سورہ شعراء (26): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Ash-Shu'araa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الشعراء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ شعراء کے بارے میں معلومات

Surah Ash-Shu'araa
سُورَةُ الشُّعَرَاءِ
صفحہ 369 (آیات 40 سے 60 تک)

لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ ٱلسَّحَرَةَ إِن كَانُوا۟ هُمُ ٱلْغَٰلِبِينَ فَلَمَّا جَآءَ ٱلسَّحَرَةُ قَالُوا۟ لِفِرْعَوْنَ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ ٱلْغَٰلِبِينَ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذًا لَّمِنَ ٱلْمُقَرَّبِينَ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰٓ أَلْقُوا۟ مَآ أَنتُم مُّلْقُونَ فَأَلْقَوْا۟ حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا۟ بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ ٱلْغَٰلِبُونَ فَأَلْقَىٰ مُوسَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ فَأُلْقِىَ ٱلسَّحَرَةُ سَٰجِدِينَ قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا بِرَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَٰرُونَ قَالَ ءَامَنتُمْ لَهُۥ قَبْلَ أَنْ ءَاذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُۥ لَكَبِيرُكُمُ ٱلَّذِى عَلَّمَكُمُ ٱلسِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ۚ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَٰفٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ قَالُوا۟ لَا ضَيْرَ ۖ إِنَّآ إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَٰيَٰنَآ أَن كُنَّآ أَوَّلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۞ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِىٓ إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِى ٱلْمَدَآئِنِ حَٰشِرِينَ إِنَّ هَٰٓؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَآئِظُونَ وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَٰذِرُونَ فَأَخْرَجْنَٰهُم مِّن جَنَّٰتٍ وَعُيُونٍ وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَٰهَا بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِينَ
369

سورہ شعراء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ شعراء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

شاید کہ ہم جادوگروں کے دین ہی پر رہ جائیں اگر وہ غالب رہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

LaAAallana nattabiAAu alssaharata in kanoo humu alghalibeena

اردو ترجمہ

جب جادوگر میدان میں آ گئے تو انہوں نے فرعون سے کہا "ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma jaa alssaharatu qaloo lifirAAawna ainna lana laajran in kunna nahnu alghalibeena

فلما جآء ……المقربین (42)

یہ ہے پوزیشن کرایہ کے ان معاونین کی جو فرعون پورے ملک سے پیغمبر خدا کے مقابلے کے لئے جمع کر کے لایا ہے۔ اس نے ان کی خدمات چند ٹکوں کے عوض خریدی ہیں۔ ان کے سامنے نہ کوئی قومی مسئلہ ہے اور نہ کوئی مقصد اور کوئی نظریہ ہے۔ وہ تو صرف اجر اور مفادات کے بندے ہیں اور ہر زمان و مکان اور ہر دور میں ہمیشہ سرکش ، حکمران کرایہ کے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

اور یہ لوگ بھی اپنی چالاکی ، شعبدہ بازی اور مہارت اور محنت کی قیمت چکاتے ہیں اور فرعون بھی اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اجر اور انعامات کا وعدہ کرتا ہے۔ وہ وعدہ کرتا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ میرے مقرب ہوں گے اور اپنے آپ کو وہ بادشاہ اور الہہ اور حاکم سمجھتا ہے۔

اردو ترجمہ

اس نے کہا "ہاں، اور تم تو اس وقت مقربین میں شامل ہو جاؤ گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala naAAam wainnakum ithan lamina almuqarrabeena

اردو ترجمہ

موسیٰؑ نے کہا "پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala lahum moosa alqoo ma antum mulqoona

اب ایٓئے میدان مقابلہ کی طرف فریقین تیار ہیں اور عوام جمع ہیں۔

قال لھم ……اول المئومنین (51)

پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ اس پر سارے جادوگر بےاختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اٹھے کہ ” مان گئے ہم رب العالمین کو … موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کے رب کو۔ “ فرعون نے کہا ” تم موسیٰ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دینا ! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اچھا ؟ ابھی تمہیں معلوم ہوتا جاتا ہے ، میں تمہارے ہاتھ پائوں مخلاف سمتوں سے کنوائوں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔ ‘ انہوں نے جواب دیا ” کچھ پروا نہیں ، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا ، کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں۔ “

