سورۃ الجن (72): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Jinn کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الجن کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الجن کے بارے میں معلومات

Surah Al-Jinn
سُورَةُ الجِنِّ
صفحہ 573 (آیات 14 سے 28 تک)

وَأَنَّا مِنَّا ٱلْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا ٱلْقَٰسِطُونَ ۖ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ تَحَرَّوْا۟ رَشَدًا وَأَمَّا ٱلْقَٰسِطُونَ فَكَانُوا۟ لِجَهَنَّمَ حَطَبًا وَأَلَّوِ ٱسْتَقَٰمُوا۟ عَلَى ٱلطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَٰهُم مَّآءً غَدَقًا لِّنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَمَن يُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِۦ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا وَأَنَّ ٱلْمَسَٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًا وَأَنَّهُۥ لَمَّا قَامَ عَبْدُ ٱللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا۟ يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا قُلْ إِنَّمَآ أَدْعُوا۟ رَبِّى وَلَآ أُشْرِكُ بِهِۦٓ أَحَدًا قُلْ إِنِّى لَآ أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا قُلْ إِنِّى لَن يُجِيرَنِى مِنَ ٱللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِۦ مُلْتَحَدًا إِلَّا بَلَٰغًا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِسَٰلَٰتِهِۦ ۚ وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَإِنَّ لَهُۥ نَارَ جَهَنَّمَ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا حَتَّىٰٓ إِذَا رَأَوْا۟ مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا قُلْ إِنْ أَدْرِىٓ أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُۥ رَبِّىٓ أَمَدًا عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِۦٓ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ٱرْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُۥ يَسْلُكُ مِنۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِۦ رَصَدًا لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا۟ رِسَٰلَٰتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَىْءٍ عَدَدًۢا
573

سورۃ الجن کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الجن کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم میں سے کچھ مسلم (اللہ کے اطاعت گزار) ہیں اور کچھ حق سے منحرف تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کر لیا انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna minna almuslimoona waminna alqasitoona faman aslama faolaika taharraw rashadan

وانا منا ................ رشدا (41) واما .................... حطبا (27 : 51) ” اور یہ کہ ” ہم میں سے کچھ مسلم (اللہ کی اطاعت گزار) ہیں اور کچھ حق سے منحرف۔ تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کرلیا ” انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈلی اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والا ہیں “۔ قاسط کے معنی ظالم اور حق سے ایک طرف ہونے والے عدل و نیکی سے منحرف ہونے والے کے ہیں۔ جنوں نے ان کو مسلمانوں کے مقابل لاکر ذکر کیا ہے اور اس کے اندر ایک لطیف اشارہ ہے ، کہ ایک مسلمان عادل اور مصلح ہوتا ہے اور اس کا فریق مقابل ظالم اور مفسد ہوتا ہے۔

فمن اسلم .................... رشدا (27 : 41) ” جس نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کرلیا ” انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈلی “۔ یہاں ان کے اس فعل کو لفظ ” تحروا “ سے تعبیر کیا۔ نہایت گہری سوچ سے راہ ہدایت تلاش کرنا۔ اور اس کے بالمقابل ہے گمراہی اور ضلالت۔ ” تحری “ کے معنی ہوتے ہیں نہایت دقت سے راہ صواب کو اختیار کرنا اچھی طرح سوچ کر اور اچھی چھان بین کرکے۔ یہ نہیں کہ جدھر منہ ہوا ادھر چل دیا۔ بغیر سوچ سمجھ کے ، یعنی اسلام قبول کرتے ہی وہ راہ صواب تک پہنچ گئے۔ اسارہ اس طرف ہے کہ اسلام عین راہ نجات ہے اور یہ بہت ہی خوبصورت اشارہ ہے۔

اردو ترجمہ

اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waama alqasitoona fakanoo lijahannama hataban

واما .................... حطبا (2751) ” جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والا ہیں “۔ یعنی ان کے جہنمی ہونے کا فیصلہ ہوگیا ہے اور جب یہ جہنم میں پھینکے جائیں گے تو جہنم کی آگ ان کی وجہ سے اس طرح تیز ہوگی جس طرح خشک ایندھن کی وجہ سے آگ زیادہ مشتعل ہوجاتی ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات کو بھی جہنم کا عذاب ہوگا۔ اور یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نیک جن جنت کے بھی مستحق ہوں گے۔ یہی حقیقت ہے ، کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے سوا کسی اور چیز کا عقیدہ اختیار کرے۔ اگر کوئی کرتا ہے تو وہ باطل ہوگا اور جو کچھ قرآن کہتا ہے بلاجدال درست ہوگا۔ لہٰذا جو بات جنوں پر صادق ہے وہی انسانوں کا انجام بھی ہوگا۔

