سورہ الحجر (15): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hijr کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحجر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ الحجر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hijr
سُورَةُ الحِجۡرِ
صفحہ 263 (آیات 16 سے 31 تک)

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِى ٱلسَّمَآءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّٰهَا لِلنَّٰظِرِينَ وَحَفِظْنَٰهَا مِن كُلِّ شَيْطَٰنٍ رَّجِيمٍ إِلَّا مَنِ ٱسْتَرَقَ ٱلسَّمْعَ فَأَتْبَعَهُۥ شِهَابٌ مُّبِينٌ وَٱلْأَرْضَ مَدَدْنَٰهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَٰسِىَ وَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَىْءٍ مَّوْزُونٍ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَٰيِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُۥ بِرَٰزِقِينَ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَآئِنُهُۥ وَمَا نُنَزِّلُهُۥٓ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ وَأَرْسَلْنَا ٱلرِّيَٰحَ لَوَٰقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَسْقَيْنَٰكُمُوهُ وَمَآ أَنتُمْ لَهُۥ بِخَٰزِنِينَ وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْىِۦ وَنُمِيتُ وَنَحْنُ ٱلْوَٰرِثُونَ وَلَقَدْ عَلِمْنَا ٱلْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا ٱلْمُسْتَـْٔخِرِينَ وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ ۚ إِنَّهُۥ حَكِيمٌ عَلِيمٌ وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِن صَلْصَٰلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ وَٱلْجَآنَّ خَلَقْنَٰهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ ٱلسَّمُومِ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى خَٰلِقٌۢ بَشَرًا مِّن صَلْصَٰلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُوا۟ لَهُۥ سَٰجِدِينَ فَسَجَدَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّآ إِبْلِيسَ أَبَىٰٓ أَن يَكُونَ مَعَ ٱلسَّٰجِدِينَ
263

سورہ الحجر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ الحجر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہ ہماری کار فرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے، اُن کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad jaAAalna fee alssamai buroojan wazayyannaha lilnnathireena

آیت نمبر 16 تا 18

اس پھیلی ہوئی کائنات کی یہ پہلی لائن ہے۔ اس عجیب و غریب کائنات کے نقش و نگار کی یہ پہلی تصویر ہے۔ اس کائنات میں نزول ملائکہ سے بھی زیادہ عجائبات ہمارے سامنے ہیں۔ خود ان کائنات کی تشکیل اور طبیعی لحاظ سے اس کی کارکردگی اللہ کی قدرت و صنعت کی ایک واضح مثال ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسری دلیل کی سرے سے احتیاج ہی نہیں ہے۔

بروج کیا ہیں ، یہی ستارے اور سیارے عظیم سے عظیم تر۔ ان سیاروں اور ستاروں کے مدار اور مقامات بھی برج ہو سکتے ہیں۔ جو بھی مراد ہو لیکن دونوں حالات میں ان کی کار کردگی ایک معجز دلیل ہے اور اللہ کی قدرت اور حکمت پر شاہد عادل ہے ، کس قدر پیچیدہ ، موثر ہے اور دیکھنے میں بھی خوبصورت منظر ہے۔

وزینھا للنظرین (15 : 16) “ ہم نے اسے دیکھنے والوں کے لئے مزین کیا ”۔ اس پوری کائنات اور خصوصاً سماء دنیا کے حسن و جمال کو تو دیکھئے۔ اس آیت سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس کائنات میں حکمت و تقدیر کے علاوہ حسن و جمال کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے محض ضمامت اس کائنات میں مدنظر نہیں ، محض وسعت مد نظر نہیں ، محض اس کی پیچیدہ ساخت پر ہی توجہ نہیں دی گئی بلکہ اس کی ساخت میں ایک خاص خوبصورتی کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔

ایک خوبصورت رات میں کبھی آپ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا ہے ؟ جس میں کواکب بکھرے پڑے ہوتے ہیں ، ہر ایک ستارہ روشنی چھوڑ رہا ہوتا ہے گویا کہ ایک انگارہ ہے جو اپنی جگہ دہک رہا ہے ، پھر اس حالت میں ہماری نظر ایک نہایت ہی بعید ستارے پر ہوتی ہے ۔ پھر ایک دوسرا منظر آپ سامنے لائیں۔ ایک خوبصورت رات ہے اس میں چودھویں کا چاند بلند یوں پر ہے اور اس کے سامنے کائنات خاموش کھڑی ہے۔

اس کائنات کی خوبصورتی کو محسوس کرنے کے لئے بغیر چاند کے شفاف رات اور چودھویں کے چاند کی ایک خوبصورت رات میں ، ایک شاعرانہ نگاہ ہی کافی ہوتی ہے ، کس قدر وسیع حسن و جمال ہے ؟ اور کس قدر گہرا اثر ہے اس کا پردۂ احساس پر ؟ کیا اسی کے سوا کسی اور برہان کی ضرورت ہے ؟

وزینھا للنظرین (15 : 16) “ اے دیکھنے والوں کے لئے ہم نے مزین کیا ہے ”۔ جو دیکھنے والے نہیں ہیں۔ لیکن اس کائنات کو حسن و جمال سے پھر دینے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی محفوظ اور پاکیزہ بھی بنایا گیا ہے۔

وحفظنھا من کل شیطن رجیم (15 : 17) “ اور ہر شیطان مردود سے اسے محفوظ کردیا ”۔ کوئی شیطان قوت اسے خراب نہیں کرسکتی اور کوئی شیطانی قوت اس کی فضا کو آلودہ نہیں کرسکتی۔ اس کائنات کے نظام میں کوئی شیطانی قوت اپنا وائرس داخل کر کے اس کے نظم کو خراب نہیں کرسکتی۔ اسے گندہ نہیں کرسکتی ، اور اس کی رفتار کا منہ موڑ کر اسے گمراہ نہیں کرسکتی ، جس طرح شیطان انسان کے ساتھ اس کرۂ ارض پر یہ سب کام کرتا ہے اور اس کرۂ ارض پر اس کا یہ مشن ہے۔ اس کرۂ ارض پر تو شیطان اپنا مشن پورا کرسکتا ہے لیکن آسمانوں کے نظام میں اس کا کوئی عمل و دخل نہیں ہے۔ آسمانوں پر اور بلندیوں پر اس کی دسترس نہیں ہے۔ اس کی ناپاکیاں ، گمراہیاں وہاں کچھ بھی نہیں کرسکتیں۔ آسمانوں پر اس کے حملے رہ کر دئیے جاتے ہیں۔ وہاں ان کے دفاع کا انتظام ہے۔

الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین (15 : 18) “ الا یہ کہ کچھ سن گن لے لے اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اس کا پیچھا کرتا ہے ”۔ شیطان کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ آسمانوں سے کس طرح سن گن لیتا ہے ، وہ کیا چیز چراتا ہے۔ ان سب امور کا تعلق عالم غیب سے ہے۔ ہم ان کا مفہوم صرف اسی قدر سمجھ سکتے ہیں جس قدر ان نصوص قرآنیہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے لئے مزید جستجو کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ہم اس شعبے میں کچھ مزید دریافت بھی کرلیں کہ شیطان کس طرح سن گن لیتا ہے تو اس کا ہمارے ایمان کی کمی بیشی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان معاملات میں تحقیق و تدقیق سے فائدے کو بجائے نقصان ہوتا ہے کہ انسان اس زندگی کے عملی معاملات سے دور ہو کر محض عقلی گھوڑے دوڑانے لگتا ہے اور وہ کئی نئی حقیقت اور کوئی نیا علم بھی نہیں پا سکتا۔

ہم نے جس قدر جاننا ہے وہ یہی ہے کہ شیطان کا عمل و دخل آسمانوں میں نہیں ہے۔ اس وسیع کائنات کا یہ حسن و جمال اور ھرکت و فعالیت شیطان کی دسترس سے محفوظ ہے۔ اس کائنات کے امور میں شیطانی قوتوں کی طرف سے جو دخل اندازی ہوتی ہے ، یا دخل اندازی کی جو کوشش ہوتی ہے ، اس موقع پر شیطانی قوتوں کو مار بھگایا جاتا ہے اور شہاب ثاقب کی وجہ سے ان کے عزائم رک جاتے ہیں۔

یہاں جس انداز میں بلند قلعوں اور برجوں کا ذکر ہوا ہے ، جس طرح شیطانوں کے اوپر چڑھنے کی مساعی کا ذکر ہوا اور پھر جس انداز میں ان پر بمباری ہوتی ہے تصور اور تخیل اور مشاہدے کے اعتبار سے یہ منظر ایک نہایت ہی خوبصورت منظر ہے اور قرآن کریم کی فنی تصویر کشی کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔

کائنات کی اس وسیع پینگ کی دوسری لائن ، وہ وسیع زمین ہے جس پر ہم بستے ہیں۔ ہماری نظروں سے یہ وسیع تر اور طویل و عریض ہے۔ ہماری سیروسیاحت کے لئے یہ بہت کھلی ہے۔ اس کے اندر اونچے اونچے پہاڑ ، قسم قسم کی روئیدگی اور پھل اور پھول ہیں۔ نیز انسانوں اور تمام دوسری زندہ مخلوق کے لئے رزق کا وافر سروسامان ہے۔

اردو ترجمہ

اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahafithnaha min kulli shaytanin rajeemin

اردو ترجمہ

کوئی شیطان ان میں راہ نہیں پا سکتا، الا یہ کہ کچھ سن گن لے لے اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اُس کا پیچھا کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa mani istaraqa alssamAAa faatbaAAahu shihabun mubeenun

اردو ترجمہ

ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalarda madadnaha waalqayna feeha rawasiya waanbatna feeha min kulli shayin mawzoonin

آیت نمبر 19 تا 20

اس کائنات کی فضاؤں میں ایک قسم کی وسعت اور عظمت پائی جاتی ہے۔ آسمانوں میں بڑے بڑے قلعوں کا ذکر ہے۔ لفظ بروج کے تلفظ میں بھی ایک قسم کا زمزمہ اور عظمت ہے۔ “ شہاب ” کو لفظ مبین سے بیان کیا گیا۔ اس میں ایک عظمت کی طرف اشارہ ہے۔

زمین میں پہاڑوں کو رواسی کہا گیا اور ان پہاڑوں کے بھاری بھرکم ہونے کا اظہار لفظ الفینا سے کیا گیا۔ پھر نباتات کو موزون کی صفت سے موصوف کیا گیا۔ موزون لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے بھاری بھرکم ہے۔ اگرچہ یہاں مفہوم یہ ہے کہ اپنی پیچیدہ ساخت کے اعتبار سے وہ محکم اور متوازن ہے۔ پھر عظمت کی اس فضا میں معیشت کے بجائے معایش کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور اسے نکرہ کی صورت میں مجمل چھوڑا گیا ہے۔ پھر من لستم لہ برزقین (15 : 20) میں بھی تمام زندہ مخلوقات کی طرف اشارہ کردیا گیا جو اس کرۂ ارض پر پائی جاتی ہیں۔ غرض تعبیرات ، الفاظ اور مفاہیم ، ہر اعتبار سے اس منظر میں عظمت ہی عظمت پائی جاتی ہے۔ یہ تکوینی آیت ہے۔ یہ آفاق کائنات سے گزر کر انفس کو بھی لیتی ہے۔ یہ وسیع تر سرزمین جو دعوت نظارہ اور دعوت سپردے رہی ہے ، یہ عظیم الشان پہاڑ جو سینہ گیتی پر ابھرے ہوئے ہیں اور یہ قسم قسم کے نباتات جو اس میں اگے ہوئے ہیں اور پھر بات اس پہلو پر مرکوز ہوتی ہے کہ یہ سب کے سب انسانوں کے مفاد کے لئے ہیں۔ اس کرۂ ارض پر زندگی کا سروسامان اور نوع نوع کی خوراکیں ، آیت میں ان کو مجمل چھوڑ دیا گیا ہے تا کہ ان کی وسعت اور عظمت کی طرف اشارہ ہو ، یہ سب کچھ اے انسان ، تیرے لئے ہے اور پھر تمہارے لیے ایسی مخلوقات بھی پیدا کی گئی ہیں کہ جو تمہارے لیے مفید ہیں اور تم ان کو پالیتے نہیں ہو۔ اللہ اور صرف اللہ ان کو پالتا ہے۔ تم اس طرح ایک امت اور مخلوق ہو ، جس طرح دوسری مخلوقات ہیں جن کی تعداد اور انواع بھی کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہ نوع نوع کی مخلوق اللہ کے رزق خاص پر پلتی ہے۔ اور اللہ نے ، اے انسان انہیں مفت تمہاری خدمت میں لگایا ہے۔ پھر بعض صنف مخلوقات ایسی ہے کہ اللہ کے رزق پر پلتی ہے اور ان پر کوئی فرائض نہیں ہیں۔

یہ تمام انواع و اقسام کی مخلوقات اور ان کے لئے قسم قسم کا رزق ، اللہ تعالیٰ نے پورا پورا ، اس کائنات میں پیدا کر رکھا ہے اور یہ سب مخلوق اور ان کا سامان زیست اللہ کے دست قدرت اور تصرف ذاتی میں ہے اور اللہ اپنی سنت کے مطابق جس طرح چاہتا ہے تمام امور میں تصرف فرماتا ہے اور اپنے احکام اپنی مخلوقات کے اندر جاری فرماتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمہارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna lakum feeha maAAayisha waman lastum lahu biraziqeena

اردو ترجمہ

کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain min shayin illa AAindana khazainuhu wama nunazziluhu illa biqadarin maAAloomin

