سورۃ الانبیاء (21): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anbiyaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنبياء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانبیاء کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anbiyaa
سُورَةُ الأَنبِيَاءِ
صفحہ 330 (آیات 91 سے 101 تک)

وَٱلَّتِىٓ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَٰهَا وَٱبْنَهَآ ءَايَةً لِّلْعَٰلَمِينَ إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ وَتَقَطَّعُوٓا۟ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ ۖ كُلٌّ إِلَيْنَا رَٰجِعُونَ فَمَن يَعْمَلْ مِنَ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِۦ وَإِنَّا لَهُۥ كَٰتِبُونَ وَحَرَٰمٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَٰهَآ أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ حَتَّىٰٓ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ وَٱقْتَرَبَ ٱلْوَعْدُ ٱلْحَقُّ فَإِذَا هِىَ شَٰخِصَةٌ أَبْصَٰرُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يَٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِى غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا بَلْ كُنَّا ظَٰلِمِينَ إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَٰرِدُونَ لَوْ كَانَ هَٰٓؤُلَآءِ ءَالِهَةً مَّا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَٰلِدُونَ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ إِنَّ ٱلَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا ٱلْحُسْنَىٰٓ أُو۟لَٰٓئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ
330

سورۃ الانبیاء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانبیاء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی ہم نے اُس کے اندر اپنی روح سے پھونکا اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatee ahsanat farjaha fanafakhna feeha min roohina wajaAAalnaha waibnaha ayatan lilAAalameena

والتی …للعلمین (91)

یہاں مریم کے نام کو بھی حذف کردیا گیا ہے کیونکہ انبیاء کے تذکرے کے سلسلے میں ان کے بیٹے کا ذکر اصل مقصود تھا۔ آپ کا تذکرہ ان کے حالات کے ذیل میں آگیا اور آپ کی صرف اس صفت کو یہاں دہرایا گیا جس کا تعلق آپ کے بیٹے کے ساتھ ہے۔

والتی احصنت فرجھا (21 : 91) ” جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی۔ “ یعنی اس نے اسے کسی قسم کی مباشرت سے بچایا۔ احصان اپنے قانونی استعمال میں نکاح کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ شادی شدہ ہونا دراصل فحاشی سے بچنے اور پاکدامنی اختیار کرنے کی بہترین صورت ہے۔ یہاں یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو ہر قسم کی مباشرت سے بچانا خواہ قانونی یا غیر قانونی ہو۔ یہ اس لئے کہ یہودیوں نے حضرت مریم پر بدکاری کا الزام لگایا اور انہیں یوسف نجار کے ساتھ مہتمم کیا تھا جو ہیکل کا ایک خدمتگار تھا۔ متد اولہ انجیلس اس بارے میں یہ کہتی ہیں کہ یوسف نجار نے مریم کے ساتھ نکاح کرلیا تھا لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی تھی اور وہ ان کے قریب نہ گیا تھا۔

جب اس نے پاکدامنی اور عفت اختیار کی فنفخنا فیھما من روحنا (21 : 91) ” ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ “ نفخ روح یہاں بھی عام ہے ، اس کا تعلق نہیں ہے۔ جس طرح سورة تحریم میں آ رہا ہے۔ سورة مریم میں ہم اس کی تفصیلات دے چکے ہیں۔ فی ضلال القرآن میں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم آیات الٰہی تک اپنی بات کو محدود رکھتے ہیں۔ اس لئے یہاں بھی ہم تفصیلات میں نہیں جاتے ۔ آیات کے ساتھ ساتھ ہی ہم آخر تک جاتے ہیں۔

وجعلنھا وابنھا ایۃ للعلمین (21 : 91) ” اور اسے اور اس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لئے نشانی بنا دیا۔ “ یہ ایک ایسا معجزہ اور ایسی نشانی تھی کہ نہ اس سے پہلے ایسا واقعہ ہوانہ بعد میں ہوگا۔ پوری انسانی تاریخ میں یہ واحد مثال ہے۔ یہ واقعہ اپنی مثال آپ ، اس لئے بنا دیا گیا کہ پوری انسانیت کے غور و فکر کے لئے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے۔ دست قدرت اپنے بنائے ہوئے قوانین قدرت کے مطابق کام کرتا ہے مگر اللہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کا خود پابند نہیں ہے۔

