سورہ یوسف (12): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yusuf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يوسف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یوسف کے بارے میں معلومات

Surah Yusuf
سُورَةُ يُوسُفَ
صفحہ 239 (آیات 31 سے 37 تک)

فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَـًٔا وَءَاتَتْ كُلَّ وَٰحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ ٱخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُۥٓ أَكْبَرْنَهُۥ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَٰشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَآ إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ ٱلَّذِى لُمْتُنَّنِى فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَٰوَدتُّهُۥ عَن نَّفْسِهِۦ فَٱسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَآ ءَامُرُهُۥ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ ٱلصَّٰغِرِينَ قَالَ رَبِّ ٱلسِّجْنُ أَحَبُّ إِلَىَّ مِمَّا يَدْعُونَنِىٓ إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّى كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ ٱلْجَٰهِلِينَ فَٱسْتَجَابَ لَهُۥ رَبُّهُۥ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّنۢ بَعْدِ مَا رَأَوُا۟ ٱلْءَايَٰتِ لَيَسْجُنُنَّهُۥ حَتَّىٰ حِينٍ وَدَخَلَ مَعَهُ ٱلسِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَآ إِنِّىٓ أَرَىٰنِىٓ أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ ٱلْءَاخَرُ إِنِّىٓ أَرَىٰنِىٓ أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِى خُبْزًا تَأْكُلُ ٱلطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِۦٓ ۖ إِنَّا نَرَىٰكَ مِنَ ٱلْمُحْسِنِينَ قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِۦٓ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِۦ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِى رَبِّىٓ ۚ إِنِّى تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَهُم بِٱلْءَاخِرَةِ هُمْ كَٰفِرُونَ
239

سورہ یوسف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یوسف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اس نے جو اُن کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو اُن کو بلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک چھری رکھ دی (پھر عین اس وقت جبکہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یوسفؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکا ر اٹھیں "حاشاللّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma samiAAat bimakrihinna arsalat ilayhinna waaAAtadat lahunna muttakaan waatat kulla wahidatin minhunna sikkeenan waqalati okhruj AAalayhinna falamma raaynahu akbarnahu waqattaAAna aydiyahunna waqulna hasha lillahi ma hatha basharan in hatha illa malakun kareemun

اس نے ان عورتوں کو اپنے محل میں ایک دعوت میں بلایا ، اس دعوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعوت نہایت ہی ترقی یافتہ لوگوں کی دعوت تھی۔ ایسی ہی عورتوں کو محلات میں دعوتیں دی جاتی ہیں۔ اور نہایت ہی پر تکلف کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مشرقی روایات کے مطابق تکیہ لگا کر کھانا کھایا جاتا تھا۔ چناچہ اس نے کھانے کے لیے ایسی جگہ تیار کی جہاں یہ عورتیں تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھیں۔ پھر ہر ایک کو چھری دی گئی تاکہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں مصر تہذیب و تمدن کے اعتبار سے بہت ہی آگے نکل گیا تھا اور محلات میں لوگ پر تعیش زندگی بسر کرتے تھے۔ کیونکہ ہزاروں سال قبل چھری کے استعمال کی اطلاع سے معلوم ہوتا ہے کہ مادی اور تمدنی لحاظ سے مصری معاشرہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ یہ عورتیں گوشت اور میوے کاٹنے میں مشغول تھیں کہ عزیزہ نے یوسف کو حک دیا کہ ذرا سامنے آؤ۔

قالت اخرج علیھن " اس نے یوسف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ "۔

فلما راینہ اکبرنہ " جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں " اس کو دیکھ کر مبہوت رہ گئیں اور ان پر دہشت طاری ہوگئی۔

و قطعن ایدیھن " اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں " اچانک دہشت زدگی کی وجہ سے انہوں نے اپنے ہاتھ زخمی کردئیے۔

و قلن حاش للہ " اور بےساختہ پکار اٹھیں حاشا للہ " تخلیق قدرت پر حیراں ہوکر حاشا للہ کہا جاتا ہے۔ در اصل حاشا للہ کلمہ تنزیہ اس موقعہ پر بولا جاتا ہے جہاں کسی ذات سے کسی الزام کی شدت سے نفی کی جائے۔

