سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 30 (آیات 191 سے 196 تک)

وَٱقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَٱلْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ ٱلْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَٰتِلُوهُمْ عِندَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَٰتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَٰتَلُوكُمْ فَٱقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَآءُ ٱلْكَٰفِرِينَ فَإِنِ ٱنتَهَوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَقَٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ ٱنتَهَوْا۟ فَلَا عُدْوَٰنَ إِلَّا عَلَى ٱلظَّٰلِمِينَ ٱلشَّهْرُ ٱلْحَرَامُ بِٱلشَّهْرِ ٱلْحَرَامِ وَٱلْحُرُمَٰتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَٱعْتَدُوا۟ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ وَأَنفِقُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلْقُوا۟ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى ٱلتَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوٓا۟ ۛ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ وَأَتِمُّوا۟ ٱلْحَجَّ وَٱلْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا۟ رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ ٱلْهَدْىُ مَحِلَّهُۥ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِۦٓ أَذًى مِّن رَّأْسِهِۦ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَآ أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَٰثَةِ أَيَّامٍ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُۥ حَاضِرِى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
30

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا اُن سے مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں، تم بھی نہ لڑو، مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چُوکیں، تو تم بھی بے تکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waoqtuloohum haythu thaqiftumoohum waakhrijoohum min haythu akhrajookum waalfitnatu ashaddu mina alqatli wala tuqatiloohum AAinda almasjidi alharami hatta yuqatilookum feehi fain qatalookum faoqtuloohum kathalika jazao alkafireena

مسلمانوں کو صرف ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی تاکید کی جاتی ہے ، جنہوں نے ان کے ساتھ جنگ کی ۔ محض دینی نظریات کی وجہ سے ان پر تشدد کیا ۔ انہیں ان کے گھروں سے نکالا۔ حکم دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ وہ جس حال میں بھی ہوں ، مارے جائیں ، جہاں بھی ہوں مارے جائیں ۔ ماسوائے مسجد حرام کے ، ہاں اگر مسجد حرام میں بھی کفار جنگ کا آغاز کردیں تو پھر مسلمانوں کے لئے بھی جائز ہوگا ، سوائے اس کے کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں ۔ اس صورت میں چاہے انہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا ہو۔ چاہے ان پر ظلم کیا اور تشدد کا ارتکاب کیا ہو ، مسلمانوں کو یہ حکم ہے وہ ہاتھ روک لیں : وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (191) فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

” اور ان سے لڑو جہاں بھی ان سے تمہارا مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے ، اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں ، تم بھی نہ لڑو۔ مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیں ، تو تم بھی بےتکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے ۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “

محض دین ، مذہب یا نظریہ کے اختلاف کی وجہ سے تشدد کرنا دراصل ، حیات انسانی کی مقدس قدر (Value) پر دست درازی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اسے قتل سے بھی زیادہ برا قرار دیا ہے ۔ اسے جان لینے اور زندگی ختم کردینے سے بھی زیادہ گھناؤنا جرم قرار دیا ہے ۔ یہ فتنہ جو قتل سے بھی شدید تر ہے کیا ہے ؟ محض ہراساں کرنا بھی اس میں آتا ہے ۔ عملاً تشدد بھی اس میں شامل ہے ۔ ایسے حالات پیدا کردینا بھی فتنہ ہے ، جن میں لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہو ، انہیں اللہ کے مقرر کردہ نظام زندگی سے دور کرنا بھی فتنہ ہے ۔ مسلمانوں کے لئے کفر کو مرغوب بنانا اور اسلام سے انہیں دور کرنا ، ان کے اخلاق کو خراب کرنا یہ سب فتنے کی تعریف میں داخل ہیں ۔ اس فتنے کی واضح ترین مثال اشتراکی نظام ہے ۔ جہاں دینی تعلیم ممنوع اور الحاد کی تعلیم لازمی ہوتی ہے ۔ ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو زنا ، شراب جیسے محرمات کو جائز قرار دیتے ہیں اور نشر و اشاعت کے مختلف ذرائع سے ان چیزوں کو انسانوں کے لئے مرغوب بناتے ہیں ۔ جب کہ اسلامی نظام زندگی کی ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں ۔ اسے مسخ کرتے ہیں اور جو اجتماعی حالات میں یہ نظام پیدا کردیتا ہے ان کا اتباع وہاں کے عوام الناس کے لئے ایک حتمی فریضہ قرار پاتا ہے۔

آزادی رائے کے بارے میں یہ نقطہ نظر انسانی زندگی میں آزادی رائے کا یہ مقام بلند اسی نظام کے عین مطابق ہے ۔ وجود کائنات کی جو غرض وغایت اسلام نے پیش کی ہے ۔ نہ نقطہ نظر اس کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ اسلام کے مطابق تخلیق کائنات کی غرض وغایت بندگی ہے ۔ بندگی ہر اس اچھے کا کو کہا جاتا ہے جس میں کرنے والے کے پیش نظر اللہ کی رضامندی ہو ، اور اللہ کی بندگی تب ہی ممکن ہے جب انسان تمام دوسری بندگیوں سے آزاد ہو ، یہی وجہ ہے کہ انسان کی بلند ترین قدر (Value) اس کی آزادی ہے ۔ بالخصوص آزادی رائے ۔ اب جو شخص کسی کی آزادی چھین لیتا ہے ، محض نظریہ کی وجہ سے تشدد کرتا ہے ، براہ راست یا بالواسطہ ، وہ شخص اس شخص کے قتل سے بھی اس پر زیادہ ظلم کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کے مقابلہ میں مدافعت ہر طرح جائز ہے ، اگرچہ اس کے لئے جنگ کرنی پڑے ۔ قرآن کریم نے (فاقتلوھم) جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ (واقتلوھم) انہیں قتل کردینے کا حکم دیا ہے۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ” اور جہاں بھی ایسے لوگ پائے جائیں انہیں قتل کردینے کا حکم دیا ہے۔ جہاں بھی پائے جائیں ۔ جس حال میں بھی وہ ہوں ۔ جس ذریعے سے بھی تم نے ایسے لوگوں کو مار سکو ، ہاں اس سلسلے میں تم صرف اسلامی آداب جنگ کا لحاظ رکھنا ہوگا ، کسی کو مثلہ نہ کرنا کسی کو آگ میں جلانا ۔

