ شخص سے کرتا ہے۔ ذرا سوال دیکھیں :
ماسلککم فی سقر (74:42) ” تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی ؟ “ اور اس صورت حال کا اہل ایمان کے دل پر گہرا اثر ہوتا ہے ، جو ان مجرمین کے ہاتھوں اس جہاں میں سخت اذیتیں جھیل رہے تھے۔ آج وہ عالم آخرت میں اپنے آپ کو نہایت ہی اعلیٰ مقام میں پاتے ہیں ، جبکہ ان کو دق کرنے والے اس توہین آمیز پوزیشن میں ہیں ، یہ منظر اس قدر دلکش اور پرتاثیر ہے کہ فریقین اپنے آپ کو قیامت کے دن حاضر وموجود پاتے ہیں۔ گویا اس دنیا کا صفحہ لپیٹ لیا گیا ہے اور ہم قیامت کے میدان میں حاضر وموجود ہیں۔
اور اب ذرا اس طویل اعتراف جرم کو پڑھیں جو ان مکذبین اور متکبرین نے اللہ اور مومنین کی موجودگی میں کیا اور نہایت ہی ذلت اور خواری کے ساتھ کیا۔
قالو ................ المصلین (74:43) ” وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے “۔
اشارہ یہ ہے کہ ہم ایمان لاکر اس گروہ میں شامل نہ ہوئے جو نمازیوں کا گروہ تھا ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کی اہمیت کیا ہے ۔ یہ گویا ایمان اور فلاح کی دلیل ہے اور نماز کا انکار دراصل کفر ہے اور جو شخص نماز نہیں پڑھتا۔ وہ صفت ایمان سے محروم ہوجاتا ہے۔
ولم ............ المسکین (74:44) ” اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے “۔ یہ دوسری صفت ہے۔ نماز اللہ کی بندگی کی صفات میں سے ہے جس کا تعلق ذات باری سے ہے جبکہ اطعام مساکین وہ عبادت ہے جس کا تعلق انسانوں کی ذوات سے ہے۔ قرآن کریم میں انسانوں کے رزق کے انتظام کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور اس پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ عرب معاشرہ ، جہاں فخر ومباہات پر وہ سب کچھ لٹا دیتے تھے۔ وہاں غرباء اور مساکین بھوک سے مرتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ قرآن اس مسئلہ کی طرف خالص انسانی بنیادوں پر متوجہ کرتا ہے اور صرف رضائے الٰہی کے لئے اطعام مساکین کو عبارت قرار دیتا ہے۔
وکنا ................ الخائضین (74:45) ” اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے “۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ وہ لوگ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقیدہ کے بارے میں کس قدر بےباک تھے اور وہ اسلامی عقیدے کو محض گپ شپ سمجھتے تھے۔ اور ایمان ان کے لئے طنز و مزاح کا موضوع تھا۔ حالانکہ ایمان اور عقیدہ ایک نہایت ہی سنجیدہ ، خطرناک اور خوفناک نتائج کا حامل معاملہ تھا۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس میں ان کو چاہئے تھا کہ نہایت غوروخوض کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔ زندگی کے تمام معاملات سے قبل اس بارے میں فیصلہ ضروری تھا۔ اس کا تصور ، اس کا شعور ، اس کی قدروقیمت اور اس کی حقیقت کے تعین پر تمام حیات کا تعین موقوف ہے۔ لہٰذا اس موضوع پر سنجیدگی اور غوروفکر کے ساتھ فیصلہ نہ کرنا ایک احمقانہ قدم تھا اور ہم سے اس حماقت کا صدور ہوچکا ہے کہ ہم اس قدر اہم معاملے کو گپ شپ سمجھتے رہے۔
وکنا ........................ الدین (74:46) ” اور روز جزاء کو جھوٹ قرار دیتے تھے “۔ یہ ہے اس مصیبت کی اصل بنیاد ، جو شخص قیام قیامت کا منکر ہوتا ہے اس کی زندگی کی تمام قدریں اور پیمانے خلل پذیر ہوجاتے ہیں اور اس کی تمام اقدار مضطرب ہوتی ہیں۔ اس کے احساسات میں زندگی کا دائرہ بہت ہی محدود اور تنگ ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کی پوری سوچ اس زمین کی مختصر عمر تک محدود ہوجاتی ہے اور وہ انہی نتائج کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ جو اس مختصر زندگی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ان نتائج پر کبھی مطمئن نہیں ہوتا اور آخرت کا کوئی حساب و کتاب اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تمام معیارات اور تمام قیاسات فساد پذیر ہوتے ہیں۔ اس کے دنیاوی امور میں بھی فساد برپا ہوتا ہے اور اس کے تمام امور شریر منتج ہوتے ہیں۔
مجرم یہ کہتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے احوال کچھ یوں تھے کہ ہم نماز نہ پڑھتے تھے ، مساکین کو کھانا نہ کھلاتے تھے اور محض گپ شپ اور غیر سنجیدہ گفتگو میں لگے رہتے تھے اور قیامت کی تکذیب کرتے تھے۔
حتی اتنا الیقین (74:47) ” یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا “۔ یعنی ہم موت سے دوچار ہوگئے جو تمام شکوک و شبہات کو ختم کردیتی ہے۔ اور معاملہ کا فیصلہ کردیتی ہے اور یہ فیصلہ اس قدر یقینی ہوتا ہے کہ کوئی اسے رد نہیں کرسکتا۔ اب نہ ندامت مفید ہوتی ہے اور نہ توبہ قبول ہوتی ہے۔ اور نہ عمل صالح کا وقت رہتا ہے۔ اور اب یقینی صورت حالات پیش آتی ہے۔
یہاں اس برے موقف پر ایک تبصرہ ہوتا ہے کہ اب تو تمام امیدیں کٹ گئی ہیں اور یہ لوگ اس انجام تک آپہنچے ہیں۔