یہاں تک تو قرآن نے جنوں کی باتیں ان کے اپنے الفاظ میں نقل کیں۔ لیکن اب باری تعالیٰ کی طرف سے ان کے مقالات کا خلاصہ پیش ہوتا ہے کہ وہ یوں بھی کہتے ہیں کہ جو مخلوق بھی راہ استقامت اختیار کرے گی اللہ کا اس کے ساتھ یہی سلوک ہوگا۔

اردو ترجمہ

اور (اے نبیؐ، کہو، مجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے کہ) لوگ اگر راہ راست پر ثابت قدمی سے چلتے تو ہم اُنہیں خوب سیراب کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallawi istaqamoo AAala alttareeqati laasqaynahum maan ghadaqan

وان .................................... صعد

اللہ فرماتا ہے کہ جن ہمارے متعلق یہ کہتے تھے کہ اگر لوگ یا ظالم اور کافر لوگ راہ راست پر آجائیں تو ہم ان کو خوب سیراب کریں۔ اور یوں ان کے رزق میں اضافہ ہو ، تاکہ ” ہم “ ان کو آزمائیں کہ شکر ادا کرتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں۔

طرز ادا میں یہ تبدیلی کہ جنوں کے قول کو نقل کرنے کے بجائے جنوں کے قول کا مفوم قرآنی الفاظ میں ادا کیا گیا اور جنوں کی بات تو اس طرح قرآن کریم میں کئی جگہ آتی ہے اور اس سے کلام میں تاکید مزید پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہے اور قاری اس طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔

توجہ مبذول کرانے کے اس نوٹ میں کئی حقائق ہیں ، جن کے مطابق ایک مومن کا ایمان تشکیل پاتا ہے اور ان کے مطابق وہ معاملات کے فیصلے کرتا ہے اور واقعات کے باہم روابط متعین کرتا ہے۔

پہلی حقیقت یہ ہے کہ اقوام اور سوسائٹیاں اور معاشرے کس طرح صراط مستقیم پر قائم رہ کر اللہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اور پھر وصول الی اللہ اور پیداوار میں اضافہ اور اور خوشحالی کے حصول کے درمیان ربط کیا ہے جبکہ خوشحالی کا سبب اول آبپاشی کا انتظام اور کثرت ہے جہاں تک زندگی کا تعلق ہے وہ تو پانی سے تشکیل پاتی ہے۔ آج ہمارے صنعتی دور میں بھی خوشحالی کا دارومدار بہرحال پانی اور سیرابی پر ہے۔ اگرچہ صرف زراعت پر زندگی موقوف نہیں رہی ہے۔ لیکن پھر بھی تعمیر و ترقی کا مدار پانی ہی پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ راہ راست پر قائم رہے تو نہ صرف وہ ترقی یافتہ اور خوش حال ہوجاتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو زمین پر اقتدار اعلیٰ بھی حاصل ہوتا ہے ، امت عربیہ۔

اس کی واضح مثال ہے کہ ایام جاہلیت میں جزیرة العرب کے درمیان یہ نہایت پسماندہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن جب وہ راہ راست پر چل پڑے تو ان کے لئے ایسی زمینوں کے دروازے کھل گئے جہاں پانی بڑی مقدار میں مہیا تھا اور جب یہی عرب بدعمل ہوگئے اور انہوں نے راہ راست سے انحراف اختیار کیا تو وہ دوبارہ پسماندہ ہوگئے اور اس لئے وہ اس وقت بدحال ہیں۔ اور یہ اس وقت تک بدحال رہیں گے جب تک یہ دوبارہ راہ راست پر نہیں آجاتے۔ اور جب بھی یہ آئے ان پر خوشحالی آجائے گی اور ان کو زمین میں تمکن حاصل ہوگا۔

اگر ایسی اقوام کہیں موجود ہوں جو راہ راست پر نہ ہوں اور پھر بھی وہ باد سائل ہوں ، تو اللہ ان پر دوسرے عذاب مسلط کردے گا اور وہ کئی آفات وبلیات سے دوچار ہوں گی۔ ایسی اقوام انسانیت ، اقدار ، انسانی شرف اور کرامت کے اعتبار سے گر جائیں گی۔ یوں ان کی یہ خوشحالی اور مادی ترقی بےمعنی ہوکر رہ جائے گی۔ اور ان کی زندگی تلخ ، اور پر مشقت ہوگی۔ ایسی اقوام انسانی شرف سے محروم ہوں گی۔ اور ان کی زندگی میں کوئی اطمینان نہ ہوگا۔ اس مضمون کی تشریحات ہم سورة نوح میں کر آئے ہیں۔