ما ھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم " یہ شخص انسان نہیں ہے ، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے " جیسا کہ ہم نے اس سورت کے دیباچے میں کہا ، ان تعبیرات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کے بعض تصورات مصری معاشرے میں پھیل چکے تھے۔

اب عزیز کی بیوی کو یقین ہوگیا کہ اس نے میدان مار لیا ہے ، اور اس کے خلاف باتیں بنانے والی عورتوں سے انتقام لے لیا ہے ، اور خود یہ عورتیں دہشت زدہ ، حیران بلکہ مبہوت ہو کر رہ گئی ہیں۔ اب یہ عورتوں کے سامنے کھل جاتی ہے اور اپنے جنسی سکینڈل کو عورتوں کے سامنے کھول کر بیان کرتی ہے اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتی۔ اب وہ دھمکی آمیز لہجے میں اقرار کرتی ہے کہ اس شخص کو میری مرضی کے مطابق چلنا ہوگا ورنہ ۔۔ اب اس کی باتوں کا انداز اور ہے۔

اردو ترجمہ

عزیز کی بیوی نے کہا "دیکھ لیا! یہ ہے یہ وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں بے شک میں نے اِسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qalat fathalikunna allathee lumtunnanee feehi walaqad rawadtuhu AAan nafsihi faistAAsama walain lam yafAAal ma amuruhu layusjananna walayakoonan mina alssaghireena

قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ " عزیز کی بیوی نے کہا " دیکھ لیا ، یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں " دیکھ لیا تم نے۔ ذرا اپنی حالت کو تو دیکھ ، بتاؤ تم کیوں حیران و پریشان اور حواس باختہ ہوگئی ہو۔

وَلَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَ : " بیشک میں نے اسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا " اس نے مجھے اسی طرح حواس باختہ کردیا ہے ، میں نے اسے ورغلانے کی بہت کوشش کی مگر یہ بچ نکلتا ہے۔ یہ میری تمام کوششوں اور فتنہ سامانیوں کے مقابلے میں اپنے اصول پر جما ہوا ہے لیکن ۔۔۔ تعجب یہ ہے کہ اس کی مصری معاشرے میں اونچے طبقے کی یہ عورت علانیہ تمام عورتوں کے سامنے اپنے جنسی عزائم کا اظہار کر رہی ہے اور دھمکی بھی دیتی ہے۔ وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُهٗ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ : " اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا "

اب یہ عورت صنف نازک کے ورغلانے والے حربوں کے علاوہ بڑے فخر سے تشدد اور دھمکی کے ذرائع بھی استعمال کر رہی ہے۔ یہ دھمکی عورتوں کے مجمعے میں یوسف کو کھلے بندوں دی جا رہی ہے۔ اور انہی عورتوں کے سامنے جن میں سے ہر ایک اپنی فتنہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اور یہ دھمکی اسے خود اپنی مالکہ دے رہی ہے ، چناچہ ایسے نازک اور خطرناک حالات میں صرف رب تعالیٰ ہی سے مدد لی جاسکتی ہے۔

اردو ترجمہ

یوسفؑ نے کہا "اے میرے رب، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi alssijnu ahabbu ilayya mimma yadAAoonanee ilayhi wailla tasrif AAannee kaydahunna asbu ilayhinna waakun mina aljahileena

حضرت یوسف اب صرف عزیز کی بیوی کے خلاف دست بدعا نہیں بلکہ مصر کے اس اعلی طبقے کی عورتیں اب ان کے پیچھے پڑگئی ہیں ، اپنی حرکات اور اپنی باتوں کی وجہ سے تمام عورتیں ان پر بچھی جا رہی ہیں اب وہ اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں اور ان فتنوں کے مقابلے میں وہ اللہ کی نصرت طلب کرتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں ہر طرف سے ورغلایا جا رہا ہے اور کسی بھی وقت ان سے کمزوری ظاہر نہ ہونے اس لیے وہ ان حالات میں اور ایسی سخت آزمائش میں خوف کھا رہے ہیں۔

وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ : " یہ اس انسان کی پکار ہے جسے اپنی شریعت کا احساس ہے ، وہ جانتا ہے کہ انسان انسان ہے۔ وہ اگرچہ جمے ہوئے ہیں لیکن اپنی کمزوریاں بھی ان کی نظر میں ہیں۔ لہذا وہ اللہ کی حفاظت مزید چاہتے ہیں تاکہ وہ ان فتنوں کا مقابلہ اطمینان سے کرسکیں "

اردو ترجمہ

اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں، بے شک وہی ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faistajaba lahu rabbuhu fasarafa AAanhu kaydahunna innahu huwa alssameeAAu alAAaleemu

اللہ نے ان کی سازشوں کو کس طرح پھیرا ، یہ کہ وہ ان سے مایوس ہوگئیں ، انہوں نے بہت سی چالیں چلیں اور تجربات کیے مگر وہ ان کے دام میں نہ آئے کہ عنقا را بلند است آشیانہ۔ یہ بھی صورت تھی کہ ان فتنہ سامانیوں کا حضرت پر اثر ہی نہ ہوتا ، اللہ سمیع وعلیم ہے وہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے ، سن رہا ہے ، یہاں آ کر حضرت یوسف زندگی کے اس دوسرے امتحان اور آزمائش میں کامیاب رہے۔ (بفضل اللہ و رحمتہ)

اردو ترجمہ

پھر ان لوگوں کو یہ سوجھی کہ ایک مدت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے برے اطوار کی) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma bada lahum min baAAdi ma raawoo alayati layasjununnahu hatta heenin

یہ سبق اس قصے کی تیسر کڑی ہے اور حضرت یوسف کی مشکلات زندگی بھی تیسری اور آخری کڑی ہے۔ اس کڑی کے بعد حضرت یوسف کی زندگی کے مشکل دن ختم ہونے والے ہیں۔ اب آرام اور سکون ہی ہوگا۔ اب حضرت یوسف کی زندگی کا امتحان دوسرے انداز میں ہوگا۔ پہلے مصائب میں ان کی آزمائش تھی ، اب عیش و آرام اور اقتدار کی زندگی میں ان کی آزمائش ہوگ۔ اس کڑی میں ان کی آزمائش جیل جانے میں ہو رہی ہے یہ عجیب آزمائش ہے کہ وہ الزام سے بری ہوگئے ہیں پھر بھی جیل میں ہیں ، ایک گناہ گار تو صبر کرلیتا ہے کیونکہ اس کو علم ہوتا ہے کہ اس نے قصور کیا ہے لیکن ایک بےگناہ جب قید ہوتا ہے تو اس کے لیے سزا ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اگرچہ دل میں اسے یہ سکون ہوتا ہے کہ وہ بےگناہ ہے۔

اس عرصے میں حضرت یوسف پر اللہ کے انعامات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اب ان کو تعبیر رویا کا علم لدنی عطا کردیا گیا ہے ، اسی طرح وہ تاویل احادیث میں ماہر ہوچکے ہیں ، واقعات کے آغاز ہی میں وہ معلوم کرلیتے ہیں کہ ان کے نتائج کیا ہوں گے اور اس کے بعد اب بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف کی براءت کا بھی انتظام ہورہا ہے ، خود بادشاہ عورتوں کو بلا کر انکوائری کرتا ہے۔ اب حضرت یوسف کی خفیہ صلاحیتیں سامنے آرہی ہیں۔ وہ بادشاہ کے مقرب خاص ہوکر تمام اختیارات کے مالک اور مقتدر اعلی بن جاتے ہیں۔ اور جس مقام پر اللہ نے ان کو پہنچانا تھا وہ پہنچ جاتے ہیں۔