یہ منظر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اور پروقار انداز سے شروع ہوتا ہے۔ البتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ چونکہ سچائی اور خدائی ہے اس لئے وہ بالکل گھبرائے ہوئے نہیں ہیں۔ فرعون نے پورے ملک کے ماہرین فن مکار جادوگروں ککو بلایا ہوا ہے اور ان کے ساتھ گمراہ اور سادہ لوح عوام الناس کا ایک جم غقیر بھی جمع کر رکھا ہے ، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان سرکاری تیاریوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں کر رہے۔ حضرت موسیٰ کے اطمینان کا اظہار اس امرت ہوتا ہے کہ وہ ان جادوگروں کو موقعہ دیتے ہیں کہ وہ پہلے اپنے کرتب دکھائیں۔

قال لھم مسویٰ القواما انتم ملقون (26 : 33) ” موسیٰ نے ان سے کہا پھینکو جو تمہیں پھینکا ہے۔ “ حضرت موسیٰ کا انداز تعبیر ہی ایسا ہے کہ وہ ان کے کرتب کو اہمیت نہیں دے رہے۔ پھینکو جو پھینکنا ہے۔

القواما انتم ملقون (26 : 23) آپ یہ بات لاپرواہی اور بغیر کسی اہتمام کہتے ہیں۔ چناچہ جادوگروں نے اپنی پوری مہلت ، اپنی پوری استادی اور اپنی پوری مکاری کو اکم میں لا کر اور فرعون کے نام کا ورد کر کے اپنی باری کا آغاز کیا۔

فالقوا جبالھم و عصیھم وقالوا بعزۃ فرعون انا لنحن الغلبون (26 : 33)

” انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے ، فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے۔ “ یہاں سیاق کلام میں ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔ سورة اعراف اور طہ میں تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ اس لئے کہ یہاں سیاق کلام حضرت موسیٰ کے گہرے اطمینان کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یہاں فوراً حضرت موسیٰ کی پوری کارروائی دکھا دی جاتی ہے کیونکہ غلبہ حق اس سورت کا محور اور مضمون ہے۔

فالقی موسیٰ عصاہ فاذا ھی تلقف مایافکون (26 : 35) ” پھر مسویٰ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ “ ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے فن کاری کی آخری صلاحیتیں صرف کی تھیں۔ انہوں نے ساری عمر اس شعبدہ بازی میں گزاری تھی اور اس میں پوری مہارت حاصل کی تھی۔ انہوں نے وہ تمام کرتب پیش کردیئے تھے جو ایک جادو گر کرسکتا ہے۔ وہ تھے بھی بڑی تعداد میں ہر طرف سے گروہ درگروہ جمع ہو کر آئے تھے۔ مسویٰ (علیہ السلام) یکہ و تنہا تھے۔ ان کے پاس صرف اپنا عصا تھا۔ یہ عصا ان کی تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو ہڑپ کر گیا۔ (الف) کا لغوی مفہوم ہے ہڑپ کرل ینا یعنی بڑی تیزی سے کسی چیز کو کھا لیتا۔ جادوگروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جادو کے ذریعے کوئی عصا کسی چیز کو نگل نہیں سکتا۔ اس میں تو صرف تخیل اور تنویم ہوتی ہے لیکن عصا نے تو درحقیقت تمام پھینکی ہوئی اشیاء کو کھالیا۔ کسی چیز کا نام و نشان میدان میں نہ تھا۔ اگر جادو ہوتا تو جادو کے اثر کے بعد تخیل کے عوام کے اختتام پر اشیاء کو موجود ہونا چاہئے تھا ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ میدان میں عملاً کچھ نہیں ہے …… ان کو یقین ہوگیا کہ حضرت موسیٰ تو ہرگز جادوگر نہیں ہیں۔ وہ پیغمبر برحق ہیں اور اس سچائی کو اس دنیا میں بہترین طور پر جاننے والے یہی جادوگر تھے۔

اردو ترجمہ

انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے "فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalqaw hibalahum waAAisiyyahum waqaloo biAAizzati firAAawna inna lanahnu alghaliboona

اردو ترجمہ

پھر موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalqa moosa AAasahu faitha hiya talqafu ma yafikoona

اردو ترجمہ

اس پر سارے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faolqiya alssaharatu sajideena

