سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 4 (آیات 17 سے 24 تک)

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ ٱلَّذِى ٱسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّآ أَضَآءَتْ مَا حَوْلَهُۥ ذَهَبَ ٱللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِى ظُلُمَٰتٍ لَّا يُبْصِرُونَ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فِيهِ ظُلُمَٰتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِم مِّنَ ٱلصَّوَٰعِقِ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ ۚ وَٱللَّهُ مُحِيطٌۢ بِٱلْكَٰفِرِينَ يَكَادُ ٱلْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَٰرَهُمْ ۖ كُلَّمَآ أَضَآءَ لَهُم مَّشَوْا۟ فِيهِ وَإِذَآ أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا۟ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَٰرِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعْبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٰشًا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءً وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا۟ لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ وَإِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا۟ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِۦ وَٱدْعُوا۟ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ وَلَن تَفْعَلُوا۟ فَٱتَّقُوا۟ ٱلنَّارَ ٱلَّتِى وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَٰفِرِينَ
4

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اِن کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے اِن کا نور بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Mathaluhum kamathali allathee istawqada naran falamma adaat ma hawlahu thahaba Allahu binoorihim watarakahum fee thulumatin la yubsiroona

آیت 17 مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا ج یہاں ایک شب تاریک کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ؂اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل !اندھیری شب ہے۔ قافلہ بھٹک رہا ہے۔ کچھ لوگ بڑی ہمت کرتے ہیں کہ اندھیرے میں بھی ادھر ادھر سے لکڑیاں جمع کرتے ہیں اور آگ روشن کردیتے ہیں۔ لیکن عین اس وقت جب آگ روشن ہوتی ہے تو کچھ لوگوں کی بینائی سلب ہوجاتی ہے۔ پہلے وہ اندھیرے میں اس لیے تھے کہ خارج میں روشنی نہیں تھی۔ اب بھی وہ اندھیرے ہی میں رہ گئے کہ خارج میں تو روشنی آگئی مگر ان کے اندر کی روشنی گل ہوگئی ‘ ان کی بصارت سلب ہوگئی۔ یہ مثال ہے ان کفار کی جو اسلام کی روشنی پھیلنے کے باوجود اس سے محروم رہے ‘ محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے ہر سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی حقیقت واضح نہیں تھی۔ قافلۂ انسانیت اندھیری شب میں بھٹک رہا تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور انہوں نے آگ روشن کردی۔ اس طرح ہدایت واضح ہوگئی۔ لیکن کچھ ضد ‘ تعصب ‘ تکبرّ یا حسد کی بنیاد پر کچھ لوگوں کی اندر کی بینائی زائل ہوگئی۔ چناچہ وہ تو ویسے کے ویسے بھٹک رہے ہیں۔ جیسے پہلے اندھیرے میں تھے ویسے ہی اب بھی اندھیرے میں ہیں۔ روشنی میں آنے والے تو وہ ہیں جن کا ذکر سب سے پہلے ”المُتّقین“ کے نام سے ہوا ہے۔

اردو ترجمہ

یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Summun bukmun AAumyun fahum la yarjiAAoona

آیت 8 1 صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ اَصَمُّ بہرے کو کہتے ہیں ‘ صُمٌّ اس کی جمع ہے ‘ اَبْکَمُ گونگے کو کہا جاتا ہے ‘ بُکْمٌ اس کی جمع ہے۔ اَعْمٰی اندھے کو کہتے ہیں ‘ عُمْیٌ اس کی جمع ہے۔ فرمایا کہ یہ بہرے ہیں ‘ گونگے ہیں ‘ اندھے ہیں ‘ اب یہ لوٹنے والے نہیں ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ ابوجہل ‘ ابولہب ‘ ولید بن مغیرہ اور عقبہ ابن ابی معیط سب کے سب ابھی زندہ تھے جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں۔ یہ سب تو غزوۂ بدر میں واصل جہنم ہوئے جو سن 2 ہجری میں ہوا۔ تو یہ لوگ اس مثال کا مصداق کامل تھے۔ آگے اب دوسری مثال بیان کی جا رہی ہے۔

اردو ترجمہ

یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھو نسے لیتے ہیں اور اللہ اِن منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw kasayyibin mina alssamai feehi thulumatun waraAAdun wabarqun yajAAaloona asabiAAahum fee athanihim mina alssawaAAiqi hathara almawti waAllahu muheetun bialkafireena

آیت 19 اَوْ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ ج یعنی اس ہیبت ناک کڑک سے کہیں ان کی جانیں نہ نکل جائیں۔وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ بالْکٰفِرِیْنَ وہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے ‘ یہ بچ کر کہاں جائیں گے ؟