اور اس نوٹ سے جو دوسری حقیقت ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خوشحالی اور تمکین فی الارض بھی دراصل ایک ابتلا ہے ، ایک آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اچھے اور برے حالات کے ذریعہ آزماتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوشحالی میں اللہ کا شکر ادا کرنا بہت مشکل کام ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی بدحالی پر صبر کرے ، جبکہ بادی النظر میں انسان کی توجہ ایک طرف ہوجاتی ہے ، اس کی مدافعانہ قوتیں مجتمع ہوجاتی ہیں۔ اور وہ اپنی پوری قوتوں کو صورت حالات کی مدافعت میں لگا دیتا ہے۔ مثلاً وہ اللہ کو یاد کرتا ہے ، اللہ سے دعا کرتا ہے ، اور اللہ سے ان مشکل حالات میں مدد طلب کرتا ہے جبکہ تمام دنیاوی سہارے ختم ہوتے ہیں تو انسان اللہ کا سہارا لیتا ہے۔ رہی خوشحالی تو وہ انسان کو غافل کردیتی ہے ، انسان فضولیات میں مشغول ہوجاتا ہے۔ انسانی اعضا سست ہوجاتے ہیں ، قوت مدافعت سو جاتی ہے اور انسان کے لئے غفلت اور بےراہ روی کے اسباب مہیا ہوجاتے ہیں۔ اور انسان بڑی سہولت سے شیطان کے پھندے میں پھنس جاتا ہے۔

جب انسان پر خوشحالی اور نعمتوں کی کثرت کی آزمائش آجائے تو اسے ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مال و دولت بسا اوقات انسان کو سرکشی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ انسان اللہ کا شکر نہیں کرتا ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخیل ہوجاتا ہے اور دنیاوی اخراجات میں اسراف کرنے لگتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں زندگی کے توازن کے لئے عذاب بن جاتی ہیں۔ اسی طرح اقتدار کی قوت بھی اکثر اوقات انسان کو اندھا کردیتی ہے ، وہ ظالم اور سرکش ہوجاتا ہے ، وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے ، اور حدود سے آگے بڑھتا ہے۔ لوگوں پر دست درازی کے بعد ایسا شخص پھر اللہ کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے۔ اسی طرح مال و جمال کے فتنے انسان کو کبروغرور اور بےراہ روی اور بدعملی اور بدکرداری اور فسق وفجور میں مبتلا کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ذکی اور ذہین ہے تو وہ دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے اور برخود غلط ہوجاتا ہے اور وہ اعلیٰ قدروں کو پامال کرتا ہے۔ غرض ہر نعمت آزمائش ہے الایہ کہ کوئی بروقت اللہ کو یاد کرے اور اللہ کی پناہ طلب کرے۔

تیسری حقیقت یہ ہے کہ ذکر الٰہی سے اعراض کے نتیجے میں ایک طرف انسان خوشحالی میں آزمایا جاتا ہے تو دوسری طرف وہ عذاب اخروی میں بھی مبتلا ہوگا۔ قرآن کریم اس کی تصریح کرتا ہے۔

یسل کہ عذابا صعدا (27 : 71) ” اس کا رب اسے سخت عذاب میں مبتلا کردے گا “۔ یعنی یہ عذاب بہت شدید ہوگا ، جس طرح ایک آدمی چڑھائی چڑھ رہا ہو تو وہ مشکل محسوس کرتا ہے۔ جوں جوں چڑھتا ہے اس کے لئے رفتار مشکل ہوتی جاتی ہے۔ قرآن کریم نے کئی جگہ شدت عذاب کی تعبیر چڑھائی چڑھنے کے ساتھ کی ہے۔ ایک دوسری جگہ ہے۔

فمن یرد ................................ السماء (6 : 521) ” پس جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔ اور ایسا بھینچتا ہے کہ اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا وہ آسمانوں کی طرف چڑھ رہا ہے “۔ اور دوسری جگہ ہے۔

سارھقہ صعود (المدثر۔ 71) ” میں عنقریب اسے ایک کٹھن چڑھائی چڑھاﺅں گا “۔

یہ تیسری آیت ہوسکتی ہے کہ یہ جنوں کے قول کی حکایت ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ کا کلام ہو۔

