سورہ یوسف (12): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yusuf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يوسف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یوسف کے بارے میں معلومات

Surah Yusuf
سُورَةُ يُوسُفَ
صفحہ 242 (آیات 53 سے 63 تک)

۞ وَمَآ أُبَرِّئُ نَفْسِىٓ ۚ إِنَّ ٱلنَّفْسَ لَأَمَّارَةٌۢ بِٱلسُّوٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىٓ ۚ إِنَّ رَبِّى غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَقَالَ ٱلْمَلِكُ ٱئْتُونِى بِهِۦٓ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِى ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُۥ قَالَ إِنَّكَ ٱلْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ قَالَ ٱجْعَلْنِى عَلَىٰ خَزَآئِنِ ٱلْأَرْضِ ۖ إِنِّى حَفِيظٌ عَلِيمٌ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِى ٱلْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَآءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَآءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ وَلَأَجْرُ ٱلْءَاخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَكَانُوا۟ يَتَّقُونَ وَجَآءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا۟ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُۥ مُنكِرُونَ وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ٱئْتُونِى بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ ۚ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّىٓ أُوفِى ٱلْكَيْلَ وَأَنَا۠ خَيْرُ ٱلْمُنزِلِينَ فَإِن لَّمْ تَأْتُونِى بِهِۦ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِندِى وَلَا تَقْرَبُونِ قَالُوا۟ سَنُرَٰوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَٰعِلُونَ وَقَالَ لِفِتْيَٰنِهِ ٱجْعَلُوا۟ بِضَٰعَتَهُمْ فِى رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَآ إِذَا ٱنقَلَبُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ فَلَمَّا رَجَعُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَبِيهِمْ قَالُوا۟ يَٰٓأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا ٱلْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَآ أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَٰفِظُونَ
242

سورہ یوسف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یوسف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama obarrio nafsee inna alnnafsa laammaratun bialssooi illa ma rahima rabbee inna rabbee ghafoorun raheemun

پارہ 13 ایک نظر میں

یہ پارہ سورة یوسف کے بقیہ حصے اور سورة رعد اور سورة ابراہیم پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں سورتیں بھی مکی ہیں۔ گویا یہ پورا پارہ مکی قرآن پر مشتمل ہے اور اس میں مکی سورتوں کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔

سورة رعد اور سورة ابراہیم پر تبصرے ہم آئندہ پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ رہی سورة یوسف تو اس کے بقیہ حصے کے مطالعہ سے قبل امید ہے کہ قارئین گذشتہ پارے میں سورة یوسف پر کئے گئے تبصرہ کو ذہن میں رکھیں گے۔

اس پارے میں سورة یوسف کا باقی حصہ ہے اور اس کے اندر جا بجا تبصرے ہیں۔ اور آخر میں اس پوری سورة پر ایک تبصرہ ہے۔ اس حصے میں ہم قصے کے مرکزی کردار حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ذاتی زندگی اور ان کی شخصیت کے بعض نئے پہلوؤں سے متعارف ہوتے ہیں یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اب ذرا مختلف روپ میں سامنے آتی ہے ۔ اس شخصیت کے ان بنیادی عناصر ترکیبی کے ساتھ ساتھ جن کا ذکر ہم نے اس قصے کے کرداروں کے بیان کے ضمن میں کیا ہے ، یہاں اس جدید مرحلے میں ان کی شخصیت کے کچھ نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ شخصیت آغاز سے لے کر آخر تک ایک ہی سے خدو خال رکھتی ہے لیکن اس نئے مرحلے میں اس کی کچھ نئی خوبیاں سامنے آتی ہیں اور بظاہر یہ نئی خصوصیات کئی نظر آتی ہیں۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اپنے نشوونما اور بات اور واقعات اور ان مشکلات کی وجہ سے جو ان کو پیش آتی رہیں اب ایک مکمل شخصیت ہے۔ شخصیت کی یہ تکمیل خالص ربانی تربیت کے تحت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک بندہ صالح بن کر سامنے آتے ہیں۔ اس بندہ کی صالح کو تیار ہی اس لئے کیا جارہا ہے کہ زمین میں اس کو تمکن حاصل ہو اور مشرق وسطیٰ کے ایک ایسے ملک میں اسے اقتدار ملے جہاں سے ہر چیز ہر طرف سپلائی جاتی ہے۔

اس شخصیت کے نئے خدو خال کیا ہیں ؟ سب سے پہلے یہ کہ ان کا تعلق باللہ بہت گہرا ہے اور وہ راضی برضا ہیں۔ وہ اللہ کے ہوگئے ہیں اور ان کو اللہ پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ انہوں نے تمام دنیاوی اقدار کا لیا وہ اتار دیا ہے ، زمین کے تمام بندھنوں سے آزاد ہوگئے ہیں۔ وہ اس دنیا کے حکمرانوں سے بےنیاز ہیں۔ یہ دنیاوی قدریں اور یہ قوتیں اس شخصیت کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کیونکہ اس شخصیت نے اب صرف اللہ سے لو لگا لی ہے۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت میں یہ اوصاف اس وقت سامنے آتے ہیں جب بادشاہ مصر کے فرستادے قید خانے میں ان کے پاس آتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اس موقع پر آپے سے باہر نہیں ہوجاتے۔ نہ وہ اس قید خانے کی تاریکیوں سے نکلنے اور بادشاہ وقت سے ملاقات کرنے کے لئے کسی بےتابی کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ ایسے مواقع پر بےتابی اور جلد بازی کا اظہار ہو ہی جاتا ہے خصوصاً جبکہ ایک شخص قید خانے کی کوٹھڑی میں بند ہو۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار میں اس تبدیلی کو تب ہی سمجھا جاسکتا ہے جب ہم ذرا چند سال پیچھے ہٹ کر حالات کا معالعہ کریں۔ چند سال پیشتر خود انہوں نے اس شخص سے جو رہا ہونے والا تھا ، درخواست کی تھی کہ بادشاہ کے سامنے ان کے کیس کو پیش کریں۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس طرح اس شخصیت کی قدریں بدل گئی ہیں ، ایمان تو اپنی جگہ پہلے کی طرح موجود ہے ، لیکن اب ان کی شخصیت میں ایک طمانیت ہے ۔ وہ اب بھی اللہ کی تقدیر پر راضی ہیں اور تقدیر کے ساتھ چل رہے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ تقدیر اپنا کام کیسے کرتی ہے ۔ ان کو وہ اطمینان حاصل ہے جس کے طلبگار ان کے جد اعلیٰ تھے جنہوں نے خدا سے مطالبہ کیا تھا “ اے رب ، مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے ؟ “ تو رب تعالیٰ نے فرمایا : “ کیا تجھے یقین نہیں ہے ؟ “ لیکن انہوں نے کہا “ یقین تو ہے لیکن میں قلبی اطمینان چاہتا ہوں ”۔

یہ ہے وہ اطمینان جو ربانی تربیت نے اس بندۂ مختار کی دل میں انڈیل دیا ہے۔ ابتلاؤں سے گزار کر ، مشکلات میں مبتلا کر کے ، مختلف حالات اور مشاہدوں سے گزار کر اور علم و معرفت اور یقین و اطمینان عطا کر کے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔

اس مرحلے کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار میں یہ صفت بہت واضح ہے ۔ یہاں تک اس سورة کے آخری تبصرے ہیں۔ وہ جب اپنے رب کے ساتھ مناجات میں ہیں تو وہ تمام دنیاوی قدروں سے بےنیاز نہیں ۔ فرماتے ہیں :

رب قد اتیتنی من الملک و علمتنی من تاویل الاحادیث فاطر السموت والارض انت ولی فی الدنیا والاخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصلحین (101)

“ اے رب تو نے مجھے مملکت عطا کردی ہے ، بات کی تہہ تک پہنچنا سکھا دیا ہے۔ دنیا و آخرت میں تو ہی میرا والی ہے۔ مجھے ایک مسلمان کی طرح موت دے اور صالحین کے ساتھ ملا دے ”۔

اب رہیں وہ تعصبات اور تبصرے جو اس سورة میں آئے ہیں ان کے بارے میں ہم بہت کچھ کہہ آئے ہیں اور مزید تشریحات تفسیر آیات میں آئیں گی۔ یہاں تو فقط اس تبدیلی کا تذکرہ مطلوب تھا جو اس بندۂ مختار کی شخصیت میں پیدا ہوئی جو اس قصے میں بڑا کردار ہیں۔ اس تبدیلی کے ساتھ دراصل ان کی شخصیت اب ایک مکمل شخصیت ہے۔ نیز یہ خصوصیت وہ ہے جسے اس پورے حصے میں اجاگر کرنا مطلوب ہے کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے احیائے اسلام کا کام کرنا ہے اور یہی قرآن کا منہاج انقلاب ہے کہ وہ قارئین کے ذہن میں اصل مقصد بٹھا دیتا ہے۔

اب ہم آیات کی تشریح و تفسیر کی طرف آتے ہیں۔

درس نمبر 109 ایک نظر میں

اس سبق میں قصہ یوسف (علیہ السلام) ذرا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس قصے کے چار بڑے مناظر میں سے یہ چوتھا منظر ہے۔ پچھلے پارے میں اس قصے کی تین کڑیاں ختم ہوگئی تھیں۔ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) قید خانے سے باہر آگئے ہیں۔ بادشاہ نے خود درخواست کی ہے کہ وہ انہیں ایک اہم منصب سپرد کرنے والے ہیں۔ ان کے اس نئے منصب کی ذمہ داریوں کے بارے میں یہاں اب بات ہوگی۔

یہ سبق سابقہ منظر کے آخری فقرے سے شروع ہوتا ہے۔ گذشتہ منظر کی آخری کڑی یہ تھی کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خواہش کے مطابق بادشاہ نے ان عورتوں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں انکوائری کی تھی جنہوں نے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اسباب نکھر کر سامنے آجائیں جن کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ناحق جیل جانا پڑا تھا تا کہ ان کی بےگناہی کا اعلان ہوجائے اور یہ بات ان کے نئے منصب کے لئے ضروری تھی تا کہ وہ اپنی نئی ذمہ داریاں نہایت اطمینان ، نہایت وثوق اور اعتماد سے پوری کریں۔ ان کا نفس مطمئن ہو اور وہ اعتماد کے ساتھ امور مملکت سر انجام دیں۔ اب ان کی دعوتی زندگی دو قسم کی سر گرمیوں پر مشتمل تھی۔ ایک مملکت کی ذمہ داریاں اور ایک دعوت اسلامی کی ذمہ داریاں ۔ لہٰذا مناسب یہ تھا کہ ان دہری ذمہ داریوں کے اس دور میں وہ ماضی کے گردوغبار کو جھاڑ کر اور ہلکے پھلکے ہو کر سامنے آئیں۔

