سورہ التغابن (64): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Taghaabun کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التغابن کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ التغابن کے بارے میں معلومات

Surah At-Taghaabun
سُورَةُ التَّغَابُنِ
صفحہ 557 (آیات 10 سے 18 تک)

وَٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَكَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَآ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُۥ ۚ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ وَأَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا ٱلْبَلَٰغُ ٱلْمُبِينُ ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّ مِنْ أَزْوَٰجِكُمْ وَأَوْلَٰدِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَٱحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا۟ وَتَصْفَحُوا۟ وَتَغْفِرُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ إِنَّمَآ أَمْوَٰلُكُمْ وَأَوْلَٰدُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَٱللَّهُ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِيمٌ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ وَٱسْمَعُوا۟ وَأَطِيعُوا۟ وَأَنفِقُوا۟ خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِۦ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ إِن تُقْرِضُوا۟ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَٰعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَٱللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
557

سورہ التغابن کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ التغابن کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخ کے باشندے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena kafaroo wakaththaboo biayatina olaika ashabu alnnari khalideena feeha wabisa almaseeru

اردو ترجمہ

کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma asaba min museebatin illa biithni Allahi waman yumin biAllahi yahdi qalbahu waAllahu bikulli shayin AAaleemun

ما اصاب ........................ علیم (46 : 11) ” کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو ، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے ، اللہ کو ہر چیز کا علم ہے “۔ اس پیرگراف میں چونکہ لوگوں کو ایمان کی طرف بلایا گیا تھا ، اس لئے اس کے ساتھ اس حقیقت کا ذکر بھی مناسب سمجھا گیا کیونکہ یہ ایمان کے متعلق امور میں سے ہے کہ انسان ہر چیز کو اللہ کی طرف لوٹا دے۔ اور یہ عقیدہ رکھے کہ خیروشر اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ ایمان کی تفصیلات ہیں اور ان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ عملی زندگی میں اس عقیدے کے سوا ایمانی شعور کا تصور نہیں ہوسکتا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آیات کے نزول کے وقت کوئی ایسی صورت حال بھی ہو جس میں لوگوں کو یہ تسلی دی گئی کہ خیروشر اللہ کی طرف سے ہے مثلاً مومنین اور مشرکین کے درمیان کوئی خاص واقعہ اس سورت اور اس واقعہ کے نزول کے وقت ہو۔

بہرحال یہ بات کہ نفع ونقصان اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ایمان کا بہت ہی اہم پہلو ہے۔ اس طرح اللہ پر ایمان لانے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو کچھ پیش آتا ہے اللہ کی طرف سے ہے۔ ہر حرکت اور حادثہ سے بھی اللہ کا ہاتھ کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور مومن کو جو خوشی یا غم پیش آتا ہے وہ اس پر مطمئن ہوتا ہے۔ غم پر صبر کرتا ہے اور خوشی کا شکر ادا کرتا ہے اور کبھی کبھار تو بعض مومنین اسے سے بھی اوپر چلے جاتے ہیں۔ وہ خوشی اور غم دونوں میں شکر ادا کرتے ہیں اور ہر حال کو ، وہ اللہ کا فضل سمجھتے ہیں ، یوں کہ غم میں ان کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور حسنات میں اضافہ ہوتا ہے۔

متفق علیہ حدیث ہے۔ مومنین کے مزے ہیں کہ اللہ جو فیصلہ کرتا ہے ان کے لئے اس میں خیر ہی ہوتی ہے۔ اگر مصیبت آئے تو وہ صبر کرتے ہیں تو ان کو ثواب ملتا ہے۔ اور اگر ان کو خوشی ملے تو شکر کرتے ہیں تو بھی اس کے لئے خیر ہوتی ہے اور یہ صرف مومنین کے لئے ہے “۔

واللہ بکل شیء علیم (46 : 11) ” اللہ کو ہر چیز کا علم ہے “۔ یہ تعقیب اسی لئے آئی کہ اللہ کا علم کلی ہے اور اس شخص کو بھی اس قسم کی کلی ہدایت مل جاتی ہے۔ اور یہ علم ، اللہ اس کو دیتا ہے جس کو وہ ہدایت کرنا چاہے۔ جب کسی کا ایمان صحیح ہوتا ہے تو اس کے سامنے سے کئی پردے اٹھ جاتے ہیں اور کئی اسرار اس پر واشگاف ہوجاتے ہیں۔ ایک مقدار کے مطابق۔

