سورہ سبا (34): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Saba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ سبإ کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ سبا کے بارے میں معلومات

Surah Saba
سُورَةُ سَبَإٍ
صفحہ 429 (آیات 8 سے 14 تک)

أَفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِۦ جِنَّةٌۢ ۗ بَلِ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْءَاخِرَةِ فِى ٱلْعَذَابِ وَٱلضَّلَٰلِ ٱلْبَعِيدِ أَفَلَمْ يَرَوْا۟ إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ ٱلْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ ۞ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا دَاوُۥدَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَٰجِبَالُ أَوِّبِى مَعَهُۥ وَٱلطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ ٱلْحَدِيدَ أَنِ ٱعْمَلْ سَٰبِغَٰتٍ وَقَدِّرْ فِى ٱلسَّرْدِ ۖ وَٱعْمَلُوا۟ صَٰلِحًا ۖ إِنِّى بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَلِسُلَيْمَٰنَ ٱلرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُۥ عَيْنَ ٱلْقِطْرِ ۖ وَمِنَ ٱلْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِۦ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ ٱلسَّعِيرِ يَعْمَلُونَ لَهُۥ مَا يَشَآءُ مِن مَّحَٰرِيبَ وَتَمَٰثِيلَ وَجِفَانٍ كَٱلْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَٰتٍ ۚ ٱعْمَلُوٓا۟ ءَالَ دَاوُۥدَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِىَ ٱلشَّكُورُ فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ ٱلْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِۦٓ إِلَّا دَآبَّةُ ٱلْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُۥ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ ٱلْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ٱلْغَيْبَ مَا لَبِثُوا۟ فِى ٱلْعَذَابِ ٱلْمُهِينِ
429

سورہ سبا کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ سبا کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے ہے یا اسے جنون لاحق ہے" نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور و ہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aftara AAala Allahi kathiban am bihi jinnatun bali allatheena la yuminoona bialakhirati fee alAAathabi waalddalali albaAAeedi

اردو ترجمہ

کیا اِنہوں نے کبھی اُس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو اِنہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ ہم چاہیں تو اِنہیں زمین میں دھسا دیں، یا آسمان کے کچھ ٹکڑے اِن پر گرا دیں در حقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اُس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afalam yaraw ila ma bayna aydeehim wama khalfahum mina alssamai waalardi in nasha nakhsif bihimu alarda aw nusqit AAalayhim kisafan mina alssamai inna fee thalika laayatan likulli AAabdin muneebin

افلم یروا الی ۔۔۔۔۔۔ لکل عبد منیب (9) ” “۔

یہ ایک سخت ڈراؤنا کائناتی منظر ہے۔ یہ منظر ان کے مشاہدات سے ماخوذ ہے جن کو وہ رات اور دن دیکھتے رہتے ہیں۔ زمین کا دھنس جانا بھی انسانی مشاہدہ ہے اور قصص اور روایات میں بھی آتا ہے۔ اسی طرح شہاب ثاقب کے گرنے اور بجلیوں کے گرنے سے بھی آسمانی چیزیں گرتی رہی ہیں۔ یہ سب چیزیں ان کو دیکھی سنی ہیں۔ اس قدر خوفناک حالات کی طرف ان کو متوجہ کرکے ڈرایا جاتا ہے جو قیام قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ اگر قیام قیامت سے پہلے ہی اللہ ان کو عذاب دینا چاہئے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسی زمین اور اسی آسمان میں ان کو یہ عذاب دے دیا جائے جو ان کے آگے پیچھے ان کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ ان سے دور بھی نہیں ہے جس طرح قیام قیامت انکو بعید نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے تو غافل لوگ ہی بےفکر ہوتے ہیں

یہ آسمانوں کے اندر جو عملیات وہ دیکھتے ہیں ، بجلیاں اور شہاب ثاقب اور زمین کا دھنس جانا اور زلزلے۔ کسی وقت بھی ان میں سے کوئی عذاب اگر آجائے تو قیامت ہی ہوگی۔