ان کی شرافت یہ تھی کہ انہوں نے اس مرحلے پر عزیز مصر کی عورت کے بارے میں کچھ نہیں کہا ، بلکہ اس کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔ صرف یہ کہا کہ بادشاہ کو ان عورتوں کے معاملے میں تحقیق کرنا چاہئے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ لیکن عزیز مصر کی بیوی خود سامنے آتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ حقیقت کیا تھی اور ہوا کیا تھا ؟

قال ما خطبکن ۔۔۔۔۔۔۔ ان ربی غفور رحیم ( یوسف 51 تا 53 ) “ اب حق کھل چکا ہے ، وہ میں ہی تھی جس نے اسے پھیلانے کی کوشش کی تھی ، بیشک وہ بالکل سچا ہے ، اس سے میری غرض یہ تھی کہ یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اسی سے خیانت نہیں کی اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں اللہ ان کی چالوں کو کامیابی کی راہ پر نہیں ڈالتا۔ میں کچھ اپنے نفس کی براءت نہیں کرتی۔ نفس بدی پر اکساتا ہی ہے الایہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو ، بیشک میرا بڑا غفور و رحیم ہے ”۔

یہاں آکر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا المناک ماضی ختم ہوجاتا ہے اور اب خوشحالی ، عزت اور اقتدار کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

آیت نمبر 53 تا 57

اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف (علیہ السلام) کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ اسی طرح ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں ، نوازتے ہیں ، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا ، اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے ”۔

بادشاہ کے ہاں یوسف (علیہ السلام) کی پاکدامنی بھی ہوگئی ، اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے خواب کی سچی تعبیر بھی معلوم ہوگئی ، بادشاہ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عورتوں کے معاملے کی چھان بین کس طرح کرالی۔ نیز ان کی شرافت اور عزت نفس بھی اس کے سامنے کھل کر ثابت ہوگئی کہ یہ شخص براءت کے بغیر جیل خانے سے بھی باہر آنا گوارا نہیں کرتا ، نہ ہی وہ بادشاہ سے ملاقات کے لئے بےتاب ہے۔ بادشاہ بھی کوئی معمولی بادشاہ نہ تھا بلکہ مصر جیسے بڑے ملک کا بادشاہ تھا۔ انہوں نے اس موقعے پر نہایت ہی شریف اور کریم شخص کا موقف اختیار کیا جو الزام کے ہوتے ہوئے جیل سے باہر آنا گوارا نہیں کرتا۔ وہ حصول مناصب ، بادشاہ سے ملاقات اور جیل کی مشکلات سے ربانی سے قبل اپنی عزت اور شہرت پر سے داغ ہٹانا چاہتا ہے۔ اور یہ کچھ وہ بادشاہ کے دربار میں قدم رکھنے سے قبل چاہتا ہے۔ ان تمام امور نے بادشاہ کے دل میں ان کی وقعت اور اہمیت کو اور بڑھا دیا اس لئے اس نے کہا :

وقال الملک ئتونی بہ استخلصہ لنفسی (12 : 54) بادشاہ نے کہا “ انہیں میرے پاس لاؤ تا کہ میں ان کو اپنے لئے مخصوص کرلوں ”۔ بادشاہ وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کو محض رہائی کے لئے طلب نہیں فرماتے یا محض اس لئے نہیں بلا رہے کہ وہ نفسیات اور تعبیر خواب کے ماہر ہیں ، نہ اس لئے بلا رہے ہیں کہ ان کو بادشاہ سلامت کی رضا مندی کی اطلاع دے دیں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) پھولے نہ سمائیں ۔ ان مقاصد کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ بادشاہ کے مخصوص مشیر اور ذاتی دوست اور معتمد علیہ ہوں۔

ہمیں ان لوگوں کی حالت پر رونا آتا ہے جو اپنی عزت اور شرافت کو بادشاہوں کے قوموں میں نچھاور کرتے ہیں۔ یہ لوگ آزاد اور بری الذمہ ہیں لیکن یہ خود غلامی کا جوا اپنے ہاتھ سے لے کر اپنی گردنوں میں ڈالتے ہیں اور بڑوں کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں یا ان کی طرف سے تعریف کا ایک لفظ سن کر خوش ہوتے ہیں اور پھر نہایت ہی مطیع فرمان بن کر رہتے ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو بڑوں کے سامنے دلیل کرتے ہیں اور بچھے جاتے ہیں۔ کاش اس قسم کے لوگ سورة یوسف پڑھتے اور معلوم کرتے کہ خودداری ، عزت نفس اور شرافت اور سنجیدگی میں کیا مزہ ہے۔ حالانکہ خود داری ، عزت نفس اور کرامت کے فائدے چاپلوسی ، غلامی اور ذلت کی زندگی سے زیادہ ہیں۔ بہرحال بادشاہ نے یہ حکم دیا۔

وقال الملک ئتونی بہ استخلصہ لنفسی (12 : 54) بادشاہ نے کہا “ انہیں میرے پاس لاؤ تا کہ میں ان کو اپنے لئے مخصوص کرلوں ”۔

اب یہاں سیاق کلام میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی وغیرہ کی کڑیاں حذف کردی گئی ہیں اور انسانی تخیل پر چھوڑ دی گئی ہیں۔

فلما کلمہ قال انک الیوم لدینا مکین امین (12 : 54) “ اب آپ ہمارے ہاں قدرو منزلت رکھتے ہیں اور ہمیں آپ کی امانت پر بھروسہ ہے ” ۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ سے گفتگو کی تو اسے معلوم ہوگیا کہ یوسف (علیہ السلام) کی علامات جو کچھ بتا رہی تھیں وہ ان کے مطابق سچے ہیں تو بادشاہ نے اعلان کردیا کہ یوسف (علیہ السلام) ہماری مملکت میں اب صاحب قدرو منزلت ہیں۔ اب یوسف (علیہ السلام) عبرانی غلام نہیں ہیں ، نہ ہی وہ اس تہمت میں گرفتار ملزم ہیں جو عزیز مصر کی بیوی نے ان پر لگائی تھی۔ اب وہ ایک باعزت شخصیت ہیں اور بادشاہ کے ہاں انہیں اونچا مقام حاصل ہے اور وہ بہت ہی امانت دار شخص ہیں۔

بادشاہ کی طرف سے اس اعلان کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کا رویہ کیا رہا۔ انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدۂ شکر ادا نہیں کیا۔ جیسا کہ عموماً بادشاہوں کے مصاحب سجدے کرتے ہیں۔ نہ انہوں نے تملق اور چاپلوسی سے کہا اے میرے آقا ! تم زندہ رہو اور یہ غلام تمہارا خادم رہے گا۔ یا یہ کہ میں تمہارا امین ، خادم اور غلام ہوں۔ بلکہ تملق اور چاپلوسی کے بجائے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ مملکت کو پیش آنے والی مشکلات میں وہ جو خدمات کرسکتے ہیں اس کے لئے وہ حاضر ہیں ان آنے والے حالات کے مطابق جو تعبیر خواب کے نتیجے میں لازماً آنے والے ہیں کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پختہ یقین تھا کہ آنے والی مشکلات کو صرف وہی دیکھ رہے ہیں اور صرف وہی ان کے لئے تیاری اور پیش بندی کرسکتے ہیں ورنہ لوگ قحط کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ صرف یوسف (علیہ السلام) ہی تھے جو اپنی دیانت وامانت کی وجہ سے ملک کو بچا سکتے تھے۔

اردو ترجمہ

بادشاہ نے کہا "اُنہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں" جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا "اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala almaliku itoonee bihi astakhlishu linafsee falamma kallamahu qala innaka alyawma ladayna makeenun ameenun

قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم (12 : 55) یوسف (علیہ السلام) نے کہا “ ملک کے خزانے میرے پیرو کیجئے ، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ”۔

آئندہ کی مہم کا خلاصہ یہ ہے کہ سات سال سرسبزی کے ہیں اور ان میں اس بات کی ضرورت ہے کہ پیداوار کے ایک ۔۔۔۔۔ بچایا جائے ، امور مملکت کو اچھے طریقے سے چلایا جائے ، مملکت کے تمام شعبوں کو درست کیا جائے اور خوشحالی کے دور میں ایسی پلاننگ کی جائے کہ بدحالی اور خشک سالی میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اسی لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایسی ہی صلاحیتوں کا ذکر کیا اور جو ایسے حالات کے لئے ضروری تھیں یعنی حفیظ وعلیم۔ اور مصر اور تمام علاقائی ، ممالک کے لئے یہ انتظام مفید تھا۔ اس لئے کہا انی حفیظ علیم (12 : 55) حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ مطالبہ اس لئے نہ تھا کہ وہ وزارت خزانہ لے کر اپنے لئے کچھ مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ ایک صاحب رائے دانشور تھے اور انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ اس ڈیوٹی کے لئے ان سے زیادہ اور کوئی موزوں شخص نہیں ہے۔ آنے والا دور ایک عبرانی دور ہوگا کیونکہ پوری مصری قوم اور پڑوسی اقوام کے لئے غلے اور دوسری رصد کے انتظام کا عظیم مسئلہ در پیش ہوگا۔ سات اچھے سالوں میں کفایت شعاری اور سات مشکل سالوں میں سپلائی کو بحال رکھنے کا عظیم انتظام درپیش تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی ذات کے لئے کچھ طلب نہ فرماتے تھے بلکہ یہ تو وہ عظیم ذمہ داری تھی جس سے ہر ایک بھاگ رہا تھا ، کوئی شخص بھی خوشی سے غنیمت سمجھ کر اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا ۔ ایک تو یہ کہ شاہی نظام میں گردن زدنی کا بھی خطرہ تھا ، دوسرے یہ کہ عوام الناس کو بھوک اور افلاس کی حالت میں کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب عوام بھوکے ہوں تو وہ مجنون کی طرح اہلکاروں کو پھاڑ کھاتے ہیں۔ یہ تمام امکانات حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پیش نظر تھے۔

یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا اور مطالبہ کیا کہ “ مجھے زمین کے خزانوں پر نگراں کر دیجئے ، میں حفیظ وعلیم ہوں ”۔ کیا ان کی طرف سے یہ منصب کا مطالبہ نہیں ہے جو اسلامی نظام میں سخت معیوب ہوتا ہے ۔ جبکہ یہ تو کسی منصب پر مقرر کرنے کا صریح مطالبہ ہے ، اور حدیث میں آتا ہے (خدا کی قسم ہم اس معاملے کو اس شخص کے حوالے نہیں کرتے جو اس کا مطالبہ کرے ) (متفق علیہ ) ۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہاں خود بتایا ہے کہ وہ حفیظ اور علیم ہیں۔ یہ ایک گونہ اعلان تزکیہ نفس ہے اور خود قرآن میں آتا ہے۔ فلا تزکوا انفسکم “ اپنی پاکی داماں کی حمایت مت کرو ”۔ اس کا آسان جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ انتظامی اصول حضور اکرم ﷺ کے دور میں تو نافذ ہوئے لیکن ضروری نہیں ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں بھی یہ ممنوع ہوں۔ کیونکہ تمام پیغمبروں کا اصول دین پر تو اتفاق رہا ہے لیکن انتظامی امور اور شرعی قوانین ہر ایک کے ہاں جدا تھے۔