اردو ترجمہ

اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی طاعت کرو لیکن اگر تم اطاعت سے منہ موڑتے ہو تو ہمارے رسول پر صاف صاف حق پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaateeAAoo Allaha waateeAAoo alrrasoola fain tawallaytum fainnama AAala rasoolina albalaghu almubeenu

آگے دعوت ایمان کے سلسلے میں ان کو حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔

واطیعواللہ .................... المبین (46 : 21) ” اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو لیکن اگر تم اطاعت سے منہ موڑتے ہو تو ہمارے رسول پر صاف صاف حق پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے “۔ اس سے قبل ان کو لوگوں کا انجام بتایاجاچکا ہے جو منہ موڑتے ہیں۔ یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ رسول کا کام تبلیغ پر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر اس نے بات پہنچادی تو وہ اپنے فریضے سے سبکدوش ہوگیا۔ اور اس طرح لوگوں پر حجت تمام ہوگئی اور اب لوگ اس معصیت اور منہ موڑنے کے انجام کا انتظار کریں جو انہیں ابھی ابھی سنا دیا گیا ہے۔

اس کے بعد یہ پیرگراف عقیدہ توحید کے قرار داد پر ختم ہوتا ہے جس کا وہ انکار کرتے تھے اور تکذیب کرتے تھے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے مومنین کا تعلق اللہ کے ساتھ کیسا ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں، لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu la ilaha illa huwa waAAala Allahi falyatawakkali almuminoona

اللہ لا .................... المومنون (46 : 31) ” اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ، لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ “

توحید کی حقیقت ہی ایمان کی اساس ہے۔ اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو صرف اللہ پر بھروسہ ہو ، صرف اللہ پر بھروسہ کرنا صحیح عقیدہ توحید کے اثرات میں سے ایک اثر ہے جو دل میں موجود ہوتا ہے۔ اس دعوت ایمان سے آگے پھر اہل ایمان کو خطاب شروع ہوتا ہے۔ گویا یہ آیت پچھلے پیرگراف اور آنے والے کے درمیان پل کا کام دے رہی ہے۔

اب مومنین کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ بیویاں ، اولاد اور مال ایک بہت بڑا فتنہ اور آزمائش ہوتے ہیں۔ اور اس آزمائش میں کامیاب وہی ہوسکتا ہے جو خدا کا خوف رکھتا ہو۔ سمع ، طاعت اور انفاق ہی کے ذریعہ انسان ان فتنوں پر قابو پاسکتا ہے اور مومنین کو نفسیاتی کنجوسی سے بھی متنبہ کیا جاتا ہے اور سخاوت اور انفاق کے بدلے میں اجر ، مغفرت اور فلاح اخروی کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ حاضر وناظر ہے۔ اس کی قدرت غالب ہے۔ اور وہ زبردست حکیم ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo inna min azwajikum waawladikum AAaduwwan lakum faihtharoohum wain taAAfoo watasfahoo wataghfiroo fainna Allaha ghafoorun raheemun

ان آیات کے بارے میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ پہلی آیت کے بارے میں ان سے کسی نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مکہ کے کچھ لوگ تھے جو اسلام لے آئے تھے۔ انہوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ ہجرت کرکے رسول اللہ کے پاس آجائیں ، لیکن ان کی بیویوں اور ان کی اولاد نے ، اس سے انکار کردیا۔ اور ان کو نہ چھوڑا۔ پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ تعلیم دین کے میدان میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ تو انہوں نے ارادہ کرلیا کہ ان بیویوں اور اولاد کو سزا دیں۔ اللہ نے یہ آیات نازل کی :