اردو ترجمہ

تاکہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں اور جو اپنے رب کے ذکر سے منہ موڑے گا اس کا رب اسے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Linaftinahum feehi waman yuAArid AAan thikri rabbihi yaslukhu AAathaban saAAadan

اردو ترجمہ

اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna almasajida lillahi fala tadAAoo maAAa Allahi ahadan

وان المسجد .................... احد

” اس کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ بھی صرف اللہ کے لئے ہے اور مقامات سجود ، مساجد بھی اللہ کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا اسلام مکمل توحید کا قائل ہے۔ اللہ کے سوا کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کسی کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ اور اللہ کی توحید کے سوا تمام اعتبارات اور تمام حیشلیت ہیچ ہیں۔ لہٰذا کسی کے ہاں کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ اور نہ کسی سے طلب کرنا چاہئے اور نہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنے قلب میں استحضار دینا جائز ہے۔ اگر یہ آیت جنوں کا مقولہ ہے تو پھر یہ جنوں کی اس بات کی تاکید ہے۔

ولن ................ احدا (28 : 2) ” اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے “ ۔ خصوصاً عبادت اور ذکر وفکر کے مقام میں بالخصوص سجدہ ریزی میں۔ اور اگر یہ ابتداء ہی سے کلام الٰہی ہے تو پھر موقعہ کی مناسبت سے اللہ کی طرف سے ہدایت ہے اور یہ قرآن کا انداز ہے کہ وہ بر محل ہدایت دے دیتا ہے اور اسی طرح اگلی آیت :

اردو ترجمہ

اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اُس کو پکارنے کے لئے کھڑا ہوا تو لوگ اُس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے تیار ہو گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waannahu lamma qama AAabdu Allahi yadAAoohu kadoo yakoonoona AAalayhi libadan

وانہ ........................ لبدا

” یعنی سب جمع ہوکر اور جتھا بنا کر اس وقت اس پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہوگئے جب وہ اللہ کو پکارنے کے لئے یعنی اللہ کے سامنے نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوا۔ نماز یعنی صلوة کے معنی دعا کے ہیں۔ صلوة کے اصلی معنی ہی دعا کے ہیں۔ اگر یہ آیت جنوں کا قول ہو تو اللہ کی جانب سے ان کی بات کی حکایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور تلاوت کرتے تو مشرکین مکہ آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتے جیسا کہ سورة المعارج میں ہے۔

فمال .................... عزین (73) (07 : 63۔ 73) ” پس اے نبی کیا بات ہے ، کہ یہ منکر دائیں اور بائیں سے گروہ در گروہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں “۔ اور نہایت حیرانی سے قرآن سنتے ہیں اور قبول نہیں کرتے۔ یا وہ ادھر ادھر سے آپ پر حملہ آور ہونے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ آپ کو ان سے بچاتا ہے اور ایسے مواقع بارہا پیش آئے۔ اگر یہ جنوں کا قول ہے تو وہ اپنی قوم کے سامنے مشرکین مکہ کے رویہ پر تعجب کا اظہار کررہے ہیں اور اگر ابتداء ہی سے کلام الٰہی ہے کلام سنتے ہیں ، تعجب کرتے ہیں اور یہ رسول اللہ کے ارد گرد اس طرح جمع ہوتے ہیں جس طرح اونی کپڑے کے بنے ہوئے بال ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ مفہوم اس تعجب ، حیرانی اور دہشت کے زیادہ مناسب ہے جو جنات کے پورے کلام کے دوران موجود رہی ہے۔ کیونکہ جنات کا پوراکلام درحقیقت اظہار تعجب اور اچھنبے کا نمونہ ہے۔ واللہ اعلم !

اسلامی دعوت اور قرآن کے کلام کے بارے میں جب جنوں کا کلام یہاں آکر ختم ہوتا ہے ، جس میں جنوں نے اپنے تعجب کا اظہار کیا ، جس میں ان کے شعور اور ان کی سوچ میں ارتعاش پیدا ہوا اور انہوں نے دیکھا کہ ارض وسما اور جنات وفرشتے اور ستارے اور سیارے سب کے سب اس عظیم دعوت اور اس عظیم کلام کے حوالے سے متحرک ہیں۔ کائنات کا یہ عظیم نظام بھی اس کی وجہ سے متاثر ہوگیا ہے اور یہ ایک نہایت اہم اور سنجیدہ تحریک ہے۔ تو اس کے ساتھ ہی روئے سخن اب نبی ﷺ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کہ نہایت ہی دو ٹوک ، فیصلہ کن اور اٹل ہدایات دی جاتی ہیں کہ آپ تبلیغ کے لئے خالص ہوجائیں اور یہ کہہ دیں کہ میں کسی کے نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں۔ نہ میں غیب دانی کا مدعی ہوں ، نہ میں لوگوں کی تقدیر بدل سکتا ہوں۔ یہ بات نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ اور شکایت کا انداز میں کی جاتی ہے۔ نہایت سختی اور فیصلہ کن انداز میں :