لیکن ہم یہ سر سری جواب نہیں دیتے کیونکہ اس مسئلے کو ذرا گہرائی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے نتائج نہایت گہرے اور دور رس ہیں۔ اس کے کچھ اور پہلو اور اعتبارات ہیں ، اسے ان پہلوؤں سے وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے تا کہ ہم احکام فقیہہ کے استنباط میں اس وسیع نقطہ نظر سے مسائل کا استنباط کرسکیں اور فقہی احکام کو بھی تحریکی اندازدے سکیں۔ کیونکہ فقہی احکام ، ان کے استنباط کا طریق کار اور اصول فقہ بھی مسلمانوں کے دور جمود اور زوال میں منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کو بھی تحریکی Daynamic انداز دینا ضروری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فقہ محض خلاء میں وجود میں نہیں آئی نہ اسے محض خلاء میں سمجھا یا نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ فقہ اسلامی کا ارتقاء ایک ارتقاء پذیر اسلامی معاشرے کے اندر ہوا ہے۔ اس معاشرے کو اپنے ارتقائی دور میں اسلامی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ یہ فقہ اسلامی نہ تھی جس نے کسی اسلامی معاشرے کو جنم دیا ہو ، بلکہ ایک اسلامی معاشرہ کے اندر اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اسلامی فقہ ارتقاء پذیر ہوئی۔ یہ دو عظیم حقائق ہیں اور اسلامی تاریخ ان پر گواہ ہے۔ اسلامی معاشرے اور تخلیق فقہ کے باہم تعلق کو جب تک نہ سمجھیں گے اس وقت تک ہم اسلامی فقہ کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور نہ اسلامی فقہ کی تحریکی اور ارتقائی حیثیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو آج ان نصوص کو پڑھتے اور فقہ کے مدون احکام کو لیتے ہیں اور ان کے پیش نظریہ حقیقت نہیں ہوتی کہ پہلی اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تھا اور پھر فقہ وجود میں آئی اور وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ نصوص کن حالات میں نازل ہوئیں اور اسلامی فقہی مسائل کس طرح مرتب ہوئے ، خصوصاً وہ ماحول ، وہ معاشرہ اور وہ مزاج جن میں یہ نصوص نازل ہوئیں ان کو بھی پیش نظر نہیں رکھتے تو اس قسم کے لوگ اس قانون کو محض خلاء میں نافذ کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ کوئی قانونی نظام کسی خلاء میں نافذ نہیں ہوا کرتا بلکہ وہ معاشرے میں نافذ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل فقہاء نہیں ہیں نہ یہ لوگ ماہرین قانون اسلامی ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت اسلامی نظام کے مزاج ہی کو نہیں سمجھے نہ اس دین کی حقیقت کو سمجھے ہیں۔

تحریکی فقہ دراصل اس فقہ سے مختلف ہے جو کتابوں کے اوراق میں ہے ، اگرچہ فقہ تحریکی بھی ان اصول اور نصوص پر مبنی ہوتا ہے جن پر فقہ اوراق مبنی ہے۔ تحریکی فقہ ان حالات پر بھی نظر رکھتی ہے جن میں نصوص قرآن و سنت کا نزول ہوا۔ ایک عملی فقیہ کو نظر آتا ہے کہ شان نزول اور حالات نزول دونوں کو اصل نصوص سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کسی نص کو ہم ان حالات سے علیحدہ کر کے اس پر غور کریں گے جن میں وہ نازل ہوئی تھی تو ہمارا استنباط اور اجتہاد غلط ہوجائے گا۔ اور اس طرح جو فقہ مرتب ہوگی وہ درست نہ ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی فقہی حکم خداوندی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی جگہ مستقلاً خلاء میں آیا ہو اور جس میں اس وقت کے ماحول اور معاشرے کے اثرات نہ ہوں جن میں وہ پہلی مرتبہ وارد ہوا۔ کوئی فقہی حکم اور اجتہاد چونکہ خلاء میں نہیں ہوا اس لئے وہ خلاء میں نہیں رہ سکتا۔

یہ اصول جو اوپر ہم نے بیان کیا اس کی مثال وہ احکام ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو اپنی پاکی داماں کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے یا کسی شخص کو اپنے آپ کو کسی منصب کے لئے پیش نہیں کرنا چاہئے۔ یہ احکام اس آیت فلا تزکوا انفسکم “ اپنے نفسوں کی پاکی کا دعویٰ نہ کرو ” اور حضور ﷺ کی حدیث سے ماخوذ ہیں۔ انا واللہ لا تولی ھذا العمل حدا اسالہ “ ہم خدا کی قسم یہ منصب اس شخص کو نہیں دیتے جو اسے مانگتا ہے ”۔

یہ احکام اس معاشرے میں آئے تھے جو ایک اسلامی معاشرہ تھا اور اس اسلامی معاشرے میں ان احکام کو عملاً نافذ بھی کردیا گیا تھا ۔ یہ احکام تھے ہی ایسے معاشرے کے لئے ، تا کہ قائم اسلامی معاشرے کی ضرورت کو پورا کریں ، اس وقت کا قائم اسلامی معاشرہ اپنا ایک تاریخی پس منظر اور اپنا ایک مخصوص عضویاتی ترکیب کا حامل تھا ، اس معاشرے کی اپنی مخصوص اور ذاتی صورت حال تھی۔ یہ دونوں احکام ایسے احکام تھے جنہوں نے ایک مکمل قائم شدہ اسلامی معاشرے کے اندر نافذ ہونا تھا ، انہیں حالات میں وہ نازل ہوئے ۔ یہ خلاء میں نازل نہیں ہوئے تھے ، لہٰذا ان دونوں احکام کو ہم ایک قائم شدہ اسلامی معاشرے میں نافذ کرسکتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جس کی ترکیب ، جس کی اٹھان اور جس کی عضویاتی تحریک اسلامی ہو۔ جب بھی ایسا معاشرہ قائم ہوگا اس میں ایسے احکام اور ان کے مطابق نظام قائم ہوجائے گا۔ اگر کہیں اسلامی معاشرے کا نام و نشان ہی نہ ہو تو ان میں یہ احکام نافذ نہیں ہو سکتے ، محض خلاء میں۔

یہی معاملہ تمام اسلامی احکام کا ہے لیکن ہم اسلام کے دوسرے احکام کے بارے میں یہاں تفصیلات دینا مناسب نہیں سمجھتے۔

سوال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں لوگ خود اپنے منہ میاں مٹھو کیوں نہیں بنیں گے اور خود اپنے آپ کو امیدوار کیوں نہ بنائیں گے اور وہ اپنے پسندیدہ افراد کے لئے یہ پروپیگنڈہ کیوں نہ کرسکیں گے کہ ان کو مجلس شوریٰ گورنر یا کسی اور منصب کے لئے منتخب کیا جائے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جب اسلامی معاشرہ قائم ہوگا تو لوگوں کو اپنی صلاحیت اور افضلیت کے اظہار کے لئے کسی پروپیگنڈے کی ضرورت ہی نہ ہوگی۔ نیز اسلامی معاشرے میں منصب ایک قسم کی ذمہ داری ہے اور کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو خواہ مخواہ کوئی ذمہ داری اپنے سر لینے کے لئے جدو جہد کرے گا الا یہ کہ اللہ کی رضا مندی کے حصول ، خدمت خلق کے ذریعہ حصول ثواب یا معاشرے کے اندر فرائض کی ادائیگی کے لئے اس منصب کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن یہ بھی اس طرح کہ کوئی یہ منصب اور ذمہ داری کسی پر ڈال دے۔ جو لوگ خود مطالبہ کرتے ہیں اور مناصب کے پیچھے دوڑتے ہیں یہ ہلکے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے پیش نظر ان مناصب سے کچھ اور اغراض حاصل کرنی ہوتی ہیں لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو یہ مناصب ہرگز پیش نہ کئے جائیں۔

لیکن یہ حقیقت صرف اس وقت سمجھ میں آسکتی ہے جب اسلامی معاشرے کے قیام اور اس کے مزاج کو سمجھا جائے اور اس کی تشکیل کی نوعیت ذہن میں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حرکت اور تحریک کسی بھی اسلامی معاشرے کی جان ہے۔ اسلامی معاشرہ دراصل تحریک اسلامی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے ، کس طرح ؟

(1) ۔ مثلاً اللہ کی جانب سے ایک پیغام اور عقیدہ نازل ہوتا ہے ۔ ایک رسول اس کی تبلیغ کرتا ہے۔ زمانہ نبوت میں تو رسول بذات خود تبلیغ کرتا تھا ، جبکہ زمانہ نبوت کے بعد اب رسول کی جگہ کوئی داعی اسی عقیدے کی طرف سے دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت کو کچھ لوگ قبول کرتے ہیں جبکہ دعوت کے ابتدائی ایام میں نظام حکومت جاہلی ہوتا ہے اور یہ جاہلی نظام حکومت اور یہ جاہلی معاشرہ اس تحریک پر ظلم کرتا ہے اور تشدد اور فتنے اور آزمائش کے دور میں کچھ لوگ تحریک کا ساتھ چھوڑ کر مرتد ہوجاتے ہیں جبکہ بعض لوگ مقابلہ کر کے شہید ہوجاتے ہیں اور بعض انتظار کرتے ہیں اور کام جاری رکھتے ہیں۔

جو لوگ مشکلات برداشت کر کے کام جاری رکھتے ہیں ، اللہ ان کو فتح نصیب کرتا ہے ، یہ لوگ پھر دست قدرت کا آلہ ہوتے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ تمکن فی الارض اور غلبہ اور اقتدار عطا کرتا ہے کیونکہ یہ اس کا مستقل وعدہ ہے ۔ اس طرح یہ لوگ زمین پر حکومت الہیہ قائم کرتے ہیں اور اس میں اللہ کے احکام نافذ کرتے ہیں ۔ یہ اقتدار اور تمکن فی الارج ان لوگوں کی ذات کے لئے نہیں ہوتا بلکہ یہ نصرت اور غلبہ اللہ کے دین کے لئے ہوتا ہے اور زمین پر اللہ کا نظام ربوبیت قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے۔

دین کا یہ ہر اول دستہ دین کو لے کر پھر کسی ارضی حدود پر ٹھہرتا نہیں ، نہ کسی قوم اور نسل کی حدود کے اندر اپنے آپ کو محدود کرتا ہے۔ نہ کسی رنگ اور نسل تک محدود ہوتا ہے نہ کسی زبان اور شکل تک محدود ہوتا ہے ، یہ تو بہت ہی کچے اور ناپائیدار عناصر اور محدود دائرے ہیں ، بلکہ یہ ہر اول دستہ اس پیغام کو لے کر اطراف عالم میں پھیلتا چلا جاتا ہے اور پورے کرۂ ارض سے تمام انسانوں کو انسانی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔ تمام طاغوتی قوتوں سے ٹکراتا ہے اور پورے کرۂ ارض پر اللہ کی بندگی کا نظام قائم کرتا ہے۔