ان فی ذلک لایۃ لکل عبد منیب (34: 9) ” حقیقت یہ ہے کہ اس میں نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو “۔ اور جو غلط راہ پر اس قدر دور نہ چلا گیا ہو۔

اردو ترجمہ

ہم نے داؤدؑ کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا (ہم نے حکم دیا کہ) اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو (اور یہی حکم ہم نے) پرندوں کو دیا ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad atayna dawooda minna fadlan ya jibalu awwibee maAAahu waalttayra waalanna lahu alhadeeda

درس نمبر 195 ایک نظر میں

اس سبق میں شکر اور سرکشی کی دو صورتیں پیش کی گئی ہیں اور یہ مثال بھی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کیلئے ایسی قوتیں مسخر کردیتے ہیں جو عموماً لوگوں کے لئے مسخر نہیں کی جاتیں۔ لیکن اللہ کی مشیت اور اللہ کی تقدیر کو لوگوں کی عادات کے تابع نہیں کیا جاسکتا۔ ان نقوش کے درمیان جنوں کی حقیقت بھی سامنے آتی ہے جن کو پوجا بعض عرب کیا کرتے تھے یا ان سے یہ عرب قبائل غیب کی خبریں طلب کرتے تھے جبکہ یہ جنات بذات خود غیب کی خبروں سے محروم ہوتے ہیں۔ اس سبق میں گمراہی کے وہ اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں جن کے ذریعے شیطان لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ لیکن یہ اسباب انسان کے دائرہ اختیار کے اندر ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کے جو اعمال پوشیدہ ہوتے ہیں اللہ ان کو ظاہر فرماتے ہیں اور اس سبق کا خاتمہ بھی سابقہ سبق کی طرح ذکر آخرت پر ہوتا ہے۔

درس نمبر 195 تشریح آیات

10 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 21

لقد اتینا داؤد منا ۔۔۔۔۔ انی بما تعملون بصیر (10 – 11) ” ۔ اس ہدایت کے ساتھ کہ زرہیں بنا اور ان کے حلقے ٹھیک اندازے پر رکھ۔ (اے آل داؤد) نیک عمل کرو ، جو کچھ تم کرتے ہو ، اس کو میں دیکھ رہا ہوں “۔ حضرت داؤد اللہ کے مطیع فرمان بندے تھے۔ گزشتہ سبق کا خاتمہ اس ذکر سے ہوا تھا۔

ان فی ذالک لایۃ لکل عبد منیب ” اس میں نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہے “۔ اس اشارہ کے بعد حضرت داؤد کا قصہ لایا گیا اور اس کا آغاز اس بات سے کیا گیا جو بطور فضیلت ان کو دی گئی۔

یجبال اوبی معہ والطیر (34: 10) ” اے پہاڑو ، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو اور اے میرے پرندو تم بھی “۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بہت ہی خوبصورت آواز دی گئی تھی۔ یہ آواز اپنی خوبصورتی میں ایک معجزانہ آواز تھی۔ وہ اپنے ترانے نہایت خوش الحانی سے گاتے تھے۔ یہ ترانے اللہ کی حمد پر مشتمل ہوتے تھے۔ ان میں سے بعض قدیم میں موجود ہیں اگرچہ ہم ان کی صحت کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی آواز سنی جو رات کو قرآن پڑھتے تھے ، آپ کھڑے ہو کر سننے لگے تو آپ نے فرمایا کہ ” ان کو ایسی خوشی الحانی دی گئی ہے جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کو دی گئی تھی “۔

