اس صفحہ میں سورہ Ash-Shura کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الشورى کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
امت محمدیہ پر شریعت الٰہی کا انعام اللہ تعالیٰ نے جو انعام اس امت پر کیا ہے اس کا ذکر یہاں فرماتا ہے کہ تمہارے لئے جو شرع مقرر کی ہے وہ ہے جو حضرت آدم کے بعد دنیا کے سب سے پہلے پیغمبر اور دنیا کے سب سے آخری پیغمبر اور ان کے درمیان کے اولو العزم پیغمبروں کی تھی۔ پس یہاں جن پانچ پیغمبروں کا ذکر ہوا ہے انہی پانچ کا ذکر سورة احزاب میں بھی کیا گیا ہے فرمایا آیت (وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا ۙ) 33۔ الأحزاب :7) ، وہ دین جو تمام انبیاء کا مشترک طور پر ہے وہ اللہ واحد کی عبادت ہے جیسے اللہ جل و علا کا فرمان ہے آیت (وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) یعنی تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ان سب کی طرف ہم نے یہی وحی کی ہے کہ معبود میرے سوا کوئی نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرتے رہو حدیث میں ہے ہم انبیاء کی جماعت آپس میں علاتی بھائیوں کی طرح ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے جیسے علاتی بھائیوں کا باپ ایک ہوتا ہے الغرض احکام شرع میں گو جزوی اختلاف ہو۔ لیکن اصولی طور پر دین ایک ہی ہے اور وہ توحید باری تعالیٰ عزاسمہ ہے، فرمان اللہ ہے آیت (لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا 48ۙ) 5۔ المآئدہ :48) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے شریعت و راہ بنادی ہے۔ یہاں اس وحی کی تفصیل یوں بیان ہو رہی ہے کہ دین کو قائم رکھو جماعت بندی کے ساتھ اتفاق سے رہو اختلاف اور پھوٹ نہ کرو پھر فرماتا ہے کہ یہی توحید کی صدائیں ان مشرکوں کو ناگوار گذرتی ہیں۔ حق یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے جو مستحق ہدایت ہوتا ہے وہ رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ اس کا ہاتھ تھام کر ہدایت کے راستے لا کھڑا کرتا ہے اور جو از خود برے راستے کو اختیار کرلیتا ہے اور صاف راہ چھوڑ دیتا ہے اللہ بھی اس کے ماتھے پر ضلالت لکھ دیتا ہے جب ان کے پاس حق آگیا حجت ان پر قائم ہوچکی۔ اس وقت وہ آپس میں ضد اور بحث کی بنا پر مختلف ہوگئے۔ اگر قیامت کا دن حساب کتاب اور جزا سزا کے لئے مقرر شدہ نہ ہوتا تو ان کے ہر بد عمل کی سزا انہیں یہیں مل جایا کرتی۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گزشتہ جو پہلوں سے کتابیں پائے ہوئے ہیں۔ یہ صرف تقلیدی طور پر مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مقلد کا ایمان شک شبہ سے خالی نہیں ہوتا۔ انہیں خود یقین نہیں دلیل و حجت کی بناء پر ایمان نہیں، بلکہ یہ اپنے پیشروؤں کے جو حق کے جھٹلانے والے تھے مقلد ہیں۔
تمام انبیاء کی شریعت یکساں ہے۔اس آیت میں ایک لطیفہ ہے جو قرآن کریم کی صرف ایک اور آیت میں پایا جاتا ہے باقی کسی اور آیت میں نہیں وہ یہ کہ اس میں دس کلمے ہیں جو سب مستقل ہیں الگ الگ ایک ایک کلمہ اپنی ذات میں ایک مستقل حکم ہے یہی بات دوسری آیت یعنی آیت الکرسی میں بھی ہے پس پہلا حکم تو یہ ہوتا ہے کہ جو وحی تجھ پر نازل کی گئی ہے اور وہی وحی تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء پر آتی رہی ہے اور جو شرع تیرے لئے مقرر کی گئی ہے اور وہی تجھ سے پہلے تمام انبیاء کرام کے لئے بھی مقرر کی گئی تھی تو تمام لوگوں کو اس کی دعوت دے ہر ایک کو اسی کی طرف بلا اور اسی کے منوانے اور پھیلانے کی کوشش میں لگا رہ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و وحدانیت پر تو آپ استقامت کر اور اپنے ماننے والوں سے استقامت کر مشرکین نے جو کچھ اختلاف کر رکھے ہیں جو تکذیب و افتراء ان کا شیوہ ہے جو عبادت غیر اللہ ان کی عادت ہے خبردار تو ہرگز ہرگز ان کی خواہش اور ان کی چاہتوں میں نہ آجانا۔ ان کی ایک بھی نہ ماننا اور علی الاعلان اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کر کہ اللہ کی نازل کردہ تمام کتابوں پر میرا ایمان ہے میرا یہ کام نہیں کہ ایک کو مانوں اور دوسری سے انکار کروں، ایک کو لے لوں اور دوسری کو چھوڑ دوں۔ میں تم میں بھی وہی احکام جاری کرنا چاہتا ہوں جو اللہ کی طرف سے میرے پاس پہنچائے گئے ہیں اور جو سراسر عدل اور یکسر انصاف پر مبنی ہیں۔ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ہمارا تمہارا معبود برحق وہی ہے اور وہی سب کا پالنہار ہے گو کوئی اپنی خوشی سے اس کے سامنے نہ جھکے لیکن دراصل ہر شخص بلکہ ہر چیز اس کے آگے جھکی ہوئی ہے اور سجدے میں پڑی ہوئی ہے ہمارے عمل ہمارے ساتھ۔ تمہاری کرنی تمہیں بھرنی۔ ہم تم میں کوئی تعلق نہیں جیسے اور آیت میں ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لئے میرے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں۔ تم میرے اعمال سے بری اور میں تمہارے اعمال سے بیزار۔ ہم تم میں کوئی خصومت اور جھگڑا نہیں۔ کسی بحث مباحثے کی ضرورت نہیں۔ حضرت سدی ؒ فرماتے ہیں یہ حکم تو مکہ میں تھا لیکن مدینے میں جہاد کے احکام اترے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور جہاد کی آیتیں ہجرت کے بعد کی ہیں قیامت کے دن اللہ ہم سب کو جمع کرے گا جیسے اور آیت میں ہے (قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ 26) 34۔ سبأ :26) ، یعنی تو کہہ دے کہ ہمیں ہمارا رب جمع کرے گا پھر ہم میں حق کے ساتھ فیصلے کرے گا اور وہی فیصلے کرنے والا اور علم والا ہے پھر فرماتا ہے لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے۔