اس تحریکی عمل کے دوران اس دین کو لے کر تحریک برپا کرنے والے کسی ایک علاقے میں حکومت برپا کر کے رک نہیں جاتے۔ نہ کسی جغرافیائی یا نسلی یا قومی حدود پر وہ رکتے ہیں۔ یہ تحریک لوگوں کی قدریں بدل دیتی ہے۔ معاشرے کے اندر لوگوں کے مرتبہ و مقام کا از سر نو تعین ہوتا ہے۔ تمام اقدار ایمانی پیمانے کے اوپر استوار ہوتی ہے۔ لوگوں کا معاشرے میں تعارف ان جدید اقدار پر ہوتا ہے اور ہر فرد کی قیمت از سر نو متعین ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں افراد کی قدرو قیمت اس پر ہوتی ہے کہ انہوں نے اقامت دین کے لئے کس قدر جدو جہد کی ، کس قدر آزمائشیں ان پر آئیں ، تقویٰ ، خدا خوفی ، اخلاق اور صلاحیت کے اعتبار سے وہ کیسے ہیں۔ یہ وہ اقدار ہوتی ہیں جو واقعات کی صورت میں متعین ہوتی ہیں اور اسلامی تحریک ان کا اظہار کرتی ہے اور تمام اسلامی معاشرہ اور اسلامی تحریک ایسے افراد سے واقف ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسے افراد کو اس بات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی تعریف خود کریں یا کسی منصب اور ذمہ داری کا مطالبہ کریں ، ایک تو ان کو اس بات کی ضرورت ہی پیش نہیں ا آتی۔ دوسرے یہ کہ ان کا تزکیہ اور تربیت اس قدر ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ ایسے نہیں کرتے۔

بعض اوقات ، بعض لوگ اس طرح سوچتے ہیں کہ یہ پہلے اسلامی معاشرے کی خصوصیت تھی کیونکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قرن اول کے ان لوگوں کی بہترین انداز میں تربیت فرمالی گئی تھی لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے کہ کوئی ایسا معاشرہ بھی اس وقت وجود میں نہیں آسکتا جب تک اس کے لے اس قسم کی تحریک برپا نہ کی جائے اور صحابہ کرام کی طرح ان کی تربیت کر کے اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے جدو جہد نہ کی جائے۔ جب بھی ہم کوئی ایسا معاشرہ قائم کریں گے ہمیں ایسی ہی راہوں سے گزرنا ہوگا ۔ ایک تحریک برپا ہوگی ، وہ لوگوں کو از سر نو دین اسلام کے اپنانے کی دعوت دے گی اور اس طرح لوگوں کو جاہلیت سے نکالنے کی سعی کی جائے گی۔ پھر اہل جاہلیت اسی طرح ان کارکنوں پر تشدد کریں گے۔ کچھ لوگ تحریک سے بھاگ نکلیں گے اور ارتداد کی راہ اختیار کریں گے لیکن بعض لوگ اپنی راہ پر جم جائیں گے۔ ان کے لئے دعوت اور تحریک کو چھوڑنا ایسا ہی ہوگا جس طرح کسی کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ پھر اس کشمکش کا فیصلہ ہوگا ، اللہ تحریک کو فتح دے گا اور کسی ایک جگہ اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی۔ اس مرکز سے اسلامی انقلاب کا پھیلاؤ شروع ہوگا۔ اس وقت مجاہدین اور متحرکین بالکل سامنے آچکے ہوں گے۔ اس وقت ایمانی اقدار اور اوصاف واضح ہوچکے ہوں گے اور کسی کو ضرورت نہ ہوگی کہ وہ کوئی درخواست کسی منصب کے لئے پیش کرے کیونکہ ایسے لوگ تو معاشرے کے خدوخال ہوں گے اور وہ خود ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کو کوئی ذمہ داری سپرد کرے گا۔

بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس ابتدائی مرحلے کے بعد پھر ایسا ہوگا لیکن جب اسلامی معاشرہ مستقلا قائم ہوگیا تو پھر کیا صورت ہوگی۔ یہ سوال وہی لوگ کرتے ہیں جو اس دین کی حقیقت کو نہیں جانتے ۔ یہ دین ہمیشہ ایک تحریک کی شکل میں رہتا ہے۔ یہ کسی وقت بھی ٹھہرتا نہیں۔ اس کی تحریک اس مقصد کے لئے ہوتی ہے کہ تمام انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے رہا کر کے اللہ کی بندگی اور غلامی میں داخل کیا جائے۔ یہ آزادی اور قربت تمام کرۂ ارض کے مکینوں کو حاصل ہو اور لوگ طاغوت کی بندگی کے بجائے اللہ کی بندگی کریں اور تحریک مسلسل جاری رہے۔ رنگ ، نسل اور جغرافیہ کی حدود و قبول کے بغیر۔

جب یہ تحریک مسلسل جاری رہے گی تو اس میں ثابت قد ، مخلص ، قربانی دینے والے لوگ ممتاز ہو کر خود بخود اوپر آتے جائیں گے۔ چونکہ یہ تحریک جاری رہے گی اس لئے یہ معاشرہ کبھی بھی رک کر منجمد اور بدمزہ نہ ہوگا الا یہ کہ یہ معاشرہ اسلامی راہ سے منحرف ہوجائے ۔ غرض اپنی صفات کے بارے میں خاموش رہنے اور تزکیہ نفس اور عدم امیدواری کا حکم اپنی جگہ قائم رہے گا جس طرح کہ آغاز میں ایک دائرے میں یہ حکم آیا۔ ایسے ہی دائرے میں ہی اپنی جگہ قائم رہے گا اور کام کرتا رہے گا۔

یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب سوسائٹی میں وسعت ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور شخصیتوں سے متعارف ہی نہیں ہوتے تو پھر با صلاحیت لوگوں کو مجبوراً اپنی صلاحیت کے بارے میں اشتہار دینا پڑے گا اور یہ بتانا پڑے گا کہ ان کا یہ اخلاق وکردار ہے اور وہ اس طرح کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔

یہ سوال بھی ایک وہم پر مبنی ہے اور یہ موجودہ جاہلیتوں کی عملی صورت حالات پر مبنی ہے۔ لیکن اسلامی معاشرے کی یہ صورت حال نہیں ہوتی۔ اسلامی معاشرہ میں اہل محلہ ایک دوسرے سے متعارف اور باہم متغافل ہوتے ہیں کیونکہ اسلامی تربیت ، اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اس کے رخ اور اس کے التزامات کا لازمی تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کے لوگ ایک دوسرے سے بہت ہی اچھی طرح متعارف ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی ان صلاحیتوں کی جان پہچان ایمانی اقدار میں کرتے ہیں اس لئے یہ بات کوئی مشکل بات نہ ہوگی کہ اسلامی معاشرہ میں اچھے لوگوں کو مجلس شوریٰ یا انفرادی اور اجتماعی سروسز کے لئے منتخب نہ کرسکے۔ رہے بڑے عہدے مثلاً گورنر اور حاکم تو امام خود ان کے لئے آدمی تلاش کرسکتا ہے۔ جو اہل حل و عقد میں سے ہوتے ہیں۔ امام کے اہل شوریٰ بھی اس میں امداد کرسکتے ہیں اور اچھے افراد کو تلاش کرنے میں امیر اور امام کی مدد کرسکتے ہیں۔ پھر جس طرح ہم نے کہا اسلام تو ایک تحریک ہے اور جہاد تو یوم القیامت تک جاری رہے گا۔ لہٰذا تحریک اور جہاد کے ہوتے ہوئے کوئی صاحب صلاحیت کس طرح پوشیدہ رہ سکتا ہے ؟

جو لوگ آج اسلامی نظام حیات اور اس کی مفصل تنظیم کے بارے میں سوچتے ہیں یا اس موضوع پر لکھتے ہیں وہ ایک حماقت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ اسلامی نظام حیات کے مدون فقہی اصولوں کو ایک خلاء میں نافذ کرنا چاہتے ہیں ، پھر وہ اس جاہلی معاشرے میں ان احکام کا نفاذ چاہتے ہیں جو عملاً قائم اور غالب ہے ۔ اس جاہلی معاشرے کی اپنی ایک مخصوص عضویاتی ترکیب ہے اور یہ عملاً قائم جاہلی معاشرہ اسلامی نقطہ نظر سے اور اسلام کے فقہی احکام کے نقطہ نظر سے ایک خلاء ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اس کے اندر اسلامی شریعت نافذ ہو کیونکہ موجودہ جاہلی معاشرے کی عضویاتی ترکیب سو فیصد اسلامی معاشرے کی عضویاتی ترکیب کے خلاف ہے۔ جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ اسلامی معاشرے کی عضویاتی تشکیل ان شخصیات ، ان گروہوں اور ان لوگوں سے ہوتی ہے جنہوں نے اسلامی نظام کے لئے تحریک چلائی ، جاہلیت کے خلاف جدو جہد کی اور عالم اسلام کو عملی صورت میں نافذ کیا اور انہوں نے جاہلیت کے خلاف عملی جدو جہد کی تا کہ لوگوں کو جاہلیت سے نکال کر اسلام میں داخل کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جاہلیت کے تمام دباؤ برداشت کئے ، جاہلیت کی جانب سے ہر قسم کے تشدد اور ایذا رسانی کو انگیز کیا اور تحریک اسلامی کے ساتھ جاہلیت کی ہمہ گیر جنگ میں وہ اسلام کے ثابت قدم سپاہی رہے اور آغاز سے انتہاء تک وہ اس جدو جہد میں شریک رہے۔ رہا موجودہ جاہلی معاشرہ ، تو وہ ایک ٹھہرا ہوا معاشرہ ہے اور ایسی اقدار پر قائم ہے جن کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ اس معاشرے کا ایمانی اصولوں کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لئے اسلامی شریعت کے زاویہ سے یہ معاشرہ اسلام کے لئے ایک خلاء ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس خلاء میں اسلامی نظام جڑ نہیں پکڑ سکتا۔