فالقی السحرۃ سجدین (26 : 36) ” قالوا امنا برب العلمین (26 : 38) رب موسیٰ وھرون (26 : 38) ” ، ۔ “ ایک ہی لمحہ قبل وہ کرایہ کے لوگ تھے اور فرعون کے ساتھ وہ اپنی مہارت اور اجرت کا مول تول کر رہے تھے۔ نہ وہ کوئی نظریہ رکھتے تھے اور نہ ان کے پیش نظر کوئی نصب العین تھا۔ لیکن اب ان کے دلوں تک جو سچئای پہنچ گئی اس نے ان کو پوری طرح بدل دیا۔ اس واقعہ نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی دینی دنیا میں ایک زلزلہ پیدا ہوگیا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے جو سچائی دیکھی وہ ان کے دلوں کے تہہ تک پہنچ گئی۔ اس نے ان کے دل پر تمام پردے زائل کردیئے اور گمراہی کی جو تہیں ان کے دلوں پر جمی ہوئی تھیں ، وہ صاف ہوگئیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسویٰ صرف جادوگر ہوتے تو ان کی رسیاں اور انڈے کہیں بھی نہ جاتے ان چیزوں کے اندر ان کے جادو سے ہلچل تو پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ غائب نہیں ہو سکتیں۔

چناچہ ان کا دل صاف ہوگیا اور ان کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ بغیر ارادہ کے سجدے میں گر جائیں۔ ایمان کا اظہار کردیں اور صاف صاف اختیار کردیں۔

امنا برب العلمین (26 : 38) رب موسیٰ وھرون (26 : 38) ” مان گئے ہم رب العالمین کو جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ “ انسانی دل کو دنیا بھی عجیب ہے۔ ایک لمحے میں اس کی دنیا بدل سکتی ہے ۔ ایک نظر میں اس میں انقلاب آ جات ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بہت ہی سچ فرمایا۔ ” جو دل بھی ہے وہ رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے ، اگر اللہ چاہے تو اسے سیدھا رکھے اور اگر چاہے تو گمراہ کر دے (ٹیڑھا) کر دے۔ “ یوں جادوگر جو اجر کے طلبگار اور کرایہ کے لوگ تھے وہ برگزیدہ مومن بن گئے اور یہ فرعون اور اس کے جبار وقہار کے ساتھیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے اور فرعون کے جمع کردہ عوام الناس کے جم کا بھی انہوں نے کوئی لحاظ نہ رکھا۔ وہ ان نتائج کی رپواہ کئے بغیر ہی مسلمان ہوگئے جن کی توقع ان کو جابر و ظالم فرعون سے تھی۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ پر ایمان لانا اور اس طرح علی الاعلان لانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اب ان کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کون کیا کہتا ہے۔

حالات نے اچھا جو پلٹا کھایا ، ظاہر ہے کہ فرعون اور اس کے سرداروں پر تو بجلی گر گئی۔ کیونکہ لوگ سب جمع تھے۔ ان کو خود فرعون اور اس کے اہلکاروں نے جمع کیا تھا کہ تا کہ وہ موسیٰ اور جادوگروں کا بھی مقابلہ دیکھ لیں۔ انہوں نے عوام کے اندر یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ موسیٰ اسرائیلی ایک بہت بڑا جادو لے کر آیا ہے اور وہ جادو کے زور پر ہماری حکومت کو ختم کر کے اپنی قوم کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہ حکومت نے بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کر کے اس کے مقابلے کا انتظام کیا ہے۔ ہمارے جادوگر اس پر غالب ہوں گے اور اس کا قلع قمع کردیں گے۔ یہ لوگ جمع ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ موسیٰ اللہ کا نام لے کر آتا ہیں۔ وہ فوراً حضرت موسیٰ کی رسالت کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے سچے نبی ہیں۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب کو مانتے ہیں۔ یہ فرعون کی بندگی کا جوا اپنی گردنوں سے اتار پھینکتے ہیں جبکہ ایک لمحہ قبل وہ فرعون کے سپاہی اور خدمت گار تھے اور اس کی جانب سے انعام کے طلبگار تھے اور اپنا کام انہوں نے عزت فرعون کے عنوان سے شروع کیا تھا۔