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، کہو کہ "میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innama adAAoo rabbee wala oshriku bihi ahadan

قل انما ............................ شیء عددا

اے محمد آپ یہ اعلان کردیں۔

انما .................... احد (27 : 02) ” میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا “۔ یہ اعلان اس وقت آتا ہے جب جنات بھی اپنی قوم کے سامنے یہ اعلان کرتے ہیں۔

ولن ................ احد (27 : 2) ” اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے “۔ یوں اس اعلان کا بہت اثر ہوگا۔ اور یہ اعلان بیک وقت وقت جن وانس کا اعلان ہوجائے گا۔ اور یہ اعلان دونوں کی شناخت ہوگا۔ اور جو شخص اس اعلان سے برات کرے گا وہ گویا جن وانس دونوں سے اپنے آپ کو علیحدہ کردے گا۔ وہ دونوں جہانوں اور دونوں آبادیوں سے دور ہوگا۔

قل انی .................... رشدا (27 : 12) ” کہو ، ” میں تم لوگوں کے لئے کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا “۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ خالص اللہ کے لئے ہوجائیں اور ہر قسم کے دعوے سے دستبردار ہوجائیں اور صاف صاف اعلان کردیں کہ اللہ کی خصوصیات میں سے کوئی خصوصیت بھی مجھے حاصل نہیں ہے بلکہ یہ کہ میں بندہ ہوں اور اللہ کے لئے کوئی شریک نہیں ٹھہراتا۔ یہ صرف اللہ ہے جو انسانوں کے نفع ونقصان کا مالک ہے۔ یہاں قرآن مجید ضرر اور مضرت کے مقابل رشد وہدایت کو لایا اور یہی بات جنات نے بھی کہی تھی۔

وانا لا ندری .................................... رشدا (27 : 01) ” اور یہ کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ زمین والوں کے ساتھ کوئی بڑا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے ؟ “ یوں دونوں آیات اور دونوں اقوال کے درمیان مناسبت پیدا ہوگئی۔ الفاظ میں بھی اور مفہوم میں بھی اور یہ مناسبت قصے اور اس پر تبصرے دونوں مقصود ہے۔

یہاں قرآن کریم جنات سے بھی اس بات کی نفی کردیتا ہے کہ وہ کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی یہ تردید کردی جاتی ہے کہ آپ کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ہیں اور نفع ونقصان دینا اللہ کی خصوصیت قرار پاتا ہے۔ یوں اسلامی عقیدہ اور اسلامی تصور حیات صاف ستھرا ہوکر سامنے آجاتا ہے۔

اردو ترجمہ

کہو، "میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innee la amliku lakum darran wala rashadan

قل انی .................... ملتحد (22) الا بلغا ............ اللہ ورسلتہ (27 : 32) ” کہو ، ” مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہیں سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پاسکتا ہوں۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچادوں “۔ یہ ایک نہایت ہی خوفناک دھمکی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسالت کا معاملہ کس قدر نازک اور سنجیدہ ہے۔ رسالت اور دعوت اسلامی نہایت حساس امور ہیں۔ خود رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس بات کا اعلان کردیں کہ مجھے اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ، بچنے کی صورت صرف یہ ہے کہ میں تبلیغ کروں میرے پاس اللہ کی جو امانت ہے اسے پہنچا دوں۔ یہی ایک معاملہ ہے جس کی گارنٹی دے دی گئی ہے۔ اس معاملے میں میرے اختیارات نہیں۔ میں تو صرف تبلیغ پر مامور ہوں اور اس کے سوا میرے لئے کوئی اور صورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تو لازمی سروس ہے۔ اور میں اس سے کہیں بھاگ نہیں سکتا۔ نہ کوئی جائے پناہ ہے۔ ایسی پناہ گاہ جہاں میں بچ سکوں۔ میرے لئے صرف یہ صورت ہے کہ میں اپنا فریضہ ادا کرتا رہوں۔