آیت نمبر 21

لہٰذا مخلوقات میں سے کوئی نوع بھی کسی چیز کی مالک نہیں ہے ، تمام خزانے اللہ کی حاکمیت میں ہیں ، اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہیں۔ اللہ اپنی مخلوق کے لئے جو خزانے چاہتا ہے ، ایک معلوم اور متعین مقدار کے مطابق اتارتا ہے ، کوئی چیز بھی آگ پر نازل نہیں ہوتی اور نہ کوئی چیز اتفاقاً وقوع پذیر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو ایک معلوم مقدار کے مطابق بھیجتا ہے ، ان میں سے ہوائیں اور بارشیں بھی ہیں۔

اردو ترجمہ

بار آور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اُس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں اِس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waarsalna alrriyaha lawaqiha faanzalna mina alssamai maan faasqaynakumoohu wama antum lahu bikhazineena

آیت نمبر 22

ہواؤں کے دوش پر کیا بار ہوتا ہے ؟ پانی جس طرح اللہ ناقہ کو حاملہ کرتا ہے اور پھر بادل جو حامل ماء ہوتے ہیں آسمانوں سے برس پڑتے ہیں اور یوں ہم تمہیں پانی پلاتے ہیں۔ کیا بارش کے یہ خزانے تمہاری تحویل میں ہیں ؟ کہ جب ضرورت ہو برسالو ، بلکہ یہ خزانے اللہ کی تحویل میں ہیں اور اللہ ایک معلوم مقدار کے مطابق برساتا ہے۔

یہ ہوائیں فضائی عوام کے مطابق چلتی ہیں اور ان فضائی ضوابط کے مطابق ان میں پانی ہوتا ہے اور برستا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ان فضاؤں کو کس نے پیدا کیا اور ہواؤں اور بارشوں کے یہ عوامل اور ضوابط کس نے بنائے ؟ یہ یقیناً خالق کائنات کا کام ہے لہٰذا یہ تمام عوامل و اسباب اللہ کے ناموس کلی اور سپر کمپیوٹر کے مطابق ہیں۔

وان من ۔۔۔۔۔۔ بقدر معلوم (15 : 21) “ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں ”۔ اس آیت کا انداز تعبیر ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ ہر حرکت یہاں تک کہ سیرابی کو بھی اللہ طرف منسوب کیا گیا۔

فاسقینکموہ (15 : 22) “ ہم نے اسے تمہیں پلایا ”۔ حالانکہ مفہوم یہ ہے کہ ہم نے تمہاری تخلیق یوں بنائی ہے کہ تم پانی کی طلب کرتے ہو ، اور پانی کو یوں بنایا کہ وہ تماری طلب کو پورا کرتا ہے اور اس طلب اور رسد کو ہم نے متوازن بنایا۔ لیکن انداز تعبیر ایسا ہے جو موقع و مقام کلام کے مطابق ہے۔ ہر فعل اور ہر حرکت کی نسبت اللہ کی ہے کیونکہ تصور یہ دینا مقصود ہے کہ اس کائنات کی ہر حرکت اور ہر واقعہ اللہ کے ارادے اور حکم سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ آسمانوں کے لئے اللہ کا جو تکوینی قانون ہے ، وہی تمام مخلوقات کے لئے بھی ہے۔ پہلی آیت میں مکذبین کے بارے میں سنت الہٰیہ کا بیان تھا ، اس دوسرے ٹکڑے میں آسمان و زمین اور کائنات کے بارے میں سنت الٰہیہ کا بیان ہے اور اس فضا میں ہواؤں اور پانیوں کا نظام بھی اسی سنت کے مطابق ہے۔ ان میں سے کوئی امر بھی سنت الٰہیہ کے سوا یا باہر وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ تمام امور اس ناموس اکبر کے مطابق چلتے ہیں جو اس کائنات میں جاری ہے اور جسے قرآن حق کہتا ہے : اب اس مضمون کا خاتمہ یوں ہوتا ہے کہ موت وحیات بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ تمام چیزوں کو زندگی دینا ، مارنا اور پھر سے اٹھانا اور حساب و کتاب اللہ کے اختیار میں ہے۔

اردو ترجمہ

زندگی اور موت ہم دیتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna lanahnu nuhyee wanumeetu wanahnu alwarithoona

آیت نمبر 23 تا 25

یہاں یہ دو دوسرا پیراگراف پہلے پیراگراف سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ پہلے میں یہ کہا گیا تھا۔

وانا لنحن ۔۔۔۔۔ الوارثون (23) ولاد علمنا۔۔۔۔ المستاخرین (24) (15 : 23- 24) “ ہم نے اس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لئے ایک خاص مہلت عمل لکھی جا چکی تھی۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے ، نہ اس کے بعد چھوٹ سکتی ہے ”۔ جبکہ یہاں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ سب کا وارث ہے اور موت کے بعد اس کی طرف لوگ اٹھیں گے۔ اللہ جانتا ہے اور اس نے لکھ رکھا ہے کہ کوئی پہلے مار دیا جائے اور کس کو مہلت عمل دی جائے اور بعد میں وہ اس جہاں سے رخصت ہو ، بہرحال موت کے بعد سب نے اٹھنا ہے ، اور اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔

انہ حکیم علیم (15 : 25) “ وہ حکیم وعلیم ہے ”۔ وہ اپنے حکمت کے مطابق اقوام و افراد کے لئے وقت مہلت طے کرتا ہے۔ اسے موت کا وقت معلوم ہے اور حشر کا وقت بھی اس نے مقرر و متعین کر رکھا ہے اور درمیانی عرصے کے امور بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔

اس پیراگراف اور سابق دونوں پیراگراف میں منظر کی حرکات ہم آہنگ ہیں۔ آسمانوں سے نزول ہدایت ، فرشتوں کا اترنا ، شیاطین پرستاروں کی بمباری ، ہواؤں کا چلنا اور بارشوں کا نزول ، یہ سب مناظر دونوں میں ہیں۔ پھر اس دنیا اور کائنات کے بڑے بڑے واقعات آسمان ، قلعے ، ستارے اور سیارے ، زمین ، پہاڑ ، ہوائیں ، بارشیں اور نباتات بھی مشترکہ مناظر ہیں۔ ہٹ دھرمی کے اظہار کے لئے بھی ایسی ہی مثال دی گئی جو ان پیروں کے مضمون سے ہم آہنگ ہے کہ اگر آسمان میں ایک دروازہ کھول دیا جائے اور یہ لوگ اس میں چڑھ جائیں تو پھر بھی ان کے مکابرہ اور ہٹ دھرمی کا حال یہی ہوگا۔ غرض مضمون اور اس کی تصویر کشی قرآن عظیم کے انوکھے انداز تعبیر کو ظاہر کرتی ہے۔

