سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 11 (آیات 70 سے 76 تک)

قَالُوا۟ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِىَ إِنَّ ٱلْبَقَرَ تَشَٰبَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّآ إِن شَآءَ ٱللَّهُ لَمُهْتَدُونَ قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ ٱلْأَرْضَ وَلَا تَسْقِى ٱلْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا۟ ٱلْـَٰٔنَ جِئْتَ بِٱلْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا۟ يَفْعَلُونَ وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَٱدَّٰرَْٰٔتُمْ فِيهَا ۖ وَٱللَّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ فَقُلْنَا ٱضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْىِ ٱللَّهُ ٱلْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِىَ كَٱلْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ ٱلْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ ٱلْأَنْهَٰرُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ ٱلْمَآءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ ٱللَّهِ ۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ۞ أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا۟ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُۥ مِنۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ وَإِذَا لَقُوا۟ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوٓا۟ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ ٱللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوكُم بِهِۦ عِندَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
11

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

پھر بولے اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتاؤ کیسی گائے مطلوب ہے، ہمیں اس کی تعین میں اشتباہ ہو گیا ہے اللہ نے چاہا، تو ہم اس کا پتہ پالیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo odAAu lana rabbaka yubayyin lana ma hiya inna albaqara tashabaha AAalayna wainna in shaa Allahu lamuhtadoona

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ہِیَلا اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا ط“ ہمیں گائے کی تعیین میں اشتباہ ہوگیا ہے۔

اردو ترجمہ

موسیٰؑ نے جواب دیا: اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی، نہ زمین جوتتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہے، اس پر وہ پکار اٹھے کہ ہاں، اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے پھر انہوں نے اسے ذبح کیا، ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala innahu yaqoolu innaha baqaratun la thaloolun tutheeru alarda wala tasqee alhartha musallamatun la shiyata feeha qaloo alana jita bialhaqqi fathabahooha wama kadoo yafAAaloona

قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لاَّ ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَلاَ تَسْقِی الْحَرْثَ ج مُسَلَّمَۃٌ لاَّ شِیَۃَ فِیْہَا ط اس میں کسی دوسرے رنگ کا کوئی داغ تک نہ ہو۔“ قَالُوا الْءٰنَ جِءْتَ بالْحَقِّ ط۔“ اب تو آپ علیہ السلام نے بات پوری طرح واضح کردی ہے۔فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ “ اب وہ کیا کرتے ‘ پے بہ پے سوالات کرتے کرتے وہ گھیراؤ میں آ چکے تھے ‘ لہٰذا بادل نخواستہ وہ اپنی مقدس سنہری گائے کو ذبح کرنے پر مجبور ہوگئے۔یہاں واقعہ کی ترتیب تورات سے مختلف ہے اور ذبح بقرہ کا جو سبب تھا وہ بعد میں بیان ہو رہا ہے ‘ جبکہ تورات میں ترتیب دوسری ہے۔

اردو ترجمہ

اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qataltum nafsan faiddaratum feeha waAllahu mukhrijun ma kuntum taktumoona

آیت 72 وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْ تُمْ فِیْہَا ط چنانچہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ قاتل کون ہے۔وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرچکا تھا کہ جو کچھ تم چھپا رہے ہو اسے نکال کر رہے گا اور واضح کردے گا۔

اردو ترجمہ

اُس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ دیکھو اس طرح اللہ مُردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqulna idriboohu bibaAAdiha kathalika yuhyee Allahu almawta wayureekum ayatihi laAAallakum taAAqiloona

آیت 73 فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِہَا ط اس طرح وہ مردہ شخص بحکم الٰہی تھوڑی دیر کے لیے زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کا نام بتادیا۔کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی لا وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ “اب جو الفاظ آگے آ رہے ہیں بہت سخت ہیں۔ لیکن ان کو پڑھتے ہوئے دروں بینی ضرور کیجیے گا ‘ اپنے اندر ضرور جھانکئے گا۔

اردو ترجمہ

مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرف سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma qasat quloobukum min baAAdi thalika fahiya kaalhijarati aw ashaddu qaswatan wainna mina alhijarati lama yatafajjaru minhu alanharu wainna minha lama yashshaqqaqu fayakhruju minhu almao wainna minha lama yahbitu min khashyati Allahi wama Allahu bighafilin AAamma taAAmaloona

آیت 74 ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ جب دین میں حیلے بہانے نکالے جانے لگیں اور حیلوں بہانوں سے شریعت کے احکام سے بچنے اور اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے تو اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ دل کی سختی ہے۔فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط ”“یہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی قرآن حکیم کا ایک بڑا عمدہ مقام ہے۔وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ ط ”“ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ ط ”“ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ”“ قساوت قلبی کی یہ کیفیت اس امت کے افراد کی بیان کی جا رہی ہے جسے کبھی اہل عالم پر فضیلت عطا کی گئی تھی۔ اس امت پر چودہ سو برس ایسے گزرے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ تھا کہ ان کے ہاں کوئی نبی موجود نہ ہو۔ انہیں تین کتابیں دی گئیں۔ لیکن یہ اپنی بدعملی کے باعث قعر مذلتّ میں جا گری۔ عقائد میں ملاوٹ ‘ اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں میں میخ نکال کر اپنے آپ کو بچانے کے راستے نکالنے اور اعمال میں بھی ”کتاب الحِیَل“ کے ذریعے سے اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے مبرا کرلینے کی روش کا نتیجہ پھر یہی نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس انجام بد سے بچائے۔ آمین !

