سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 152 (آیات 12 سے 22 تک)

قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا۠ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِى مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُۥ مِن طِينٍ قَالَ فَٱهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَٱخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ ٱلصَّٰغِرِينَ قَالَ أَنظِرْنِىٓ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ ٱلْمُنظَرِينَ قَالَ فَبِمَآ أَغْوَيْتَنِى لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَٰطَكَ ٱلْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَءَاتِيَنَّهُم مِّنۢ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَٰنِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَٰكِرِينَ قَالَ ٱخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ وَيَٰٓـَٔادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ فَوَسْوَسَ لَهُمَا ٱلشَّيْطَٰنُ لِيُبْدِىَ لَهُمَا مَا وُۥرِىَ عَنْهُمَا مِن سَوْءَٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَىٰكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةِ إِلَّآ أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ ٱلْخَٰلِدِينَ وَقَاسَمَهُمَآ إِنِّى لَكُمَا لَمِنَ ٱلنَّٰصِحِينَ فَدَلَّىٰهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا ٱلشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ ٱلْجَنَّةِ ۖ وَنَادَىٰهُمَا رَبُّهُمَآ أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا ٱلشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَآ إِنَّ ٱلشَّيْطَٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
152

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

پوچھا، "تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا؟" بولا، "میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala ma manaAAaka alla tasjuda ith amartuka qala ana khayrun minhu khalaqtanee min narin wakhalaqtahu min teenin

عذر گناہ بدتر از گناہ (الا تسجد) میں لا بقول بعض نحویوں کے زائد ہے اور بعض کے نزدیک انکار کی تاکید کیلئے ہے۔ جیسے کہ شاعر کے قول ما ان رایت ولا سمعت بمثلہ میں ما نافیہ پر ان نفی کے لئے صرف تاکیداً داخل ہوا ہے اسی طرح یہاں بھی ہے کہ پہلے آیت (لم یکن من الساجدین) ہے پھر (ما منعک الا تسجد) ہے امام ابن جریر ؒ ان دونوں قولوں کو بیان کر کے انہیں رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں (منعک) ایک دوسرے فعل مقدر کا متضمن ہے تو تقریر عبارت یوں ہوئی (ما احوجک والزمک وا ضطرک الا تسجد اذا مرتک) یعنی تجھے کس چیز نے بےبس محتاج اور ملزم کردیا کہ تو سجدہ نہ کرے ؟ وغیرہ۔ یہ قول بہت ہی قوی ہے اور بہت عمدہ ہے۔ واللہ اعلم۔ ابلیس نے جو وجہ بتائی سچ تو یہ ہے کہ وہ عذر گناہ بدتر از گناہ کی مصداق ہے۔ گویا وہ اطاعت سے اس لئے باز رہتا ہے کہ اس کے نزدیک فاضل کو مفضول کے سامنے سجدہ کئے جانے کا حکم ہی نہیں دیا جاسکتا۔ تو وہ ملعون کہہ رہا ہے کہ میں اس سے بہتر ہوں پھر مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم کیوں ہو رہا ہے ؟ پھر بہتر ہونے کے ثبوت میں کہتا ہے کہ میں آگ سے بنا یہ مٹی سے۔ ملعون اصل عنصر کو دیکھتا ہے اور اس فضیلت کو بھول جاتا ہے کہ مٹی والے کہ اللہ عزوجل نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اپنی روح پھونکی ہے۔ پاس اس وجہ سے کہ اس نے فرمان الٰہی کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا اور سجدے سے رک گیا اللہ کی رحمتوں سے دور کردیا گیا اور تمام نعمتوں سے محروم ہوگیا۔ اس ملعون نے اپنے قیاس اور اپنے دعوے میں بھی خطا کی۔ مٹی کے اوصاف ہیں، نرم ہونا، حامل مشقت ہونا، دوسروں کا بوجھ سہانا، چیزوں کو اگانا، بڑھانا، پرورش کرنا، اصلاح کرنا وغیرہ اور آگ کی صفت ہے جلدی کرنا، جلا دینا، بےچینی پھیلانا، پھونک دینا، اسی وجہ سے ابلیس اپنے گناہ پر اڑ گیا اور حضرت آدم نے اپنے گناہ کی معذرت کی، اس سے توبہ کی اور اللہ کی طرف رجوع کیا۔ رب کے احکام کو تسلیم کیا، اپنے گناہ کا اقرار کیا، رب سے معافی چاہی، بخشش کے طالب ہوئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں، ابلیس آگ کے شعلے سے اور انسان اس چیز سے جو تمہاے سامنے بیان کردی گئی ہے یعنی مٹی سے (مسلم) ایک اور روایت میں ہے فرشتے نور عرش سے جنت آگ سے۔ ایک غیر صحیح حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ حور عین زعفران سے بنائی گئی ہیں۔ امام حسن فرماتے ہیں ابلیس نے یہ کام کیا اور یہی پہلا شخص ہے جس نے قیاس کا دروازہ کھولا۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔ حضرت امام ابن سیرین رحمتہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے۔ یاد رکھو سورج چاند کی پرستش اسی کی بدولت شروع ہوئی ہے۔ اس کی اسناد بھی صحیح ہے۔