مسجد حرام دارالامن ہے ۔ اس لئے اس کے قریب نہ لڑو ۔ اس کے بارے میں اللہ نے اپنے دوست ابراہیم کی دعا قبول کی تھی ۔ اسے مرکز عوام قرار دیا گیا تھا۔ اسے دارالامان گردانا گیا تھا ۔ لہٰذا حکم ہوا مسجد حرام کے قریب کسی کے ساتھ نہ لڑو ، الا یہ کہ کفار کا کوئی گروہ یہاں تمہارے ساتھ لڑنے لگے ، لیکن جنگ کا آغاز تم نہ کرو۔ اگر وہ آغاز کردیں اور مسجد حرام کا پاس نہ رکھیں تو پھر تمہارے ہاتھ بھی بندھے ہوئے نہیں ہیں ۔ یہ لوگ عوام کو ان کے دین کی وجہ سے ستاتے ہیں ۔ مسجد حرام کا احترام نہیں ، لہٰذا یہی ان کے لئے مناسب سزا ہے ۔ ارشاد ہوا !

فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” پھر اگر وہ باز آجائیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ “ صرف باز آنا ہی کافی نہیں ۔ مسلمانوں پر تشدد سے باز آجائیں ۔ جنگ سے باز آجائیں ، کفر سے بھی باز آجائیں تب وہ معافی اور مہربانی کے مستحق ہوں گے ۔ صرف جنگ سے باز آنے کے لئے تو یہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان حالت امن کا اعلان کردیں۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کفار اللہ کی مغفرت اور رحمت کے بھی مستحق ہوجائیں ۔ ہاں یہاں مغفرت اور رحمت کی طرف اشارے سے مراد یہ ہے کہ کفار کو ایمان کی ترغیب دی جائے تاکہ کفر اور تشدد کے چھوڑ دینے کے بعد وہ اللہ کی مغفرت اور اس کی رحمت کے مستحق بھی ہوجائیں۔

اسلام کی شان عظمت اور شان کریمی تو دیکھئے ۔ کفار اور ظالموں کو بھی اشارہ کیا جاتا ہے ، کہ آؤ مغفرت و رحمت کی بارش ہورہی ہے ۔ آؤ تمہارے سابقہ گناہ معاف ، تشدد اور ظلم کا قصاص معاف ، دیت معاف ، اسلامی صفوں میں مؤمنانہ شان سے داخل ہوجاؤ ، تو سب کچھ معاف۔ تم نے قتل کیا تم نے تشدد کیا ، تم نے کیا کچھ نہ کیا ، مگر سب معاف اور مغفرت و رحمت کی بارش ۔

اردو ترجمہ

پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faini intahaw fainna Allaha ghafoorun raheemun

اردو ترجمہ

تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqatiloohum hatta la takoona fitnatun wayakoona alddeenu lillahi faini intahaw fala AAudwana illa AAala alththalimeena

اسلام میں جنگ کی غرض وغایت ہی یہ ہے کہ لوگوں کے تشدد کے ذریعے ، دین اسلام سے نہ روکا جائے ۔ قوت کے ذریعے ، یا قوت سے بھی زیادہ مؤثر ہتھیار یعنی معاشرتی حالات کے ذریعے عوام کو اسلام سے نہ پھیرا جائے ۔ ان کے اخلاق کو خراب کرنے والے ، انہیں گمراہ کرنے والے اور انہیں فریب دینے والے ذرائع استعمال نہ کئے جائیں ۔ نیز یہ کہ اسلامی نظام کو وقعت حاصل ہوا اور اس کا پلڑا بھاری ہو ، اس کے دشمن ہیبت زدہ ہوں ۔ ان کو یہ جراءت نہ ہو کہ وہ اہل ایمان پر تشدد کریں یا انہیں اذیت دیں ۔ نیز عام لوگوں کے لئے اب کوئی خوف محسوس نہ ہو کہ اگر انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان پر تشدد ہوگا یا انہیں کوئی اذیت دی جائے گی ۔ ایک اسلامی جماعت کا یہ مستقل فریضہ ہے کہ وہ اس وقت تک برسرپیکار ہے جب تک ظالمانہ اور جابرانہ قوتیں ختم نہیں ہوجاتیں ۔ اور جب تک وقار اور غلبہ صرف اسلام کو حاصل نہیں ہوجاتا۔ اور کوئی فتنہ باقی نہ رہے ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلا عُدْوَانَ إِلا عَلَى الظَّالِمِينَ ” تم ان سے لڑتے رہو ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے ۔ پھر اگر وہ باز آجائیں ، تو پھر سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی جائز نہیں ہے۔ “