اس قسم کے محقق اور لکھنے والے جب اسلامی احکامات کو عملی شکل دینے لگتے ہیں تو وہ قدم قدم پر پریشانی اور حیرانی سے دو چار ہوتے ہیں ۔ ان کو پہلی پریشانی یہ لاحق ہوجاتی ہے کہ اہل حل وعقد یا مجلس شوریٰ کو کس طرح چنا جائے۔ یعنی ایسا طریقہ کس طرح وضع کیا جائے کہ لوگ خود اپنے آپ کو امیدوار بھی نہ بنائیں اور خود اپنے منہ میاں مٹھو بھی نہ بنیں اور اچھے لوگ اوپر بھی آجائیں۔ ایسے لوگوں کو اس معاملے میں مشکل یہ درپیش ہوتی ہے کہ موجودہ معاشرے جن میں ہم زندہ رہتے ہیں ، لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہی نہیں ہیں۔ نیز موجودہ دور میں ایسے لوگ بھی ناپید ہیں جو صلاحیت ، پاکدامنی اور امانت و دیانت کے ۔۔۔۔ پر پورے اترتے ہوں۔ اسی طرح امام اور خلیفہ کے انتخاب کے طریقے میں بھی یہ لوگ سخت پریشان ہیں۔ آیا خلیفہ کا انتخاب عوام الناس کریں گے یا اہل حل و عقد کریں گے۔ اگر اہل حل و عقد خود امیدوار نہ ہوں گے اور نہ اپنا تزکیہ کریں گے اور ان کا انتخاب امام کرے گا تو پھر وہ کس طرح امام کا انتخاب کریں گے۔ کیا اس کا اہل حل و عقد پر اثر نہ پڑے گا۔ پھر اگر یہ لوگ امام کو نامزد کریں گے تو کیا یہ لوگ امام کے مقابلے میں برتر نہ ہوں گے ، حالانکہ امام برتر امام ہوتا ہے اور امام اگر اہل حل و عقد کو منتخب کرتا ہے یا نامزد کرتا ہے تو یہ لوگ اس کے پسندیدہ نہ ہوں گے اور ان کے انتخاب میں یہ بات سر فہرست نہ ہوگی کہ وہ اس کے وفادار ہوں۔۔۔۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے بیشمار سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے اور ان محققین کی سطحی سوچ کی وجہ سے وہ اس کا کوئی جواب نہیں پا رہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایسے محققین اسی نکتے سے غلط راہ میں پڑگئے ہیں۔ ان لوگوں کی غلط روی اس نکتے سے شروع ہوتی ہے کہ یہ لوگ ہمارے موجودہ معاشروں کو اسلامی معاشرہ سمجھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام کے اصول و فروع موجودہ جاہلی معاشروں پر نافذ ہوں گے۔ موجودہ معاشروں اور سو سائٹیوں کی عضویاتی تشکیل اور ان کی اخلاقی اقدار کے ہوتے ہوئے ان میں اسلام نافذ ہوجائے گا۔ ایں خیال است ومحال است و جنوں۔

ان لوگوں کی حماقت اور پریشانی اس نکتے سے شروع ہوتی ہے کہ یہ لوگ موجود جاہلی معاشرے کو بھی ایک اسلامی معاشرہ سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ اسلامی احکام اور قواعد اس معاشرے میں منطبق ہوں گے اور اس معاشرے کی عضویاتی ترکیب اور اخلاقی احکام اور قواعد اس معاشرے میں منطبق ہوں گے اور اس معاشرے کی عضویاتی ترکیب اور اخلاقی حالت جوں کی توں رہے گی۔

ان لوگوں کی حیرانی و پریشانی کا یہ نقطہ آغاز ہے اور جب یہ لوگ سوچ اور تحقیق شروع کرتے ہیں تو ہم خلاء میں ہوتے ہیں اور اس خلاء میں یہ لوگ اس قدر دور چلے جاتے ہیں اور ان کا مدار اس قدر وسیع ہوجاتا ہے کہ پھر ان سے اپنی راہ ہی گم ہوجاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ جاہلی معاشرہ جس میں ہم رہ رہے ، کوئی اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں نہ شریعت نافذ ہو سکتی ہے اور نہ اس میں فقہی دستور نافذ ہو سکتا ہے اور یہ اسی وجہ سے نافذ نہیں ہو سکتے کہ اسلامی شریعت اور اسلامی دستور کبھی بھی خلا میں نافذ نہیں ہوتے کیونکہ اسلامی نظام ایک عملی نظام ہے اور یہ کسی اسلامی معاشرے ہی میں نافذ ہو سکتا ہے ، خلا میں نافذ نہیں ہو سکتا۔

اسلامی معاشرے کی عضویاتی تشکیل ہی دراصل موجودہ جاہلی معاشرے کی نظریاتی تشکیل سے مختلف ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے کے افراد اور گروہ وہ نہیں ہوتے جو موجودہ معاشرے کے ہیں۔ اس کے افراد بالکل مختلف اور اس کے گروہ بالکل دوسرے ہوتے ہیں۔ اس کے افراد اور گروہوں کی اخلاقی قدریں تحریک کے دوران وجود میں آتی ہیں اور وہ بہت ہی مختلف اور عملی ہوتی ہیں۔

یہ ایک جدید اور نیا معاشرہ ہوتا ہے۔ یہ دائماً حرکت میں رہتا ہے۔ ترقی پذیر ہوتا ہے اور اس کے انسان ، پورے کرۂ ارض کے مقابلے میں آزاد انسان ہوتے ہیں۔ وہ اس کرۂ ارض پر کسی کے غلام نہیں ہوتے اور اس معاشرے سے طاغوتی قوتیں ختم ہوجاتی ہیں۔

یہ مسئلہ اور اس قسم کے دوسرے مسائل مثلاً اپنے آپ کو کسی منصب کا اہل بتانا ، منصب طلب کرنا ، امام کا انتخاب ، اہل شوریٰ کا انتخاب اور اس جیسے دوسرے مسائل کے بارے میں لوگ عموماً خلا میں سوچتے ہیں۔ یہ مسائل اور جاہلی معاشروں میں ان کا نفاذ ، یہ سوچ ہی متضاد ہے۔ خصوصاً جبکہ یہ جاہلی معاشرہ اپنی عضویاتی ترکیب میں اسلامی معاشرے سے کلیۃً متضاد ہو۔ اس کی اقدار ، اخلاقی پیمانے ، تصورات اور سوچیں سب کی سب اسلامی معاشرے سے الٹ ہوں۔

موجودہ دور کے بینک اور ان کی تمام سرگرمیاں ، انشورنس اور اس کے قواعد و ضوابط ، ضبط تولید کے مسائل اور اس قسم کے دوسرے عقدے جن کو یہ محققین کھولنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے بارے میں صحیح حل موجودہ سوسائٹی میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔

ان موضوعات پر آغاز بحث ہی سے محقق پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی سعی یہ ہوتی ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے قواعد وقوانین کو موجودہ جاہلی اور گندے معاشرے میں نافذ اور جاری کرنے کے بارے میں سوچتا ہے اور یہ معاشرہ سو فیصد اسلامی احکام سے متضا د ہے۔ اس لئے ایسے محققین کو ان میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔ یہ لوگ اسلامی قوانین کو نافذ کر کے یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ جاہلی معاشرے اسلامی بن جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہایت ہی مضحکہ خیز سوچ ہے۔

حقیقت یہ ہے اسلامی معاشرے کو فقہ اسلامی نے وجود نہیں بخشا بلکہ اسلامی معاشرے کی تحریکی جدو جہد اور تحریک اسلامی اور جاہلیت کے درمیان طویل کشمکش کے نتیجے میں اسلامی معاشرے کے وجود میں آنے کے بعد اور ایک اسلامی معاشرے کی عملی ضروریات سامنے آنے کے بعد اسلامی فقہ اس کے احکام اور اس کے اصول وجود میں آئے۔ لہٰذا دور جدید میں بھی فقہ اسلامی کا وجود اس طرح آسکتا ہے کہ اسلامی انقلاب کے ذریعے اسلامی سوسائٹی وجود میں لائی جائے۔ اس کے برعکس ممکن ہی نہیں ہے۔

یاد رکھئے کہ فقہ اسلامی اور اسلامی شریعت کا نفاذ خلاء میں ممکن نہیں ہے ، نہ خلاء میں کوئی بھی قانون قائم رہ سکتا ہے۔ اسلامی شریعت دماغوں اور کتابوں میں قائم نہیں ہو سکتی ، یہ تو ایک عملی زندگی کا عملی ضابطہ ہے اور ضابطہ بھی ہر عملی زندگی کا نہیں بلکہ ایک اسلامی زندگی کا ضابطہ ہے۔ ایک اسلامی سوسائٹی کی فضا ہی میں اسلامی نظام زندگی اور اسلامی قانون نافذ ہو سکتا ہے۔

جس وقت اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا اور وہ بھی ایک تحریکی شکل میں وجود میں آئے گا تو اس وقت اسے بینکوں اور تجارتی اداروں کی ضرورت درپیش ہوگی یا نہ ہوگی ، یہ سوال اس وقت پیدا ہوگا۔ اب جبکہ اسلامی معاشرہ سرے سے وجود میں بھی نہیں ہے ، وقت سے پہلے ہم اس معاشرے کی ضروریات کو کس طرح معلوم کرسکتے ہیں۔ نہ اس وقت کے معاشرے کی شکل یا اس کے حجم کے بارے میں کچھ معلوم کرسکتے ہیں۔ وقت سے قبل ہم کسی معاشرے کے لئے قانون سازی کیسے کرسکتے ہیں۔ اس وقت اسلامی شریعت کے جو احکام مدون ہیں ، وہ ایک جاہلی اور کافرانہ معاشرے میں نافذ ہی نہیں ہوسکتے ، کیونکہ اسلامی شریعت موجودہ جاہلی اور کافرانہ سو سائٹیوں کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتی ، اسے ان جاہلی سوسائٹیوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے۔

اس قسم کے محققین جس مصیبت میں گرفتار ہیں وہ یہ ہے کہ یہ لوگ موجودہ جاہلی معاشروں کو اصل سمجھتے ہیں اور دین اسلام کو ان کے تابع سمجھتے ہوئے ، اسے ان کے مطابق بنانے کی سعی کرتے ہیں لیکن حقیقی صورت حالات اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام اصل ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم جدید سوسائٹی کو دین اسلام کے تابع بناتے چلے جائیں۔ یہ کام صرف ایک ہی ذریعے سے ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جاہلیت کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے تحریک برپا کی جائے۔ یہ تحریک اس کرۂ ارض پر اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لئے ہو۔ اللہ کی حاکمیت کا نظام ہوتا ہی وہ ہے جس میں لو اللہ کے سوا کسی کے تابع فرمان نہیں ہوتے۔ وہ کسی طاغوت کے تابع نہ ہوں اور ان کی زندگیوں میں صرف شریعت کی حکمرانی ہو۔ جب بھی کوئی یہ تحریک برپا کرے گا اسے فتنوں ، آزمائشوں اور تشدد کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ جب اس قسم کی تحریک پر تشدد ہوگا تو کچھ لوگ ان مشکلات کو برداشت کریں گے ، کچھ لوگ الٹے پاؤں پھرجائیں گے اور کچھ لوگ اللہ کے پیغام کی تصدیق کرتے ہوئے مقام شہادت پر فائز ہوں گے جبکہ کچھ لوگ یہ جدو جہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اللہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان صحیح فیصلہ نہیں فرما دیتے۔ جب اللہ ان انقلابیوں اور ان کی اقوام کے درمیان فیصلہ کر دے گا تو ان کو تمکن فی الارض نصیب ہوگا اور اس وقت ہی اسلامی نظامی زندگی صحیح معنوں میں قائم ہوگا ۔ اس وقت تمام لوگ اسلام میں رنگے ہوں گے اور وہ اسلامی اقدار کو لے کر اس دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرچکے ہوں گے۔ اس وقت پھر اس سوسائٹی کی کچھ ضروریات اور تقاضے ہوں گے اور یہ ضروریات اور تقاضے دوسری جاہلی سو سائٹیوں سے بالکل مختلف ہوں گے۔ ان ضروریات اور تقاضوں کے پورے کرنے کے انداز بھی مختلف ہوں گے ۔ اس وقت اسلامی نظام زندگی کے احکام کا استنباط ایک قائم سوسائٹی کے لئے ہوگا ، ایک اسلام فقہ اور شریعت وجود میں آئے گی ۔ یہ شریعت خلاء میں نہ ہوگی بلکہ یہ شریعت ایک متعین اور موجود سوسائٹی میں نافذ ہوگی اور اس سو سائٹی کے مقاصد اور ضروریات بھی متعین ہوں گی۔