٭٭٭

اب یہاں تخلیق انسانیت کا قصہ عظیم پیش کیا جاتا ہے۔ آغاز انسانیت اور اس جہان میں ہدایت و ضلالت کی حکمت اور اس کے اسباب و عوامل ، یعنی قصہ آدم۔ وہ کن عناصر سے کس طرح پیدا ہوئے ؟ اور ان کی تخلیق کے وقت اور بعد کیا حالات ان کو پیش آئے۔

اس سے پہلے ، اس تفسیر میں قصہ آدم کا مطالعہ ہم نے دو دفعہ کیا ہے یعنی سورة بقرہ اور سورة اعراف میں۔ دونوں مقامات پر یہ قصہ بعض مخصوص حالات میں ، مخصوص مقاصد کے لئے بیان ہوا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں مقامات پر اس قصے کی مختلف کڑیاں لائی گئیں اور طرز ادا بھی دونوں جگہ مختلف رہا۔ قصے کی فضا اور اس کے اثرات مختلف رہے اگرچہ دونوں مقامات پر بعض اثرات اور نتائج یکساں بھی تھے۔ یہ قصہ یہاں تیسری بار آرہا ہے۔

تینوں مقامات پر اس قصے کے بعض تمہیدی بیانات یکساں ہیں۔ مثلاً سورة بقرہ میں جہاں یہ قصہ آیا ، وہاں اس سے قبل یہ کہا گیا۔

ھو الذین خلق لکم ۔۔۔۔۔۔ شییء علیم (2 : 29) “ وہی تو ہے ، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ”۔ اور سورة اعراف (11) میں جہاں یہ قصہ آیا اس سے پہلے کہا گیا ۔

ولقد مکنکم ۔۔۔۔۔ ما تشکرون (7 : 10) “ ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامان زیست فراہم کیا ، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوئے ”۔ اور یہاں سورة حجر (19) میں کہا گیا ہے :

والارض مددنھا ۔۔۔۔ موزون (15 : 19) “ ہم نے زمین کو پھیلایا ، اس میں پہاڑ جمائے۔ اس میں ہر قسم کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔ لیکن ان تینوں مقامات پر قصے کا انداز بیان مختلف ہے۔ اور اس سے غرض وغایت بھی مختلف ہے۔

سورة بقرہ میں اس قصے سے غرض یہ تھی کہ تخلیق کائنات کے بعد اللہ نے اس کرۂ ارض پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنا نائب و خلیفہ بنایا اور زمین کے اندر جو سہولیات موجود ہیں وہ سب بنی آدم کے لئے ہیں۔ چناچہ بات کی ابتداء ہی یوں ہوئی۔

واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (2 : 30) “ اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا ، میں زمین میں خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں ”۔ اس لیے وہاں اس قصے میں آدم (علیہ السلام) کے منصب خلافت ارضی کے اسرارو رموز بیان کیے گئے ہیں جن پر فرشتوں کو تعجب ہوا ، کیونکہ وہ اسرار و رموز ان کی نظروں سے اوجھل تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کو اپنے خلیفہ کا مقام ان پر ظاہر کرنا پڑا۔

وعلم ادم الاسماء ۔۔۔۔۔۔ ان کنتم صدقین (31) قالوا سبحانک ۔۔۔۔۔ العلیم الحکیم (32) قال یادم انبئھم ۔۔۔۔۔۔ کنتم تکتمون (33) (31 تا 33) “ اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے ، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا “ اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا ) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ ”۔ انہوں نے نے عرض کیا : نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ”۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا ، تم ان چیزوں کے نام بتاؤ ”۔ جب اس نے ان سب کے نام بتا دئیے ، تو اللہ نے فرمایا : “ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں اور جو تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ، اسے بھی ہم جانتے ہیں ”۔

اس کے بعد بقرہ میں ملائکہ کا سجدہ اور ابلیس کے انکار و استکبار کے واقعات بیان ہوئے۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کی اہلیہ کو جنت میں بسانے کی کہانی بیان کی گئی۔ پھر بتا یا گیا کہ کس طرح شیطان نے آدم و حواکو بہکایا اور یوں انہیں جنت سے خارج کرا دیا۔ اس کے بعد آدم و حوا کو زمین پر اتارا گیا اور یہاں ان کے ذمے فریضہ خلافت ارضی کی ذمہ داری لگائی گئی ۔ لیکن جنت سے خارج کرنے سے قبل ان سے امتحان لے کر زمین میں رہنے کے لئے تیار کیا گیا۔ انہوں نے توبہ کی اور اللہ سے مغفرت طلب کی۔ سورة بقرہ میں اس قصے کے بعد بنی اسرائیل کو یہ بات یاد دلائی گئی ہے کہ وہ میرے ان انعامات کو یاد کریں جو میں نے ان پر کئے۔ اور انہوں نے خدا کے ساتھ جو عہد کئے اس کو پورا کریں کیونکہ یہ فریضہ وہ ہے جو تمام انسانوں کے ابو الاباء حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے اوپر عائد کیا اور اسی عہد کی اساس پر ان کو خلافت ارضی نصیب ہوتی۔

سورة اعراف میں بھی یہ قصہ آیا ہے۔ اس میں وہ طویل کہانی بیان کی گئی جو عروج فی الجنۃ اور وہاں سے پھر نکالے جانے سے متعلق ہے۔ اس قصے میں یہ سبق یاد دلایا گیا ہے کہ ابلیس آغاز کائنات سے انسان کا دشمن تھا اور آخر تک رہے گا۔ یہاں تک کہ آدم و ابلیس جس طرح پہلے دربار الٰہی میں تھے پھر وہاں پیش ہوں۔ اب ایک فریق تو ان لوگوں کا ہوگا جو جنت میں داخل ہوں گے ، جہاں سے شیطان نے ان کے والدین کو نکالا تھا ، کیونکہ ان لوگوں نے شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی مخالفت کی۔ ایک دوسرا فریق آگ میں گرایا جائے گا ، کیونکہ انہوں نے شیطان مردود اور ہٹ دھرم کے قدموں کی پیروی کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں بھی ملائکہ کی جانب سے آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا ذکر بھی ہوا۔ یہ تذکرہ بھی ہوا کہ ابلیس نے انکار اور استکبار کیا۔ اس نے اللہ سے مطالبہ کیا کہ قیامت تک اسے مہلت دی جائے تا کہ وہ ان بنی آدم کو گمراہ کرسکے جن کی وجہ سے وہ جنت سے بےآبرو کر کے نکالا گیا۔ اب آدم اور اس کی زوجہ کو جنت میں بسایا گیا اور حکم دیا گیا کہ وہ جو چاہیں وہاں کھائیں پئیں صرف ایک درخت کے قریب نہ جائیں۔ یہ ایک درکت کی ممانعت بھی دراصل علامتی ممانعت تھی۔ مقصد یہ تھا کہ آدم (علیہ السلام) کے جذبہ اطاعت امر اور ان کی قوت ارادی کو ٹیسٹ کیا جائے۔ اس کے بعد وہاں یہ تذکرہ آتا ہے کہ کس طرح شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسے ڈالے اور کس طرح انہوں نے اس درخت کا پھل چکھ لیا اور پھر کس طرح معجزانہ انداز میں ان کے جسم عریاں ہوگئے اور کس طرح اللہ کا عتاب حضرت آدم اور ان کی زوجہ پر نازل ہوا اور کس طرح ان کو ، سب کو ، زمین میں اتار کر بسا دیا گیا کہ وہ اس کرۂ ارض پر بھی حق و باطل کے معرکے میں شریک ہوں۔ فرمایا گیا :