حالات کے اندر یہ اچانک انقلاب فرعون کے اقتدار کے لئے خطرہ تھا کیونکہ اب وہ افسانہ ہی ختم ہوگیا جس کی اساس پر فرعون کا اقتدار قائم تھا یہ کہ فرعون الہہ ہے بایں معنی کہ وہ خدا کی اولاد میں سے ہے اور یہ جادوگر دین فرعون کے مذہبی راہنما تھے کیونکہ اس دور میں تمام کاہن جادوگر ہوتے تھے اور یہ تمام جادوگر اسی رب العالمین پر ایمان لے آئے ہیں جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے ، جہاں تک جمہور عوام کا تعلق ہے وہ ہمیشہ مذبہی راہنمائوں کی اطاعت کرتے ہیں۔ وہ عقائد انہی مذہبی راہنمائوں سے لیتے ہیں۔ اب فرعون کے اقتدار کے لئے وجہ جواز اور سہارا صرف قوت رہ گئی اور یہ دنیا کا قاعدہ ہے کہ محض قوت کے بل بوتے پر سکی اقتدار کو قائم نہیں رکھا جاسکتا۔

ہمیں چاہئے کہ ہم ذرا اچھی طرح اندازہ کرلیں کہ اس صورتحال سے فرعون کس قدر بوکھلایا ہوگا اور اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے حاشیہ نشینوں کی حالت کیا ہوگی کہ جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ جادوگر ایمان لے آئے اور ایسا ایمان کہ ایمان لاتے ہی وہ رب العالمین کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اعتراف حق کر کے اللہ کی طرف یکسو ہوجاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کو دیکھ کر فرعون پاگل ہوجاتا ہے۔ وہ بوکھلاہٹ میں اعلان کردیتا ہے کہ تم سازشی ہو ، تمہیں سخت ترین سزا دی جائے گی۔ پہلے تو اس نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے لئے حصول اقتدار کی سازش کر رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور بول اٹھے کہ "مان گئے ہم رب العالمین کو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo amanna birabbi alAAalameena

اردو ترجمہ

موسیٰؑ اور ہارونؑ کے رب کو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbi moosa waharoona

اردو ترجمہ

فرعون نے کہا "تم موسیٰؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے، میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹواؤں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala amantum lahu qabla an athana lakum innahu lakabeerukumu allathee AAallamakumu alssihra falasawfa taAAlamoona laoqattiAAanna aydiyakum waarjulakum min khilafin walaosallibannakum ajmaAAeena

قال امنتم ……اجمعین (26 : 39) ” ۔ “ تم میری اجازت کے بغیر میرے مشورے کے بغیر ہی موسیٰ کی بات مان کر سجدہ ریز بھی ہوگئے۔ یہاں اس نے یہ نہیں کہا امنتم بہ ” تم اس پر ایمان لائے “ بلکہ اس نے امنتم لہ کہا یعنی تم نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور میری اجازت کے بغیر جس طرح کوئی شخص جنگی چال چلتا ہے اپنے ارادے کا مالک ہوتا ہے ، وہ اپنے ہدف کو جانتا ہے اور اپنے انجام کا اندازہ کرتا ہے۔ ایسا شخص جو ہر کام منصوبہ بندی سے کرتا ہے وہ اس قدرتی لمحے اور اس قدر تی ٹچ کو نہیں سمجھ سکتا جس کی گرفت میں جادوگروں کے دل آگئے۔ سرکش حکمران ایسے لمحات کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ان کے دل پتھر ہوجاتے ہیں اور وہ ایسے روشن لمحات سے محروم ہوتے ہیں۔ چناچہ فرعون بڑی تیزی سے ان پر الزام لگاتا ہے اور عوام الناس کو لائن دیتا ہے کہ ان جادوگروں کے اندر کیوں اس قدر عظیم انقلاب آیا۔

انہ لکبیر کم الذی علمکم السحر (26 : 39) ” ضرور ، یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا۔ “ فرعون نے یہ عجیب الزام لگایا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جادوگروں کے ساتھ کیا تعلق ہو سکتا ہے ، الایہ کہ یہ جادوگر جب کاہن تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے گھر میں پل رہے تھے تو شاید اس زمانے میں کاہن موسیٰ (علیہ السلام) کو تعلیم دیتے ہوں گے۔ یا موسیٰ (علیہ السلام) ان کی عبادت گاہوں میں جاتے ہوں گے۔ اس تعلق کی بنا پر اس نے یہ الزام لگایا پھر بجائے اس کے کہ یہ ان کو کہتا کہ موسیٰ تمہارا شاگرد ہے اس نے یہ الزام لگا دیا کہ یہ تمہار باڑا استاد ہے۔ عوام الناس کے ذہن میں وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو ملک کے لئے خطرہ ثابت کرنا چاہتا ہے۔