اس آیت میں حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اللہ کے فضل و کرم کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اس قدر شفاف ہے کہ ان کی حمد و ثنا کے نتیجے میں ان کے اور اس کائنات کے درمیان پر دے اٹھ گئے تھے۔ ان کی حقیقت ، حقیقت کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئی تھی۔ اور جس طرح وہ رب تعالیٰ کی حمد گاتے تھے۔ اس طرح کہ ان کے وجود اور کائنات کی حقیقت کے درمیان فاصلے مٹ گئے تھے۔ یہ کائنات بھی اللہ کی حدی خواں تھی اور حضرت داؤد بھی۔ یوں اللہ کی مخلوقات کی دو اقسام کے درمیان فاصلے مٹ گئے اور دنوں مخلوقات الٰہی حقیقت کے ساتھ مربوط ہوگئیں جس نے ان کے درمیان یہ پردے قائم کر رکھے تھے۔ دونوں اللہ کی تسبیح اور حمد گانے لگیں اور دونوں کا نغمہ ایک ہوگیا۔ یہ اشترا ، صفائی اور خلوص کا ایک درجہ ہے اور اس مقام اور درجے تک اللہ کے فضل و کرم کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ جب حقیقت نوعیہ کے پردے اٹھ جائیں تو اللہ کی مخلوق ایک رہ جاتی ہے اور تمام حائل پردے اٹھ جاتے ہیں ۔ کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) اللہ کی حمد و ثنا گاتے تو پہاڑ اور پرندے ان کے ساتھ گائے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی شخصیت میں جو ترنم تھا ، وہ پوری کائنات میں سرایت کرجاتا اور یوں پوری کائنات خالق کی طرف متوجہ ہو کر حمد گاتی۔ یہ وہ ۔۔۔۔ ہوتے ہیں جن کا ذوق انہیں لوگوں کو ہوتا ہے جو ان تجربات سے گزرے ہوں اور جن لوگوں نے اپنی زندگی میں ایسے لمحات پائے ہوں۔

والنالہ الحدید (34: 10) ” ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کردیا “۔ یہ اللہ کے فضل و کرم کا ایک دوسرا رنگ تھا جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر ہوا تھا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر انعامات کا جس طرح یہاں بیان ہو رہا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی خارق العادت عمل تھا۔ معاملہ یہ نہ تھا جس طرح بھٹیوں میں لوہے کو گرم کرکے ان کو پگھلاتے ہیں اور پھر ڈھلائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ دراصل ایک معجزانہ عمل تھا اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نبوت پر ایک دلیل تھا اور سیاق کلام سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہاں مخصوص فضل و کرم کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی اور عادی ٹیکنالوجی نہ تھی۔

اردو ترجمہ

اس ہدایت کے ساتھ کہ زرہیں بنا اور ان کے حلقے ٹھیک اندازے پر رکھ (اے آل داؤدؑ) نیک عمل کرو، جو کچھ تم کرتے ہو اُس کو میں دیکھ رہا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ani iAAmal sabighatin waqaddir fee alssardi waiAAmaloo salihan innee bima taAAmaloona baseerun

ان اعمل سبغت وقدر فی السرد (34: 11) ” “۔ سابغات معنی زر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) سے قبل تختیاں بنائی جاتی تھی اور تختیوں کی زر ہیں جسم کے لیے ثقیل ہوتی تھیں اور جسم کو زخمی کردیتی تھیں۔ اللہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ امر سکھایا کہ آپ گرم تاروں سے ان کو بنائیں تاکہ وہ نرم ہوں اور کپڑے کی طرح جسم ان کے اندر حرکت کرسکے۔ حکم دیا کہ اس زرہ کے حلقے تنگ کیے جائیں تاکہ اس کے اندر سے تیر نہ جائیں اور حلقے سب کے سب ایک اندازے سے بنائے جائیں اور یہ تمام کام اللہ کی جانب سے الہامی طور پر ہوا۔ ان کو مزید ہدایات یوں دی گئیں :

واعملوا صالحا انی بما تعملون بصیر (34: 11) ” “۔ اس ذرہ سازی کے کام ہی میں نہیں ، بلکہ ہر کام میں اعمال صالحہ کرو ، ہر معاملے میں اللہ کو حاضر سمجھو۔ اور یہ یقین رکھو کہ اللہ جزاء دینے والا ہے۔ اس سے کوئی چیز رہ نہ جائے گی۔ وہ ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ یہ تو تھا حضرت داؤد (علیہ السلام) کا معاملہ۔ رہے حضرت سلیمان تو ان پر بھی بہت ہی بڑا فضل وکرم ہوا تھا۔