اردو ترجمہ

چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اِس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑ ے ہو جاتے ہیں اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سَلب کر لیتا، یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yakadu albarqu yakhtafu absarahum kullama adaa lahum mashaw feehi waitha athlama AAalayhim qamoo walaw shaa Allahu lathahaba bisamAAihim waabsarihim inna Allaha AAala kulli shayin qadeerun

آیت 20 یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ ط کُلَّمَآ اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ ق جونہی انہیں ذرا روشنی محسوس ہوتی ہے اور دائیں بائیں کچھ نظر آتا ہے تو کچھ دور چل لیتے ہیں۔وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا ط یہ ایک نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک طرف بارش ہو رہی ہے۔ یعنی قرآن مجید آسمان سے نازل ہو رہا ہے۔ بارش کو قرآن مجید ”مَاءً مُّبَارَکاً“ قرار دیتا ہے اور یہ خود ”کِتَابٌ مُّبَارَکٌ“ ہے۔ لیکن یہ کہ اس کے ساتھ کڑکے ہیں ‘ گرج ہے ‘ کفر سے مقابلہ ہے ‘ کفر کی طرف سے دھمکیاں ہیں ‘ اندیشے اور خطرات ہیں ‘ امتحانات اور آزمائشیں ہیں۔ چناچہ منافقین کا معاملہ یہ ہے کہ ذرا کہیں حالات کچھ بہتر ہوئے ‘ کچھ breething space ملی تو مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھوڑا سا چل لیے کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ جب وہ دیکھتے کہ حالات کچھ پرسکون ہیں ‘ کسی جنگ کے لیے بلایا نہیں جا رہا ہے تو بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے اور اپنے ایمان کا اظہار بھی کرتے ‘ لیکن جیسے ہی کوئی آزمائش آتی ٹھٹک کر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔ وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ ط لیکن اللہ کا قانون یہی ہے کہ وہ فوری گرفت نہیں کرتا۔ اس نے انسان کو ارادے اور عمل کی آزادی دی ہے۔ تم اگر مؤمن صادق بن کر رہنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس روش کو تمہارے لیے آسان کر دے گا۔ اور اگر تم نے اپنے تعصبّ یا تکبرّ کی وجہ سے کفر کا راستہ اختیار کیا تو اللہ اسی کو تمہارے لیے کھول دے گا۔ اور اگر تم بیچ میں لٹکنا چاہتے ہو لاآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ط تو لٹکتے رہو۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی کو جبراً حق پر لائے گا اور نہ ہی کسی کو جبراً باطل کی راہ پر لے کر جائے گا۔ اس لیے کہ اگر جبر کا معاملہ ہو تو پھر امتحان کیسا ؟ پھر تو جزا و سزا کا تصور غیر منطقی اور غیر معقول ٹھہرتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ سورة البقرۃ کے یہ ابتدائی دو ‘ رکوع اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں انسانی شخصیتوں کی تین گروہوں میں تقسیم کردی گئی ہے ‘ اور تأویل عام ذہن میں رکھیے کہ جب بھی کوئی دعوت حق اٹھے گی ‘ اگر وہ واقعتا کل کی کل حق کی دعوت ہو اور اس میں انقلابی رنگ ہو کہ باطل سے پنجہ آزمائی کر کے اسے نیچا دکھانا ہے اور حق کو غالب کرنا ہے ‘ تو یہ تین قسم کے افراد لازماً وجود میں آجائیں گے۔ ان کو پہچاننا اور ان کے کردار کے پیچھے جو اصل پس منظر ہے اس کو جاننا بہت ضروری ہے۔

اردو ترجمہ

لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت ہوسکتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu oAAbudoo rabbakumu allathee khalaqakum waallatheena min qablikum laAAallakum tattaqoona

سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں قرآن کی دعوت کا خلاصہ آگیا ہے کہ قرآن اپنے مخاطب کو کیا ماننے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی پکار کیا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ‘ سورة البقرۃ کے نزول سے قبل دو تہائی قرآن نازل ہوچکا تھا۔ ترتیب مصحف کے اعتبار سے وہ قرآن بعد میں آئے گا ‘ لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے وہ پس منظر میں موجود ہے۔ لہٰذا سورة البقرۃ کے پہلے دو ‘ رکوعوں میں مکی قرآن کے مباحث کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے اور تیسرے رکوع میں قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ اور لب لبابّ آگیا ہے ‘ جبکہ قرآن مجید کا فلسفہ اور بعض نہایت اہم موضوعات و مسائل کا خلاصہ چوتھے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ اب ہم تیسرے رکوع کا مطالعہ کر رہے ہیں : آیت 21 یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یہ قرآن کی دعوت کا خلاصہ ہے اور یہی تمام انبیاء و رسل علیہ السلام کی دعوت تھی۔ سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک رسول کا نام لے کر اس کی دعوت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ”اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا کوئی اور الٰہ اس کے سوا نہیں ہے“۔ سورة الشعراء میں رسولوں کی دعوت کے ضمن میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں : فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ”پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو“۔ سورة نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت ان الفاظ میں بیان ہوئی : اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ”کہ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو !“پھر ازروئے قرآن یہی عبادتِ رب انسان کی غایت تخلیق ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنِ الذّٰریٰت ”اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی صرف اس لیے کیا ہے کہ ہماری بندگی کریں“۔ چناچہ تمام رسولوں کی دعوت یہی ”عبادتِ ربّ“ ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت بھی یہی ہے ‘ لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رسولوں کی دعوت کے ضمن میں صیغۂ خطاب ”یٰقَوْمِ“ ہے۔ یعنی ”اے میری قوم کے لوگو !“ جبکہ یہاں صیغۂ خطاب ہے : ”یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ“ یعنی ”اے بنی نوع انسان !“ معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے تمام رسول علیہ السلام صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف آئے ‘ جبکہ پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل رسول ہیں جن کی دعوت آفاقی ہے۔ عام طور پر لوگ جو غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں اس پر اس دلیل سے جمے رہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اَجداد کا راستہ یہی تھا۔ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کے الفاظ میں اس دلیل کا ردّ بھی موجود ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے ‘ جیسے تم خطا کرسکتے ہو اسی طرح وہ بھی تو خطا کرسکتے تھے۔ لہٰذا یہ نہ دیکھو کہ آباء و اجداد کا راستہ کیا تھا ‘ بلکہ یہ دیکھو کہ حق کیا ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ”تاکہ تم بچ سکو“۔ یعنی دنیا میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکو اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکو۔ ان دونوں سے اگر بچنا ہے تو اللہ کی بندگی کی روش اختیار کرو۔

اردو ترجمہ

وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee jaAAala lakumu alarda firashan waalssamaa binaan waanzala mina alssamai maan faakhraja bihi mina alththamarati rizqan lakum fala tajAAaloo lillahi andadan waantum taAAlamoona

آیت 22 الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءًص وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب تم بھی مانتے ہو کہ اس کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ‘ تو پھر اس کے شریک کیوں ٹھہراتے ہو ؟ اہل عرب یہ بات مانتے تھے کہ کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے ‘ البتہ جو ان کے دیوی دیوتا تھے انہیں وہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کے اوتار ہیں یا اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں ‘ اس کے اولیاء ہیں ‘ اس کی بیٹیاں ہیں ‘ لہٰذا یہ شفاعت کریں گے تو ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب تم یہ مانتے ہو کہ کائنات کا خالق ایک اللہ ہے ‘ وہی اس کا مدبر ہے تو اب کسی کو اس کا مدمقابل نہ بناؤ۔ ّ اَنْدَاد ”نِدّ“ کی جمع ہے ‘ اس کا معنی مدمقابل ہے۔ خطبۂ جمعہ میں آپ نے یہ الفاظ سنے ہوں گے : ”لَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ“۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رض بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا : اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ 1 ”یہ کہ تو اس کا کوئی مدمقابل ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے“۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کسی درجے میں کوئی شریک یا مدمقابل نہیں ہے۔ اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ امت کو اس درجے توحید کی باریکیوں تک پہنچا کر گئے ہیں کہ ایسے تصوراتّ کی بالکل جڑ کٹ جاتی ہے۔ ایک صحابی رض نے آپ ﷺ کے سامنے ایسے ہی کہہ دیا : ”مَاشَاء اللّٰہُ وَمَا شِءْتَ“ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپ ﷺ چاہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور فرمایا : اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا ؟ مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہٗ ”کیا تو نے مجھے اللہ کا مدمقابل بنا دیا ہے ؟ بلکہ وہی ہوگا جو تنہا اللہ چاہے۔“ 2 اس کائنات میں مشیت صرف ایک ہستی کی چلتی ہے۔ کسی اور کی مشیت اس کی مشیت کے تابع پوری ہوجائے تو ہوجائے ‘ لیکن مشیت مطلقہ صرف اس کی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا : اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ القصص : 56”اے نبی ﷺ ! یقینا آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ‘ بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔“ اگر ہدایت کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں ہوتا تو ابوطالب دنیا سے ایمان لائے بغیر رخصت نہ ہوتے۔ان دو آیتوں میں توحید کے دونوں پہلو بیان ہوگئے ‘ توحید نظری بھی اور توحید عملی بھی۔ توحید عملی یہ ہے کہ بندگی صرف اسی کی ہے۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالرسالت کا بیان آرہا ہے۔