اس کے بعد وہ صراحت کے ساتھ ان کو شدید عذاب کی دھمکی دیتا ہے کہ اچھا انتظار کرو ، میری طرف سے سزا کا۔

فلسوف تعلمون ……اجمعین (26 : 39) ” اچھا ابھی تمہیں معلوم ہوجاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹوائوں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔ “ یہ ہے وہ حماقت جس کا ارتکاب ہر سرکش ڈکٹیٹر کیا کرتا ہے اور یہ وہ اس وقت کرتا ہے جب اس کی کرسی اور اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور اس کی ذات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور اس میں وہ خود اپنے ضمیر کی ملامت کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ یہ سزا فرعون سنا رہا ہے جس کا یہ لفظ قانون ہے اور اسی وقت نافذ کردیا جاتا ہے۔ اب ذرا اس گروہ مومن کی بات بھی سن لیں جس نے روشنی کو دیکھ لیا ہے۔

یہ اس دل کی بات ہے جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور اس معرفت کے بعد اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اب کا جاتا ہے۔ یہ ایسے دل کی بات ہے جس نے اللہ تک رسائی حاصل کرلی ہے اور ایمان کا ذائقہ چکھ لیا ہے۔ اس لئے وہ ڈکٹیٹر اور سرکش حکمران کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور یہ ایسک ایسے دل کی پکار ہے جو آخرت کا طلبگار ہے اور اس لئے اسے اس دنیا کے فائدے کی کوئی پرواہ نہیں رہتی۔ خواہ قلیل ہو یا کثیر۔

اردو ترجمہ

انہوں نے جواب دیا "کچھ پرواہ نہیں، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo la dayra inna ila rabbina munqaliboona

قالوا الاضیر ……المئومنین (26 : 51) ” ۔ “ کچھ پرواہ نہیں ہے۔ ہمیں اس بات کی اب کوئی فکر نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھ پائوں کاٹے جائیں۔ تشدد اور سولی کی سزا کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ موت اور شہادت سے ہم نہیں ڈرتے ۔ ہمیں تو ان باتوں کی کوئی پروا نہیں ہے ، اگر ہم مر گئے تو ہم اپنے رب کے پاس چلے جائیں گے۔ آخر اس زمین کی زندگی میں رکھا گیا ہے ؟ ہمارا مطمح نظر تو اب یہ ہے۔

ان یغفرلنا ربنا خطینا (26 : 51) ” کہ ہمارا رب ہمارے خطائیں معاف کر دے۔ “ اور یہ خطائیں اس اعزاز کی وجہ سے معاف کر دے کہ

ان کنا اول المئومنین (26 : 51) ” یہ کہ ہم پہلے ایمان لانے والے بن گئے۔ “ اب ہمیں سابقین اولین کا درجہ حاصل ہے۔

اے اللہ ! کیا ہی شان ہے ایمان کی جب یہ ضمیر کی دنیا کو منور کر دے۔ جب اس کا فیضان روح پر ہوجائے۔ جب کاسہ قلب مومن ایمان سے بھر جائے تو مٹی کا یہ کالبد اعلیٰ علبین کے مقام پر چلا جاتا ہے۔ دل غنی ہوجاتا ہے۔ دلوں کے اندر دولت ایمان جمع ہوجاتی ہے اور اس کے مقابلے میں کہ روئے زمین کی سب دولت ہیچ نظر آتی ہے۔

اب سیاق کلام میں پھر ایک بار پردہ گرتا ہے اور جادوگروں کے روشن ضمیرکا یہ منظر آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس پر مزید کوئی تبصرہ نہیں ہے۔ تاکہ ان سابقین اولین کا یہ گہرا اثر قاری کے دل میں بحال رہے۔ لوگ سوچیں کہ اہل مکہ اہل ایمان پر جو مظالم ڈھا رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں اہل ایمان اس قسم کے مظالم بردشات کرتے چلے آئے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna natmaAAu an yaghfira lana rabbuna khatayana an kunna awwala almumineena

اردو ترجمہ

ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ "راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waawhayna ila moosa an asri biAAibadee innakum muttabaAAoona