اردو ترجمہ

اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک ہم نے اُس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے اُن میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walisulaymana alrreeha ghuduwwuha shahrun warawahuha shahrun waasalna lahu AAayna alqitri wamina aljinni man yaAAmalu bayna yadayhi biithni rabbihi waman yazigh minhum AAan amrina nuthiqhu min AAathabi alssaAAeeri

ولسلیمن الریح غدوھا شھر۔۔۔۔۔۔ وقلیل من عبادی الشکور (12 – 13) ” اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا ، اونچی عمارتیں ، تصویریں ، بڑے بڑے خوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں۔ اے آل داؤد ، عمل کرو شکر کے طریقے پر ، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر کردیا گیا تھا ، اس کے بارے میں بہت سی روایات وارد ہیں۔ ان روایات پر اسرائیلیات کا رنگ غالب ہے۔ اگرچہ یہودی کتابوں میں ان کا تذکرہ نہیں ہے۔ ان روایات میں پڑنے سے بچنا ہی بہتر ہے۔ آیت میں جو کچھ آیا ہے کہ اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر کردیا تھا اور یہ ہوا صبح کے وقت ایک علاقے کی طرف چلتی تھی ۔ ( سورة انبیاء میں ہے کہ یہ ارض مقدس کی طرف چلتی تھی) اور ایک مہینے کا فاصل طے کرتی تھی اور شام کے وقت وہ دوسرے علاقے کی طرف چلتی اور مسافت ایک مدد کا فاصلہ ہوتا ۔ دونوں سے حضرت سلیمان اپنے مفادات لیتے اور اللہ کے حکم سے استفادہ کرتے۔ اس کی تفصیلات کیا ہیں۔ وہ ہمیں معلوم نہیں۔ اور بلا تحقیق انسانوں کے پیچھے پڑنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

واسلنا لہ عین القطر (34: 12) ” ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا ایک چشمہ بہا دیا تھا “ قطر نحاس یعنی تانبے کو کہتے ہیں۔ سیاق کلام سے یہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ لوہے کو نرم کرنے کی طرح ، تانبے کا چشمہ بھی کوئی معجزانہ عمل تھا۔ یوں ہوسکتا ہے کہ اللہ نے آتش فشانی کے عمل کی طرح ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا ہو یا یوں کہ اللہ نے ان کو بطور الہام تانبا پگھلانا سکھا دیا ہو۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے فضل عظیم تھا۔

ومن الجن من یعمل بین یدیہ باذن ربہ (34: 12) ” “۔ اللہ نے معجزانہ طور پر جن ان کے تابع کر دئیے تھے اور وہ ان کی مملکت میں معجزانہ ڈیوٹیاں دیتے تھے۔ عربی میں ان تمام مخفی قوتوں کو جن کہا جاتا ہے جو نظر نہیں آتیں۔ یہ ایک مخلوق ہے جس پر اللہ نے جن کے لفظ کا اطلاق کیا ہے ہم اس مخلوق کے بارے میں وہی کچھ جانتے ہیں جو اللہ نے بتایا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ یہاں اللہ نے صرف یہی کہا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان کا ایک گروہ مسخر کردیا گیا تھا جو آپ کے تحت کام کرتا تھا اور ان میں سے جو بھی بھاگ جاتا اسے اللہ سخت سزا دیتے تھے۔