اردو ترجمہ

اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AfatatmaAAoona an yuminoo lakum waqad kana fareequn minhum yasmaAAoona kalama Allahi thumma yuharrifoonahu min baAAdi ma AAaqaloohu wahum yaAAlamoona

اب تک ہم نے سورة البقرۃ کے آٹھ رکوع اور ان پر مستزاد تین آیات کا مطالعہ مکمل کیا ہے۔َ سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ساتھ خطاب کا سلسلہ سورة البقرۃ کے دس رکوعوں پر محیط ہے۔ یہ سلسلہ پانچویں رکوع سے شروع ہوا تھا اور پندرہویں رکوع کے آغاز تک چلے گا۔ اس سلسلۂ خطاب کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے اور وہ بہت فیصلہ کن ہے ‘ جبکہ اگلے رکوع سے اسلوب کلام تبدیل ہوگیا ہے اور تہدید اور دھمکی کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ پانچواں رکوع اس پورے سلسلۂ خطاب میں بمنزلۂ فاتحہ بہت اہم ہے اور جو بقیہ نو 9 رکوع ہیں ان کے آغاز و اختتام پر بریکٹ کا انداز ہے کہ دو آیتوں سے بریکٹ شروع ہوتی ہے اور انہی دو آیتوں پر بریکٹ ختم ہوتی ہے ‘ جبکہ پانچویں رکوع کے مضامین اس پورے سلسلۂ خطاب سے ضرب کھا رہے ہیں۔ ان رکوعوں میں بنی اسرائیل کے خلاف ایک مفصل فرد قرارداد جرم عائد کی گئی ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہ اس منصب جلیلہ سے معزول کردیے گئے جس پر دو ہزار برس سے فائز تھے اور ان کی جگہ پر اب نئی امت مسلمہ یعنی امت محمد ﷺ کا اس منصب پر تقرر عمل میں آیا اور اس مسند نشینی کی تقریب Installation Ceremony کے طور پر تحویل قبلہ کا معاملہ ہوا۔ یہ ربط کلام اگر سامنے نہ رہے تو انسان قرآن مجید کی طویل سورتوں کو پڑھتے ہوئے کھو جاتا ہے کہ بات کہاں سے چلی تھی اور اب کدھر جا رہی ہے۔ ان نو رکوعوں کے مضامین میں کچھ تو تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات بیان ہوئے ہیں کہ تم نے یہ کیا ‘ تم نے یہ کیا ! لیکن ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے بعض ایسے عظیم ابدی حقائق اور Universal Truths بیان ہوئے ہیں کہ ان کا تعلق کسی وقت سے ‘ کسی قوم سے یا کسی خاص گروہ سے نہیں ہے۔ وہ تو ایسے اصول ہیں جنہیں ہمّ سنت اللہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کائنات میں ایک تو قوانین طبیعیہ Physical Laws ہیں ‘ جبکہ ایک Moral Laws ہیں جو اللہ کی طرف سے اس دنیا میں کارفرما ہیں۔ سورة البقرۃ کے زیر مطالعہ نو رکوعوں میں تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات کے بیان کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایسی آیات آتی ہیں جو اس سلسلۂ کلام کے اندر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں درحقیقت موجودہ امت مسلمہ کے لیے راہنمائی پوشیدہ ہے۔ مثال کے طور پر اس سلسلۂ خطاب کے دوران آیت 61 میں وارد شدہ یہ الفاظ یاد کیجیے : وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق وَبَآءُ ‘ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط ”اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے“۔ معلوم ہوا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان امت جس پر اللہ کے بڑے فضل ہوئے ہوں ‘ اسے بڑے انعام و اکرام سے نوازا گیا ہو ‘ اور پھر وہ اپنی بےعملی یا بدعملی کے باعث اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوجائے اور ذلتّ و مسکنت اس پر تھوپ دی جائے۔ یہ ایک ابدی حقیقت ہے جو ان الفاظ میں بیان ہوگئی۔ امت مسلمہ کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا آج ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ گئے ؟دوسرا اسی طرح کا مقام گزشتہ آیت 74 میں گزرا ہے ‘ جہاں ایک عظیم ابدی حقیقت بیان ہوئی ہے :ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط ”پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس سب کے بعد ‘ پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں ‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی شدید تر ہیں گویا اسی امت مسلمہ کا یہ حال بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دل اتنے سخت ہوجائیں کہ سختی میں پتھروں اور چٹانوں کو مات دے جائیں۔ حالانکہ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں فرمایا : وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ع ”ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا !“ البتہ یہاں ایک بات واضح رہے کہ اس قساوت قلبی میں پوری امت مبتلا نہیں ہوا کرتی ‘ بلکہ اس کیفیت میں امت کے قائدین مبتلا ہوجاتے ہیں اور امت مسلمہ کے قائدین اس کے علماء ہوتے ہیں۔ چناچہ سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہ خرابی ان میں درآتی ہے۔ اس لیے کہ باقی لوگ تو پیروکار ہیں ‘ ان کے پیچھے چلتے ہیں ‘ ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب کے پڑھنے والے اور اس کے جاننے والے ہیں۔ لیکن جو لوگ جان بوجھ کر اللہ کی کتاب میں تحریف کر رہے ہوں اور جانتے بوجھتے حق کو پہچان کر اس کا انکار کر رہے ہوں انہیں تو پتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ! درحقیقت یہ سزا ان پر آتی ہے۔ یہ بات ان آیات میں جو آج ہم پڑھنے چلے ہیں ‘ بہت زیادہ واضح ہوجائے گی اِن شاء اللہ۔ فرمایا :آیت 75 اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ عام مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ یہود دین اسلام کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ مشرکین مکہ تو دین توحید سے بہت دور تھے ‘ رسالت کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا ‘ کوئی کتاب ان کے پاس تھی ہی نہیں۔ جبکہ یہود تو اہل کتاب تھے ‘ حاملین تورات تھے ‘ موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے تھے ‘ توحید کے علمبردار تھے اور آخرت کا بھی اقرار کرتے تھے۔ چناچہ عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ انہیں توٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ ‘ کی دعوت کو جھٹ پٹ مان لینا چاہیے۔ تو مسلمانوں کے دلوں میں یہود کے بارے میں جو حسن ظن تھا ‘ یہاں اس کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمانو ! تمہیں بڑی طمع ہے ‘ تمہاری یہ خواہش ہے ‘ آرزو ہے ‘ تمناّ ہے ‘ تمہیں توقع ہے کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے۔وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ “ ظاہر بات ہے وہ گروہ ان کے علماء ہی کا تھا۔ عام آدمی تو اللہ کی کتاب میں تحریف نہیں کرسکتا۔اب اگلی آیت میں بڑی عجیب بات سامنے آرہی ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے درمیان منافقین موجود تھے اسی طرح یہود میں بھی منافقین تھے۔ یہود میں سے کچھ لوگ ایسے تھے کہ جب ان پر حق منکشف ہوگیا تو اب وہ اسلام کی طرف آنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے لیے اپنے خاندان کو ‘ گھر بار کو ‘ اپنے کاروبار کو اور اپنے قبیلے کو چھوڑنا بھی ممکن نہیں تھا ‘ جبکہ قبیلوں کی سرداری ان کے علماء کے پاس تھی۔ ایسے لوگوں کے دل کچھ کچھ اہل ایمان کے قریب آ چکے تھے۔ ایسے لوگ جب اہل ایمان سے ملتے تھے تو کبھی کبھی وہ باتیں بھی بتا جاتے تھے جو انہوں نے علماء یہود سے نبی آخرالزمان ﷺ اور ان کی تعلیمات کے بارے میں سن رکھی تھیں کہ تورات ان کی گواہی دیتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ اپنے ”شیاطین“ یعنی علماء کے پاس جاتے تھے تو وہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے کہ بیوقوفو ! یہ کیا کر رہے ہو ؟ تم انہیں یہ باتیں بتا رہے ہو تاکہ اللہ کے ہاں جا کر وہ تم پر حجت قائم کریں کہ انہیں پتا تھا اور پھر بھی انہوں نے نہیں مانا !

اردو ترجمہ

(محمد رسول اللہﷺ پر) ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں، اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بے وقوف ہوگئے ہو؟ اِن لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حُجتّ؟ میں پیش کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha laqoo allatheena amanoo qaloo amanna waitha khala baAAduhum ila baAAdin qaloo atuhaddithoonahum bima fataha Allahu AAalaykum liyuhajjookum bihi AAinda rabbikum afala taAAqiloona

آیت 76 وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا ج وَاِذَا خَلاَ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ قَالُوْٓا اَتُحَدِّثُوْنَہُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ لِیُحَآجُّوْکُمْ بِہٖ عِنْدَ رَبِّکُمْ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ”“ تم ذرا عقل سے کام لو اور یہ حقیقتیں جو تورات کے ذریعے سے ہمیں معلوم ہیں ‘ مسلمانوں کو مت بتاؤ۔ کیا تمہیں عقل نہیں ہے کہ ایسا بیوقوفی کا کام کر رہے ہو ؟ان کے اس مکالمے پر اللہ تعالیٰ کا تبصرہ یہ ہے :

11