ذرا غور کیجئے کس قدر نازک ، سنجیدہ اور خوفناک معاملہ ہے رسالت اور دعوت کا۔ یہ کوئی رضاکارانہ معاملہ نہیں ہے کہ کوئی چاہے تو دعوت پیش کرے اور کوئی نہ چاہے تو چھوڑ دے۔ یہ ایک لازمی سروس کی ڈیوٹی ہے۔ نہایت حساس ڈیوٹی ہے۔ اللہ دیکھ رہا ہے اور اللہ سے کوئی کہیں بھاگ نہیں سکتا۔ یہ کوئی ذاتی شغل اور ہابی (Hobby) بھی نہیں ہے کہ کوئی ذاتی خوشی اور حصول لذت کے لئے یہ کام کرے تو یہ حاکم مطلق کا حکم ہے۔ اور اس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی ۔ نہ اس میں کوئی تردد کرسکتا ہے ، یوں دعوت اسلامی کی نوعیت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ رسول کے بعد کے انسانوں میں آنے والے داعی بھی از سر نو اس کی حیثیت کو سمجھیں کہ یہ ایک لازمی فریضہ ہے اور نہایت حساس ، سنجیدہ معاملہ ہے اور اللہ جو کبیر اور متعال ہے ، خود اس کا نگران ہے۔

ومن ................ ابدا (32) حتی اذا .................... عدد (27 : 42) ” اب جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے “۔ (یہ لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے۔

یہ ظاہری اور درپردہ دونوں انداز میں ایک خوفناک شہدید اور ڈراوا ہے ، ان لوگوں کے لئے جن کے پاس یہ پیغام پہنچ جائے اور وہ اس سے روگردانی کریں جبکہ اس سے قبل ان لوگوں کو سخت تنبیہ کردی گئی کہ جو قبول کرلیں پھر وہ دوسروں تک نہ پہنچائیں۔

اگر مشرکین کو یہ ناز ہے کہ وہ قوت رکھتے ہیں اور ان کی تعداد زیادہ ہے اور وہ اس کا مقابلہ حضرت محمد ﷺ اور صحابہ کرام کی کمزور قوت اور قلت تعداد سے کرتے ہیں تو ان کو جلد ہی اپنی قوت کا اندازہ ہوجائے گا ، جب وہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس سے ان کو ڈرایا جارہا ہے۔ یا تو دنیا ہی میں دیکھ لیں اور یا آخرت میں دیکھ لیں گے کہ۔

من اضعف ................ عددا (27 : 42) ” کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے “۔ کوئی ضعیف ، ناتواں اور بےوقار ہے۔ اور کون زور آور ہے۔

اب ذرا پیچھے لوٹیئے کہ جنات نے کیا کہا تھا :

وانا ظننا ........................ ھربا (27 : 21) ” اور یہ کہ ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہراسکتے ہیں “۔ یوں اس قصے پر تبصرہ کے الفاظ قصے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ گویا اس پورے قصے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس پر یہ تبصرہ کیا جائے کہ اللہ کو کوئی ہرا نہیں سکتا۔

اردو ترجمہ

کہو، "مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اُس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innee lan yujeeranee mina Allahi ahadun walan ajida min doonihi multahadan

اردو ترجمہ

میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں اب جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa balaghan mina Allahi warisalatihi waman yaAAsi Allaha warasoolahu fainna lahu nara jahannama khalideena feeha abadan

اردو ترجمہ

(یہ لوگ اپنی اِس روش سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب اُس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا اِن سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatta itha raaw ma yooAAadoona fasayaAAlamoona man adAAafu nasiran waaqallu AAadadan

اردو ترجمہ

کہو، "میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul in adree aqareebun ma tooAAadoona am yajAAalu lahu rabbee amadan

اب نبی ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ طاقت کے علاوہ اپنے بارے میں علم غیب کی بھی نفی کردیں۔

قل ان .................... امدا (27 : 52) ” کہو ، ” میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے “۔ دعوت کے معاملات میں آپ کا کوئی اختیار نہیں اور نہ اس میں آپ کا کوئی ذاتی حق ہے۔ آپ کا کام صرف یہ ہے کہ تبلیغ کریں۔ اور اپنے آپ کو اس طرح محفوظ خطے میں داخل کردیں اور محفوظ خطے میں وہی شخص داخل ہوسکتا ہے جو تبلیغ کا حق ادا کردے۔ اور تکذیب اور نافرمانی پر اللہ جس برے انجام سے ڈراتا ہے وہ بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ آپ کو اس میں بھی دلی اختیار حاصل نہیں ہے۔ نہ آپ کو اس کا کوئی وقت وقوع معلوم ہے کہ وہ قریب ہے یا دور ہے ؟ یہ سب غیبی امور ہیں اور ان کے علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان امور کا علم اللہ کے لئے مخصوص ہے۔

