اس صفحہ میں سورہ Al-Mursalaat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المرسلات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
الم نخلقکم ............................ للمکذبین
اس سے مراد جنین کا طویل اور عجیب سفر ہے۔ اس طویل نامیاتی سفر کو قرآن کریم چند جھلکیوں کے اندر بیان کردیتا ہے۔ ایک حقیر پانی کی بوند ، پھر قرار مکین اور محفوظ جگہ میں رکھنا ، ایک متعین وقت تک ایک واضح نظام اور اندازے کے مطابق ، اور اس نظام اور اندازے کے بارے میں یہ تبصرہ۔
فقدرنا .................... القدرون (23:77) ” ہم قادر تھے پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں “۔ یہ قدرت اور یہ اندازہ اس قدر دقیق ہے کہ اس کا کوئی مرحلہ اور کوئی اندازہ غلط نہیں ہوتا۔ اور اس پر آخری تبصرہ۔
ویل ........................ للمکذبین (24:77) ” تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے “۔
اس کے بعد اس زمین کا مطالعاتی سفر ، یہ سفر انسانی زندگی کے بارے میں ہے۔ اور زمین کے اندر اس زندگی کے لئے تمام ضروریات کا مقرر کرنا اور اس کا مطالعہ۔
الم نجعل ............................ للمکذبین
یعنی زمین کو ہم نے ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے دامن میں زندہ اور مردہ سب چیزوں کو لپیٹ کر رکھتی ہے اور اس میں ہم نے بلند وبالا پہاڑ جما دیئے ہیں جو ہبت اونچے اور جمے ہوئے ہیں۔ اور ان کے اوپر ہر وقت بادل چھائے رہتے ہیں اور ان سے میٹھا پانی بہتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کی عظیم قدرت اور ٹھیک ٹھیک اندازوں کا مظہر ہے۔ اور گہری حکمت پر دلالت کرتا ہے ، لہٰذا مکذبین کے لئے کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ جھٹلائیں۔
اب ان مشاہد قدرت اور گہرے حکیمانہ قوانین فطرت کے پیش کرنے اور انسانی شعور کو تاثرات اور احساسات سے بھر دینے کے بعد اب روئے سخن حساب و کتاب اور روز جزاء کی طرف پھرجاتا ہے۔ ایک نہایت ہی مرعوب کرنے والا حکم ہم سنتے ہیں جس میں مکذبین سے کہا جاتا ہے کہ اٹھو اور راستہ لو اس عذاب کا جس کا تم انکار کرتے تھے۔ یہ حکم نہایت ہی سرزنش اور تکلیف دہ انداز میں دیا جاتا ہے۔
یعنی جاﺅ، اب تم آزادہو ، قیامت کے طویل دن کے فیصلے اب ہوچکے ، لیکن یہ آزادی اب دائمی قید ہے ، جہنم کے اندر۔
انطلقو .................... بہ تکذبون (29:77) ” چلو اب اسی چیز کی طرف جسے تم جھٹلایا کرتے تھے “۔ یہ چیز اب تمہارے سامنے حاضر موجود ہے ۔ وہ کیا ہے۔
انطلقوا .................... شعب (30:77) ” چلو اس سائے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے “۔ یہ جہنم کا دھواں ہے۔ جس کی شاخیں اور بڑھ کر تین حصوں میں پھیل گئی ہیں۔ لیکن یہ بہرحال آگ کے شعلے سے زیادہ بہتر ہے لیکن
لا ضلیل ................ الھب (31:77) ” یہ ٹھنڈک پہنچانے والا نہ آگ کے شعلے سے بچانے والا “۔ یہ بظاہر ساشہ ہے لیکن اس میں دم گھٹتا ہے ، سخت گرم ہے اور آگ کے شعلے کی طرح ہے اور اس کو سایہ محض مزاح کے طور پر کہا گیا ہے۔ بلکہ یوں ان کے دلوں کے اندر تمنا پیدا کی گئی ہے کہ کاش کوئی سایہ ہو جس میں وہ پناہ لے سکیں۔
چلو ، لیکن تم جانتے ہو کہ تمہیں اب کہاں چلنا ہے اور جو فیصلہ ہوا ہے اسکی روشنی میں تم اپنی منزل کو جانتے ہوں لہٰذا تصریح وتشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جہاں تم جاﺅ گے ” وہ “ کیا کررہی ہے۔
انھا ترمی .................... صفر (33:77) ” وہ محل جیسی بڑی چنگاریاں پھینکے گی گویا کہ وہ زرد اونٹ ہیں “۔ شرارے یوں نکل رہے ہوں گے کہ گویا بڑے بڑے پتھروں کے محلات آگے پیچھے آکر گر رہے ہیں۔ (عرب پتھرون کے بنے ہوئے مکانات کو محلات کہتے تھے۔ ضروری نہیں ہے کہ مراد آج کے دیوہیکل محلات ہوں) اور یہ شرارے آگے پیچھے یوں لگ رہے ہوں گے جیسے زرد اونٹ۔ یہ تو ہوں گے اس آگ کے شرارے۔ اب آگ کیسی ہوگی ، اللہ ہی اس سے بچائے۔ اس خوفناک حالت میں مکرر تبصرہ آرہا ہے۔
ویل ........................ للمکذبین (34:77) تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے “۔