ایک وقت تھا ، جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو روئے سخن جزیرۃ العرب میں مشرکین مکہ کی طرف تھا ، کیونکہ اس وقت مشرکین مکہ ہی تشدد پر اترے ہوئے تھے ۔ جو یہ نہ مانتے تھے کہ نظام زندگی کا سرچشمہ صرف اللہ ہی ہے ۔ آیت کا مفہوم عام ہے ۔ ہر وقت نافذ ہے اور ہامرے لئے بھی راہ ہدایت ہے ، اس لئے کہ جہاد امت مسلمہ کے لئے قیامت تک ایک فریضہ رہے گا ، کیونکہ ہر دور میں ایسی قوتیں موجود رہتی ہیں جو لوگوں کو دین سے روکتی ہیں ۔ وہ ان کے کانوں تک دعوت اسلامی کی پہنچنے کے تمام ذرائع مسدود کرتی ہیں اور پھر بھی اگر کوئی کسی طرح دعوت اسلامی پر مطمئن ہوجائے تو یہ قوتیں عوام کو روکتی ہیں کہ وہ اسلام کو قبول کریں اور اسلام پر امن وامان کی حالت میں عمل پیرا ہوں چناچہ ہر وقت اسلامی جماعت کا یہ مستقل فریضہ ہے کہ وہ ایسی طاقتوں کو پاش پاش کردے اور لوگوں کو ان کے جبروتشدد سے آزاد کرائے ۔ وہ آزادی سے سنیں چاہے قبول کریں یا نہ کریں ۔ تشدد اور فتنے کو قتل سے بھی برا قرار دینے کے بعد ، بار بار اس کا تکرار بھی خالی از حکمت نہیں ہے۔ یہ تکرار اس لئے جاری ہے کہ اس معاملے کو اسلام میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ یہاں اسلام ایک عظیم اصول کی بنیاد رکھ رہا ہے ، انسان بدل رہا ہے۔ یہ انسان کے لئے درحقیقت ایک نیاجنم ہے ۔ یہ نئی زندگی انسان کو اسلامی نظام سے مل رہی ہے ۔ اب انسان کی قدر و قیمت اس کی حیوانیت اور اس کی جسمانی زندگی سے نہیں ۔ بلکہ اس کی قدروقیمت کا تعین اس کے عقیدے اور نظریہ سے ہورہا ہے ۔ ایک طرف انسان کی زندگی ہے ، دوسری طرف انسان کا نظریہ اور اس کا عقیدہ ہے ۔ عقیدے کا پلڑا بھاری قرار دیا جارہا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انسانیت کے دشمن صرف وہ لوگ ہیں جو دوسرے انسانوں پر محض اختلاف عقیدہ ، اختلاف نظریہ کی وجہ سے ظلم و تشدد کریں ۔ وہ لوگ جو ایک مسلمان پر محض اس لئے ظلم کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے ۔ وہ اسے تشدد کے ذریعہ اسلام سے ، پھیرنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ انسانیت کو ایک ایسے تصور سے محروم کرتے ہیں جو خیر ہی خیر ہے ۔ وہ لوگوں کو اللہ کے عطاکردہ نظام زندگی کی طرف آنے نہیں دیتے ۔ اس لئے ان کے ساتھ جنگ کرتے رہنا اسلامی جماعت کا فرض اولین ہے ۔ اس کا فرض ہے کہ ایسے لوگ جہان بھی ملیں انہیں ختم کردے تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے۔

یہ عظیم اصول ، جسے اسلام نے اپنے ابتدائی ایام میں وضع کیا تھا۔ اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ اب اسلامی نظریہ حیات اور اس کے حاملین پر قسم قسم کے تشدد ہورہے ہیں ۔ حاملین اسلام کو ، فرداً فرداً بھی اور بحیثیت جماعت بھی ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اور جو لوگ بھی ظلم وتشدد کا محض اس لئے شکار بنائے جارہے ہیں کہ انہوں نے ایک نظریہ حیات کو اپنالیا ہے یا انہوں نے ایک پسندیدہ نظام زندگی کو اپنا رکاے ہے ، چاہے جس قسم کا تشدد بھی ہو ، ان لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ، ان کے ساتھ لڑیں ۔ ماریں یا مارے جائیں اور ہر حال میں اس علم کو بلند رکھیں ۔ آزادی رائے کے علم کو جسے سب سے پہلے اسلام نے بلند کیا جس کے ذریعے بالکل ایک نیا اور آزاد انسان وجود میں آیا۔

جب بھی ظالم اپنے ظلم سے باز آجائیں ۔ وہ انسان اور اس کے خدا کے درمیان مداخلت چھوڑ دیں تو ان پر کوئی زیادتی یعنی ان کے خلاف کوئی مدافعت نہ ہوگی ۔ کیونکہ جہاد ہمیشہ صرف ظلم اور ظالم کے خلاف ہوتا ہے ۔ ارشاد ہوا پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا کسی اور کے خلاف کوئی مدافعت نہ ہوگی۔ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلا عُدْوَانَ إِلا عَلَى الظَّالِمِينَ

یہاں ظالموں کے خلاف مدافعت اور ان کے مقابلے کی تعبیر لفظ عدوان سے کی گئی ہے ۔ محض لفظی مشکلات کی بناپر ورنہ ظالموں کے خلاف جو کاروائی ہے ، وہ عدل ہے ۔ انصاف ہے اور مظلوموں کو ظلم سے بچانا ہے ، ظلم کو روکنا ہے ، کوئی زیادتی نہیں ہے ۔

اردو ترجمہ

ماہ حرام کا بدلہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا لہٰذا جوتم پر دست درازی کرے، تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ انہیں لوگوں کے ساتھ ہے، جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alshshahru alharamu bialshshahri alharami waalhurumatu qisasun famani iAAtada AAalaykum faiAAtadoo AAalayhi bimithli ma iAAtada AAalaykum waittaqoo Allaha waiAAlamoo anna Allaha maAAa almuttaqeena

مسجد حرام کے قریب لنے کے احکام بیان کرنے کے بعد اب حرام مہینوں میں جنگ کے احکام بیان کئے جاتے ہیں ۔ الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ” ماہ حرام کا بدلہ حرام ہی ہے ۔ اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا ، لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے ، تم بھی اسی طرح اس دست درازی کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ “

جو شخص محرم کے مہینے کی حرمت کا کوئی پاس نہیں رکھتا اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ پابندیوں سے اٹھائے جو ان حرام مہینوں کے اندر عائد ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام معاملات میں صرف ایک مقام مسجد حرام کو دارلامن قرار دیا ہے اور زمانوں میں سے حرام مہینوں کو زمانہ امن قرار دیا ہے ۔ اس مکان اور اس زمان میں کسی کا خون بہایا نہیں جاسکتا ۔ ہر کسی کی جان ومال محفوظ ہوں گے ۔ کسی بھی زندہ چیز کو دکھ نہ دیا جائے گا ۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ خود تو امن کے اس شاداب باغیچے میں عیش کرے اور مسلمانوں کو اس سے محروم کردے ۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ خود اسے بھی اس سے محروم کردیاجائے ۔ جو دوسروں کی آبروریزی کرتا ہے ۔ خود اس کی آبروہ محفوظ نہ ہوگی کیونکہ الحرمات قصاص تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کا ہوگا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو تنبیہ کردی گئی کہ ظلم کا مقابلہ کرنے اور ظلمن کا بدلہ لینے میں ، وہ اپنے حدود سے آگے نہ بڑھیں ۔ کیونکہ ان کے مقدس مقامات اور ان مقدس و محرم مہینوں کے اندر محض ضرورت کے تحت تمہیں جنگ کی اجازت دی جارہی ہے ۔

فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ ” لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو۔ “ لیکن اس معاملہ میں غلو اور زیادتی سے کام نہ لو ۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے قدر انتقام مقرر نہیں کی ۔ مقدار ان کی خدا خوفی پر چھوڑ دی گئی ہے ۔ جب کہ اوپر ہم کہہ آئے ہیں کہ مسلمان اس بات سے خوب واقف تھے کہ ان کی نصرت اور امداد صرف اللہ تعالیٰ کررہا ہے۔ اس لئے انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں ۔ یہی وہ حد ہے جس پر انہیں رکنا چاہئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا خوفی ہی امن کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔

جہاد میں افراد کی طرح مال کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاد سے پہلے ایک مجاہد کو سامان جنگ کی ضرورت ہوگی ، مثلاً سواری ، اور دوسرا سامان جنگ ، رسول ﷺ کے دور میں فوجیوں اور افسروں کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں ۔ وہ لوگ اسلام کے لئے جس طرح جان قربان کرتے تھے ، اس طرح اپنی دولت بھی راہ اللہ میں خرچ کرتے تھے ۔ اگر اجتماعی نظم ، نظریہ حیات پر استوار کیا جائے تو یہی صورت ہوتی ہے ۔ اگر حکومت کی بنیاد نظریہ پر ہو تو پھر اپنے بچاؤ یا اپنے عوام کے بچاؤ کے لئے ، یا دشمنوں کے مقابلے میں کسی جنگ کے لئے اسے دولت خرچ کرکے تنخواہ دار ملازمین رکھنے کی ضرورت سرے سے پیش ہی نہیں آتی ، فوج خود آگے بڑھتی ہے ، لیڈر خود آگے بڑھتے ہیں ، جان بھی دیتے ہیں اور مال بھی ۔

ضرورت اس بات پر غور کرنے کی تھی کہ بیشمار غریب مسلمان ایسے تھے ، جو جذبہ جہاد سے تو سرشار تھے ، وہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی زندگی کے لئے لڑنے مرنے کے لئے تیار تھے لیکن صور تحال یہ تھی کہ ان کے پاس سامان جنگ تھا نہ کوئی زاد راہ تھا ۔ میدان جنگ تک جانے کے لئے کوئی سواری نہ تھی ، ایسے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے اور التجائیں کرتے کہ آپ انہیں دور دراز میدان جنگ تک لے جائیں ۔ کیونکہ میدان جنگ بعض اوقات اتنا دور ہوتا تھا کہ وہاں تک پیدل جانا ممکن نہ تھا اور جب رسول ﷺ معذرت کا اظہار فرماتے تو وہ مایوس لوٹتے ۔ ان کے بارے میں قرآن مجید میں ہے ۔

اردو ترجمہ

اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanfiqoo fee sabeeli Allahi wala tulqoo biaydeekum ila alttahlukati waahsinoo inna Allaha yuhibbu almuhsineena

تَوَلَّوا وَّاَعیُنُھُم تَفِیضُ مِنِ الدَّمعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوا یُنفِقُونَ (وہ لوٹتے ، مگر اس حال میں کہ ان کی آنکھیں اشک بار ہوتیں ، اس دکھ کی وجہ سے کہ ان کے پاس وہ کچھ نہیں ہے جسے وہ اس موقعہ پر خرچ کریں) قرآن مجید کی بیشمار آیات اور رسول ﷺ کی بیشمار احادیث میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی ہے ۔ خصوصاً غازیوں کے سازوسامان کے لئے ۔ قرآن مجید میں بیشمار مقامات ایسے ہیں جہاں دعوت و جہاد کے ساتھ ساتھ دعوت انفاق بھی دی گئی ہے اور یہاں تو انفاق فی سبیل اللہ سے پہلو تہی کرنے کو ہلاکت اور بربادی سے تعبیر کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اس سے بچووَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (195) ” اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔ “

جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے وہ بخیل ہوتے ہیں اور بخل کی وجہ سے نفس انسانی مردہ ہوجاتا ہے ۔ بخیل جس جماعت کا فرد ہے وہ اپنی ضعیفی کی وجہ سے مرگ مفاجات میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔ بالخصوص ایسے نظام زندگی میں جو قائم ہی رضاکاری پر ہو ، جیسے کہ اسلام کے ابتدائی ایام میں نظر آتا ہے۔

بطور تاکید مزید کہا جاتا ہے کہ انفاق سے بھی آگے بڑھو ۔ درجہ احسان تک جاپہنچو وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ” احسان کا معاملہ اختیار کرو ، بیشک اللہ تعالیٰ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔ “

اسلام میں جو مراتب ہیں ، احسان ان میں بلند ترین مرتبہ ہے ۔ احسان کی تعریف خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے۔” تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور جو انسان اس مقام بلند تک جا پہنچے ، اس کے لئے تمام دوسری عبادات ادا کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔ تمام معاصی خود بخود چھوٹ جاتے ہیں اور ایسا شخص چھوٹے بڑے گناہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے ڈرتا ہے ۔ تنہائی میں اور محفل میں ہر جگہ اللہ کا خوف اس کے پیش نظر رہتا ہے۔

یہ وہ آخری نتیجہ ہے جس پر آیات جہاد کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور جہاد کے معاملہ میں نفس انسانی کو احسان کے سپرد کردیا جاتا ہے ، جو ایمان کا بلند ترین درجہ ہے ۔

اب یہاں سے حج ، عمرہ اور ان کے مناسک کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ سلسلہ کلام میں خود بخود ربط قائم ہوجاتا ہے ۔ پہلے بات چاند کے سول سے چلی تھی جواب دیا گیا کہ وہ لوگوں کے لئے اور حج کے دوران اوقات کے تعین کے لئے ہے ۔ پھر حج کے حرام مہینوں میں جنگ ، مسجد حرام کے قریب جنگ کی بات چلی اور اس کے بعد اب حج اور عمرہ کے احکام بیان ہوتے ہیں جو مسجد حرام میں میں سرانجام پاتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اُسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے پہلے مکے پہنچ جاؤ)، تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور ا گر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اِس طرح پورے دس روزے رکھ لے یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں اللہ کے اِن احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waatimmoo alhajja waalAAumrata lillahi fain ohsirtum fama istaysara mina alhadyi wala tahliqoo ruoosakum hatta yablugha alhadyu mahillahu faman kana minkum mareedan aw bihi athan min rasihi fafidyatun min siyamin aw sadaqatin aw nusukin faitha amintum faman tamattaAAa bialAAumrati ila alhajji fama istaysara mina alhadyi faman lam yajid fasiyamu thalathati ayyamin fee alhajji wasabAAatin itha rajaAAtum tilka AAasharatun kamilatun thalika liman lam yakun ahluhu hadiree almasjidi alharami waittaqoo Allaha waiAAlamoo anna Allaha shadeedu alAAiqabi

ہمارے پاس آیات حج کی تاریخ نزول کا کوئی صحیح علم نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں ایک روایت ہے جس میں آیا ہے کہ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ” اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر ہو ۔ “ 6 ھ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی ، لہٰذا اسلام میں حج کب فرض ہوا اس کی صحیح تاریخ بھی ہمیں معلوم نہیں ، اس میں اختلاف رائے ہے کہ حج فرض کس آیت سے ہوا ، اس آیت سے یعنی وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ” اللہ کی خوشنودی کے لئے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو یا وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیتِ مَنِ استَطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلًا ” جن لوگوں کے پاس زاد راہ کی استطاعت ہو ان پر اللہ کی جانب سے حج بیت اللہ فرض ہے ۔ بہرحال ان دونوں آیات کے نزول کے بارے میں تاریخ کا تعین کرنے والی کوئی روایت ، منقول نہیں ہے۔

امام ابن قیم جوزی اپنی کتاب زادالمعاد میں لکھتے ہیں کہ حج 9 ھ یا 10 ھ میں فرض ہوا ہے ۔ انہوں نے یہ سن اس قیاس میں متعین کیا ہے کہ رسول ﷺ نے دس ہجری کو حج فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ لازماً آپ ﷺ نے یہ فریضہ فرض ہونے کے بعد ادا کیا ہوگا جو 9 ھ یا 10 ھ میں ہوسکتا ہے ، لیکن صرف یہ بات صحیح دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ حج پہلے سے فرض ہو۔ مگر بعض مجبوریوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے رسول ﷺ نے اسے 10 ھ تک مؤخر فرمادیاہو ۔ جبکہ 9 ھ میں رسول ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو امیر حج مقرر فرماکر بھیجا ۔ روایات میں یہ بات آچکی ہے کہ رسول ﷺ جب غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تو آپ نے حج کا ارادہ فرمایا تھا۔ اس کے بعد جب آپ ﷺ نے یہ خیال کیا کہ مشرکین حسب عادت حج کے موسم میں مکہ مکرمہ آتے ہیں اور ان میں سے بعض لوگ بالکل ننگے ہوکر طواف کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے ان لوگوں میں خلط ہونے کو پسند نہ فرمایا۔ اس کے بعد سورت برأت نازل ہوئی ۔ رسول ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ارسال فرمایا تاکہ وہ سورت برأت کا ابتدائی حصہ لوگوں کو سنائیں ، جن مشرکین کے ساتھ جو معاہدے تھے انہیں ختم کردیں اور جب لوگ منیٰ میں قربانی کے وقت جمع ہوں تو اعلان کردیں یادرکھو ! کوئی کافر جنت میں داخل نہ ہوگا ، اس سال کے بعد کو ئی مشرک طواف نہ کرسکے گا ۔ کوئی ننگا شخص طواف نہ کرسکے گا ۔ جن لوگوں نے رسول ﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ کررکھا ہے ، تو وہ اپنی معیاد تک ہی رہے گا ۔ یہی وجہ تھی کہ خود رسول ﷺ نے حج نہ فرمایا اور انتظار کیا کہ بیت اللہ پاک ہوجائے ۔ مشرکین اور برہنہ ہوکر طواف کرنے والوں سے۔