اردو ترجمہ

وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAalimu alghaybi fala yuthhiru AAala ghaybihi ahadan

علم الغیب ................ احدا (27 : 62) ” وہ عالم الغیب ہے ، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا “۔ یوں نبی ﷺ سے اولوہیت کی تمام صفات کی نفی کردی جاتی ہے اور آپ صرف بندہ مختار رہ جاتے ہیں اور کسی انسان کے لئے بندگی سے بڑا کوئی وصف اور اعزاز نہیں ہوسکتا۔ بندگی اور عبودیت انسان کے مراتب درجات میں سے اعلیٰ مرتبہ اور درجہ ہوتا ہے۔ چناچہ اس طرح نبی ﷺ کو الوہیت کی تمام صفات سے مبرا کردیا جاتا ہے اور حکم دے دیا جاتا ہے کہ آپ تبلیغ کریں۔ ” کہو ، میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے ، وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے۔ وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا “۔

اس سے فقط ایک استثناء ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کسی غیب کے بارے میں اجازت دے دے اور اس سے کسی رسول کو مطلع کردیا جائے۔ اور یہ بھی ان معاملات کے بارے میں جن کا تعلق آپ کو دعوت کے فرائض سے ہے کیونکہ نبی ﷺ کی طرف جن باتوں کا پیغام آتا تھا تو وہ بھی غیبی امور ہی تھے۔ اپنے وقت میں حضور پر ایک مقدار کے مطابق احکام آتے تھے اور پھر رسولوں کی بھی آگے پیچھے سے نگرانی کی جاتی تھی کہ ان پر جو غیب آیا ہے انہوں نے اس کی تبلیغ کردی ہے یا نہیں۔ حضور اکرم کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اس بات کا اعلان بھی کردیں اور نہایت صراحت اور سنجیدگی کے ساتھ اور نہایت ہی خشوع کے ساتھ کردیں۔

اردو ترجمہ

سوائے اُس رسول کے جسے اُس نے (غیب کا کوئی علم دینے کے لیے) پسند کر لیا ہو، تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Illa mani irtada min rasoolin fainnahu yasluku min bayni yadayhi wamin khalfihi rasadan

الا من ................ رصدا (72) لیعلم ................ شیء عددا (27 : 82) ” سوائے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لئے) پسند کرلیا ہو ، تو اس کے ٓگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچادیئے ، اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے “۔ پس وہ رسول جن کو وہ اپنی دعوت کے پہنچانے کے لئے چن لیتا ہے ان کو اللہ اپنے عالم غیب میں سے کچھ پہلو بتا دیتا ہے اور وہ پہلو وہی ہے جو وحی پر مشتمل ہے۔ یعنی وحی کے موضوعات ، اس کا طریقہ یعنی وہ فرشتے ، جو وحی اٹھا کر لاتے ہیں اور وہ سرچشمہ جس سے وہ لاتے ہیں یعنی لوح محفوظ اور اس کا نظام حفاظت جس کا ذکر ہو اور وہ دوسرے امور جن کا تعلق رسول کی رسالت اور دعوت کے ساتھ ہے۔ یہ تمام امور غیبی امور ہیں اور انسانوں میں سے کوئی ان کے بارے میں نہیں جانتا۔ (لہٰذا رسول کو جو غیب دیا جاتا ہے وہ وحی الٰہی سے متعلق ہوتا ہے)

اور اس کے ساتھ ساتھ رسولوں کے ارد گرد اللہ کے نگراں مقرر کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ نگران ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور ان کے کام کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ یہ نگران ان کو شیطان کے وسوسوں سے بھی بچاتے ہیں ، شیطانوں کی مداخلتوں سے بھی بچاتے ہیں ، اور شیطان کی خواہشات اور تمناﺅں سے بھی بچاتے ہیں۔ یہ ان کو ان بشری کمزوریوں سے بھی بچاتے ہیں کہ وہ رسالت و دعوت میں کوئی سستی نہ کریں ، کسی بات کو بھلا نہ دیں ، راست سے منحرف نہ ہوجائیں اور ان کو دوسرے بشری نقائص اور ناتوانیوں سے بچاتے ہیں۔

لیکن انبیاء کے اس حفاظتی نظام میں ایک قسم کا خوف اور حساسیت پائی جاتی ہے۔ ذرا انداز بیان پر غور کریں۔