وان تعفوا ........................ غفور رحیم (46 : 41) ” اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور ورحیم ہے “۔ امام ترمذی نے اسے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسناد حسن صحیح ہے۔ یہی عکرمہ مولی ابن عباس کی رائے ہے۔ لیکن آیت کی عبارت اور نص عام ہے۔ اور اس جزئی واقعہ تک اس کے مفہوم کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تنبیہ بھی اس طرح ہے جس طرح اگلی آیت میں مال اور اولاد سے متنبہ کیا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama amwalukum waawladukum fitnatun waAllahu AAindahu ajrun AAatheemun

انما ........................ فتنة (46 : 51) ” تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں “۔ تنبیہ یہ ہے کہ بعض اوقات مال اور اولاد دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ بات انسانی زندگی کی ایک نہایت ہی بڑی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ زندگی کے اندر بعض اوقات روابط اور تعلقات اس قدر متنوع اور مختلف سمتوں سے دامن کش ہوتے ہیں کہ انسان آزمائش میں پڑجاتا ہے۔ ازواج اور اولاد کبھی انسان کو ذکر الٰہی سے غافل کردیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ایمان کے مشکل ترین تقاضے پورے کرنے کی راہ میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً فریضہ جہاد فی سبیل اللہ میں دنیاوی نقصانات اٹھانے پڑتے ہی۔ بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ انسان اور اس کی اولاد اور اہل خاندان تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات انسان اپنی ذات پر سختی برداشت کرسکتا ہے لیکن بیوی بچوں پر سختیاں اور تشدد برداشت نہیں کرسکتا۔ یوں انسان جدوجہد اور جہاد میں بزدلی اختیار کرتا ہے کہ بچوں اور بیوی کو کے آرام اور آسائشوں میں خلل نہ ہو۔ اور وہ اس کے دشمن نہ ہوجائیں اور یوں دراصل وہ دشمن ہوجاتے ہیں اور اسے راہ راست سے روک دیتے ہیں۔ یوں ایک مومن اعلیٰ مقاصد اور بلند مراتب کے حصول سے نیچے رہ جاتا ہے۔ بعض اوقات تو ازواج واولاد ٹھیک کھڑے ہوکر راہ روک دیتے ہیں اور مومن اپنے فرائض سرانجام دینے سے رک جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ مومن کے نظریاتی مخالف ہوتے ہیں۔ اور مومن کے لئے ان سے صاف صاف قطع تعلق بھی ممکن نہیں ہوتا۔ غرض یہ اور بیشمار دوسری صورتیں اس دشمنی اور آزمائش کی پیش آسکتی ہیں۔

اس لئے اللہ نے اولاد ، بیوی اور مال کے فتنوں اور آزمائشوں کے بارے میں یہاں سختی کے ساتھ متنبہ کیا کہ ان کے بارے میں مومن کے دل میں ایک احتیاط اور ایک شعور موجود ہو اور اس کا دل بیدار ہو اور برداشت کرنے کی تیاری میں اگر کوئی دباﺅ آئے تو وہ مقابلہ کرے۔

اس کے بعد مال اور اولاد کی دشمنی کو ایک دوسرے رنگ میں تکرار کرکے پیش کیا کہ یہ فتنہ بھی ہوتے ہیں۔ لفظ فتنہ کے دو معنی ہوتے ہیں : ایک یہ کہ اللہ تمہیں مال اور اولاد کے ذریعہ آزماتا ہے ، لہٰذا چوکنے رہو ، احتیاط کرو کہ تم اس آزمائش میں پاس ہوجاﺅ۔ اور خلوص اور تجرد اختیار کرو۔ فتنے کے معنی یہ ہیں کہ سنار سونے کو آگ میں ڈال کر پگھلاتا ہے تاکہ اس سے کھوٹ نکال دے۔ یہ عمل فتنہ کہلاتا ہے۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ مال واولاد خود فتنہ ہیں اور یہ شیطان کے ہتھیار ہیں۔ یہ تمہیں دین کی مخالفت اور معصیت میں ڈالتے ہیں۔ لہٰذا اس معنی میں دشمن ہیں ان سے بچو ، کہ وہ تمہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ یہ دونوں معنی قریب قریب ہیں۔