یہاں یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اسلام نے فریضہ حج اور مناسک حج اکثر وبیشتر برقرار رکھے تھے ۔ اور ان تاریخوں سے بہت پہلے ایسی روایات موجود ہیں کہ ہجرت سے پہلے ہی مکہ مکرمہ میں حج فرض ہوچکا تھا لیکن ان روایات کی سند قوی نہیں ہے ۔ سورت حج ، جو ارحج قول کے مطابق سورت ہے ۔ اس میں حج کے اکثر وبیشتر مناسک کا ذکر ہوا ہے۔ یوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان مناسک کا حکم دیا تھا۔ سورت حج کی یہ آیات ملاحظہ فرمائیں :

(یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اس (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (جو اس ہدایت کے ساتھ ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو ، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک رکھو اور لوگوں کو حج کے لئے اذن عام دے دو کہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں ، جو یہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں ۔ اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست اور محتاج کو بھی دیں۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کرلیں اور اس قدیم گھر کا طواف ۔ یہ ہے اصل معاملہ (اے سمجھ والو) اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے ۔ تمہیں ایک مقرر وقت تک ان (ہدی کے جانوروں) سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے ، پھر ان کے قربان کرنے کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے ۔

اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے ایک شعائر اللہ میں شامل کیا ہے ۔ تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے ، پس انہیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کئے بیٹھے ہیں اور ان کو جو اپنی حاجت پیش کریں ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو ۔ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خوں ، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ اس نے ان کو تمہارے لئے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت سے تم اس کی تکبیر کرو اور اے نبی بشارت دے نیکو کاروں کو۔ “

ان آیات میں اکثر مناسک کا ذکر ہوا ہے یا اشارہ ملتا ہے ، مثلاً ہدی ، نحر ، طواف ، احلال ، احرام اور تسمیہ ، یہی مناسک حج کے اساسی شعائر ہیں ۔ خطاب ابراہیم (علیہ السلام) کے تاریخی واقعہ کی شکل میں ، مسلمانوں سے ہورہا ہے ، ان آیات میں واضح طور پر یہ اشارہ کیا جاتا ہے کہ حج کافی ابتدائی دور میں فرض ہوگیا تھا۔ کیونکہ حج حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا شعار تھا ، جن سے مسلمانوں کی نسبت تھی ۔ چونکہ مشرکین مکہ خانہ کعبہ کے مجاور تھے ، کلید بردار تھے ، اور ایک عرصہ تک مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان سخت کشمکش برپا تھی ، ہوسکتا ہے کہ فریضہ حج کی ادائیگی کو مناسب وقت تک مؤخر کردیا گیا ہو ۔ لیکن یہ تاخیر تو الگ بات ہے ۔ تو اس پارے کی ابتدائی آیات میں ہم اس رائے کو ترجیح دے چکے ہیں کہ بعض مسلمان ، بہت پہلے سے فریضہ حج ادا کرتے تھے ۔ یعنی دوہجری میں تحویل قبلہ کے بعد۔

بہرحال حج کی تاریخ کے سلسلے میں بحث کافی ہے ، اب ہم تشریح آیات ، شعائر حج کے بیان اور ان ہدایات کی تشریح کریں گے جو ان کے اثناء میں دی گئی ہیں۔

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ

” اللہ کی خوشنودی کے لئے جب حج اور عمرے کی نیت کرو تو اسے پورا کرو ، اور کہیں گھر جاؤ جو قربانی میسر آئے ، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سرنہ مونڈو جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے ۔ مگر جو شخص یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بناپر اپنا سرمنڈوالے تو اسے چاہئے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے ۔ پھر اگر تمہیں امن نصیب ہوجائے (اور تم حج سے پہلے مکہ پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے ، وہ حب مقدور قربانی دے اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے ۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “

ان آیات میں ، سب سے پہلے وہ حسن الفاظ اور حسن تعبیر قابل دید ہے جسے اس قانون سازی کے لئے اختیار کیا گیا ہے ، فقروں کی تقسیم ، بامقصد اور بہترین طرز ادا ، ہر فقرے میں الگ بیان اور الفاظ وفقرات مختصر ، جن میں کوئی لفظ بھی زیادہ نہیں ۔ ہر حکم کے ساتھ شرائط تحدید اور سب احکام کو خوف اللہ اور تقویٰ کے ساتھ مربوط کرتے چلے جانا ۔

پہلے فقرے میں کہا گیا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرچکنے کے بعد ، مطلقاً تکمیل لازمی ہے ۔ جب حاجی حج کا آغاز کردے ، عمرہ کرنے والا عمرے کا آغاز کردے ، نیت باندھ لے خواہ علیحدہ علیحدہ یا دونوں کے ساتھ اور اس کی توجہ کا مرکز خالص اللہ کی رضاجوئی ہو ، تو انہیں حکم ہے وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ” اللہ کی خوشنودی کے لئے جب حج اور عمرے کی نیت کرو ، تو اسے پورا کرو۔ “

بعض مفسرین کا خیال ہے کہ لفظ ” پورا کرو “ کے ذریعہ ہی سب سے پہلے حج فرض ہوا ہے ۔ لیکن بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جب تم شروع کرو تو پھر پورا کرو۔ مکمل کرو۔ یہ مفہوم زیادہ ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ یہاں یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ حج بھی فرض ہوگیا اور عمرہ بھی فرض ہوگیا ۔ کیونکہ بعض علماء عمرے کو فرض نہیں سمجھتے ، لہٰذا یہاں مقصد یہی ہوگا کہ حج وعمرہ شروع کرنے کے بعد واجب ہوجاتے ہیں ۔ اتمام لازمی ہے ابتداً عمرہ واجب نہیں ہوتا لیکن جبب اس کی نیت کرکے احرام باندھ لیا جائے تو پھر پورا کرو۔ اب اتمام واجب ہوگا اور عمرہ تمام مناسک میں حج ہی کی طرح ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرے میں ، میدان عرفات میں وقوف نہیں ہوتا ۔ نیز عمرے کے لئے مقررہ اقات بھی نہیں ۔ پورے سال میں کسی وقت بھی ادا کیا جاسکتا ہے ۔ حج کی طرح معلوم مہینوں کے اندر ہی اس کی ادائیگی لازمی نہیں ہے۔