فانہ یسلک ................ رصد (27 : 72) ” تو اس کے آگے اور پیچھے دو محافظ لگا دیتا ہے “۔ تو ہر رسول کی مسلسل نگرانی ہوا کرتی ہے کہ آیا وہ اپنا فریضہ ادا کررہا ہے یا نہیں۔

لیعلم ................ ربھم (27 : 82) ” تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچادیئے “۔ اللہ تو پہلے سے جانتا ہے لیکن اللہ چاہتا ہے کہ ان سے عمل تبلیغ عملاً صادر ہوجائے اور وہ نظر آجائے اور اللہ کا علم اس سے متعلق ہو۔

واحاط بما لدیھم (27 : 82) ” اور وہ ان کے پورے ماحول کو احاطہ کیے ہوئے ہے “۔ ان کے نفوس ، ان کی زندگی جو کچھ بھی ہے اور ان کے ماحول میں جو کچھ بھی ہے اسے اللہ جانتا ہے۔ اللہ کے علم سے کوئی چیز غائب نہیں ہوتی۔

واحصی کل شیء عدادا (27 : 82) ” اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے “۔ نہ صرف یہ کہ جو رسولوں سے متعلق ہے ، بلکہ اس کا احاطہ اور اس کا شمار ہر چیز کو شامل ہے۔ ذرے ذرے کو بھی شامل ہے۔

ذرا اس حالت کا تصور کیجئے !

ایک رسول تبلیغ کررہا ہے اور اس کے آگے پیچھے نگراں لگے ہوئے ہیں۔ یہ محافظ بھی ہیں اور رقیب بھی ہیں اور اللہ رسولوں کے پورے ماحول سے براہ راست رابطہ رکھتا ہے۔ لہٰذا رسول کا فریضہ اور آپ کی سروس ایک لازمی فوجی سروس ہے۔ اور آپ کو یہ فریضہ ادا کرنا ہے۔ رسول اپنا کام کررہا ہے۔ خود مختار نہیں ہے ، نہ وہ کمزوری دکھا سکتا ہے ، نہ اپنی خواہش کی پیروی کرسکتا ہے۔ نہ اپنی پسند کے پیچھے جاسکتا ہے بلکہ ایک نہایت ہی حساس ، سنجیدہ اور سخت ڈیوٹی ہے جس کی نگرانی ہورہی ہے۔ ہر رسول اس بات کو جانتا ہے اور اس طرح اپنا فریضہ ادا کرتا چلا جاتا ہے۔ اور ادھر ادھر دیکھتا بھی نہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی سخت نگرانی ہورہی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ہر فعل اللہ کے علم میں ہے اور برملا ہے۔

یہ ایک ایسا منظر ہے جس کو دیکھ کر ہر شخص کے دل میں رسول سے نہایت گہری ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے اور ہمدردی کے ساتھ ایک خوف اور دہشت بھی اس کے دامن گیر ہوجاتی ہے کہ دعوت دین کا معاملہ کس قدر حساس ہے۔

اس خوفناک اور مرعوب کن ہدایت پر یہ سورت ختم ہوجاتی ہے ، جس کا آغاز بھی اسی قسم کے ماحول سے ہوا تھا ، جسے جنوں کے طویل اقتباس سے شروع کیا گیا تھا اور جس میں جنوں کے کپکپادینے والے واقعات بیان ہوئے تھے۔

یہ سورت جس کی کل آیا 12 سے زیادہ نہیں ہیں ، اسلامی نظریہ حیات سے متعلق بیشمار حقائق کو طے کرتی ہے اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد کا ایک نہایت ہی متوازن اور سیدھا راستہ تجویز کرتی ہے جس کے اندر کوئی غلو نہیں ہے اور نہ افراط وتفریط ہے۔ یہ سورت عالم کے بارے میں بھی نہایت معتدل لائن دیتی ہے۔ انسانوں کے سامنے عالم غیب کے دروازے بھی بند نہیں کرتی اور نہ انسانوں کو عالم غیب کے بارے میں افسانے اور خرافات گھڑنے کی اجازت دیتی ہے۔ اور جنوں کا یہ تبصرہ اس سورت میں نہایت ہی قیمتی ہے۔

انا سمعنا ........ عجبا (27 : 1) یھدی الی ................ بہ (27 : 2) ” ہم نے قرآن سنا جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے “۔

اردو ترجمہ

تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور وہ اُن کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

LiyaAAlama an qad ablaghoo risalati rabbihim waahata bima ladayhim waahsa kulla shayin AAadadan
573