اب اہل ایمان کے خلاف فرعون کی تدابیر کا ایک منظر اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی راہنمائی کا ایک منظر :

واوحینآ الی ……حذرون (56)

اب یہاں واقعات اور زمانے کے اعتبار سے ایک بڑا اور طویل خلا ہے۔ بیچ میں سے طویل زمانے اور واقعات کو حذف کردیا جاتا ہے۔ اس مقابلے کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) بھی مصر میں کام کرتے رہے اور سورت اعراف میں جن دوسرے معجزات کا ذکر ہوا ہے وہ بھی اس عرصہ میں رونما ہئے اور آخر کار وہ وقت آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جائیں۔ لیکن اس سورت میں ان تمام واقعات کو لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے اور قصہ مسویٰ کے ان حصوں کو یہاں لے لیا جاتا ہے جو اس سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بذریعہ وحی اجازت دے دی کہ آپ اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل جائیں۔ تمام بنی اسرائیل رات کو نکلیں۔ اس سفر کے لئے نہایت منظم خفیہ انتظامات کئے گئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ اطلاع بھی کردی گئی کہ فرعون ہر حال میں تمہارا پیچھا کرے گا اور ساحل سمندر کی طرف نکل کھڑے ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اس جگہ ساحل سمندر تک پہنچے وہ خلیج سویز اور چھوٹے چھوٹے بحیروں کے موجودہ علاقے میں یہ واقع تھا۔

فرعون کو خفیہ طور پر اطلاعات مل گئیں کہ بنی اسرائیل نکلنے والے ہیں۔ تو اس نے بھی اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ جس وقت بھی خروج شروع ہو ، پیچھا کرنے کے لئے افواج کو تیاری کی حالت میں رکھا جائے۔ تمام علاقوں میں اس نے اپنے ہر کارے بھیج دیئے کہ افواج کو تیار کیا جائے کہ یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔ یہ بچ نکلنے کی تدبیریں سوچ رہا ہے لیکن اسے پتہ نہ تھا کہ یہ خروج اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظم کیا جا رہا ہے۔

فرعون کے لوگ فوجوں کو تیار کرتے رہے لیکن عوام کیا ندر یہ بےچینی پیدا ہو سکتی تھی کہ آخر موسیٰ کے پاس کتنی بڑی طاقت ہے کہ اس کے مقابلے میں اس قدر وسیع پیمانے پر تیاریاں ہو رہی ہیں جبکہ فرعون اپنے آپ کو الہہ بھی کہتا ہے اور پھر بھی ایک پبلک کے فرد کے مقابل میں اس قدر جنگی تیاریاں کر رہا ہے۔ چناچہ اس موقعہ پر فرعون کو اس قسم اعلان کی ضرورت پیش آئی۔

ان ھولاء لشر ذمۃ قلیلون (26 : 53) ” یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ ‘ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان کے خلاف اس قدر انتظام کیوں ہو رہا ہے اور فوجیں کیوں جمع کی جا رہی ہیں اگر وہ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ “

وانھم لنا لغآئظون (26 : 55) ” اور انہیں نے ہم کو بہت ہی ناراض کیا ہے۔ “ یہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جو ہمارے سامنے کسی نے نہیں کیے ، اس لئے ان کی وجہ سے ہم غیظ و غضب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ہمارے اندر جوش انتقام پیدا ہوگیا ہے۔

اگرچہ یہ لوگ نہایت ہی خطرناک ہیں اور ان کی تحریک ایک مضبوط تحریک ہے۔ لیکن سرکاری لوگ عوام سے یہی کہیں کہ حکومت نے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کی ہوئی ہیں اور ان پر نظر رکھی ہوئی ہے۔

وانا لجمیع حذرون (26 : 56) ” اور ہم ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہمیشہ چوکنا رہنا ہے۔ “ اور ہم ان کی سازشوں کے مقابلے میں بیدار ہیں۔ ان کے معاملات میں بڑی احتیاط برت رہے ہیں اور ان کو اچھی طرح کنٹرول کر رہے ہیں۔ جب بھی اہل باطل کا اہل ایمان سے مقابلہ ہوتا ہے تو اہل باطل اہل ایمان کے مقابلے میں اسی طرح حیران و پریشان ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اس پر فرعون نے (فوجیں جمع کرنے کے لیے) شہروں میں نقیب بھیج دیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faarsala firAAawnu fee almadaini hashireena