رسولوں کے اس سلسلے کے بیان کے آخر میں ، جس میں رسولوں کی مثالیں ، ان کی آزمائشوں کی مثالیں ، ان پر اللہ کی رحمتوں کی مثالیں دی گئیں ، اب قرآن مجید ایک جامع بات بطور خلاصہ کلام بیان کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

یہ تمہاری امّت حقیقت میں ایک ہی امّت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna hathihi ommatukum ommatan wahidatan waana rabbukum faoAAbudooni

ان……فاعبدون (92)

انبیاء کا گروہ ایک ہی امت اور ایک ہی جماعت ہے۔ اس کا نظریہ بھی ایک ہے اور وہ سب ایک ہی نظام زندگی کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں۔ ان سب کا رخ اللہ ہی کی طرف ہے۔ زمین پر وہ ایک امت ہیں اور آسمانوں پر ان سب کا خدا ایک ہے۔ ان سب کا شعار صرف یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے۔ اس طرح اس سورة کے ساتھ سبق کا یہ آخری تبصرہ بھی ہم آہنگ ہوجاتا ہے یہ کہ تمام پیغمبر کلمہ توحید کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور اس پوری کائنات کا نظام اس پر شاہد عادل ہے۔

اردو ترجمہ

مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انہوں نے آپس میں دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WataqattaAAoo amrahum baynahum kullun ilayna rajiAAoona

درس نمبر 143 ایک نظر میں

یہ اس سورة کا آخری سبق ہے ، پہلے اسباق میں اس کائنات کے اندر جاری تکوینی قوانین قدرت کا ذکر تھا ، جو اس بات کے لئے نشانی تھے کہ اس کائنات کا خالق ایک ہے۔ جن قوانین کے مطابق اللہ تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہے ، وہ بھی ایک ہیں اور بتاتے ہیں کہ تمام رسولوں کا عقیدہ ایک ہی تھا۔ اس سبق میں مناظر قیامت اور اس کی علامات کا ذکر ہے۔ اس منظر میں مشرکین اور اللہ کے ساتھ ٹھہرائے ہوئے شرکاء کا انجام بتایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ وحدہ متصرف اور متدبر ہے جو پوری کائنات کو چلا رہا ہے۔

اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اقتدار اعلیٰ عطا کرنے کے لئے بھی قوانین اور سنن الہیہ جاری کر رکھے ہیں اور خاتم النبین ﷺ کا بھیجا جانا ، اس دنیا پر درحقیقت اللہ کی رحمت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو کہا جاتا ہے کہ وہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان سے دست بردار ہوجائیں تاکہ یہ لوگ اپنے اللہ کے مقرر کردہ قدرتی انجام تک پہنچ جائیں اور پیغمبر ﷺ کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ ان کے کفر ، تکذیب اور استہزاء پر اللہ سے معاونت طلب کریں۔ انہیں چھوڑ دیں کہ یہ کھیل کود میں مصروف رہیں۔ یوم الحساب تو دور نہیں ہے۔

وتقطعوٓا……لایرجعون (95)

رسولوں کا ایک گروہ ہے۔ یہ ایک ہی نظریہ پر قائم ہے او ان کی امت بھی ایک ہی امت ہے۔ اس امت کی بنیاد کلمہ طیبہ اور توحید پر ہے۔ اس کی شہادت اس پوری کائنات میں جاری وساری قوانین قدرت بھی دیتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی کلمہ ہے جس کی طرف ابتداء سے لے کر انتہاء تک تمام رسولوں نے لوگوں کو بلایا ہے۔ اسلام کا یہ اصل کبیر ہے۔ ہاں مختلف رسولوں کے ہاں قائم ہونے والا مفصل نظام زندگی اور نظام قانون بہرحال مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے۔ مختلف ادوار میں نظام قانونی اقدام کی استعداد اور ان کے درجہ ترقی کی مناسبت سے تشکیل پایا ہے۔ اس میں ان اقوام کے تجربات اور ان کے ذہنی ترقی اور قوت ادراک کو مدنظر رکھا جاتا رہا ہے۔ حیات ، وسائل زندگی اور لوگوں کے باہم ارتباط کے طور طریقوں ، سب کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