اتمام حج وعمرہ کے اس عام حکم سے حالت احصار کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے ۔ احصار کسی جانی دشمن کی وجہ سے ہو (اس پر سب مذاہب کا اتفاق ہے ) یا بیماری یا بیماری کی طرح کوئی اور رکاوٹ ہو۔ جس کی وجہ سے حج اور عمرے کی تکمیل ممکن ہو ، فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ بیماری کی وجہ سے احصار جائز ہے یا نہیں ۔ راحج بات یہ ہے کہ بیماری کی وجہ سے احصار معتبر ہے ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ” اور اگر کہیں گھر جاؤ، تو ہدی جو بھی میسر ہو ، جناب باری میں پیش کرو۔ “ اس حالت میں حاجی یا عمرے کی نیت کرنے والا وسعت و سہولت کے مطابق جو قربانی کرسکے کرے اور احرام توڑ دے ۔ وہیں جہان حالت احصار پیش آئی ۔ اگرچہ وہ مسجد حرام تک نہ پہنچ سکے ۔ میقات سے احرام باندھنے کے سوا ، مناسک حج ادا نہ کرسکے ۔ مناسک عمرہ ادا نہ کرسکے (میقات وہ مقام ہے جہاں حاجی اور عمرہ کرنے والا احرام باندھتا ہے ، پھر اس کے سلے ہوئے کپڑے پہننا حرام ہوجاتا ہے ، بال چھوٹے کرنا ، منڈوانا ، ناخن چھوٹے کرنا منع ہوجاتا ہے۔ نیز اس پر خشکی کا شکار کھیلنا اور اس کا کھانا منع ہوجاتا ہے۔

6 ھ ہجری میں بھی یہی پیش آیا ، جب رسول ﷺ اور آپ کے ساتھی حدیبیہ پہنچے تو مشرکین نے آپ کو مسجد حرام آنے سے روک دیا ۔ اس مذاکرات ہوئے اور معاہدہ صلح حدیبیہ طے ہوا ۔ اس کے مطابق طے ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اگلے سال عمرہ ادا کریں ۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور رسول ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جہاں تک پہنچے ہیں وہیں رک جائیں ، قربانی کریں اور عمرہ کی نیت ختم کرکے احرام سے باہر آجائیں ۔ مسلمان تعمیل امر سے ہچکچانے لگے ۔ ان پر یہ بات گراں گزر رہی تھی کہ وہ کیونکر ہر ہدی کو اس کے مقام نحر سے پہلے ہی قربانی کردیں ، حالانکہ عادہً وہ منیٰ میں ایسا کرتے ہیں ۔ ان کی ہچکچاہٹ دیکھ کر رسول ﷺ آگے بڑھے اور اپنی قربانی ذبح کرکے احرام سے باہر نکل آئے ۔ اس پر سب نے تعمیل کی ۔

فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِسے مراد وہ ہے جو میسر آجائے ۔ ہدی میں جن مویشیوں سے ہوگی وہ یہ ہیں ، اونٹ ، گائے ، بھینس اور بھیڑ بکری ۔ صرف اونٹ ، بھینس اور گائے میں سات افراد تک شریک ہوسکتے ہیں ۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر سات افراد ایک اونٹنی میں شریک ہوئے تھے ۔ یہ ہے تیسیر۔ ہاں بھیڑ بکری صرف ایک آدمی کے لئے ہدی ہوگی ۔

حالت احصار ، جیسا کہ حدیبیہ میں پیش آیا ، یابیماری کی وجہ سے گھر جانے کے حالات کو اصل حکم سے اس لئے مستثنیٰ کیا گیا کہ مسلمانوں پر تنگی نہ ہو ، اس کی حکمت صرف مسلمانوں کے لئے سہولت کی گنجائش رکھنا ہے ۔ مناسک حج کی غرض وغایت یہی ہے کہ انسان اللہ کے نزدیک ہوجائے اور اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجائے ۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض سرانجام دینے کے لئے تیار ہوجائے ۔ جب اس نے نیت کرلی ، احرام باندھ لیا اور دشمن اس کی راہ میں حائل ہوگیا یا بیماری اور یا اسی طرح کا کوئی اور عذر لاحق ہوگیا تو حاجی یا عمرہ کی نیت کرنے والا حج یا عمرے کے ثواب سے کیوں محروم ہو۔ اس حالت کا حکم ایسا ہی ہوگا جیسے حج مکمل ہوگیا ، عمرہ ادا ہوگیا ، چناچہ ایسا شخص وہیں قربانی کرکے احرام سے نکل آئے گا ۔ یہ سہولت ایسی ہے جو اسلام کی روح ، اسلامی عبادات کے مقاصد اور شعائر حج وعمرہ کی اصل غرض وغایت کے عین مطابق ہے ۔

پہلے حکم کی اس استثناء کے بعد ، اب روئے سخن ایک دوسرے حکم ، عام حکم ، حج کے لئے بھی عمرے کے لئے بھی اس کی طرف پھرتا ہے۔ وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ” اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ “ یہ حکم اس حالت کے لئے ہے کہ جہاں حج وعمرہ مکمل ہورہے ہیں اور احصار نہ ہو ، حج ، عمرے یا دونوں کی نیت کی صورت میں آدمی اس وقت تک حالت احرام میں رہتا ہے اور اسے سرمونڈوانے کی اجازت نہیں ہوتی جب تک قرباقنی اپنی جگہ پہنچ کر ذبح نہ ہوجائے ۔ یعنی میدان عرفات میں وقوف کرکے ، مزدلفہ آنے کے بعد بمقام منیٰ ، ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو ۔ اس قربانی کے بعد حاجی احرام سے نکلتا ہے ۔ اس سے پہلے اس کے لئے سرمونڈوانا ، بال چھوٹے کرنا یا دوسرے کام جو محرم کے لئے جائز نہیں ان کا ارتکاب کرنا منع ہے ۔ اب اس عام حکم میں بھی استثنا (Proviso) ہے۔ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍمگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بناپر اپنا سر منڈوالے تو اسے چاہئے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے !

اگر ایسی بیماری لاحق ہوجائے جس میں سرمنڈوانا ضروری ہو یا سر میں جوئیں وغیرہ پڑجائیں اور دیر تک ان میں کنگھی نہ کی گئی اور جوئیں وغیرہ پڑگئیں تو اس وقت تک ہدی کے محل تک پہنچنے سے پہلے بھی سرمنڈوانا جائز ہے ۔ کیونکہ اسلام سہولت کا دین ہے ، لہٰذا تکمیل حج سے پہلے بھی سرمنڈواسکتا ہے ۔ البتہ اس صورت میں ایسے شخص کو فدیہ دینا پڑے گا یا تین دن کے روزے یا چھ مساکین کو کھانا یا ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کرنا ، فدیہ کی یہ تحدید رسول ﷺ کی احادیث میں کی گئی ہے ۔ امام بخاری (رح) نے اپنی سند کے ساتھ کعب بن عجرہ سے روایت کی ہے ، فرماتے ہیں : مجھے رسول ﷺ کے پاس لے جایا گیا ، میری حالت یہ تھی کہ میرے بالوں سے میری چہرے پر جوئیں گر رہی تھیں ۔ آپ نے فرمایا میرا یہ خیال نہ تھا کہ تم اس قدر مصیبت میں پڑگئے ہو ۔ کہا تمہارے پاس بکری ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا : تین روزے رکھو یا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ اور کھانے کی مقدار یہ ہو کہ مساکین کو نصف صاع غلہ ملے ، اور اپنے سر کو منڈوالو۔

اب حج کا ایک دوسرا ، عام حکم سنیں فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ” پھر اگر تمہیں امن نصیب ہوجائے تو جو شخص تم سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے ۔ وہ حسب مقدور قربانی دے۔ “ مطلب یہ ہے کہ جب احصار کی صورت درپیش ہو اور تم فریضہ حج ادا کررہے ہو ، پس جو شخص ایام حج آنے سے پہلے عمرہ کرنا چاہتا ہو تو وہ حسب مقدور قربانی دے۔ اس حکم کی تعمیل یہ ہے کہ ایک شخص عمرہ کے لئے نکلے ، میقات پر احرام باندھے ، عمرہ ادا کرلے ، یعنی طواف اور سعی بین صفا مروہ سے فارغ ہوجائے ، پھر وہ حج کی نیت کرلے اور ایام حج کا انتظار کرے ۔ یہ اس صورت میں ہے کہ ایک شخص یہ عمرہ حج کے مہینوں میں کررہا ہو ، حج کے مہینے شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں ، حج سے عمرہ کرنے کی یہ ایک صورت ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد حج کے ایام کا انتظار کرے ۔ یہ تمتع کی دوسری صورت ہے ۔ ان دونوں صورتوں میں تمتع کرنے والے پر قربانی واجب ہے ۔ یہ قربانی عمرہ کے بعد ہوگی تاکہ وہ احرام سے نکل آئے ۔ یہ شخص ادائے عمرہ اور آغاز حج کے درمیانی عرصہ میں حلال رہے گا ۔ حسب مقدور قربانی اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری کی ہوگی۔

اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ” اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے زمانے میں اور ساتھ گھر پہنچ کر اس طرح پورے دس روزے رکھ لے ۔ “ اس سلسلے میں اولیٰ یہ ہے کہ حج کے تین روزے ذوالحجہ کو عرفات پر وقوف سے پہلے ہی رکھ لے اور باقی سات دن گھر لوٹ کر رکھ لے۔ اس طرح پورے دس روزے رکھ لے ، مزیدتاکید کے لئے کہا گیا ہے ہدی اور روزے کی حکمت صرف یہ ہے کہ حاجی کا تعلق اللہ کے ساتھ مسلسل قائم رہے ، یعنی عمرہ اور حج کے درمیانی عرصے میں جب وہ احرام سے باہر آجاتے تو اس کا یہ شعور ختم نہ ہوجائے کہ وہ ایام حج کی فضا میں ہے ۔ اسے برائیوں سے خاص طور پر بچنا چاہئے اور یہ کہ اللہ مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے ۔ یہ شعور اور جذبہ بالعموم ایام حج میں زندہ ہوتا ہے۔

رہے وہ لوگ جو مسجد الحرام کے رہنے والے ہیں تو ان کے لئے ایام حج میں عمرہ جائز نہیں ہے ۔ وہ صرف حج کریں گے ۔ وہ عمرے اور حج کے درمیان قربانی کرکے احرام سے نہیں نکل سکتے ۔ اس لئے ان پر فدیہ ، قربانی یا روزہ لازم نہیں ہے ۔ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے ، جن کے گھر مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ “ جو احکام یہاں تک بیان ہوچکے ہیں ان کے آخر میں اب قرآن مجید ایک زوردار تعقیب اور نتیجہ پیش کرتا ہے اور حجاج کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ” اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ خوب سزا دینے والا ہے ۔ “ تقویٰ ہی امتثال امر کی گارنٹی ہے ۔ اللہ کا خوف اور اللہ کی سزا کا خوف ہی تعمیل احکام کا ضامن ہے ۔ احرام میں تو ایک وقت کے لئے پابندی عائد ہوجاتی ہے ۔

30