اردو ترجمہ

فرمایا، "اچھا تو یہاں سے نیچے اتر تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے نکل جا کہ در حقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala faihbit minha fama yakoonu laka an tatakabbara feeha faokhruj innaka mina alssaghireena

نافرمانی کی سزا ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ میری نافرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث اب تو یہاں جنت میں نہیں رہ سکتا، یہاں سے اتر جا کیونکہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں۔ بعض نے کہا ہے (فیھا) کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلی میں تو ہے اس مرتبے میں کوئی سرکش رہ نہیں سکتا۔ جا یہاں سے چلا جا تو اپنی سرکشی کے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کردیا گیا۔ تیری ضد اور ہٹ کی یہی سزا ہے۔ اب لعین گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک کی ڈھیل دی جائے۔ چونکہ جناب باری جل جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور اپنی حجت پوری کرنا تھی اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا۔ اس حکام پر کسی کی حکومت نہیں، اس کے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں، کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے۔ وہ سریع الحساب ہے۔

اردو ترجمہ

بولا، "مجھے اُس دن تک مہلت دے جب کہ یہ سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala anthirnee ila yawmi yubAAathoona

اردو ترجمہ

فرمایا، "تجھے مہلت ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala innaka mina almunthareena

اردو ترجمہ

بولا، "اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala fabima aghwaytanee laaqAAudanna lahum sirataka almustaqeema