قال اھبطوا ۔۔۔۔۔ الی حین (24) قال فیھا ۔۔۔۔۔ تخرجون (25) (7 : 24- 25) “ فرمایا اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ، اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی جائے قرار اور سامان زیست ہے ”۔ اور فرمایا : “ وہیں تم کو جینا ہے اور وہیں مرنا ہے اور اسی سے تم کو آخر کار نکالا جائے گا ”۔

انسانیت کی یہ کہانی سورة اعراف میں اسی طرح چلتی ہے یہاں تک کہ سب لوگ دوبارہ میدان حشر میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ وہاں بڑی تفصیل کے ساتھ ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں اور ردو قدح اور حساب و کتاب کے بعد ایک فریق جنت میں اور ایک فریق دوزخ میں چلا جاتا ہے۔

ونادی اصحب النار۔۔۔۔۔ علی الکفرین (7 : 50) “ اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر بھی ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے ، اس میں سے کچھ پھینک دو ۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں منکرین حق پر حرام کردی ہیں ”۔ (50) اور اس کے بعد اب اس منظر پر پردہ گرجاتا ہے۔

لیکن یہاں اس قصے کا مدعا کیا ہے ؟ یہاں تخلیق انسان کے اسرارو رموز اور فلسفہ ہدایت و ضلالت زیر بحث ہیں اور انسان کی ذات میں ہدایت و ضلالت کے جو عوام رکھ دئیے گئے ہیں ان سے بحث کی گئی ہے۔ چناچہ یہاں بات کا آغاز اس امر سے کیا جاتا ہے کہ انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا گیا اور اللہ نے پھر اس میں اپنی روشن روح پھونکی اور اس سے قبل اللہ تعالیٰ نے جنوں کو آگ کی لپیٹ دے پیدا کردیا تھا ، یہاں پھر سجود ملائکہ ، انکار ابلیس کے واقعات آتے ہیں۔ ابلیس کہتا ہے کہ کیا میں ایک ایسے انسان کے سامنے سربسجود ہوجاؤں جسے مٹی سے پیدا کیا گیا۔ پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح شیطان کو ملعون قرار دے کر درگاہ الٰہی سے نکالا گیا۔ پھر اس کی طرف سے درخواست پیش ہوتی ہے کہ اسے قیامت تک کے لئے مہلت دی جائے ۔ اس کی درخواست منظور ہوتی ہے۔ یہاں شیطان اعتراف کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے گا لیکن اللہ کے جو مخلص بندے ہوں گے ان پر اسے کوئی قدرت حاصل نہ ہو سکے گی۔ وہ جن لوگوں کو گمراہ کرے گا وہ اس کی اطاعت اور اس کے طریقوں کو قبول کرنے کے لئے از خود تیار ہوں گے اور اللہ کے دین اور طریقے میں ان کو کوئی دلچسپی نہ ہوگی ۔ دونوں فریقوں کا انجام مختصراً بیان کردیا جاتا ہے بغیر تفصیل کے کیونکہ یہاں مقصد صرف تخلیق انسان اور فلسفہ ہدایت و ضلالت موضوع کلام ہے۔

اردو ترجمہ

پہلے جو لوگ تم میں سے ہو گزرے ہیں اُن کو بھی ہم نے دیکھ رکھا ہے، اور بعد کے آنے والے بھی ہماری نگاہ میں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad AAalimna almustaqdimeena minkum walaqad AAalimna almustakhireena

اردو ترجمہ

یقیناً تمہارا رب ان سب کو اکٹھا کرے گا، وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna rabbaka huwa yahshuruhum innahu hakeemun AAaleemun

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqna alinsana min salsalin min hamain masnoonin

ذرا اب اس قصے کے مناظر کو یہاں ہم تفصیل سے لیتے ہیں۔

آیت نمبر 26 تا 27

قصے کے آغاز ہی میں یہ کہا جاتا ہے کہ انسان اور جنات یا شیطانوں کی فطرتوں میں یوم تخلیق کائنات سے ہی فرق امتیاز ہے۔ انسان کو بجنے والی خشک مٹی سے پیدا کیا گیا جو سڑی ہوئی خمیری مٹی یعنی کیچڑ سے لی گئی تھی یعنی اس مٹی کو ٹھوکا جائے تو بجتی ہے اور شیطان کو نار سموم یا آگ کی لپیٹ یا شعلے سے بنایا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوگا کہ انسان کے مزاج میں ایک جدید عنصر بھی داخل ہوا ہے یعنی انسان کے اندر اللہ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ رہا شیطان تو وہ نار سموم ہی کی طبیعت پر قائم ہے۔

واذ قال ربک ۔۔۔۔۔ حما مسنون (28) فاذا سویتہ ۔۔۔۔ سجدین (29) فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون (30) الا ابلیس۔۔۔۔ السجدین (31) قال یا بلیس ۔۔۔۔۔ السجدین (32) قال لم اکن ۔۔۔۔۔ مسنون (33) قال ۔۔۔۔ رجیم (34) وان علیک ۔۔۔۔ یوم الدین (35) ( 15 : 31 تا 35) “ پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ “ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔ جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا ”۔ چناچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا ”۔ اس نے کہا “ میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے ”۔ رب نے فرمایا : “ اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے اور اب روز جزاء تک تجھ پر لعنت ہے ”۔

پھر یاد کرو اس موقع کو کہ جب اللہ فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہوا۔ یہ کب کی بات ہے ؟ کہاں یہ واقعہ پیش آیا ؟ اس کی تفصیلی کیفیت کیسی تھی ؟ ان سوالات کا جاب ہم نے پارۂ اول میں سورة بقرہ میں دے دیا ہے۔ وہ یہ کہ ان سوالات کا شافی جواب ہی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ عالم بالا کی کہانی ہے اور ہمارے پاس کوئی نص صریح نہیں ہے کیونکہ عالم غیب سے متعلق کسی سوال کا جواب ہم صرف نص صریح ہی سے دے سکتے ہیں۔ جو لوگ ایسے سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں اور ان کی باتوں پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