درس نمبر 108 تشریح آیات 35 ۔۔۔ تا۔۔۔ 52

۔۔۔

محلات کی فضاؤں میں ، آمریت کی چھاؤں میں نوابوں کے درباروں میں جاہلیت کے نظاموں میں ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا ، انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ یہ عورت اس فرشتہ سیرت شخص کو عورتوں کی مجالس میں پیش کرتی ہے اور برملا دھمکیاں دیتی ہے ، تمام مصری عورتوں کو یقین تھا کہ یہ عورت اپنے غلام کی محبت میں اندھی ہو رہی ہے اور اپنی فریفتگی کا اعلان کرتی پھر رہی ہے۔ یوسف علیہ السالم پر ان عورتوں کا دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ اللہ سے استعانت طلب فرماتے ہیں۔ دوسری جانب یہ عورت بھی اس بات پر تلی ہوئی ہے اور اعلان کر رہی ہے کہ یوسف کو اس کی مراد پوری کرنا ہوگی یا اسے قید خانوں میں ذلیل و خوار ہونا ہوگا ، اب یا تو وہ حکم کی تعمیل کرے گا یا جیل جائے گا۔

ان حالات کے بعد یہ لوگ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ایک عرصے کے لیے یوسف کو قید کردیا جائے۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یہ عورت اب مایوس ہوگئی ہوگی ، دوسری جانب چہ میگوئیاں عام ہوگئی ہوں گی اور اب ان نام نہاد اونچے گھرانوں کی عزت کا تحفظ اسی طرح ہوسکتا تھا کہ بےگناہ کو قید کردیا جائے۔ یہ کام تو ان کے لیے بہت ہی آسان ہے۔ اس نے چونکہ اس ترقی یافتہ عورت کی خواہشات کو پورا نہ کیا تھا لہذا اسے لازماً جیل جانا تھا کیونکہ وہ بیچار بدنام ہوگئی اور ہر طرف سے چہ میگوئیاں تھیں اور ہر محفل میں وہ موضوع سخن تھی۔

اردو ترجمہ

قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا "میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں" دوسرے نے کہا "میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں" دونوں نے کہا "ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wadakhala maAAahu alssijna fatayani qala ahaduhuma innee aranee aAAsiru khamran waqala alakharu innee aranee ahmilu fawqa rasee khubzan takulu alttayru minhu nabbina bitaweelihi inna naraka mina almuhsineena

عنقریب سیاق کلام میں یہ بات ظاہر ہوگی کہ یہ لوگ بادشاہ کے خواص اور خدام میں سے تھے۔ یہاں قرآن مجید میں حضرت یوسف کے زمانہ قید کے حالات تفصیل سے بیان نہیں کیے گئے ، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ قید خانے میں آپ کی طہارت اخلاق اور نیکی اور سنجیدگی اور وقار اس قدر عام ہوگیا کہ تمام قیدیوں میں آپ ایک مثال بن گئے۔ تمام قیدیوں کے لیے معتمد اعلی بن گئے ، ان قیدیوں میں وہ لوگ بھی تھے جو شاہی عتاب کی وجہ سے قید خانے میں پڑے تھے۔ کیونکہ شاہی محل اور شاہی دربار میں دربار میں ان سے کچھ قصور سرزد ہوگئے ہوں گے۔ چناچہ ان پر عارضی طور پر عتاب وارد ہوگیا تھا۔ بہرحال قرآن واقعات قصے کو جلدی آگے بڑھانے کے لیے باقی تفصیلات ترک کردیتا ہے اور صرف دو نوجوانوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہ دو نوجوان حضرت یوسف کے پاس آئے اور انہوں نے ان کے سامنے اپنے خوابوں کو پیش کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ آپ ان کی تعبیر بتائیں۔ ان لوگوں نے تعبیر خواب کے لیے حضرت یوسف کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس لیے کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ وہ سچے ، نیک عبادت گزار اور ذکر و فکر کے مالک تھے۔

قید خانے میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے ، ایک روز ان میں سے ایک نے کہا میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں دوسرے نے کہا " میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں " دونوں نے کہا ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں۔ اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ موقعہ ہاتھ آگیا کہ وہ قیدیوں کے سامنے اپنا نظریہ حیات پیش کریں۔ ان کو صحیح عقیدہ دیں ، کیونکہ قیدی کے لیے یہ ممنوع نہیں ہے کہ ان کا عقیدہ اچھا ہو۔ قیدیوں کی نظریاتی اور عملی تربیت بھی ضروری ہے۔ لہذا حضرت یوسف ان کو تلقین کرتے ہیں کہ تمام خرابیوں کی جڑ فاسد نظام زندگی ہے جس میں حکم اور اقتدار اعلی اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو۔ چناچہ وہ ان کو تلقین کرتے ہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو اس کرہ ارض کا رب تسلیم کرنا اصل گمراہی ہے ، اس طرح حکمران فرعون بن جاتے ہیں۔