ابلیس کا طریقہ واردات اس کی اپنی زبانی ابلیس نے جب عہد الٰہی لے لیا تو اب بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگا کہ جیسے تو نے میری راہ ماری میں بھی اس کی اولاد کی راہ ماروں گا اور حق و نجات کے سیدھے راستے سے انہیں روکوں گا تیری توحید سے بہکا کر تیری عبادت سے سب کو ہٹا دوں گا۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ فبما میں با قسم کے لئے ہے یعنی مجھے قسم ہے میں اپنی بربادی کے مقابلہ میں اس کی اولاد کو برباد کر کے رہوں گا۔ عون بن عبداللہ کہتے ہیں میں مکہ کے راستے پر بیٹھ جاؤں گا لیکن صحیح یہی ہے کہ نیکی کے ہر راستے پر۔ چناچہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ شیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں بیٹھتا ہے وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے کیلئے اسلام لانے والے کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے کہ تو اپنے اور اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑتا ہے۔ اللہ کو اگر بہتری منظور ہوتی ہے تو وہ اس کی باتوں میں نہیں آتا اور اسلام قبول کرلیتا ہے۔ ہجرت کی راہ سے روکنے کیلئے اڑے آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تو اپنے وطن کو کیوں چھوڑتا ہے ؟ اپنی زمین و آسمان سے الگ ہوتا ہے ؟ غربت و بےکسی کی زندگی اختیار کرتا ہے ؟ لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتا اور ہجرت کر گذرتا ہے۔ پھر جہاد کی روک کے لئے آتا ہے اور جہاد مال سے ہے اور جان سے۔ اس سے کہتا ہے کہ تو کیوں جہاد میں جاتا ہے ؟ وہاں قتل کردیا جائے گا، پھر تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی، تیرا مال اوروں کے قبضے میں چلا جائے گا لیکن مسلمان اس کی نہیں مانتا اور جہاد میں قدم رکھ دیتا ہے پس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں جنت میں لے جائے گو وہ جانور سے گر کر ہی مرجائیں۔ اس دوسری آیت کی تفسیر میں ابن عباس کا قول ہے کہ آگے سے آنے کا مطلب آخرت کے معاملہ میں شک و شبہ میں پیدا کرنا ہے۔ دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رغبتیں دلاؤں گا دائیں طرف سے آنا امر دین کو مشکوک کرنا ہے بائیں طرف سے آنا گناہوں کو لذیذ بنانا ہے شیطانوں کا یہی کام ہے ایک اور روایت میں ہے کہ شیطان کہتا ہے میں ان کی دنیا و آخرت، نیکیاں بھلائیاں سب تباہ کردینے کی کوشش میں رہوں گا اور برائیوں کی طرف ان کی رہبری کروں گا وہ سامنے سے آ کر کہتا ہے کہ جنت دوزخ قیامت کوئی چیز نہیں۔ وہ پشت کی جانب سے آ کر کہتا ہے دیکھ دنیا کس قدر زینت دار ہے وہ دائیں سے آ کر کہتا ہے خبردار نیکی کی راہ بہت کٹھن ہے۔ وہ بائیں سے آ کر کہتا ہے دیکھ گناہ کس قدر لذیذ ہیں پس ہر طرفے آ کر ہر طرح بہکاتا ہے ہاں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اوپر کی طرف سے نہیں آسکتا۔ اللہ کے بندے کے درمیان حائل ہو کر رحمت الٰہی کو روک نہیں بن سکتا۔ پس سامنے یعنی دنیا اور پیجھے یعنی آخرت اور دائیں یعنی اس طرح کی دیکھیں اور بائیں یعنی اس طرح نہ دیکھ سکیں یہ اقوال سب ٹھیک ہیں۔ امام ابن جریر ؒ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تمام خیر کے کاموں سے روکتا ہے اور سر کے تمام کام سمجھا جاتا ہے، اوپر کی سمت کا نام آیت میں نہیں وہ سمت رحمت رب کے آنے کیلئے خالی ہے اور وہاں شیطان کی روک نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اکثروں کو تو شاکر نہیں پائے گا یعنی موحد۔ ابلیس کو یہ وہم ہی وہم تھا لیکن نکلا مطابق واقعہ۔ جیسے فرمان ہے آیت (ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ) الخ، یعنی ابلیس نے اپنا گمان پورا کر دکھایا سوائے مومنوں کی پاکباز جماعت کے اور لوگ اس کے مطیع بن گئے حالانکہ شیطان کی کچھ حکومت تو ان پر نہ تھی مگر ہاں ہم صحیح طور سے ایمان رکھنے والوں کو اور شکی لوگوں کو الگ الگ کردینا چاہتے تھے۔ تیرا رب ہر حیز کا حافظ ہے۔ مسند بزار کی ایک حسن حدیث میں ہر طرف سے پناہ مانگنے کی ایک دعا آئی ہے۔ الفاظ یہ ہیں دعا (اللھم انی اسأالک العفو والعفتہ فی دینی و دنیای و اھلی و مالی اللھم استر عورانی وامن روعانی واحفظنی من بین یدی ومن خلقی وعن یمینی وعن شمالی و من فوقی واعوذ بک اللھم ان افتال من تحتی) مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ ہر صبح شام اس دعا کو پڑھتے تھے دعا (اللھم انی اسألک العافیتہ فی الدین والاخرۃ) اس کے بعد کی دعا کے کچھ فرق سے تقریباً وہی الفاظ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔

اردو ترجمہ

اِن انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے اِن کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma laatiyannahum min bayni aydeehim wamin khalfihim waAAan aymanihim waAAan shamailihim wala tajidu aktharahum shakireena

اردو ترجمہ

فرمایا، " نکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھکرایا ہوا یقین رکھ کہ اِن میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala okhruj minha mathooman madhooran laman tabiAAaka minhum laamlaanna jahannama minkum ajmaAAeena

اللہ تعالیٰ کے نافرمان جہنم کا دیندھن ہیں اس پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی ہے، رحمت سے دور کردیا جاتا ہے۔ فرشتوں کی جماعت سے الگ کردیا جاتا ہے۔ عیب دار کر کے اتار دیا جاتا ہے، لفظ مذوم ماخوذ ہے ذام اور ذیم سے، یہ لفظ بہ نسبت لفظ ذم کے زیادہ مبالغے والا ہے، پس اس کے معنی عیب دار کے ہوئے اور مدحور کے معنی دور کئے ہوئے کے ہیں مقصد دونوں سے ایک ہی ہے۔ پس یہ ذلیل ہو کر اللہ کے غضب میں مبتلا ہو کر نیچے اتار دیا گیا۔ اللہ کی لعنت اس پر نازل ہوئی اور نکال دیا گیا اور فرمایا گیا کہ تو اور تیرے ماننے والے سب کے سب جہنم کا ایندھن ہیں جیسے اور آیت میں ہے (فان جھنم جزأکم) الخ، تمہاری سب کی سزا جہنم ہے تو جس طرح چاہ انہیں بہکا لیکن اس سے مایوس ہوجا کہ میرے خاص بندے تیرے وسوسوں میں آجائیں ان کا وکیل میں آپ ہوں۔