باوجود اس کے کہ رسول ایک تھے ، ان کا نظریہ حیات اور عقیدہ ایک تھا ، بعد میں آنے والے ان کے متبین نے اس ایک ہی دین ، نظریہ اور نظام کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہر گوہ دین کا ایک ایک ٹکڑا لے کر علیحدہ ہوگیا او اس کے بعد ان گروہوں کے درمیان اختلافات زیادہ ہوگئے ، عداوت شروع ہوگئی ، دشمنی اس قدر بڑھی کہ جنگ وجدال شروع ہوگئی اور لوگ دینی عقائد کی وجہ سے ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے حالانکہ عقائد ایک تھے ، کیونکہ امت ہی ایک تھی۔

انہوں نے دنیا میں تو اپنے ایک دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے لیکن ان کو یہ خیال نہیں ہے کہ یہ سب کے سب قیامت کی طرف بڑی جلدی سے بڑھ رہے ہیں۔

کل الینا رجعون (21 : 93) ” سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔ “ کیونکہ لوٹنے کی جگہ تو اللہ کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔ اللہ ہی ان سے حساب و کتاب لینے والا ہے اور اس کو علم ہے کہ ان میں حق پر کون ہے اور باطل پر کون ہے۔

اردو ترجمہ

پھر جو نیک عمل کرے گا، اِس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کے کام کی نا قدری نہ ہو گی، اور اُسے ہم لکھ رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faman yaAAmal mina alssalihati wahuwa muminun fala kufrana lisaAAyihi wainna lahu katiboona

فمن یعمل من اصلحت وھو مومن فلا کفران لسعیہ وانا لہ کتبون (21 : 93) ” پھر جو نیک عمل کرے گا اس حال میں کہ وہ مومن ہو ، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہوگی اور اسے ہم لکھ رہے ہیں۔ “ یہ ہے قانون عمل اور جزائے عمل۔ عمل صالح اگر قاعدہ ایمان کے اوپر مبنی ہو تو نہ اس کا انکار ہوگا اور نہ اس کی ناقدری ہوگی۔ وہ اللہ کے ہاں لکھا جا چکا ہوگا اور اس میں سے کوئی چیز لکھنے سے چھوٹ نہیں سکتی۔

اور ایمان پر مبنی ہونا اس لئے ضروری ہے کہ ایمان اور عمل کی قدر و قیمت ہو ، اگر ایمان نہ ہو تو عمل صالح ایمان موجود ہی نہیں ہو سکتا۔ ضروری ہے کہ عمل صالح ایمان کا ثمرہ ہو بلکہ وہ ایمان کا ثبوت ہو۔ ایمان زندگی کی بنیاد ہے کیونکہ ایمان دراصل انسان اور اس کائنات کے درمیان حقیقی رابطہ ہے۔ ایسا رابطہ جو اس کائنات کو اور اس کے اندر تمام موجودات کو خالق واحد کے ساتھ مربوط کردیتا ہے۔ پھر یہ سب کچھ اس ناموس قدرت کی طرف پھرجاتا ہے جس کے مطابق پوری کائنات چل رہی ہے اور جب تک پختہ اساس نہ ہوگی اس وقت تک اس کے اوپر عمارت کھڑی ہی نہیں ہو سکتی۔ عمل صالح کی مثال اونچی بلڈنگ کی ہے۔ اگر یہ اونچی عمارت کسی مضبوط اساس پر نہ اٹھائی جائے تو وہ کسی بھی وقت دھڑام سے گر جاتی ہے۔

پھر عمل صالح ہمیشہ اس ایمان کا ثمر ہوتا ہے جو اگرچہ دلوں میں ہو لیکن زندہ ایمان ہو۔ اسلام کس چیز کا نام ہے ؟ یہ ایک متحرک عقیدہ ہے۔ جس وقت یہ متحرک عقیدہ ضمیر میں اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے تو پھر وہ جسم انسانی سے عمل صالح کی شکل میں نمودار ہوتا ہے بلکہ عمل صالح دراصل ایمان کا ایک پختہ پھل ہوتا ہے۔ یہ پھل لگتا ہی تب ہے اور پختہ بھی تب ہی ہوتا ہے جب درخت زمین کے اندر گہرائی میں جانے والی جڑوں پر کھڑا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جب عمل اور جزاء کا ذکر کرتا ہے تو وہ ایمان اور عمل کو ایک ساتھ لاتا ہے لہٰذا ایسے ایمان پر کوئی جزاء نہیں ہے وہ منجمد ہو ، بالکل بچھا وہا ہو او اس کے ساتھ بالکل کوئی پھل نہ لگتا ہو۔ اسی طرح اس عمل پر جزاء نہیں ہے جو ایمان سے کٹا ہوا ہو۔