ومن یزغ ۔۔۔۔۔ عذاب السعیر (34: 12) ” “۔ جنوں کی تسخیر کی بات ختم ہونے سے قبل ہی یہ تبصرہ کیا گیا کہ جن اللہ کے اس طرح قبضے میں ہیں کہ اگر نافرمانی کریں تو اللہ انہیں آگ میں ڈال دے۔ چونکہ بعض مشرکین جنوں کی پوجا کرتے تھے اس لیے یہاں ان کی اس بےبسی کو بیان کیا گیا کہ مشرکین کی طرح ان کے معبود بھی نار جہنم میں جائیں گے بوجہ نافرمانی کے۔ جن حضرت سلیمان کیلئے یوں مسخر تھے

اردو ترجمہ

وہ اُس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں، تصویریں، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں اے آلِ داؤدؑ، عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

YaAAmaloona lahu ma yashao min mahareeba watamatheela wajifanin kaaljawabi waqudoorin rasiyatin iAAmaloo ala dawooda shukran waqaleelun min AAibadiya alshshakooru

یعملوان لہ ۔۔۔۔۔ وقدور رسیت (34: 13) ” “۔ محاریب تو ان جگہوں کو کہا جاتا ہے جہاں عبادت کی جاتی ہے۔ تماثیل تانبے اور لکڑی کی تصاویر کو کہتے ہیں۔ جوابی جابیہ کی جمع ہے وہ حوض جس میں پانی آئے۔ جن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ایسے بڑے لگن بناتے تھے جو حوضوں کی طرح تھے اور وہ ان کے لئے ایسے بڑے دیگ بناتے تھے جو اپنی بڑائی کی وجہ سے جڑے رہتے تھے۔ یہ تمام خدمات وہ ہیں جن پر جنات مامور تھے۔ یہ تمام امور اس وقت خارق عادت تھے اس لیے ان کی یہی تفسیر درست ہے۔ اگر ان کو معمولی بنا دیا جائے تو یہ فضل نہیں رہتا۔ اب آل داؤد کو مخاطب کرکے ہدایت دی جاتی ہے۔

اعملوا آل داؤد شکرا (34: 13) ” “۔ ہم نے تمہارے لیے یہ فضل و

کرم حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی شکل میں فراہم کردیا ہے ، لہٰذا اے آل داؤد تم شکر کا طریقہ اختیار کرو۔ فخر و مباہات کا طریقہ نہ اپناؤ اور عمل صالح کا طریقہ اپناؤ۔

وقلیل من عبادی الشکور (34: 13) ” “۔ یہ ایک ایسا تبصرہ ہے جو حقیقت نفس الامری قارئین کے سامنے رکھتا ہے اور یہ قرآن کریم کے تمام قصوں پر آتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ کا فضل و کرم انسانوں پر اس قدر زیادہ ہے کہ کم انسان شکر ادا کرسکتے ہیں اور بشر ہمیشہ شکر الٰہی کی بجا آوری میں قاصر ہی رہتے ہیں۔ وہ جس قدر زیادہ شکر بھی ادا کریں پھر بھی قاصر رہتے ہیں لیکن اگر وہ بالکل شکر ہی نہ کریں تو ان کا قصور بہت زیادہ ہوگا اور اگر سرکشی کریں تو۔۔۔۔۔ اللہ کے بندے نہایت ہی محدود قوت کے مالک ہیں اور ان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اللہ کی لامحدود نعمتوں پر شکر بجا لاسکیں۔ اگر اللہ کی نعمتوں کو کوئی گنے تو گن ہی نہ سکے ، یہ نعمتیں گو انسان کو اوپر سے ڈھانپ رہی ہے ، پاؤں کے نیچے سے انسان ان میں غرق ہے ، دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے انسان ان سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کی ذات ان میں ڈوبی ہوئی ہے۔ خود انشان انعامات الہیہ کا ایک نمونہ ہے۔