رہی یہ بات کہ انسان کو ایسی مٹی سے کیسے بنایا گیا جو سڑی ہوئی تھی اور اس خمیری مٹی سے بنا کر اس کو کسی طرح خشک کردیا گیا تھا کہ وہ بجتی تھی۔ پھر یہ کہ اس کے اندر روح کس طرح ڈال دی گئی۔ ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ ان امور کی تفصیلی کیفیات سے ہم بیخبر ہیں۔ کسی صورت میں بھی ہم از سر نو اس کیفیت کا سائنسی تجزیہ نہیں کرسکتے۔

اس سلسلے میں قرآن کریم کی جو آیات وارد ہیں۔ ان کو پیش نظر رکھتے ہیں ، خصوصاً یہ آیت کہ۔

ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (23 : 2) “ ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ”۔ اور دوسری آیت میں ہے۔

ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من ماء مھین “ ہم نے انسان کو مٹی کی ست سے پیدا کیا جو حقیر پانی کی شکل میں ہے ”۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی اصلیت اور زندگی کی حقیقت اس زمین کی مٹی سے ہے اور انسان کے اندر وہی اہم عناصر موجود ہیں جو اس زمین کے اہم عناصر ترکیبی ہیں۔ اسی طرح انسان اور تمام دوسرے زندوں کے اجسام انہی عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ لفظ سلالۃ ایک خاصل انداز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہاں تک تو قرآن اشارہ کرتا ہے اور اس کے الفاظ سے یہ مفہوم نکلتا ہے ، لیکن اس سے آگے جدید دور کے انکشافات سے جو کچھ معلوم ہوا اسے قرآن مجید سے اخذ کرنا ایک تکلف ہی ہے۔ موجودہ آیات ان مفاہیم کی متحمل نہیں ہیں۔ جہاں تک سائنسی تحقیقات کا تعلق ان کا اپنا ایک انداز ہے۔ سائنسی تحقیقات اپنے وسائل و ذرائع کے ساتھ جاری رہیں گی۔ اور سائنسی تحقیقات کے نتائج فرضی ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات اپنے وسائل ذرائع کے ساتھ جاری رہیں گی۔ اور سائنسی تحقیقات کے نتائج فرض ہوتے ہیں اور وہ حقائق نہیں بلکہ نظریات ہوتے ہیں ۔ ان نظریات میں سے بعض حقائق کا روپ نہیں اختیار کرتے وہ بحث و تمحیص کے بعد بدل بھی جاتے ہیں لیکن ان سائنسی تحقیقات کا کوئی نتیجہ بھی ان اصولی حقائق سے متضاد نہیں ہوتا جو قرآن میں ثبت ہیں۔ قرآن کریم نے جو ابتدائی حقیقت دی ہے وہ صرف یہ ہے کہ “ ابتداء انسان کو مٹی کے ست سے تخلیق کیا گیا ہے اور اس کی تخلیق میں پانی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ لہٰذا ابتدائی حقیقت جو قرآن کریم نے بیان کی ہے ، اپنی جگہ باقی ہے ، بعد میں آنے والے نظریات اس کی تفصیلات ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیچڑ اور اس کے اندر پائے جانے والے عناصر طبیبہ نے ایک زندہ انسان کی شکل کس طرح اختیار کی۔ کس طرح اعضا بنے اور کس طرح انسان کی شکل و صورت وجود میں آئی۔ یہ وہ راز ہے جس کے علل و اسباب معلوم کرنے سے انسان آج تک بےبس ہے۔ پہلے خلیے کو زندگی کس طرح ملی۔ انسان اور زندگی کی نشو ونما پر کام کرنے والے سائنس دان آج تک اس راز سے آگاہ نہیں ہو سکے۔ رہی اعلیٰ درجے کی انسانی زندگی جس کے اندر فہم و فراست کی قوتیں موجود ہیں ، اس کے اندر ایسی امتیازی قوتیں موجود ہیں جن کے ذریعے انسان نے پوری کائنات کو مسخر کرلیا ہے ، تمام دوسرے درجے کے زندہ حیوانات کو قابو کرلیا ہے۔ اس حضرت انسان کو اس پوری دنیا پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ یہ تو وہ عظیم راز ہے جس کے بارے میں انسانی نظریات آج تک مخبوط الحواس ہیں۔ لیکن اس اہم راز کے بارے میں قرآن کریم انسان کو نہایت ہی سادہ ، واضح اور اجمالی علم دیتا ہے۔

سویتہ ونفخت فیہ من روحی (15 : 29) ( جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو ) تو درحقیقت یہ اللہ کی پیدا کردہ روح ہے جو اس حقیر عضویاتی مخلوق کو ایک بلند انسانی مخلوق بنا دیتی ہے۔ لیکن اہم سوال یہی ہے کہ یہ کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہ حقیقت ہے کہ اس انسان کو اس قدر قوت مدرکہ دی کب گئی ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ سکے۔ چناچہ مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ وہ اس راز کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔ یہ موقف نہایت ہی ٹھوس ہے اور ہم اس پر بڑے اطمینان سے کھڑے ہیں۔

اس سے قبل یعنی تخلیق انسان سے قبل اللہ نے شیطان کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا تھا۔ شیطان اور شیطانی قوت تخلیق آدم سے بھی پہلے موجود تھی۔ یہ ہے وہ علمی اور یقینی اطلاع جو اللہ نے ہمیں دی ہے۔ رہی یہ بات کہ ذلت شیطانی کی کیفیت کیا ہے اور اس کی تخلیق کی تفصیلات کیا ہیں تو یہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اللہ نے ہمارا یہ فرض قرار نہیں دیا کہ ہم ان لاحاصل چیزوں میں فضول بحثیں اور تحقیقات کریں۔ ہاں ہم اس ناری مخلوق کی بعض صفات سے ضرور واقف ہیں اور آگ کی لپیٹ اور شعلوں کو بھی جانتے ہیں اور اس قوت کی ناری صفات انسانی ذات پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ آگ سے ہیں۔ نیز ہمیں اس قدر معلوم ہے کہ جنات کی ذات صفات میں اذیت اور برق رفتاری شامل ہے کیونکہ ان کی تخلیق نار سموم سے ہے۔ اس قصے کے درمیان میں سے یہ بات بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان میں صفت غرور اور تکبر پایا جاتا ہے۔ چونکہ شیطان جن تھا اس لیے غرور و استکبار اس کے مزاج کا خاصہ ہونا چاہئے کیونکہ نار کے ساتھ یہ صفات لگا کھاتی ہے۔

انسان کی تخلیق چونکہ سڑے ہوئے گارے سے ہوئی ، جو خشک ہو کر صلصال بن گیا تھا یعنی بجنے کی آواز اس سے نکلتی تھی۔ پھر اس میں ذات باری کی طرف سے ایسی روح پھونکی گئی جس کی وجہ سے زندہ مخلوق کی یہ صنف دوسری مخلوقات سے ممتاز ہوگئی ۔ پھر اسے مخصوص انسانی صفات بھی عطا ہوئیں۔ اور ان صفات میں سے اہم صفت انسان کی وہ علمی ترقی تھی جو وہ انسانیات کے شعبے میں کر رہا تھا۔