بعض اوقات بغیر ایمان کے بھی ایک اچھا عمل دیکھا جاتا ہے ، لیکن یہ ایک عارضی اتفاق ہوتا ہے ، کیونکہ یہ عمل ایک مکمل نقشے کے مطابق نہیں ہوتا نہ کسی قاعدے اور قانون پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ دراصل بعض اوقات ایک عاضری جذبے یا عارضی خواہش کے مطابق ظاہر ہوجاتا ہے اور اس کی پشت پر کوئی حقیقی باعث یا سبب نہیں ہوتا جو اس کائنات کے اندر کوئی حقیقت رکھتا ہو۔ مضبوط حقیقت یہ ہے کہ عمل صالح خدائے ذوالجلال کی رضا مندی کے لئے کیا جائے۔ ایسا ہی عمل دراصل تعمیری عمل ہوتا ہے۔ ایسا ہی عمل اس کمال اور ترقی کا سبب بنتا ہے جو اللہ نے اس دنیا کی زندگی کی ترقی کے لئے طے کیا ہے۔ پس عمل صالح وہ بامقصد تحریک ہے جو اس زندگی کے مقصد کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ محض عارضی جذبہ یا محض اتفاقی اثر اس کا باعث نہیں ہوتا بلکہ وہ با مقصد عمل ہوتا ہے۔ پھر یہ عمل ایسا ہو کہ جس طرح یہ پوری کائنات خالق کائنات کے قانون قدرت کے مطابق چل رہی ہے اسی طرح وہ عمل بھی خالق کائنات کے قانون انسانی اور قانون فطرت کے مطابق ہو۔ دونوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔

عمل کی مکمل جزاء تو آخرت میں ملتی ہے اگرچہ اس کا ایک حصہ اس دنیا میں بھی مل جائے۔ جن بستیوں کو دنیا میں بلاک کیا گیا ان کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا آخرت میں بھی ملے گی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کو میدان حشر میں نہ اٹھایا جائے۔ لازماً حشر کے میدان میں یہ سب لوگ اٹھائے جائیں گے۔

اردو ترجمہ

اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پھر پلٹ سکے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waharamun AAala qaryatin ahlaknaha annahum la yarjiAAoona

وحرم علی قریۃ اھلکنھا انھم لایرجعون (21 : 95) ” اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا وہ پلٹ کر نہ آئے گی۔ “

یہاں ہلاک شدہ بستیوں کا ذکر فرمایا جاتا ہے ، خصوصیت کے ساتھ ، اس لئے کہ اس سے قبل کہا گیا تھا کہ

کل الینارجعون (21 : 93) ” سب ہماری طرف پلٹ کر آنے والے ہیں۔ “ بعض اوقات ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ جن بستیوں کو دنیا میں ہلاک کردیا گیا ہے شاید وہ ہمیشہ کے لئے ختم کردی گئیں اور وہ پلٹ کر نہ آئیں گی اور ان کا حساب و کتاب ختم ہوگیا اس لئے یہاں دوبارہ تاکید کی جاتی ہے کہ یہ بستیاں ضرور واپس لوٹ کر قیامت میں آئیں گی اور نہ ان کا آنا حرام ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہلاک شدہ بستیاں نہ آئیں۔ یہ انداز کلام ذرا عجیب و غریب ہے۔ اس لئے بعض مفسرین نے یہ تاویل کی ہے کہ ” لا “ یہاں زائد ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب ان بستیوں کو نابود کردیا گیا تو پھر وہ واپس نہیں آسکتیں۔ بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ اس ہلاکت کے بعد ان کا رجوع ہدایت کی طرف نہیں ہوسکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں تاویلوں کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ نص قرآنی کی وہی تفسیر بہتر ہے جو اس کی ظاہری ترکیب کے مطابق ہو اور سیاق کلام میں اس مفہوم کے لئے قرینہ بھی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔

اس کے بعد مناظر قیامت میں سے ایک منظر کو یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ اس منظر کا آغاز اس علامت سے کیا جاتا ہے کہ جس کا ظہور قرب قیامت کے زمانے میں ہوگا۔ وہ ہے یا جوج اور ماجوج کا کھل کر ٹوٹ پڑنا۔

اردو ترجمہ

یہاں تک کہ جب یاجُوج و ماجُوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatta itha futihat yajooju wamajooju wahum min kulli hadabin yansiloona

حتی اذا ……فعلین (104)

سورة کہف میں قصہ ذوالقرنین کے بیان میں ہم نے یہ کہا تھا ” یاجوج اور ماجوج کے کھلنے کے ساتھ قرب قیامت کے وقت کا جو ذکر آتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ قرب قیامت تاتاریوں کے نکلنے سے واقع ہوگیا ہو ، تاتاری نکلے اور آناً فاناً شرق و غرب پر چھا گئے اور انہوں نے تمام ممالک اور بادشاہوں کو روند ڈالا اس لئے کہ قرآن نے حضور اکرم ؐ کے زمانے ہی میں کہہ دیا تھا کہ و اقتربت الساعۃ ” قیامت قریب آگئی “ نیز قایمت کے قریب ہونے سے بھی ” قریب “ کا تعین نہیں ہوتا کیونکہ زمانے کا حساب انسانوں کے نزدیک اور اللہ کے نزدیک بالکل مختلف ہے۔ اللہ کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ “

یہاں اس دن کے مناظر بتائے جا رہے ہیں جب وہ آجائے گا او اس دن کے آنے سے قبل زمین کے اندر جو واقعات ہوں گے وہ یہ کہ یاجوج اور ماجوج ہر طرف سے پھوٹ پڑیں گے اور پھر بلندی سے وہ ٹوٹ پڑیں گے۔ قرآن کریم کا یہ خاص انداز ہے کہ وہ زمین کے مالوف مناظر کو پیش کر کے انسان کو اخروی مناظر کی طرف لے جاتا ہے۔

یہاں قیامت کا جو منظر پیش کیا جا رہا ہے اس میں سر پر ائز دینے کا ایک عنصر ہے۔ اس منظر کو اچانک دیکھ کر لوگ مبہوت رہ جائیں گے۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

فاذا ھی شاخصۃ ابصار الذین کفروا (21 : 98) ” یکایک ان لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کفر کیا تھا۔ “ یہ منظر اس قدر اچانک ہوگا کہ اس کے خوف کی وجہ سے لوگوں کو کچھ نظر ہی نہ آئے گا۔ یہاں قرآن کریم نے ابصار سے پہلے شافعہ کا لفظ رکھا ہے تاہ اس منظر کو اچھی طرح ذہن نشین کر دے۔ اب ان کے حالات اور ان کی حالت کو چھوڑ کر قرآن ان کے مکالمے کو نقلک رتا ہے۔ اس طرح یہ منظر اسکرین پر واضح ہو کر آتا ہے۔

قالوا یویلنا قد کنا فی غفلۃ من ھذا بل کنا ظلمین (21 : 98) ” کہیں گے ہائے ! ہماری کم بختی ، ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم خطاکار تھے۔ “ یہ ہے فریاد اس شخص کی جس پر غیر متوقع طور پر کوئی مصیبت آجائے۔ ایک خطرناک حقیقت اچانک اس پر کھل جائے۔ وہ دہشت زدہ ہوجائے۔ دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں۔ دیکھے مگر نظر نہ آئے۔ آخر کار چیخ اٹھے کہ مارے گئے۔ اعتراف گناہ کرلے۔ نادم ہوجائے مگر بعد از وقت۔

جب اچانک پکڑے جانے ، دہشت زدہ ہونے ، اور حواس بحال ہونے کے بعد اعتراف ہوتا ہے تو حکم الٰہی فی الفور صادر ہوتا ہے۔

انکم و ماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم انتم لھا وردون (21 : 98)

