اس صفحہ میں سورہ An-Nahl کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النحل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت نمبر 9
سیدھا راستہ یا سبیل قاصد صراط مستقیم ہے ، گویا وہ راستہ خود منزل مقصود کا قصد کرتا ہے۔ وہ منزل سے ادھر ادھر نہیں ہوتا اور سبیل جائر اس راستے کو کہتے ہیں جو منزل مقصود سے منحرف ہوتا ہے اور منزل مقصود تک نہیں پہنچتا یا منزل مقصود سے آگے بڑھ جاتا ہے۔
ولو شاء لھدکم اجمعین (16 : 9) “ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ”۔ لیکن اللہ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ انسان کو اس نے ہدایت و ضلالت کی استعداد دے دی اور انسان ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے یا ضلالت کی راہ لیتا ہے یہ اللہ نے اس کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دیا ہے۔ چناچہ انسانوں میں سے بعض تو سبیل قاصد پر چلتے ہیں اور بعض ٹیٹرھی راہ کو کرلیتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اللہ کے دائرہ مشیت کے بہرحال اندر ہی رہتے ہیں کیونکہ انسان کے لئے آزادی اور اختیار کا تعین بہرحال اللہ ہی نے کیا تھا۔
اب آیات تخلیق اور انعامات کا دوسرا حصہ۔
آیت نمبر 10 تا 11
یہ پانی آسمانوں سے اترتا ہے ، ان قوانین کے مطابق جو قدرت نے اس کائنات کے لئے وضع کئے ہیں۔ یہ قوانین اس کائنات کی حرکت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان حرکات کے نتائج خالق مدبر کے ارادے اور تدبیر کے مطابق برآمد ہوتے ہیں۔ یہ بارش جو آسمانوں سے برستی ہے اسے اللہ کے انعامات میں سے ایک انعام کہا گیا ہے۔
منہ شراب (16 : 10) “ تم اس سے پیتے ہو ”۔ اس کی بڑی خصوصیت تو آبنوشی ہے۔ اس کے بعد اس کی خصوصیت :
ومنہ شجر فیہ تسیمون (16 : 10) “ اس میں درخت پیدا ہوتے ہیں جو تمہارے جانوروں کے لئے چارہ بنتے ہیں ”۔ تمام چراگاہیں اور درختوں کے پتے اس ذیل میں آتے ہیں۔ چراگاہوں اور درختوں کا ذکر جانوروں کی مناسبت سے ہوا ، جن سے جانوروں کے چارے کا انتظام کیا گیا۔ پھر زرعی پیداوار کا ذکر ہوا جو انسان کے لئے خوراک کا کام دیتی ہے۔ مزید انسان کی خوراک کے سلسلے میں زیتون ، کھجور ، انگور وغیرہ پھلوں کی انواع و اقسام وغیرہ کا ذکر ہوا۔
ان فی ذلک لایۃ لقوم یتفکرون (16 : 11) “ اس میں بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں ”۔ کس امر میں غوروفکر ؟ اس میں کہ اللہ اس کائنات کی تدبیر کس عظیم حکمت سے کر رہا ہے۔ اس نے اس کے اندر کس قدر اٹل قوانین فطرت جاری کر دئیے ہیں جو بشر کے لئے ممد حیات ہیں۔ انسان اس کرۂ ارض یا ستارۂ کائنات موسومہ بہ زمین میں ہرگز زندہ نہ رہ سکتا ، اگر اللہ اس کائنات میں ایسے قوانین فطرت وضع نہ کرتا جو اس کے لئے ممد حیات ہیں اور اس کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ اس کی فطری خواہشات کو پورا کرنے والے ہیں۔ یہ محض حسن اتفاق نہیں ہے کہ اس کرۂ ارض پر انسان کو پیدا کردیا گیا ہو اور اس کرۂ ارض کو دوسرے کر ات سماوی کے ساتھ موجودہ نسبت میں رکھ دیا گیا ہو اور فضائی اور کلیاتی حرکات اس نظام کے مطابق محض اتفاقاً متعین ہوگئی ہوں جس طرح کہ آج ہیں اور یہ محض اتفاقاً انسان کے لئے ممد حیات بن گئی ہوں جس طرح کہ ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔
جو لوگ غوروفکر کی صلاحیت رکھتے ہیں ، وہ اللہ کے حسن تدبیر اور حکمت تدبیر کو سمجھتے ہیں۔ مدبرین کرۂ ارض کی خصوصیات روئیدگی ، اس کے پھل پھول اور ہواؤں اور بارشوں کے نظام کو اللہ کے نوامیس فطرت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے کہ ایک خالق حکیم ہے جس نے یہ سب کچھ کیا۔ وہ وحدہ لا شریک ہے۔ اس کا ارادہ ایک ہی جیسا ہے ، اور اس کے قوانین کے اثرات وثمرات یکساں ہیں۔ رہے غافل تو وہ ان چیزوں کو صبح و شام دیکھتے ہیں ، گرمیوں اور سردیوں میں دیکھتے ہیں ، لیکن ان کے مدارک فہم و ادراک سوئے رہتے ہیں۔ ان کے قوائے اخذو ادراک اور ان کا ضمیر و شعور اس حکیم کی تلاش میں نہیں نکلتا جس نے اس کائنات بوقلموں کو پیدا کیا۔ وہ نہیں سوچتے کہ اس عجیب و غریب نظام کا موجد کون ہے۔
اب آیات دلائل کائنات کا تیسرا گروپ۔
آیت نمبر 12