یہ نفح روح ، دراصل انسان کو عالم بالا سے مربوط کردیتی ہے۔ یہی صفت ہے جو انسان کو خدا رسیدگی کی قوت دیتی ہے اور یہی قوت انسان کو یہ صلاحیت دیتی ہے کہ وہ خدا سے ہدایت اخذ کرسکے ، یوں حضرت انسانی جسمانی اور مادی اور حواس کی دنیا سے بلند ہوجائے اور اس عالم تجرید میں کام کرے ، جس میں دل و دماغ جو لانی دکھاتے ہیں۔ اس طرح انسان کو وہ راز عطا کیا جاتا ہے جس تک انسان ایسے حالات میں پہنچتا ہے کہ وہ زمان و مکان سے وراء ہوتا ہے اور دائرہ حواس سے آگے بڑھ کر غیر محدود تصورات کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔

یہ اونچے درجات حاصل کرنے کے باوجود انسان کے ساتھ مادیت کی آلودگی بہرحال قائم رہتی ہے۔ اس کا مزاج مادی ہی رہتا ہے اور وہ مادی ضروریات اور کمزوریوں کا شکار رہتا ہے۔ وہ کھاتا ہے ، پیتا ہے ، لباس کا محتاج ہوتا ہے۔ طبعی میلانات اور جنسی خواہشات رکھتا ہے۔ کمزوریاں اور کو تاہیاں اس میں ہوتی ہیں اور اپنے جسمانی اور تصوراتی کمزوری کی وجہ سے پھر اس سے برے افعال سرزد ہوتے ہیں۔

اسلام کا منشا اور اعلیٰ نصب العین یہ ہے کہ انسان ، انسان مادی اور مٹی کے تقاضوں اور روحانی اور علوی تقاضوں کے درمیان ایک حسین توازن کے اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچ جائے۔ یہ وہ ترقی یافتہ اور بلند مقام ہے جسے ہم کمال بسری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسلام انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اپنے عناصر ترکیبی میں سے کسی ایک کو نظر انداز کر دے اور یا خالص روحانی بن جائے ، رہبان ہو یا ہندو ، جوگی ہو یا خالص مادہ پرست بن جائے اور مادی اقدار کے سوا تمام اعلیٰ اقدار کی نفی کر کے حیوان بن جائے۔ اگر انسان ان دونوں عناصر میں سے کسی ایک ہی کا انتخاب کرے گا تو وہ کبھی بھی کمال و ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا۔ جو قومیں صرف ایک عنصر کو پیش نظر رکھ کر انسان کو نرمی دیتی ہیں وہ ان مقاصد کے خلاف کام کر رہی ہیں جن کے لئے اس مخلوق کی تخلیق کی گئی ہے۔

جو لوگ انسان کی جسمانی قوتوں کو معطل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی ہیں جو انسان کی روحانی قوتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں فریق انسان کے سیدھے فطری مزاج کے خلاف جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ انسان سے وہ کام لینا چاہتے ہیں جس کے بارے میں خالق انسان کا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ جسد انسانی کے ایک حصے کو کاٹ رہے ہیں ، لہٰذا وہ اس سلسلے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے کیونکہ وہ فطرت کے خلاف جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو تنبیہ کی جو رہبانیت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ بعض نے کہا کہ وہ کبھی عورت کے قریب نہ جائے گا۔ بعض نے کہا کہ وہ صائم الدہر ہوگا ، کبھی بھی افطار نہ کرے گا۔ کسی نے کہا کہ وہ ساری ساری رات عبادت کرے گا۔ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں سوئے گا۔ حضور ﷺ نے ان کو سخت تنبیہ فرمائی۔ حدیث عائشہ کے آخر میں ہے : فمن رغب عن سنتی فلیس منی “ جو شخص میری سنت سے منہ موڑے گا وہ میری امت سے نہ ہوگا ”۔

اسلام نے انسان کے لئے قوانین شریعت کی جو ضابطہ بندی کی ہے وہ اسی اصول پر کی ہے ۔ اسلام نے اخلاق و قانون کا ایسا ضابطہ دیا ہے جو اسی اصول پر مبنی ہے اور اس میں انسان کی تمام فطری صلاحیتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اسلام انسان کی صلاحیتوں میں سے کسی صلاحیت کی بیخ کنی نہیں کرتا ، ہاں اسلام ان صلاحیتوں کے درمیان ایک قسم کا توازن ضرور قائم کرتا ہے تا کہ ان میں سے کوئی طاقت اور صلاحیت حد اعتدال سے تجاوز نہ کر جائے اور کوئی صلاحیت دوسری کو ختم نہ کر دے۔ کیونکہ توازن بگاڑنے سے بہرحال غیر متواز صلاحیت ختم ہوگی اور انسان کی بعض خصوصیات کو وجود ہی باقی نہ رہے گا۔ اور یوں انسان ایک شرعی جرم کا مرتکب ہوگا کیونکہ اللہ کا یہ بھی حکم ہے کہ اپنی فطری قوتوں کو محفوظ رکھو اور ان کی نشوونما کرو۔ کیونکہ یہ اللہ کی عطا کردہ ہیں اور کسی مقصد کے لئے ہیں ، محض اضافی نہیں ہیں اور نہ بےمقصد ہیں۔

یہ تھیں وہ بعض باتیں اور کچھ خیالات جو انسان کی تخلیق کی حقیقت پر غور کرنے کے بعد دل میں اترے۔ قرآن کریم تخلیق انسان کے بارے میں یہی حقائق ذہن نشین کراتا ہے۔ اب مناسب ہے کہ ہم اس قصے کے مشاہد اور مناظر کی طرف آئیں۔

اردو ترجمہ

اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaljanna khalaqnahu min qablu min nari alssamoomi

اردو ترجمہ

پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ "میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala rabbuka lilmalaikati innee khaliqun basharan min salsalin min hamain masnoonin

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا :

آیت نمبر 28 تا 29

چناچہ فرشتوں نے ایسا ہی کیا جس طرح اللہ نے حکم دیا تھا۔ اور اللہ نے چونکہ انسان کی تخلیق کا ارادہ کرلیا تھا اس لیے انسان مطلوبہ ارادہ کرتے ہی تخلیق ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کی روح جو اس فانی جسد خاکی میں پھونکی گئی اور جو لافانی چیز ہے وہ کس طرح اس جسد خاکی کے ساتھ آمیختہ ہوگئی ، جو فانی چیز ہے۔ ایک مومن تو ایسے سوالات نہیں کرتا کیونکہ اس موضوع پر یہ مباحثہ و مذاکرہ ایک عبث کوشش ہے۔ بلکہ اس قسم کے مباحث میں جدل وجدال کرنا محض تضیع اوقات ہوتا ہے ۔ ان موضوعات پر کلام کر کے ہم عقل کو ایک ایسے دائرے میں داخل کرتے ہیں جس میں اس کے اسباب ادراک اور اس کی قوت فیصلہ کام ہی نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں جو بحثیں اس سے قبل ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں وہ اس جہل پر مبنی ہیں جس میں انسان خود عقل انسانی کی حقیقت کو سمجھنے کے حوالے سے مبتلا ہے۔ عقل انسانی کا یہ مقام ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی حدود سے آگے بڑھ کر ماوراء کے حدود میں دخل دے۔ کیونکہ عقل میں وہ طاقت ہی نہیں ہے کہ اپنے اسباب ادراک کی حدود اور صلاحیت سے آگے بڑھے کیونکہ خالق کائنات کی کیفیت عقل انسانی کی حدود سے باہر ہے۔ لہٰذا اس میدان میں عقل کو لگانا ہی حماقت ہے۔ تخلیق کائنات کے راز معلوم کرنے میں عقل انسانی کو کھپانا ہی بنیادی غلطی ہے۔ عقل اس بات میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی کہ ایک فانی چیز سے ایک خالد اور دائمی حقیقت کے ساتھ کس طرح وابستہ و آمیختہ ہو سکتی ہے۔ ایک چیز ازلی ہے اور دوسری حادث اور نہ اللہ نے عقل انسانی سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرے اور اسے ثات کرے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف یہ بتایا ہے کہ ایسا ہوا لیکن کسی جگہ یہ نہیں بتایا کہ کیسے ہوا ؟ کیونکر ایسا ہوا ؟ یہ بات تو ثابت ہے کہ انسان مخلوق ہے اور ہمارے سامنے موجود ہے۔ عقل انسانی اس موجود حقیقت کا انکار تو نہیں کرسکتی۔ نہ عقل انسانی خود اس تخلیق کی کیفیت بتا سکتی ہے۔ عقل انسانی کے بس میں صرف یہ بات ہے کہ وہ قرآن کی خبر کی تصدیق کر دے۔ جہاں تک حقیقت تک رسائی کا تعلق ہے تو عقل انسانی ایسا نہیں کرسکتی۔ اور یہ بات ہدایتہً ثابت ہے کہ خود انسان اور عقل انسانی ایک حادث اور مخلوق اور فانی حقائق ہیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ کوئی فانی اور مخلوق چیز لافانی ، ازلی اور ابدی حقائق پر کوئی حکم نہیں لگا سکتی۔ کسی شکل و صورت میں بھی نہیں لگا سکتی۔ اس سلسلے میں عقل کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اس میدان میں جو لانی دکھانے سے باز آجائے اور ایسے میدانوں میں کام کرے جو اس کے لئے کھلے اور محفوظ ہیں۔ مثلاً عام سائنسی میدان۔

میں نے اپنی عادت کے برعکس اس عقلی مسئلے پر یہاں قدرے طویل بحث کردی ہے حالانکہ ظلال القرآن میں ہمارا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔ یہ اس لیے کہ امور غیب کی نوعیت ایک جیسی ہے اور ان تمام امور غیبیہ کے مسئلے میں ہم ایک ایسا اصولی قاعدہ وضع کرنا چاہتے ہیں کہ انسانی دل و دماغ اور انسانی سوچ اور ایمان اس فائدے پر مطمئن ہوجائیں۔ بہرحال اس کے بعد کیا ہوا ؟

اردو ترجمہ

جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha sawwaytuhu wanafakhtu feehi min roohee faqaAAoo lahu sajideena

اردو ترجمہ

چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasajada almalaikatu kulluhum ajmaAAoona

آیت نمبر 30 تا 31

فرشتوں نے تو یہ سجدہ اس لیے کیا کہ ان کی فطرت ہی عبادت الٰہی اور تعمیل حکم ہے۔ بغیر چون و چرا کے اور ابلیس نے انکار اس لیے کیا کہ وہ ملائکہ میں سے نہ تھا۔ ملائکہ نوری مخلوق ہیں اور شیطان ناری۔ فرشتے ایسے ہیں کہ ان کو اللہ کی طرف سے جو حکم بھی ملے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے ، انہیں جو حکم ملے وہ کر گزرتے ہیں اور ابلیس نے یہ حکم ملتے ہی انکار کیا اور استکبار کیا۔ اس لیے یقیناً وہ فرشتوں میں سے نہ تھا۔ یہاں استثناء متصل نہیں ہے ، یہ اس طرح ہے جس طرح کہتے ہیں کہ فلاں کی اولاد تو سب آگئے مگر احمد نہیں آیا۔ جبکہ احمد فلاں کے بیٹوں میں سے نہیں ہوتا۔ صرف یہ کہ وہ ان کے ساتھ ہی رہنے والا ہوتا ہے یا ان کے آنے والے کے فعل کے ساتھ۔ اس کا بھی کچھ تعلق ہوتا ہے اس لیے اسے استثنائیہ جملے میں یکجا کردیا جاتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکم تو تھا ہی فرشتوں کو ، پھر ابلیس اس حکم کے مدلول میں کس طرح شامل ہوگیا۔ تو جواب یہ ہے کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے ابلیس بھی اس حکم میں شامل تھا۔ سورة اعراف میں تو صراحت کے ساتھ ابلیس کو شامل کیا گیا۔

قال ما منعک الا تسجد اذ امرتک ” اس نے کہا کس چیز نے تجھے منع کیا کہ تو سجدہ کرے جبکہ میں نے تمہیں حکم دیا ہے “۔ قرآن کریم کا یہ انداز بیان ہے کہ وہ حالاتی مفہوم پر اکتفاء کرتا ہے۔ یہ اسلوب قرآن میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ آیت مذکورہ اس بات پر قطعی الدلالت ہے کہ اللہ کی طرف ابلیس کو بھی حکم دے دیا گیا تھا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ حکم وہی ہو جو فرشتوں کو دیا گیا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرشتوں کے احکام میں ہی ابلیس کو شامل کردیا گیا ہو کیونکہ وہ ان سے متعلق تھا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابلیس کو علیحدہ حکم دیا گیا ہو ، لیکن یہاں اس کا تذکرہ اس لیے نہیں کیا گیا کہ یہاں اسے نظر انداز کرنا مطلوب تھا اور فرشتوں کو نمایاں کرنا مطلوب تھا۔ لیکن جس طرح ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا اور ہم بھی یہی موقف اختیار کرتے ہیں۔

فرشتوں کی حقیقت کیا ہے ؟ ابلیس کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ غیبی امور ہیں اور مسلمات ایمانیہ میں سے ہیں۔ ہم ان پر اسی طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح نصوص میں ان کا تذکرہ ہوا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر تشریح کی ہے عقل کے لئے ان حقائق تک رسائی ممکن نہیں ہے اس لیے وہ نصوص کے سوا کسی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس کا دائرہ کار نہایت ہی محدود ہے۔

اردو ترجمہ

سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa ibleesa aba an yakoona maAAa alssajideena
263