اردو ترجمہ

(اور کہلا بھیجا) کہ "یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna haolai lashirthimatun qaleeloona

اردو ترجمہ

اور انہوں نے ہم کو بہت ناراض کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainnahum lana laghaithoona

اردو ترجمہ

اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna lajameeAAun hathiroona

اردو ترجمہ

اِس طرح ہم انہیں ان کے باغوں اور چشموں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faakhrajnahum min jannatin waAAuyoonin

قبل اس کے کہ آخری منظر پیش کیا جائے ، یہاں قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کی وجہ سے ان نعمتوں ، ان باغات اور مکانات عالی شان اور اس عیش و عشرت سے نکال دیا اور یہ مقام اختیار و اقتدار بنی اسرائیل جیسے مستصفعین کو دے دیا۔

اردو ترجمہ

اور خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakunoozin wamaqamin kareemin

اردو ترجمہ

یہ تو ہوا اُن کے ساتھ، اور (دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kathalika waawrathnaha banee israeela

اردو ترجمہ

صبح ہوتے ہی یہ لوگ اُن کے تعاقب میں چل پڑے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FaatbaAAoohum mushriqeena

فاخرجنھم من ……اسرآئیل (59)

یہ لوگ تو اس لئے نکلے کہ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کریں مگر اپنے گھروں سے ان کا یہ خروج آخری خروج تھا۔ یہ دراصل اللہ کی اسکیم میں ان کے لئے ان انعامات اور عیاشیوں سے اخراج تھا ، جن میں وہ تھے ، اعلیٰ سہولتوں ، عزت کے مقامات اور خوشحالی اور باغات و محلات سے اخراج تھا۔ اس کے بعد یہ پھر ان مقامات کی طرف واپس نہ آئے اور یہ تھی ان کی سزابن مظالم کی وجہ سے جو یہ غریبوں پر ڈھاتے تھے۔

واورثنھا بنی اسرائیل (26 : 59) ” اور دوسری طرف ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث کردیا۔ “ تاریخ میں تو اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ یہ بنی اسرائیل فرعونیوں کے بعد دوبارہ مصر میں داخل ہوئے تھے اور مصر کے باغ و راغ اور مال و منال پر قابض ہوگئے تھے۔ اس لئے مفسرین یہ کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مال و اقتدار ان کو دے دیا گیا جس طرح فرعونیوں کو دیا گیا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ ایک قوم کو زوال دیا اور دوسری کو عروج اور اس عروج میں وہ اگلی قوم کی وارث ہوگئی۔ پہلے مقام کریم اس کے پاس تھا اب اس کے پاس ہے۔

اور عمرانی سزا کے بعد اب ان کی جسمانی سزا اور آخری انجام کا ذکر آتا ہے۔

فاتبعوھم مشرقین ……الاخرین (66)

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندوں کو لے کر رات کے وقت نکل پڑے۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی اور ہدایت کے مطابق۔ صبح کے وقت جب فرعون نے دیکھا کہ بنی اسرائیل بھاگ گئے ہیں تو وہ اپنی فوجیں لے کر تعاقب میں نکلا۔ اس تعاقب کے لئے فرعون نے بڑی سخت تدابیر اختیار کر رکھی تھیں اور ان کو پکڑنے کا زبردست انتظام کیا تھا۔ اب یہ منظر اپنی انتہا اور انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ معرکہ اپنی انتہائی بلندی پر پہنچ گیا۔ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم ساحل پر پہنچ گئی ہے۔ وہاں کوئی کشتی نہیں ہے۔ بنی اسرائیل نہ سمندر عبور کرسکتے ہیں اور نہ فرعون کے ساتھ جنگ کے لئے کچھ سامان ہے اور فرعون ان کا تعاقب نہایت ساز و سامان سے کر رہا ہے اور انہیں گرفتار کرنے کی بےرحمانہ اسکیم اس نے تیار کی ہوئی ہے۔

بظاہر حالات یہی بتاتے ہیں کہ اب ان کے بھاگ نکلنے کی کوئی تدبیر نہیں ہے۔ آگے سمندر ہے اور پیچھے سے دشمن بڑھا چلا آ رہا ہے۔