ہمیں کوئی بتائے کہ وہ سو سائٹی اس دنیا میں کہا ہے جس میں نظام زکوٰۃ نافذ ہو اور زکوٰۃ لی جاتی ہو اور اسے اپنے حقیقی مصارف پر خرچ کیا جاتا ہو اور جس کے ہر محلے میں باہم محبت ، رحمت اور نظام تکافل قائم ہو ، پھر پوری سوسائٹی میں تکافل (Social Security) کا نظام قائم ہو اور اس سوسائٹی کا مالی نظام اسراف ، تعیش ، خود نمائی اور زر اندوزی پر قائم نہ ہو۔ اس کا مالی نظام صحیح اسلامی خطوط پر قائم ہو ، پھر اگر ایسا کوئی نظام قائم ہوجائے اور ایسی سو سائٹی وجود میں آجائے تو ثابت کیا جائے کہ اس میں انشورنس کی ضرورت ہوگی اور انشورنس کے یہ ضابطے پھر اسلامی سوسائٹی کے حالات ، اس کی اقدار اور مالی تصورات کے مطابق ہوں گے۔ اگر اسلامی سوسائٹی کو کسی انشورنس کی ضرورت بھی پڑے تو ثابت کیا جائے کہ اسے بعینہ اسی طرح ہونا لازمی ہے جس طرح کہ موجودہ جاہلی معاشروں میں انشورنس کا نظام موجود ہے۔ جو موجودہ جاہلی سوسائٹی جاہلی تصورات اور اقدار پر مبنی ہے اور اسے جاہلی سوسائٹی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا ہے۔

پھر یہ ثابت کیا جائے کہ ایک متحرک اسلامی معاشرہ تحدید نسل اور ضبط تولید کا محتاج ہوگا جس طرح موجودہ غیر اسلامی معاشرہ ہے۔

جب ہم موجودہ حالات میں ایک اسلامی سوسائٹی کی ضروریات کا تعین ہی نہیں کرسکتے ، نہ اس کی سوسائٹی کے حجم اور شکل کی کوئی متعین صورت ہمارے سامنے ہے ، اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ ایک اسلامی سوسائٹی کی عضویاتی ترکیب ہی موجودہ جاہلی سوسائٹی سے بالکل جدا ہوتی ہے۔ اس کی سوچ ، اس کی قدریں اور اس کے ۔۔۔۔ ہی مختلف ہوتے ہیں لہٰذا اس وقت جو لوگ ایک غیر موجودہ سوسائٹی کے لئے احکام مدون کرنے کی سعی کر رہے ہیں ان کی یہ سعی نا مشکور ہوگی ، اس لئے کہ جس طرح اسلامی سوسائٹی اس وقت ہوا میں ہے اسی طرح ان لوگوں کی یہ مساعی بھی ہوا میں ہیں اور لا حاصل ہیں۔

جیسا کہ ہم نے بار بار کہا ہے کہ اس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ یہ محققین موجودہ معاشروں کو اسلامی معاشرے سمجھتے ہیں اور وہ اسلامی فقہ کے اوراق سے احکام نکال کر ان معاشروں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ معاشروں کے اجزاء ترکیبی کو وہ نہیں چھیڑتے اور ان معاشروں کی اقدار اور تصورات اور ۔۔۔ کو بھی جوں کا توں رہنے دیتے ہیں۔

پھر ان حضرات کے شعور اور لاشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ موجودہ جاہلی معاشرے اصل اور قائم حقیقت ہیں اور یہ دین اسلام کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی لا کر اپنے آپ کو ان کے مطابق کرلے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔۔۔ اس طرح دین اسلام کا فرض ہے کہ وہ جدید جاہلی سوسائٹی کے تقاضے پورے کرے۔ حالانکہ جدید جاہلی سو سائٹی کے تقاضے سراسر اسلام کے خلاف ہیں اور یہ تقاضے ایک مسلمان کو سرے سے اسلام سے خارج کرنا چاہتے ہیں ”۔

میرا خیال یہ ہے کہ وقت آگیا ہے کہ اب اسلام اہل اسلام کے دل و دماغ میں سر بلند ہوجائے۔ اب اہل اسلام یہ روش ترک کردیں کہ اسلام جاہلی سوسائٹی کے تقاضوں کو پورا کرتا پھرے۔ داعیان اسلام کو اب یہ اعلان کردینا چاہئے کہ لوگو ! تم اسلام کے مطیع فرمان بن جاؤ، اس کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کرو ، بلکہ یہ کہ لوگو ! سب سے پہلے تم دین اسلام میں داخل ہوجاؤ، اعلان کر دو کہ تم اب صرف اللہ کے بندے ہو ، اور کلمہ طیبہ کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دو ، بایں معنی کہ اللہ کے سوا اس کرۂ ارض پر کوئی اور حاکم نہیں ہے۔ صرف وہی رب اور خالق ، مالک اور رازق ہے ۔ تمام لوگوں کی زندگی پر اسی کے احکام چلیں گے ۔ آئندہ کوئی انسان انسان کا غلام نہ ہوگا اور کوئی انسان کسی انسان کے لئے اب قانون نہیں بنائے گا۔

جب لو یہ اعلان کردیں گے تو اسلامی معاشرے کا پودا کونپل نکالے گا اور جب اس اعلان کی اساس پر کوئی سو سائٹی وجود میں آجائے گی تو اس میں پھر فقہ اسلامی کا اجراء ہوگا۔ اس وقت پھر فقہ اسلامی اس سوسائٹی کی تمام ضروریات کو پورا کرے گا اور عملاً اسلامی شریعت نافذ ہوگی۔

جب تک اسلامی انقلاب کے نتیجے میں اسلامی سوسائٹی قائم نہیں ہوجاتی اسلام کے دستوری اور انتظامی احکامات کے بارے میں دماغ سوزی کرنا محض اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ محض ہوا اور خلاء میں تخم ریزی کرنا ہے جبکہ کوئی قانون کبھی کسی خلاء میں نہیں اگتا جیسا کہ ہوا میں کوئی فصل نہیں اگتی۔

٭٭٭

اسلامی فقہ کے فکری میدان میں کام کرنا نہایت ہی دلچسپ کام ہے ، کیونکہ اس میں کوئی خطرہ اور ابتلاء نہیں ہے۔ لیکن یہ اسلامی کام نہیں ہے یعنی اسلام کے لئے نہیں ہے ، نہ یہ اس دین کے مزاج کے مطابق ہے نہ یہ اسلامی منہاج کار ہے ، اور یہ طریقہ صرف ان لوگوں کا ہے جو خیر و عافیت کی زندگی بسر کرتے ہوئے محض علمی اور فنی امور میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں ، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ تحریک کے اس مرحلے میں اسلامی فقہ کے موضوعات پر دماغ سوزی کرنا عمر ضائع کرنا ہے۔ موجودہ سوسائٹی کے ہوتے ہوئے میں سمجھتا ہوں اس میں کوئی اجراء ضروری نہ ہوگا۔

دین اسلامی جاہلیت کے لئے خرکاری کا کام نہیں کرتا ، نہ وہ جاہلیت کا بندہ فرمان بننا قبول کرتا ہے ، جس کا مشن صرف یہ ہو کہ جاہلیت کی خواہشات کے لئے ہر وقت وجہ جو از فراہم کرتا پھرے ۔ جبکہ یہ جاہلی سوسائٹی دین سے متنفر ، دین سے دور اور دین پر فقدان ہو اور دین کی اطاعت نہ کرتے ہوئے یہ سو سائٹی دین سے اپنے اعمال کے لئے وجہ جواز مانگتی ہو۔

اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ اس دین کی فقہ اور اس کے احکام نہ خلاء میں ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی خلاء میں رد بعمل آتے ہیں۔ اسلامی سوسائٹی ابتداءً اللہ کی حاکمیت کو قبول کرنے والی ہوتی ہے۔ یہی سوسائٹی دراصل فقہ کو وجود بخشتی ہے اور یہی سوسائٹی اس کو ترقی دیتی ہے ، یہ نہیں ہے کہ کوئی فقہی نظام سوسائٹی کو وجود بخشے۔

احیائے اسلام کے مراحل اور اس کا طریقہ کار آغاز ہی سے ایک ہی ہیں۔ جاہلیت سے کسی سوسائٹی کا اسلام کی طرف منقلب ہونا تو سہل امر نہیں ہوتا اور یہ اس طرح نہیں ہوتا کہ پہلے فقہی احکام کا کوئی سانچہ ڈھالا جائے اور اس کے مطابق انسان تیار ہوتے جائیں اور یہ سانحہ پہلے سے خلاء میں تیار کردیا گیا ہو اور جب اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی سوسائٹی تیار ہو تو اس میں اسے نافذ کردیا جائے۔ جاہلیت سے کسی سوسائٹی کا اسلام کی طرف منقلب ہونا کسی قانونی نظام کی وجہ سے نہیں ہوا کرتا ۔ اس لئے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید قانونی نظام مفصل طور پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے۔ بعض لوگ اس معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہوا کرتے ہیں اور بعض اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی وجود میں اس لئے نہیں آرہی ہے کہ کچھ طاغوتی قوتیں اس کی راہ روکے کھڑی ہیں۔ یہ طاغوتی قوتیں اللہ کی حاکمیت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اس سے کسی بھی اسلامی ملک میں اللہ کی ربوبیت اور حاکمیت پر مبنی نظام وجود میں نہیں آرہا ہے۔ ان طاغوتی قوتوں نے دراصل لوگوں کو اپنا بندہ اور غلام بنا لیا ہے اور اس طرح یہ قوتیں اور ان کے تحت تمام جمہور عوام شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقی شرک ہے اور اس شرک کا تعلق اللہ رب العالمین کے مخصوص اختیارات کے ساتھ ہے۔

اس نظریہ کی اساس پر جاہلیت زمین پر اپنا ایک مستقل نظام برپا کرتی ہے۔ یہ نظام بھی ان جاہلی تصورات کی اساس پر قائم کرتی ہے اور اس میں جاہلی تصورات کے ساتھ ساتھ مادی قوتوں پر بھی بھروسہ کرتی ہے۔