ایک بار ہم بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ نہایت ہی دلچسپی کے ساتھ ہمکلام تھے۔ ہر قسم کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اچانک چھوٹی بلی سو سو نمودار ہوئی۔ یہ ہمارے اردگرد گھوم رہی تھی گویا کوئی چیز تلاش کر رہی ہے لیکن وہ بلی زبان سے کچھ کہنے پر قادر نہ تھی۔ اچانک اللہ نے ہمارے دل میں ڈال دیا کہ شاید یہ پیاسی ہے۔ جب ہم نے پانی فراہم کیا تو معلوم ہوا کہ وہ پیاسی تھی ، اسے شدید پیاس لگی ہوئی تھی لیکن وہ زبان سے کچھ کہہ نہ سکتی تھی۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ انسان پر اللہ کے فضل و کرم سے ایک بڑا فضل و کرم زبان بھی ہے جس کا شکر ادا کرنا انسان کے لئے ممکن نہیں ہے۔

ایک طویل عرصے تک ہم نے سورج نہ دیکھا تھا۔ سورج کی شعاعیں صرف ایک پیسے کے برابر ہم پر چمکتی تھیں ہم اس کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور اپنے منہ ، ہاتھ اور چہرے اس سورج کے سامنے لاتے ” سر “ پیٹھ اور پاؤں کو اس سورج کی شعاعوں کی ٹکیا سے غسل دیتے۔ اور ہم سب یہ عمل باری باری کرتے۔ یہ ایک نعمت تھی جو ہمیں مل رہی تھی اور جب پہلے دن ہم سورج میں نکلے تو میں وہ خوشی بھول نہیں سکتا۔ اس وقت ہر ایک کے چہرے پر جو مسرت تھی اسکا تصور بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ ہر ایک اللہ کا گہرا شکر ادا کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا ، الحمد للہ یہ ہے سورج اور یہ تو ہمیشہ ہی چمکتا رہتا ہے۔

روزانہ یہ شعاعیں کس قدر پھیلتی ہیں اور ہم ان سے گرمی حاصل کرتے ہیں۔ اور ان شعاعوں میں غسل کرتے ہیں۔ یوں ہم اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اللہ کی نعمت میں غرق رہتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ ہم اس عظیم فیض الٰہی سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں جو مفت اور بلا حساب ہمیں فراہم کردیا گیا ہے بغیر مشقت اور بغیر کسی تکلیف کے۔

اگر ہم اسی طرز پر اللہ کی نعمتوں کو پیش کرتے رہیں تو ہماری عمر ختم ہوجائے ، ہماری پوری قوت صرف ہوجائے لیکن پھر بھی ہم ان نعمتوں میں سے کسی معتدبہ حصے کا شمار نہ کرسکیں۔ لہٰذا ہم بھی یہاں اسی مجمل اشارے پر اکتفاء کرتے جو قرآن نے کیا ہے تاکہ آگے اہل فکر و تدبر خود ہی سوچ لیں اور وہ جس قدر اللہ چاہے اس سے تاثر لیں۔ یہ تو ہے اللہ کی نعمتوں کا ایک حصہ اور وہی شخص ان کو پاسکتا ہے جو نہایت ہی توجہ ، خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اس طرف متوجہ ہو۔

اب ہم قرآنی قصے کی آخری آیات کی طرف آتے ہیں۔ یہ آخری منظر کا حصہ ہیں۔ حضرت سلیمان وفات پا جاتے ہیں اور جنات ان احکام کی تعمیل میں لگے ہوئے تھے جو انہوں نے اپنی زندگی کے دوران دئیے تھے۔ جنات کو معلوم نہیں ہے کہ حضرت سلیمان تو فوت ہوچکے ہیں۔ حضرت سلیمان جنات کے سامنے عصا پر ٹیک لگائے کھڑے ہی تھے کہ گھن نے ان کے عصا کو کھالیا اور آپ گر گئے۔ تب جنوں کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس مشقت میں مبتلا رہے۔

اردو ترجمہ

پھر جب سلیمانؑ پر ہم نے موت کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اُس گھن کے سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا اس طرح جب سلیمانؑ گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma qadayna AAalayhi almawta ma dallahum AAala mawtihi illa dabbatu alardi takulu minsaatahu falamma kharra tabayyanati aljinnu an law kanoo yaAAlamoona alghayba ma labithoo fee alAAathabi almuheeni