تدبیر مخلوقات اور انسان پر اس کے انعامات کا ایک مظہر گردش لیل و نہار ہے۔ شمس و قمر کی گردش اور سیاروں اور ستاروں کا یہ نظام بھی انسان کے لئے ممد حیات ہے۔ یہ تمام مظاہر انسانوں کی ڈیوٹی میں لگے ہوئے ہیں ، اپنے یوم تخلیق سے یہ خدمت انسان پر مامور ہیں۔ گردش لیل ونہار تو حیات انسان میں فیصلہ کن اثر رکھتی ہے۔ ذرا سوچو کہ اگر دن بھی قائم و دائم ہوجائے اور رات نہ آئے یا رات ہی قائم رہ جائے اور دن نہ آئے تو ؟ پہلی صورت میں زمین جل جائے اور دوسری صورت میں زمین جم جائے۔
شمس وقمر اور اس کرۂ ارض پر نظام حیات سے اس کا تعلق بالکل واضح ہے۔ شمس و قمر کی گردش سے انسانی زندگی براہ راست متعلق ہے۔
والنجوم مسخرت بامرہ ( 16 : 12) ” سب ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں “۔ یہ سب انسان اور غیر انسانی مخلوقات کے لئے مفید اور ممد حیات ہیں جن کی افادیت کا حقیقی علم صرف اللہ کو ہے “۔ یہ باتیں اللہ کی حکمت و تدبیر کا ایک حصہ ہیں اور اللہ کے تمام قوانین مدبرہ باہم ہم آہنگ ہیں ، ان قوانین مدبرہ اور حکمت تدبیر کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے جو غوروفکر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مظاہر فطرت کے پیچھے ایک قوت مدبرہ کارفرما ہے۔
ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون (16 : 12) ” اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں “۔
اب آیات و دلائل کائنات کا چوتھا گروپ :
آیت نمبر 13
اللہ نے زمین کو پیدا کیا اور اس کے اندر قسم قسم کی معدنیات پیدا کیں ، رنگ برنگ کے پتھر اور دوسری چیزیں جن پر انسانوں کی زندگی موقوف ہے لیکن اللہ نے ان ضروریات حیات کے ایسے ذخیرے پیدا کئے ہیں جو نہ ختم ہونے والے ہیں۔ پھر نئی نئی دریافتیں جو انسان اس زمین میں کر رہا ہے اور زمین کے اندر پوشیدہ خزانے اور ذرائع قوت دریافت کر رہا ہے ، جوں جوں اس کی حاجات و ضروریات بڑھتی ہے وہ دریافتیں کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک خزانہ ختم ہوتا ہے تو قوت کے کئی اور خزانے دریافت ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا رزق ہے جو اس نے بندوں کے لئے ذخیرہ کر رکھا ہے۔
ان فی ذلک لایۃ لقوم یذکرون (16 : 13) ” ان میں ضرور نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سبق حاصل کرتے ہیں “۔ ایسے لوگ اس بات کو نہیں بھولتے کہ دست قدرت نے یہ خزانے ہمارے لیے ودیعت کئے ہیں۔
اب آیات دلائل کائنات کا پانچواں گروپ آتا ہے۔ جو ان مخلوقات متنوعہ کے بارے میں ہے جن سے تلخ سمندر بھرا پڑا ہے۔ سمندر کا پانی پینے کے قابل تو نہیں ہے لیکن انسان کے لئے کئی پہلوؤں سے مفید ہے۔
آیت نمبر 14
سمندروں کی متنوع حیات بھی انسانی زندگی کے لئے مفید و ممد ہے۔ سمندروں میں انسانی زندگی کی دلچسپیوں کے دوسرے سامان بھی موجود ہیں۔ مچھلیوں اور دوسرے حیوانات بحری انسان کے لئے بہترین غذا ہیں۔ نیز سمندر کے موتی ، مونگے اور سیپ انسان کے لئے بطور زیور آج کے دور جدید میں بھی کام دیتے ہیں۔ یہاں کشتی کا فائدہ صرف سفر ہی نہیں بتایا گیا بلکہ سمندروں میں کشتیوں کے چلنے کے منظر کے حسن کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
وتری الفلک مواخر فیہ (16 : 14) ” تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے چلتی ہے “۔ لفظ تری سے کشتی ، پانی اور کشتی کی روانی کے خوبصورت منظر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سمندری جہاز پانی کو چیرتے ہوئے جا رہے ہوتے ہیں۔ اس فقرے سے ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام اس جہان کے جمالیاتی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا۔ کائنات کی ہر چیز کو افادۂ حیات کے علاوہ انسان کے لئے حسین بھی بنایا گیا ہے۔
پھر قرآن مجید اس منظر سے انسان کو سبق سکھاتا ہے کہ یہ تمہارے لیے مفید بھی ہے ، تمہارے سفر و تجارت کا ذریعہ بھی ، اور یہ منظر تمہاری آنکھوں کے لئے خوبصورت بھی ہے لیکن ان تمام چیزوں کا تقاضا یہ بھی ہے کہ تم اللہ کا شکر بجالاؤ۔
ولتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون (16 : 14) ” یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو “۔