قال اصحب موسیا نا لمدرکون (26 : 61) ” موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو پکڑے گئے۔ ‘ اہل ایمان کی بےچینی اب انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ اب تو چند منٹوں کی بات ہے کہ لشکر فرعون انہیں قتل کرے یا گرفتار کرے اور اس سے بظاہر چھوٹ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

لیکن حضرت حضرت موسیٰ کا رابطہ تو عالم بالا سے قائم تھا۔ وحی مسلسل آرہی تھی۔ ان کا کاسہ دل اطمینان سے لبالب تھا۔ پوری طرح یقین تھا کہ اللہ کوئی صورت نکالنے والا ہے۔ مدد کی کوئی سبیل نکل آئیگی۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ نجات ملے گی۔ اگرچہ انہیں بھی معلوم نہ تھا کہ بات کیا ہوگی۔ البتہ یقین تھا کہ نجات یقینی ہے۔ کیونکہ یہ سب منصوبہ اللہ کا تیار کردہ ہے۔

قال کلا ان معی ربی سیھدین (26 : 62) ” موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں میرے ساتھ ، میرا رب ہے ، وہ ضرور میری اہنمائی فرمائے گا۔ “ لفظ کلا ایسی جگہ استعمال ہوتا ہے ، جہاں شدید تاکید کے ساتھ نفی مطلوب ہو۔ یعنی تم ہرگز نہ پکڑے جائو گے اور تم ہرگز کسی فتنے میں نہ پڑو گے۔ ہرگز اللہ تمہیں ضائع نہ کرے گا۔ میرے ساتھ میرا رب ہے ، وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا۔ حضرت موسیٰ بڑی تاکید ، اعتماد اور یقین کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ مایوسی کے ان اندھیروں میں اچانک روشنی کی ایک کرن نمودار ہوتی ہے۔ نجات کی راہ اس طرف سے ملتی ہے جس طرف سے کوئی امید نہ تھی۔

فاوحینا الی موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر (26 : 63) ” ہم نے موسیٰ کو وحی کے ذریعے حکم دیا کہ ” مار اپنا عصا سمندر پر “۔ اب سیاق کلام میں آگے یہ نہیں کہا جاتا کہ انہوں نے اپنا عصا سمندر پر مارا بلکہ نتیجہ ہی جلدی سے ہمارے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔

فانفلق فکان کل فرق کالطود العظیم (26 : 63) ” یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم پہاڑ کی طرح ہوگ یا۔ “ یہ معجزہ واقع ہوگیا اور لوگ جس بات کو محال کہتے تھے ، وہ ہوگئی کیونکہ ان کا قیاس تو روزمرہ کے معمول کے واقعات پر تھا اور یہ روزہ مرہ کے واقعات بھی تو اللہ کی قدرت کے پیدا کردہ اصولوں کے مطابق رونما ہوتے ہیں اور یہ ان اصولوں کے مطابق تب تک چلتے ہیں جب تک اللہ چاتہا ہے۔ اللہ کا حکم یوں ہوا کہ پانی راستوں کے دونوں طرف تو دوں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ بنی اسرائیل گھس کر دریا پار کر گئے۔

فرعون اپنی افواج کے ساتھ دوسری جانب ششدر کھڑا رہ گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ یہ معجزہ دیھکا۔ لازم ہے کہ کچھ دیر کے لئے تو وہ حیرت زدہ ہو کر رہ گیا ہوگا ۔ وہ دیکھ رہا ہوگا کہ موسیٰ اور ان کی قوم وہ گئے اور پار ہوگئے۔ اس نے بہرحال اپنی افواج کو اس راستے میں گھس جانے سے بل سوچا تو ہوگا کیونکہ یہ ایک عجیب عمل تھا۔

اللہ کی اس تدبیر سے بنی اسرائیل دوسری طرف نکل گئے۔ ابھی تک پانی دو ٹکڑے ہی تھا اور فرعون اور اس کا لشکر پانی کے اندر ہی تھے کہ اللہ نے ان کا انجام قریب کردیا۔

واز لفناثم ……الاخرین (66) (26 : 63 تا 66) ” اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسیٰ اور ان سب لوگوں کو جوان کے ساتھ تھے ، ہم نے بچا لیا اور وہ دوسروں کو غرق کردیا۔ “ یہ معجزہ ایک عرصہ تک لوگوں کی زبان پر رہا۔ صدیوں تک وہ اس کا تذکرہ کرتے رہے۔ کیا اس پر زیادہ لوگ ایمان لے آتے ؟

369