امام احمد نے روایت کی ہے۔ عبداللہ ابن بریدہ سے ، انہوں نے ابوبردہ سے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے حسن اور حسین آئے۔ انہوں نے سرخ قمیض پہن رکھے تھے۔ یہ چلتے تھے اور گرتے پڑتے آرہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے۔ ان کو اٹھایا۔ اپنے سامنے بٹھایا۔ اور پھر فرمایا : ” اللہ اور اللہ کے رسول نے سچ کہا کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہے۔ میں نے دونوں بچوں کو دیکھا کہ چل رہے ہیں اور گرتے پڑتے آرہے ہیں۔ مجھ سے نہ رہا گیا ، میں نے خطبہ چھوڑ کر ان کو اٹھالیا “۔ اصل سنت نے واقد سے اسے روایت کیا ہے۔ یہ ہیں رسول اور یہ ہیں آپ کے نواسے۔ لہٰذا اولاد کا معاملہ بہت ہی نازک اور اہم ہے اور خطرہ ہے اور ان کے بارے میں تنبیہ ضروری تھی۔ اللہ نے اسے ضروری سمجھا اور یہ تنبیہ کی۔ اللہ تعالیٰ ، جو لوگوں کا خالق ہے ، ان کے جذبات اور شعور کا بھی خالق ہے۔ اور یہ جذبات اور میلانات اولاد کے بارے میں اسی نے حضرت انسان میں رکھے ہیں۔ اللہ نے ضروری سمجھا کہ لوگ افراط وتفریط سے بچیں اور کہیں ان کی اولاد ان کی ہلاکت کا باعث نہ بن جائے۔ اللہ جانتا تھا کہ یہ محبتیں بعض اوقات دشمن سے بھی زیادہ نقصان دے سکتی ہیں۔ اور بعض اوقات یہ ایسی سازش کرسکتی ہیں جس طرح ایک گہرا دشمن چال چلتا ہے۔

انسان کو مال واولاد کے فتنے سے ڈراکر ، اور ان کی جانب سے نہایت ہی گہری دشمنی سے خبردار کرکے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فتنہ ہیں۔

واللہ .................... عظیم (46 : 51) ” اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے “۔

اردو ترجمہ

لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faittaqoo Allaha ma istataAAtum waismaAAoo waateeAAoo waanfiqoo khayran lianfusikum waman yooqa shuhha nafsihi faolaika humu almuflihoona

اب اہل ایمان کو ان کی طاقت اور استطاعت کے مطابق ، اللہ سے ڈرنے اور سمع و اطاعت کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

فاتقوا .................... واطیعوا (46 : 61) ” لہٰذاجہاں تک تمہارے بس میں ہو ، اللہ سے ڈرتے رہو اور سنو اور اطاعت کرو “۔ یہ شرط کہ ” جہاں تک تمہارے بس میں ہو “۔ یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر بہت بڑا رحم وکرم ہے۔ اللہ کو علم ہے کہ بندے کے اندر کتنی طاقت ہے۔ کس قدر تقویٰ اور اطاعت وہ کرسکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اس کی تعمیل اس حد تک کرو جس حد تک تمہارے بس میں ہو۔ لیکن میں جس بات سے منع کردوں تو پوری طرح رک جاﺅ“۔ اطاعت امر کی تو حدود نہیں اس لئے اس میں حکم بقدر استطاعت ہے۔ رہی نہی تو اس پر پورا پورا عمل کرنا ہوگا ، بغیر نقصان کے اور بغیر کمی کے۔

اس کے بعدان کو انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

وانفقوا خیر الا نفسکم (46 : 61) ” اور اپنے مال خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے “۔ یہ جو کوئی خرچ کرتا ہے تو یہ دراصل اپنے لئے کرتا ہے۔ یہ حکم دیتا ہے کہ اس کام کو اپنے لئے کرو ، گویا وہ خود اپنے اوپر خرچ کرتے ہی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اس کا تمہیں اجر ملے گا۔ گویا یہ بھی تم اپنے اوپر خرچ کرتے ہو۔

اب اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو بتاتا ہے کہ انفاق کی راہ میں رکاوٹ بخیلی اور دل کی تنگی ہے اور یہ ایک ایسی مصیبت ہے جو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ سعادت مند وہ ہے جو اس بخل سے نجات پا گیا۔ اور جو اس سے بچا لیا گیا وہ سمجھ جائے کہ اس پر فضل وکرم ہوگیا ہے اور وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ ومن یوق شح نفسہ .................... المفلحون (46 : 61) ” جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاں پانے والے ہیں “۔