اردو ترجمہ

اور وعدہ برحق کے پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا تو یکا یک اُن لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کفر کیا تھا کہیں گے "ہائے ہماری کم بختی، ہم اِس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے، بلکہ ہم خطا کار تھے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waiqtaraba alwaAAdu alhaqqu faitha hiya shakhisatun absaru allatheena kafaroo ya waylana qad kunna fee ghaflatin min hatha bal kunna thalimeena

اردو ترجمہ

بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innakum wama taAAbudoona min dooni Allahi hasabu jahannama antum laha waridoona

انکم و ماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم انتم لھا وردون (21 : 98)

ترجمہ :۔

” بیشک تم اور تمہارے وہ معبود جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو ، جہنم کا ایندھن ہو ، وہیں تم کو جانا ہے۔ “ اچانک یہ لوگ اب میدان حشر میں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ یہ جہنم کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ بڑی بےدردی کے ساتھ فرشتے ان کو اور ان کے معبودوں کو پکڑتے ہیں اور جہنم میں پھینکتے ہیں۔ وہاں پھینکے جاتے ہیں اور ایندھن کے ساتھ ایندھن ہو کر جلتے جاتے ہیں۔ صرف اس منظر سے ان کے خلاف استدلال ، وجدانی استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر یہ الہ ہوتے تو وہ جہنم کا ایندھن نہ بنتے۔ یہ ہے واقعی وجدانی دلیل۔

لوکان ھولآء الھۃ ماوردوھا (21 : 99) ” اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ “ یہ منظر ان کے سامنے تو قرآن اس دنیا میں پیش کر رہا ہے ، لیکن اس طرح کہ گویا یہ منظر ہو کر گزر گیا ہے۔ وہ عملاً جہنم کے دھانے تک پہنچ گئے اور وہاں ڈال دیئے گئے تو اب جہنم میں ان کا جو حال ہے ، وہ پیش کردیا جاتا ہے ۔ اس طرح کہ جس طرح کوئی عملاً ایسے حالات میں پڑا ہو۔

وکل فیھا خلدون (21 : 99) لھم فیھا زفیر وھم فیھا لا یسمعون (21 : 100) ” اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ وہاں وہ پھنکارے ماریں گے اور حال یہ ہوگا کہ اس میں کان بڑی آواز نہ سنائی دے گی۔ “ اب ذرا ان کو یہاں ہی چھوڑیئے اور آیئے دیکھیں مومنین کا حال کیسا ہے۔ ان کے حق میں تو فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ کامیابی اور نجات ان کا مقصدر ہوچکی ہے۔

اردو ترجمہ

اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Law kana haolai alihatan ma waradooha wakullun feeha khalidoona

اردو ترجمہ

وہاں وہ پھنکارے ماریں گے اور حال یہ ہو گا کہ اس میں کان پڑی آواز نہ سنائی دے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahum feeha zafeerun wahum feeha la yasmaAAoona

اردو ترجمہ

رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھَلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہوگا، تو وہ یقیناً اُس سے دُور رکھے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena sabaqat lahum minna alhusna olaika AAanha mubAAadoona

ان الذین سبقت ……خلدون (21 : 102) ” رہے وہ لوگ جن کے بارے میں ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو وہ یقینا اس سے دور رکھے جائیں گے۔ اس کی سرسراہٹ تک نہ نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ من بھاتی چیزوں میں رہیں گے۔ ‘ لفظ حسبھا ان الفاظ میں سے ہے جو اپنے صوتی ترنم سے اپنے مفہوم کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ لفظ آگ کی اس آواز کو ظاہر کرتا ہے جو جلتی ہے اور جلاتی ہے اور سر سر کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ ایسی آواز ہے کہ اس کے تصور سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس پر اس کے بارے میں سوچتے ہی کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان جن کے بارے میں اچھا فیصلہ صادر ہوچکا ہے اس آواز کو بھی نہ سنیں گے۔ دیکھیں گے بھی نہیں کیونکہ وہ اس دن کے عظیم جزع و فزع سے نجات پا چکے ہیں۔ وہ ایسے باغات میں ہوں گے جن میں ان کو متام مرغوبات فراہم ہوں گی۔ ملائکہ انہیں ہر طرف سے اچھا کہیں گے اور ان کے ساتھ رہیں گے تاکہ یہ لوگ اس دن کے خوف و ہراس سے متاثر نہ ہوں۔

330