اردو ترجمہ

اور اگر تمہیں اِس امر میں شک ہے کہ یہ کتا ب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تواس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو، اگر تم سچے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain kuntum fee raybin mimma nazzalna AAala AAabdina fatoo bisooratin min mithlihi waodAAoo shuhadaakum min dooni Allahi in kuntum sadiqeena

آیت 23 وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا ‘ ”تعارف قرآن“ میں یہ بات تفصیل سے بیان کی گئی تھی کہ قرآن حکیم میں ایسے پانچ مقامات ہیں جہاں پر یہ چیلنج موجود ہے کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ کلام محمد ﷺ کی اختراع ہے تو تم بھی مقابلے میں ایسا ہی کلام پیش کرو۔ سورة الطور کی آیات 33 ‘ 34 میں ارشاد ہوا : ”کیا ان کا یہ کہنا ہے کہ اسے محمد ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں۔ پھر چاہیے کہ وہ اسی طرح کا کوئی کلام پیش کریں اگر وہ سچے ہیں“۔ سورة بنی اسراء یل آیت 88 میں فرمایا گیا کہ ”اگر تمام جن و انس جمع ہو کر بھی اس قرآن جیسی کتاب پیش کرنا چاہیں تو ہرگز نہیں کرسکیں گے ‘ چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں“۔ پھر سورة ہود آیت 13 میں فرمایا گیا کہ ”اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجیے اگر پورے قرآن کی نظیر نہیں لاسکتے تو ایسی دس سورتیں ہی گھڑ کرلے آؤ !“ اس کے بعد مزید نیچے اتر کر ‘ جسے برسبیل تنزل کہا جاتا ہے ‘ سورة یونس آیت 38 میں اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آنے کا چیلنج دیا گیا۔ مذکورہ بالا تمام مقامات مکی سورتوں میں ہیں۔ پہلی مدنی سورة ”البقرۃ“ کی آیت زیر مطالعہ میں یہی بات بڑے اہتمام کے ساتھ فرمائی گئی کہ اگر تم لوگوں کو اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو اس جیسی ایک سورت تم بھی موزوں کر کے لے آؤ ! یہ ایک سورت سورة العصر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی ‘ سورة الکوثر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی۔وَادْعُوْا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ قریش کا خیال یہ تھا کہ شعراء کے پاس جن ہوتے ہیں ‘ جو انہیں شعر سکھاتے ہیں ‘ ورنہ عام آدمی تو شعر نہیں کہہ سکتا۔ چناچہ فرمایا کہ جو بھی تمہارے مددگار ہوں ‘ ایک اللہ کو چھوڑ کر جس کی بھی تم مدد حاصل کرسکتے ہو ‘ جنات ہوں یا انسان ہوں ‘ خطیب ہوں ‘ شعراء ہوں یا ادیب ہوں ‘ ان سب کو جمع کرلو اور اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ ‘ اگر تم سچے ہو۔ ّ قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ چناچہ یہاں گویا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہا جا رہا ہے کہ حقیقت میں تمہیں اس قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ‘ یہ تو تم محض بات بنا رہے ہو۔ اگر تمہیں واقعتا شک ہے ‘ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آؤ میدان میں اور اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ !

اردو ترجمہ

تو یہ کام کر کے دکھاؤ، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقیناً کبھی نہیں کرسکتے، تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fain lam tafAAaloo walan tafAAaloo faittaqoo alnnara allatee waqooduha alnnasu waalhijaratu oAAiddat lilkafireena

آیت 24 فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا ذرا انداز دیکھئے ‘ کیسا تحدی اور چیلنج کا ہے ! اور یہ چیلنج اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ انداز دنیا کی کسی کتاب کا نہیں ہے ‘ یہ دعویٰ صرف قرآن کا ہے۔ کیسا دو ٹوک انداز ہے : ”پھر اگر تم نہ کر پاؤ ‘ اور تم ہرگز نہیں کر پاؤ گے۔“ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ج جہنم کے ایندھن کے طور پر پتھروں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ اس کے دو امکانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کو معلوم ہے پتھر کے کوئلے کی آگ عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں بڑی سخت ہوتی ہے۔ لہٰذا جہنم کی آگ بہت بڑے بڑے پتھروں سے دہکائی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ مشرکین نے جو معبود تراش رکھے تھے وہ پتھر کے ہوتے تھے۔ مشرکین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ تمہارے ان معبودوں کو بھی جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ تمہاری حسرت کے اندر اضافہ ہو کہ یہ ہیں وہ معبودان باطل جن سے ہم دعائیں مانگا کرتے تھے ‘ جن کے سامنے ماتھے ٹیکتے تھے ‘ جن کے سامنے ڈنڈوت کرتے تھے ‘ جن کو چڑھاوے چڑھاتے تھے !اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ یہ جہنم منکرین حق کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اب یہاں گویا ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے بعد ایمان بالآخرت کا ذکر آگیا۔

4