اردو ترجمہ

اور اے آدمؑ، تو اور تیری بیوی، دونوں اس جنت میں رہو، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waya adamu oskun anta wazawjuka aljannata fakula min haythu shituma wala taqraba hathihi alshshajarata fatakoona mina alththalimeena

پہلا امتحان اور اسی میں لغزش اور اس کا انجام ابلیس کو نکال کر حضرت آدم و حوا کو جنت میں پہنچا دیا گیا اور بجز ایک درخت کے انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی رخصت دے دی گئی۔ اس کا تفصیلی بیان سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے۔ شیطان کو اس سے بڑا ہی حسد ہوا، ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہو انہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کر دوں۔ چناچہ جھوٹ افتراء باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاؤ گے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ابلیس نے کہا میں تمہیں ایک درخت کا پتہ دیتا ہوں جس سے تمہیں بقاء اور ہمیشگی والا ملک مل جائے گا۔ یہاں ہے کہ ان سے کہا تمہیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ۔ جیسے فرمان ہے آیت (یبین اللہ لکم ان تضلوا) مطلب یہ ہے کہ (لئلا تضلوا) اور آیت میں ہے (ان تمیدبکم) یہاں بھی یہی مطلب ہے۔ (ملکین) کی دوسری قرأت (ملکین) بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت لام کے زبر کے ساتھ ہے۔ پھر اپنا اعتبار جمانے کیلئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو میں تمہارا خیر خواہ ہوں تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں تم اسے کھالو بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاؤ گے قاسم باب مفاعلہ سے ہے اور اس کی خاصیت طرفین کی مشارکت ہے لیکن یہاں یہ خاصیت نہیں ہے۔ ایسے اشعار بھی ہیں جہاں قاسم آیا ہے اور صرف ایک طرف کے لئے۔ اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں حضرت آدم آگئے۔ سچ ہے مومن اس وقت دھوکا کھا جاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں دیتا ہے۔ چناچہ سلف کا قول ہے کہ ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

پھر شیطان نے اُن کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے اس نے ان سے کہا، "تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fawaswasa lahuma alshshaytanu liyubdiya lahuma ma wooriya AAanhuma min sawatihima waqala ma nahakuma rabbukuma AAan hathihi alshshajarati illa an takoona malakayni aw takoona mina alkhalideena

اردو ترجمہ

اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqasamahuma innee lakuma lamina alnnasiheena

اردو ترجمہ

اس طرح دھو کا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پرلے آیا آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے تب ان کے رب نے انہیں پکارا، " کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fadallahuma bighuroorin falamma thaqa alshshajarata badat lahuma sawatuhuma watafiqa yakhsifani AAalayhima min waraqi aljannati wanadahuma rabbuhuma alam anhakuma AAan tilkuma alshshajarati waaqul lakuma inna alshshaytana lakuma AAaduwwun mubeenun

لغزش کے بعد کیا ہوا ؟ ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں " حضرت آدم ؑ کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہوگئی، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے، شرمسار ہوں، گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے، ابن عباس فرماتے ہیں، درخت کا پھل کھالیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہوگئی، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے، حضرت آدم مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں۔ جناب باری نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا ؟ آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی۔ چناچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گذری کھانے پینے کو ترس گئے، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی، کھیتی کا کام بتایا گیا، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے، وہ آگے بڑھے، بالیں نکلیں، دانے پکے، پھر توڑے گئے، پھر پیسے آگئے، آٹا گندھا، پھر روٹی تیار ہوئی، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضا چھپے ہوئے تھے، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے، حضرت آدم اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی۔ مروی ہے کہ حضرت آدم نے جب درخت کھالیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی، یہ سنتے ہی حضرت جواء نے نوحہ شروع کیا، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا۔ حضرت آدم نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی۔ قصور معاف فرما دیا گیا فالحمد اللہ !

152