اس قائم نظام کا مقابلہ احکام فقہیہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ نہ احکام فقہیہ اس جاہلی نظام اور اس کے تصورات کے لئے برابر کی قوت ہوتے ہیں۔ اس جاہلیت کا مقابلہ صرف اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو از سر نو اسلام میں داخل ہونے کی طرف دعوت دی جائے ۔ اور پھر اسلامی تصورات کے ساتھ تمام قوتوں کو لے کر جاہلیت کا مقابلہ کیا جائے۔ اس میدان کے اندر اسلام اور جاہلیت کی کھلی کشمکش کے بعد جو نتیجہ بھی ہوگا وہ سامنے آجائے گا۔ کچھ لوگ صحیح طرح اسلام کے حال ہوں گے اور باقی قوم ان کے مخالفت ہوگی اور اس کشمکش کے نتیجے میں پھر تحریک اسلامی اور اس کی قوم کے درمیان اللہ اپنا فیصلہ لاتا ہے۔ جب تحریک اسلامی غالب آکر کر اسلامی سوسائٹی قائم کردیتی ہے تو پھر فقہی احکام کی تدوین کا وقت آتا ہے ۔ اس طرح جو قانون نظام برپا ہوتا ہے وہ نظام اپنی حقیقی فضا میں نہایت ہی قدرتی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک زندہ اسلامی معاشرے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اور اس نئی سوسائٹی کی حقیقی ضروریات کے لئے قانون سازی ہوتی ہے۔ اور اس میں قانون کا حجم اور اس کی شکل قدرتی ہوتی ہے۔ اب یہ سوسائٹی اور اس کی ضروریات ہمارے پیش نظر موجود نہیں ہیں اور انقلاب کے بعد وجود میں آنے والی سوسائٹی کے بارے میں ابھی تک ہم کوئی پیشین گوئی بھی نہیں کرسکتے۔ نہ ہی اس کی ضروریات کو ہم متعین کرسکتے ہیں۔ لہٰذا قبل از وقت اسلامی قانون کی تدوین و ترتیب کے کام میں ابھی سے مشغول ہونا یا اس کا مطالبہ کرنا ، دین اسلام کی سنجیدگی اور متانت کے منافی ہے۔

میرے اس نکتے کے بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قرآن اور سنت میں جو قائم منصوص احکام ہیں وہ اس وقت قانوناً نافذ نہیں ہیں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ احکام اسلامی سوسائٹی کے لئے نازل ہوئے تھے اور ان کو ایک اسلامی معاشرے کے اندر ہی نافذ بھی ہونا ہے۔ یہ احکام اس وقت عملاً نافذ نہیں ہیں۔ یہ احکام عملاً تب ہی نافذ ہو سکتے ہیں جب کوئی اسلامی معاشرہ قائم ہو اور اسلامی معاشرے کا قیام ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اس وقت جاہلی معاشرے میں زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے تا کہ اس میں اسلام کا قانونی نظام نافذ ہو سکے۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو دین کو لے کر ایک تحریک کی شکل میں اٹھیں اور ان طاغوتی قوتوں کو ۔۔۔۔ کریں جنہوں نے اس طاغوتی نظام کو قائم کر رکھا ہے اور لوگ اللہ وحدہ کی اطاعت کے بجائے مشرک ہو کر ان طاغوتی قوتوں کی اطاعت میں مبتلا ہیں۔

احیائے دین کے سلسلے میں اس نکتے کو جب لوگ پالیں گے کہ جب جاہلی نظام قائم ہو تو اس کے مقابلے میں اسلامی تحریک کا برپا کرنا ضروری ہے تو اس ادراک کے نتیجے ہی میں اسلامی انقلاب کا آغاز ہوجاتا ہے اور پھر لوگ احیائے اسلام کی تعمیری جدو جہد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے اسلامی قانون کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نے لی ہے ، اسلامی نظامی قائم نہیں رہا ہے اور یہ کرۂ ارض حقیقی اسلام سے خالی ہوگیا ہے۔ اگرچہ اذان خانے باقی ہیں اور مساجد باقی ہیں ، دعائیں ہو رہی ہیں اور نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دو سو سال سے یہی صورت حال ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں اس دین کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ہے اور یہ نماز اور یہ دعا ان کے اندر یہ تسکین پیدا کردیتی ہے کہ اسلام بخیر و عافیت ہے ، حالانکہ اس کرۂ ارض سے طاغوتی قوتیں اس کا وجود مٹانے کے درپے ہیں۔

میں کہتا ہوں ، اسلامی عبادات سے بھی قبل اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا تھا۔ مساجد سے بھی قبل اسلامی معاشرہ وجود میں آگیا تھا۔ یہ معاشرہ اور یہ سوسائٹی اس وقت وجود میں آگئی تھی کہ جب ان سے کہا گیا تھا اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ “ اللہ ہی کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارے لئے کوئی الٰہ نہیں ہے “ ۔ یاد رہے کہ یہ لوگ جو ان بتوں کی بندگی کرتے تھے تو یہ ان کی نمازیں اور ان کے روزے تو نہ رکھتے تھے ، نماز اور روزہ تو اس آیت کے نزول کے وقت فرض ہی نہ تھے ۔ صرف اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ صرف اللہ کو اپنا حاکم تصور کرو ، اور اس وقت کوئی اسلامی قانون نظام بھی نہ تھا۔ اور جب لوگوں نے اللہ کو اس زمین پر اپنا حاکم تسلیم کرلیا تو پھر حاکم کی طرف سے شریعت آگئی ۔ یہ شریعت بھی اس طرح آئی کہ جب بھی اس اسلامی سوسائٹی کو کسی قانون کی حقیقی ضرورت درپیش ہوئی تو قانون نازل ہوگیا یا انہوں نے قرآن اور سنت کی روشنی میں خود اپنے لئے قانون کا استنباط کرلیا۔۔۔ یہی ہے واحد منہاج کار اور قیامت تک کے لئے یہی منہاج رہے گا۔

اسلامی انقلاب کا اس سے آسان طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک داعی ایک تقریر کرے ، اسلام کے احکام بیان کر دے اور اسلامی قانون کی تشریح کر دے۔ لوگ یکدم اسلام میں داخل ہوجائیں اور قصہ تمام شد۔ لیکن یہ طریقہ کار محض تمنا ہے۔ ایک اچھی خواہش ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عوام الناس طاغوتی قوتوں اور جاہلیت کو چھوڑ کر اسلامی نظام میں صرف اسی طریقہ کار کے مطابق ہی داخل ہوسکتے ہیں اور وہ طریقہ کار ایک دیرپا ، تدریجی اور دعوت اسلامی کا طریقہ کار ہے۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک فرد دعوت اسلامی کا آغاز کرتا ہے ، ایک ہر اول دستہ اس کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے۔ یہ ہر اول دستہ موجود اور قائم نظام جاہلیت کو ۔۔۔ کرتا ہے اور اس کے بعد اس کے اور اس نظام جاہلیت کے درمیان کشمکش برپا ہوجاتی ہے۔ ایک قوم بلکہ معاشرے کی پوری قوم کے ساتھ اسی قوم سے اٹھے ہوئے ان داعیوں کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ اللہ اس ہر اول دستے کو فتح دیتا ہے اور لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور یہ دین اسلام کیا ہے ؟ یہ اللہ کا وہ نظام ہے جس کے سوا اللہ کسی نظام کو برداشت نہیں کرتا۔

ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “ اور جو شخص بھی اسلام کے سوا کسی نظام زندگی کی تابع داری کرے گا ، اس سے یہ تابع داری قبول نہ کی جائے گی ”۔

شاید یہ طویل بیان حضرت یوسف (علیہ السلام) کے موقف کو اچھی طرح واضح کر دے گا۔ یہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کسی اسلامی سوسائٹی میں نہیں تھے جس میں کسی شخص کے لئے طلب عہدہ کا کوئی موقعہ نہ ہو ، اور اس میں کوئی شخص کوئی منصب نہ طلب کرسکتا ہو۔ دوسری جانب وہ دیکھ رہے تھے کہ اس غیر اسلامی نظام میں انہیں ایک ایسا منصب مل رہا ہے جس میں تمام اختیارات ان کے ہاتھ آرہے ہیں اور وہ اس حاکم طاع ہوں گے ، اس طرح انہیں موقعہ ملے گا کہ وہ اپنے عقائد پورے مصر میں پھیلا دیں۔ چناچہ عملاً ایسا ہی ہوا کہ ان کے دور اقتدار میں پورے مصر میں عقیدۂ توحید پھیل گیا۔ اس دور میں حضرت یوسف (علیہ السلام) مصری سوسائٹی پر اس طرح چھا گئے کہ اعیان مصر اور بادشاہ مصر دونوں پس منظر میں چلے گئے۔

اردو ترجمہ

یوسفؑ نے کہا، "ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala ijAAalnee AAala khazaini alardi innee hafeethun AAaleemun

اردو ترجمہ

اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakathalika makanna liyoosufa fee alardi yatabawwao minha haythu yashao nuseebu birahmatina man nashao wala nudeeAAu ajra almuhsineena

اب ہم سیاق کلام میں اصل مضمون اور قصے کی طرف واپس ہوتے ہیں۔ یہاں سیاق کلام میں یہ نہیں کہا جاتا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی درخواست منظور ہوگئی ، بلکہ ان کی جانب سے درخواست بذات خود منظوری تھی۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ان لوگوں کے ہاں اب حضرت یوسف (علیہ السلام) بہت ہی عظیم المرتبہ انسان تھے۔ چناچہ جواب درخواست کی جگہ اس پر ایک تبصرہ کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے منصب کا چارج بھی لے لیا ہے۔ کہا جاتا ہے :

وکذلک مکنا لیوسف ۔۔۔۔۔۔ خیر للذین امنوا وکانوا یتقون (12 : 56 ۔ 57) “ اس طرح ہم نے اس سر زمین میں یوسف کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ہم اپنی رحمت سے جو کو چاہتے ہیں ، نوازتے ہیں ، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا ، اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے ”۔

“ اس طرح !” یعنی اسے غلط الزام سے بری کر کے ، بادشاہ مصر کو ان کا گرویدہ کر کے اور پھر ان کو ان کے طلب کردہ عظیم منصب پر فائز کر کے ، یوں ہم نے ان کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی ، ان کے قدموں کو مضبوط کردیا اور انہوں نے اس سر زمین پر ایک بلند مقام حاصل کرلیا۔ اس سر زمین پر کہ مصر ان دنوں ایک عظیم اور ترقی یافتہ ملک تھا گویا وہی ملک تھا۔ یتبوا منھا حیث یشاء (12 : 56) “ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ”۔ جہاں چاہے چلا جائے ، جہاں چاہے رہے ، جو عہدہ چاہے لے ، ذرا اس حالت کو اس حالت کے تناظر میں دیکھو کہ وہ اندھے کنوئیں میں تھے اور ہر لمحہ جان کی پڑی تھی ، پھر ذرا اس حال سے مقابلہ کرو کہ وہ قید و بند کی سختیاں جھیل رہے تھے۔