اس کے بعدان کو انفاق اور اللہ کی راہ میں مزید خرچ کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے اور ان کے دلوں میں انفاق کو محبوب بنانے کے لئے ، انفاق کو قرض حسن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور قرض حسن بھی ایک غلام سے اس کا آقا مانگ رہا ہے۔ قرض لے کر وہ کئی گنا کرکے دیتا ہے۔ اور قرض دینے والے کا شکر بھی ادا کرتا ہے اور تمہاری کوتاہیوں کو بھی معاف کرتا ہے۔ اور اللہ انسان کو کوتاہیوں کو دیکھ کر بہت ہی حلم سے کام لیتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ ہی تو ہے۔

اردو ترجمہ

اگر تم اللہ کو قرض حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، اللہ بڑا قدردان اور بردبار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In tuqridoo Allaha qardan hasanan yudaAAifhu lakum wayaghfir lakum waAllahu shakoorun haleemun

ان تقرضوا .................... حلیم (46 : 71) ” اگر تم اللہ کو قرض حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کردے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا ، اللہ بڑا قدردان اور بردبار ہے “۔ اللہ بہت ہی برکت والا اور عظیم ہے۔ کتنا بڑا کریم ہے ، کتنا بڑا ہے۔ وہ بندے کو پیدا کرتا ہے ، اسے رزق دیتا ہے ، پھر اس سے قرضہ مانگتا ہے قرض حسن۔ پھر صرف قرض ہی نہیں لوٹاتا بلکہ اسے کئی گناکرکے لوٹاتا ہے۔ پھر اللہ اپنے بندے کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ نہایت ہی حلم سے معاملہ کرتا ہے۔ اللہ اور اپنے غلام کا شکر ، یا اللہ یہ تیرا ہی کام ہے ! اور ایک عظیم انعام ہے !

اللہ ہمیں اپنے صفات سے آگاہ کرتا ہے کہ ہم اپنے نقائص اور اپنی کمزوریوں پر کس طرح قابو پائیں اور ہم ہمیشہ اللہ کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھیں اور ہم اللہ جل شانہ کی تقلید زمین پر کریں۔ اپنی محدود طاقت کے مطابق۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ میں نے انسان کے اندر اپنی روح پھونکی ہے۔ اس روح کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اللہ کی صفات کی تقلید کریں۔ اپنی طاقت کے مطابق کریں۔ انسان کے سامنے یہ بلند آفاق ہر وقت کھلے ہیں کہ یہ جس قدر ان میں بلندیوں تک جاسکتا ہے ، جاسکے۔ ان بلندیوں تک وہ درجہ بدرجہ بلند ہو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تک جب پہنچے تو ایسی حالت میں ہو کہ اللہ اسے پسند کرے۔ اور اس سے راضی ہو۔

اردو ترجمہ

حاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا ہے، زبردست اور دانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAalimu alghaybi waalshshahadati alAAazeezu alhakeemu

اب اس سورت کا خاتمہ ایک ایسی صفت الٰہی پر ہوتا ہے کہ جس سے ہمارے دل کے اندر خوف وتقویٰ پیدا ہوتا ہے۔

علم الغیب ........................ الحکیم (46 : 81) ” اللہ حاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا ہے ، زبردست اور دانا ہے “۔ اس کے علم کے سامنے سب کچھ کھلا ہے۔ اس کی سلطنت کے سامنے سب کچھ جھکا ہوا ہے۔ وہ اپنی حکمت سے اس پوری کائنات کی تدبیر کررہا ہے۔ یوں کہ لوگ زندہ ہیں اور یوں رہیں کہ اللہ انہیں دیکھ رہا ہے۔ اس کی مکمل حکومت ان پر نافذ ہے۔ ہر حاضر اور غائب کو اس کا دست قدرت چلارہا ہے۔ جب یہ تصور قلب مومن میں بیٹھ جاتا ہے تو وہ اللہ کے سامنے خلوص اور اطاعت کرتے جاتا ہے۔ اور اللہ کے احکام کی اطاعت نہایت آمادگی سے کرتا ہے۔

557