یہ خوفناک خاموشی بتارہی ہوگی کہ کس قدر خوف میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ کس قدر دباﺅ ہے ان پر ، کس قدر ہیبت ناک عاجزی ہے ، نہ بات کرسکتے ہیں اور نہ عذرات پیش کرسکتے ہیں۔ کیونکہ بات اور عذرات کا وقت ہی گزر گیا۔ آج تو۔
ویل یومئذ للمکذبین (37:77) ” تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے “۔ بعض دوسرے مناظر میں یہ ذکر ہوا ہے کہ وہ حسرت اور افسوس کریں گے ، قسمیں اٹھائیں گے ، معذرتیں پیش کریں گے لیکن اب ان پر تو طویل دن آپڑا ہے۔ اس میں کبھی وہ مہیب سکوت میں ہوں گے اور کبھی چلاتے بھی رہیں گے ، جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا۔ البتہ اس سورت کی فضا کی مناسبت سے ان کی حالت سکوت اور حالت دباﺅ کو لایا گیا ہے۔
آج تو فیصلے کا دن ہے۔ عذرات پیش کرنے کا دن نہیں ہے۔ آج تو اولیں اور آخریں جمع ہیں۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے۔ اگر کوئی تدبیر خلاصی کی ہے تو چلو آزمالو ۔ اگر تم کوئی تدبیر یا کوئی طاقت وقدرت رکھتے ہو ؟ لیکن اللہ کے مقابلے میں تدبیر کہاں اور طاقت کہاں ؟ بس خاموشی ہی خاموشی ہے۔ اور درد ناک سرزنش۔
ویل .................... للمکذبین (40:77) ” تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے “۔
یہ لوگ چھاﺅں میں ہوں گے ، اب یہ حقیقی چھاﺅں ہے ، یہ دھوئیں کی چھاﺅں نہیں ہے۔ جس کے تین شعبے ہیں۔ نہ ٹھنڈی ہے اور نہ آگ کے شعلوں سے بچانے والی ہے۔ یہ لوگ چشموں میں ہوں گے ، گلہ گھونٹنے والے دھوئیں میں نہیں۔
وفوا کہ مما یشتھون (43:77) ” ایسے پھلوں میں جو وہ چاہیں گے “۔ ان مادی انعامات اور سہولیات کے علاوہ ان کو روحانی انعام بھی دیا جائے گا کہ علی رﺅس الاشہاد کہا جائے گا۔ نہایت ہی اعزاز کے ساتھ۔
کلوا واشربوا ........................ المحسنین (44:77) ” کھاﺅ اور پیو مزے سے اپنے ان اعمان کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں “۔
یہ ایک عظیم اعزاز ہے کہ ان کے بارے میں شاہی نوٹیفیکیشن جاری ہوگا۔ اور آخری تبصرہ۔
ویل یومئذ للمکذبین (45:77) ” تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے “۔ اور یہ تبصرہ ان انعامات کے بالمقابل ہے۔
یہاں ، سیاق کلام اب سرسری اشارہ بلکہ ایک جھلک دکھائی جاتی ہے۔ اس دنیا کی زندگی کے حالات کی جسے اب قیامت کے دن لپیٹ لیا گیا ہے۔ ہم اسکرین پر اس کا نقشہ اور ایک جھلک پھر دیکھتے ہیں ، جس میں مکذبین کی ذلت اور خواری دکھائی جاتی ہے۔
یوں گویا ہم آخرت کے میدان میں دنیا کی فلم دیکھ رہے ہیں اور یہ جھلک ہمیں صرف دو فقروں میں دکھائی جاتی ہے۔ گویا ہم اپنی آنکھوں سے یہ جھلکیاں دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ دنیا وآخرت میں طویل عرصے ہیں ، آخرت میں یہ خطاب متقین کو تھا ، جبکہ دنیا میں یہ مجرمین کے لئے ہے اور زبان حال سے یہ کہا جارہا ہے کہ دیکھو کس قدر فرق ہوگا دونوں کے حالات میں ۔ کہ ایک گروہ اس مختصر زمانے میں خوب کھاپی رہا ہے اور طویل زمانوں کے لئے پھر محروم ہوگا۔
ویل یومئذ للمکذبین (47:77) ” آج قیامت میں جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہے “۔ اور قیامت کے بعد زمانے ختم نہ ہوں گے۔
اب تعجب کا اظہار کیا جارہا ہے مخاطبین قرآن پر کہ انہیں ایسی دعوت دی جارہی ہے اور یہ قبول نہ کرتے۔
حالانکہ وہ دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا اور ڈرایا جارہا ہے۔ اگر یہ اس انداز کلام سے متاثر نہیں ہوتے جس سے پہاڑ بھی ہل جاتے ہیں اور جمادات کے اندر بھونچال برپا ہوجاتا ہے۔ تو اس کے بعد ان پر کوئی کلام کار گر نہیں ہوسکتا۔ گویا یہ لوگ نہایت شقی ، بدبخت اور برے انجام تک پہنچنے والے ہیں۔ اور ان کی قسمت میں ہلاکت لکھی ہوئی ہے۔ اور ان پر کلام نرم ونازک بےاثر ہے۔
یہ پوری سورت اپنے مضامین ، اپنے انداز تعبیر ، اپنے الفاظ کے ترنم ، اپنے خوفناک مشاہد ومناظر اور اپنے چبھنے والے تیز اشارات کی وجہ سے اس قدر موثر ہے کہ کوئی دل اس کے مقابلے میں اپنی جگہ ٹھہر نہیں سکتا۔ کوئی وجود متاثر ہوئے بغیر ہیں رہ سکتا۔ سخت سے سخت دل بھی پگھل جاتا ہے۔ لیکن ان لوگوں پر اگر یہ سورت بھی کارگر نہیں تو پھر ان کا خدا ہی حافظ !
سبحان اللہ ، کیا کلام ہے یہ قرآن ! کس قدر مضبوط گرفت ہے اس کی۔ کس قدر قوت ہے اس میں ! !
٭٭٭٭٭