نصیب برحمتنا من نشاء (12 : 56) “ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں ”۔ اسے مشکلات سے نکال کر آسانیوں میں لاتے ہیں پریشانیوں کے بدلے اسے خوشیاں دیتے ہیں۔ خوف کے بدلے امن دیتے ہیں ، قید کے بدلے آزادی دیتے ہیں ، لوگوں کی نظروں میں ہلکے پن کے بدلے مقام بلند دیتے ہیں۔

ولا نضیع اجر المحسنہ (12 : 56) “ اور نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا ” ۔ جو لوگ اللہ پر پختہ ایمان رکھتے ہیں ، اس پر توکل کرتے ہیں ، اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، اس کے حوالے سے اپنے طرز عمل ، اپنے معاملات اور لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور آخرت کا اجر اُن لوگو ں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaajru alakhirati khayrun lillatheena amanoo wakanoo yattaqoona

ولا جر الاخرۃ خیر للذین امنوا وکانوا یتقون (12 : 57) “ اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے ”۔ لہٰذا ان کا بنیادی اجر بھی کم نہ ہوگا اگرچہ آخرت کا اجر دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے بشرطیکہ انسان ایمان اور تقویٰ کی راہ پر گامزن ہوجائے اور اپنی سری اور ظاہری زندگی کو خدا ترسی کی راہ پر استوار کردے۔

یوں اللہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی مشکلات دور کردیں ، انہیں زمین میں بلند مرتبہ دیا۔ آخرت میں ان کو خوشخبری دی ، صبر اور احسان کرنے والوں کی یہی مناسب جزاء ہے۔

٭٭٭

زمانے کی گاڑی چلتی رہی۔ سر سبزی و شادابی کے سات سال گزر گئے۔ قرآن کریم نے ان سات سالوں کی تفصیلات کو حذف کردیا ہے تا کہ ان سالوں میں لوگ کیا کرتے رہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سالوں میں کیا تدابیر اختیار کیں۔ ملک کا نظم و نسق کس طرح چلایا ، کیونکہ ان امور نے تو بطریق احسن چلنا ہی تھا کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہہ دیا تھا۔ انی حفیظ علیم قرآن نے ملک میں قحط آنے کا تذکرہ کرنا بھی ضروری نہ سمجھا کہ ان میں لوگوں پر کیا گزری ، کس طرح خشک سالی آئی اور کس طرح گئی۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تعبیر خواب نے یہ تفصیلات گویا بتا دی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :

ثم یاتی من بعد ذلک سبع ۔۔۔۔ ۔ مما تحصنون (12 : 48) “ اس کے بعد سات سخت آئیں گی ، یہ کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لئے جمع کر رکھا تھا ، مگر تھوڑا سا وہ جو تم نے بچایا ”۔ سیاق کلام میں اب نہ بادشاہ سامنے آتا ہے نہ کوئی اور شاہی کارندہ۔ گویا اب یوسف (علیہ السلام) ہی سب کچھ ہیں ، جو اس خوفناک دور میں پوری ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ اب اسٹیج پر صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں ۔ ہر طرف سے روشنی کی زد میں ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے اس قصے میں فنی طور پر بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

جہاں تک خشک سالی کا تعلق ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کی آمد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خشک سالی سینائی سے اس طرف کنعان تک پھیل گئی ہے اس لئے یہ لوگ غلے کی تلاش میں مصر تک پہنچ گئے ہیں۔ اور علاقے میں مصری حکومت ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تدابیر کے نتیجے میں ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہے۔ تمام پڑوسی ممالک کی نظریں مصر پر ہیں ، تمام ممالک کے لئے مصر اب غلہ کا گودام ہے۔ ایسے حالات میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی کہانی میں اب ان کے بھائی نمودار ہوتے ہیں اور اس میں فنی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اب دینی مقاصد بھی سامنے آتے ہیں۔

اردو ترجمہ

یوسفؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے نا آشنا تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaa ikhwatu yoosufa fadakhaloo AAalayhi faAAarafahum wahum lahu munkiroona

آیت نمبر 58 تا 62

خشک سالی اور قحط نے سر زمین کنعان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ چناچہ برادران یوسف بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ عازم مصر ہوئے تھے کیونکہ مصر نے اپنے غلے کے ذخائر دوسرے ممالک کے لئے کھول دئیے تھے۔ یہ ذخائر اس نے شادابی کے زمانے میں جمع کر رکھے تھے ۔ ہمارے سامنے اب منظر یہ ہے کہ یہ لوگ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مہمان ہیں ، ایسے حالات میں کہ اپنے فرمان کو نہیں جانتے جبکہ وہ انہیں خوب جانتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اندر کوئی زیادہ تبدیلی نہیں ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) تبدیل ہوگئے ہیں ، پھر ان کے خیال میں یہ بات آہی نہیں سکتی کہ یوسف (علیہ السلام) یہ مقام حاصل کرسکیں گے ، ایک عبرانی لڑکا جسے انہوں نے اندھے کنویں میں ڈال دیا ہے وہ یہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ اور اس پر تقریباً بیس سال بھی گزر گئے ہیں۔ پھر وہ ہے بھی عزیز مصر کی صورت میں خصم و خشم اور نوکر شاکر اور منصب عالیہ کا رعب داب کس طرح ان کے تخیل کو اس طرف رخ کرنے دیتا ہے ؟

ادھر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنا تعارف نہیں کرایا۔ وہ مناسبت سمجھتے ہیں کہ انہیں ذرا مزید سبق پڑھایا جائے۔

وجاء اخوۃ یوسف۔۔۔۔۔۔ منکرون ۔ (12 : 58)

“ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے ۔ اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے نا آشنا تھے ”۔

اردو ترجمہ

پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروا دیا تو چلتے وقت ان سے کہا، "اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walamma jahhazahum bijahazihim qala itoonee biakhin lakum min abeekum ala tarawna annee oofee alkayla waana khayru almunzileena

سیاق کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کو عزت و احترام سے بٹھایا اور ان کو اس طرح سبق پڑھانا شروع کیا۔

ولما جھزھم ۔۔۔۔۔ من ابیکم (12 : 59) “ پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروادیا تو چلتے وقت ان سے کہا “ اپنے سوتیلے بھائی کو میرے لانا ”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ بےتکلف ہوگئے تھے ، اس طرح انہوں نے عزیز مصر کو بتا دیا کہ وہ کون ہیں اور یہ کہ ان کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہے جسے ہمارا باپ اپنے سے جدا کرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے وہ نہیں آیا۔ جب ان لوگوں کا سامان تیار ہوگیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہہ دیا کہ وہ تمہارے اس بھائی سے ملنا چاہتے ہیں۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں خریداروں کو ٹھیک ٹھیک حق دیتا ہوں ، اگر تمہارا بھائی آجائے تو اس کا حصہ بھی ادا کردوں گا۔ اور دوسروں کی طرح تمہاری قدرو منزلت کروں گا۔

الا ترون انی ۔۔۔۔۔۔۔ ولا تقربون (12 : 59- 60) “ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح نہ بھر کردیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔ اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لئے کوئی غلہ نہیں ہے۔ بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا ”۔

ان کو تو معلوم تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت یوسف (علیہ السلام) کی گمشدگی کے بعد یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کو ہر وقت ساتھ رکھتے تھے اس لئے انہوں نے کہہ دیا کہ اسے لانا ان کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان کے باپ اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں ، بہرحال وہ کوشش کریں گے کہ وہ دوسری بار ان کے ساتھ آجائے۔

قالوا سنراودعنہ اباہ وانا لفعلون (12 : 61) “ انہوں نے کہا “ ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہوجائیں ، اور ہم ایسا ضرور کریں گے ”۔ (نرادو ) کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے انہیں بہت ہی سعی کرنی ہوگی۔

یوسف (علیہ السلام) نے اپنے ملازمین کو حکم دے دیا کہ جو در ثمن یا سامان وہ غلے کے مبادلے میں لائے تھے وہ بھی انہیں ان کے بارے میں رکھ کو لوٹا دیا جائے ، ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ نقدی ہو یا کوئی صحرا دی قیمتی غلات ہوں یا چمڑے اور دوسری چیزیں مثلاً اون وغیرہ جو شہروں میں اچھی قیمت پر بکتے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ جب یہ اپنے بار کھولیں گے تو یہ اپنی چیزیں دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اور پہچان لیں گے کہ یہ تو ان کی اشیاء ہیں۔

اردو ترجمہ

اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fain lam tatoonee bihi fala kayla lakum AAindee wala taqrabooni

اردو ترجمہ

انہوں نے کہا، "ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر ر اضی ہو جائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo sanurawidu AAanhu abahu wainna lafaAAiloona

اردو ترجمہ

یوسفؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ "اِن لوگوں نے غلے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو" یہ یوسفؑ نے اِس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہوا مال پہچان جائیں گے (یا اِس فیاضی پر احسان مند ہوں گے) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala lifityanihi ijAAaloo bidaAAatahum fee rihalihim laAAallahum yaAArifoonaha itha inqalaboo ila ahlihim laAAallahum yarjiAAoona

وقال لفتینہ اجعلوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لعلھم یرجعون (12 : 62) “ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ “ ان لوگوں نے غلے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو ”۔ یہ یوسف (علیہ السلام) نے اس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہوا مال پہچان جائیں گے (یا اس فیاضی پر احسان مند ہوں گے ) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں ”۔

اردو ترجمہ

جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا "ابا جان، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلہ لے کر آئیں اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma rajaAAoo ila abeehim qaloo ya abana muniAAa minna alkaylu faarsil maAAana akhana naktal wainna lahu lahafithoona

اب حضرت یوسف (علیہ السلام) مصر میں رہ جاتے ہیں اور کنعان میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور برادران یوسف (علیہ السلام) منظر پر ہیں۔ ان کی واپسی کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔

آیت نمبر 63 تا 66

معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ سیدھے باپ کے سلام کو حاضر ہوئے۔ سامان کھولنے سے بھی پہلے انہوں نے باپ کو یہ بتانا ضروری خیال کیا کہ ہمارے بارے میں تو فیصلہ کردیا گیا ہے کہ جب تک ہم اپنے چھوٹے بھائی کو عزیر مصر کے سامنے پیش نہ کریں گے ہمیں مزید کوئی غلہ نہ دیا جائے گا۔ چناچہ پہنچتے ہی انہوں نے باپ سے مطالبہ شروع کردیا کہ چھوٹے بھائی کو ساتھ بھیجیں تا کہ ایک اونٹ بار غلہ بھی مل جائے اور وہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لیتے ہیں۔

فلما رجعوا الی ۔۔۔۔۔۔ لحفظون (12 : 63) “ جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا “ اباجان ، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے ، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تا کہ ہم غلہ لے کر آئیں ۔ اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ”۔ اب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے خفیہ خدشات سامنے آجاتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے ایسا ہی پختہ عہد کیا تھا۔ چناچہ آپ اپنے درد کا اظہار کردیتے ہیں۔

242