فلما قضینا علیہ ۔۔۔۔۔ فی العذاب المھین (13)

روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا وقت آگیا تو وہ عصا پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ جن اپنی اپنی ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے تھے اور ان کے ذمہ بہت سے شدید فرائض تھے جو ان کو کرتے تھے۔ جنوں کو ایک عرصہ تک معلوم نہ ہوا کہ حضرت سلیمان فوت ہوگئے ہیں یہاں تک کہ گھن نے ان کے عصا کو چاٹ لیا۔ یہ کیڑا جہاں ہوتا ہے۔ چھت کے شہتیروں ، دروازوں ، ستونوں کو بری طرح کھا جاتا ہے۔ پورٹ سعید کے علاقے میں لوگ گھر بناتے ہیں اور اس گھن کے ڈر سے اس میں ایک لکڑی بھی نہیں لگاتے کہ یہ کیڑا ہر قسم کی لکڑی کو چاٹ جاتا ہے۔ جب اس نے عصا کو چاٹ لیا تو وہ حضرت سلیمان کو نہ سہار سکا اور آپ زمین پر گر پڑے۔ اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ حضرت تو وفات پا چکے ہیں۔ یہاں آکر جنوں کو معلوم ہوا۔

تبینت الجن ۔۔۔۔۔۔ العذاب المھین (34: 14) ” یہ بات کھل گئی کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے “۔ یہ ہیں وہ جن جن کو عرب پوجتے ہیں اور ان کو اللہ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے تابع بنا دیا اور ان کو اپنے قریب کے غیب کا بھی علم نہ تھا۔ لیکن بعض لوگ اس قدر کم فہم ہیں کہ ان سے دور کی باتیں پوچھتے ہیں۔

حضرت داؤد (علیہ السلام) کے گھرانے کا قصہ تو ان اہل ایمان کا قصہ تھا جو اللہ کے فضل و کرم کا بےحد شکر ادا کرنے والے تھے۔ اس کے بالمقابل قوم سبا کا قصہ ہے۔ سورة نمل میں حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کے حالات گزر گئے ہیں۔ اب ان کا قصہ بعد کے ادوار سے متعلق ہے کیونکہ جن واقعات کا یہاں ذکر ہے وہ زمانہ مابعد سے متعلق ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ جب قوم سبا نے سرکشی اختیار کی تو اللہ نے ان سے اپنی نعمتیں چھین لیں اور اس کے بعد یہ لوگ اس علاقے سے منتشر ہوگئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دور میں یہ لوگ ایک بہت بڑی ترقی یافتہ مملکت کے مالک تھے اور ان کے علاقے میں ہر طرف خوشحالی اور رفاہ عامہ کے کام تھے۔ کیونکہ ہدہد نے سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے یہ رپورٹ پیش کی۔

انی وجدت امرۃ ۔۔۔۔۔ من دون اللہ ” میں نے دیکھا کہ ایک عورت ان کی ملکہ ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کا ایک عظیم تخت ہے۔ میں نے پایا کہ وہ اور اس کی قوم سورج کے پجاری ہیں ، اللہ کے سوا “۔ اس کے بعد پھر ملکہ سبا سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے مسلمان ہو کر آجاتی ہے۔ لہٰذا یہاں کے جو واقعات ہیں وہ ملکہ سبا کے زمانہ کے بعد سے متعلق ہیں۔ یہ مصائب ان پر اس وقت آئے جب انہوں نے سرکشی اختیار کرلی ۔ اور اللہ کی ناشکری کی وجہ سے اللہ نے اپنے انعامات ان سے چھین لیے۔

قصے کا آغاز اس حالت کے بیان سے ہوتا ہے جس میں وہ تھے۔ اچھے دن ، فراوانی ، ترقی اور اللہ کی نعمتیں اور ہر طرح کی پیداوار جس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان انعامات کے بدلے میں اللہ کا شکر ادا کرتے۔

429