حضرت یوسف اپنی بات کا آغاز اس موضوع سے کرتے ہیں جس میں اس کے جیل کے دونوں ساتھیوں کو دلچسپی ہے۔ لیکن ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے دلچسپی کے موضوع پر بات ذرا بعد میں آئے گی۔ اور وہ خوابوں کی صحیح تعبیر بتا دیں گے کیونکہ اس شعبے میں اللہ نے ان کو علم لدنی دیا ہے اور یہ اس لیے دیا ہے کہ میں اللہ کی بندگی کرتا ہوں اور اللہ کے ساتھ میں اور میرے آباء و اجداد کسی کو شریک نہیں کرتے ، یوں حضرت یوسف ان لوگوں کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ تعبیر خواب بھی بتائیں گے اور یہ کہ حضرت یوسف کا دین بھی نہایت ہی متین دین ہے۔

اردو ترجمہ

یوسفؑ نے کہا: "یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اِن خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا یہ علم اُن علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala la yateekuma taAAamun turzaqanihi illa nabbatukuma bitaweelihi qabla an yatiyakuma thalikuma mimma AAallamanee rabbee innee taraktu millata qawmin la yuminoona biAllahi wahum bialakhirati hum kafiroona

اسے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کی بات کس قدر دل نشین ہے اور وہ بات سے کس طرح بات نکالتے چلے جاتے ہیں اور کس قدر نرمی اور لطافت کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ اس پورے قصے میں حضرت یوسف کی بات چیت کی یہ امتیازی خصوصیت ہے۔

قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِيْـلِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَا ۭ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ : یوسف نے کہا یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھ عطا کیے ہیں۔

یہ تاکید اس بات کا اظہار کر رہی ہے کہ حضرت یوسف کو اس معاملے میں ایک خاص علم دیا گیا ہے کہ کھانے آنے سے قبل ہی وہ اپنے اس مخصوص علم کے ذریعے ان کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتا دیں گے۔ اور یہ علم ان کو اس لیے دیا گیا تھا کہ اس دور میں خوابوں کی تعبیر کے فن نے کافی ترقی کی ہوئی تھی۔ یہ ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں۔ یہ الفاظ حضرت نے اس لیے استعمال کیے کہ ان لوگوں پر نفسیاتی اثر ہوجئے اور حضرت یوسف کی بات ان کے دل میں اتر جائے۔ اور وہ ان خوابوں کی تعبیر کی وجہ سے یوسف کی دعوت کو قبول کرلیں جبکہ یہ تعبیر نہایت ہی مخصوص انداز کی تھی۔

اِنِّىْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ : " واقعہ یہ ہے کہ میں نے ان لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر ، جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں "

یہ اشارہ اس قوم کی طرف بھی ہے جس میں ان کی تربیت ہوئی ، یعنی عزیز مصر کا گھرانا اور شاہ مصر کے حاشیہ نشین ، اور اس پوری قوم کی طرف بھی جو شاہ مصر کی مطیع فرمان تھی ، جبکہ یہ دونوں نوجوان ظاہر ہے کہ بادشاہ اور اپنی قوم ہی کے دین پر تھے لیکن حضرت یوسف ان کے ساتھ بات کرنے میں یہ نہیں فرماتے کہ میں نے تمہارا دین چھوڑ دیا ہے بلکہ ایک عام بات فرماتے ہیں تاکہ ان نوجوانوں کے دلوں میں دین اسلام سے نفرت پیدا نہ ہوجائے۔ یہ نہایت ہی دانشمندی اور اعلی درجے کی حکمت تبلیغ ہے اور نہایت ہی لطافت اور فراست کے ساتھ بات پہنچانے کا انداز ہے۔

239