اس صفحہ میں سورہ As-Sajda کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ السجدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 21 وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ اس آیت کی سورة الروم کی آیت 41 کے ساتھ خاص مناسبت ہے : ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ بحر و بر میں فساد رونما ہوچکا ہے لوگوں کے اعمال کے سبب ‘ تاکہ اللہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا ‘ تاکہ وہ لوٹ آئیں۔دونوں آیات کے مضمون کا تعلق دراصل اللہ تعالیٰ کے اس انتہائی اہم قانون سے ہے جس کے تحت دنیا میں لوگوں کے کرتوتوں کے سبب ان پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد انہیں خبردار کرنا ہوتا ہے کہ شاید اس طرح وہ خواب غفلت سے جاگ کر توبہ کی روش اپنا لیں اور بڑے عذاب سے بچ جائیں۔ اس قانونِ الٰہی کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ مثلاً سورة الانعام میں اس سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلآی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ اور ہم نے بھیجا دوسری امتوں کی طرف بھی آپ ﷺ سے قبل رسولوں کو ‘ پھر ہم نے پکڑا انہیں سختیوں اور تکلیفوں سے ‘ شاید کہ وہ عاجزی کریں۔ اسی طرح سورة الاعراف میں اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ اس قانون کی یوں وضاحت کی گئی : وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ الآَّ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بھی بستی میں کسی بھی نبی کو مگر یہ کہ ہم نے پکڑا اس کے بسنے والوں کو سختیوں سے اور تکلیفوں سے تاکہ وہ گڑ گڑائیں اور ان میں عاجزی پیدا ہوجائے ۔
آیت 22 وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا ط اگر کوئی شخص کسی عام نصیحت کی پروا نہ کرے اور کسی شخصی فلسفہ ومنطق کو ٹھکرا دے تو اور بات ہے ‘ چہ جائیکہ کوئی بدنصیب اللہ کی آیات پر مبنی تذکیر و نصیحت کو نظر انداز کر دے۔
آیت 23 وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآءِہٖ یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو یہاں سلسلہ کلام کے درمیان میں آیا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں حضور ﷺ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شب معراج کے موقع پر ہونے والی ملاقات کی طرف اشارہ ہے۔ اس حوالے سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے نبی ﷺ ! شب معراج میں آپ نے موسیٰ علیہ السلام سے جو ملاقات کی تھی اس کے بارے میں آپ ﷺ کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے ‘ وہ یقیناً موسیٰ علیہ السلام ہی تھے جو آپ کو وہاں ملے تھے۔ لیکن آیت کا زیادہ قرین قیاس مفہوم جو سیاق وسباق کے ساتھ بھی مناسبت رکھتا ہے وہ یہی ہے کہ اے نبی ﷺ ! ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا کی تھی اور اس کتاب کا موسیٰ علیہ السلام کو ملنا ہماری ہی طرف سے تھا۔ اسی طرح آپ ﷺ کو اس کتاب یعنی قرآن کا ملنا بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس بارے میں آپ ﷺ کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ انداز بیان سمجھنے کے لیے قرآن کا وہی اسلوب ذہن میں رکھئے جس کا ذکر قبل ازیں بار بار ہوچکا ہے کہ اکثر ایسے احکام جو حضور ﷺ کو صیغۂ واحد میں مخاطب کرکے دیے جاتے ہیں وہ دراصل امت کے لیے ہوتے ہیں۔ چناچہ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ میں گویا ہم سب مخاطب ہیں اور اس کا مفہوم دراصل یہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم لوگوں کو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب تورات ملی تھی وہ بھی انہیں اللہ ہی نے دی تھی اور محمد ﷺ کو اس کتاب قرآن کا ملنا بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
آیت 24 وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَءِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ط۔یعنی بنی اسرائیل کے ائمہ اور پیشواؤں کو تورات کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے صبر کی روش پر کاربند رہنا پڑتا تھا۔ اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات کو سیکھنے اور پھر لوگوں تک پہنچانے کے لیے وقت درکار ہے جو انسانی سطح پر بذات خود ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ دولت اور عیش و عشرت کے حصول کی حرص ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا بیشتر وقت دنیا اور اس کی آسائشوں کے حصول کے لیے صرف کر دے گا تو اس کے شب وروز میں دعوت و تبلیغ اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے وقت کہاں سے آئے گا ؟ چناچہ اگر کسی کو اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کمربستہ ہونا ہے تو صبر و استقامت کا دامن تھام کر اسے لازمی طور پر دنیا کی بہت سی آسائشوں کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اس راستے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے بھی صبر درکار ہے۔ کتاب اللہ کی تعلیم و تبلیغ کے حوالے سے یہ دونوں فرائض گویا بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار بن کر نکلے گا تو لوگ اس کی مخالفت کریں گے ‘ اس راہ میں اسے گالیاں بھی سننا پڑیں گی ‘ جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا بھی کرنا ہوگا اور مال و جان کے نقصانات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔ بہر حال اس راستے پر جس پہلو سے بھی کوئی جدوجہد کرے گا ‘ اسے قدم قدم پر ایسے سنگ ہائے میل سے سابقہ پڑے گا جو صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کے رنگا رنگ مطالبات سے عبارت ہوں گے۔آج قرآن کی تبلیغ و ترویج کے میدان میں یہ آیت ہمارے لیے نشان منزل بن سکتی ہے۔ جس انداز میں یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ائمہ کی تعریف فرمائی ہے اس کے لطیف احساس سے ہمارے دلوں میں ترغیب و تشویق کے جذبات کی نئی نئی کو نپلیں پھوٹنی چاہئیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بنی اسرائیل کے ان ائمہ کے کردار اور خوش نصیبی سے متعلق اپنے دلوں میں رشک پیدا کریں اور پھر اللہ سے توفیق مانگیں کہ وہ ہمیں بھی اس کام کے لیے ُ چن لے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ یہ رتبہ بلند محض دعاؤں اور تمناؤں کے سہارے نہیں ملا کرتا۔ اس کے لیے ہمیں صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر عملی کوشش کرنا ہوگی۔ اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کرنا ہوگا ‘ اپنے معیار زندگی living standard کو کم سے کم سطح پر رکھنا ہوگا اور یوں اپنے تبلیغی بھائیوں کے بقول تفریغ الاوقات دینی جدوجہد کے لیے وقت نکالنا کو ممکن بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم میں سے ہر ایک کو سنجیدہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایک دفعہ اپنا بیشتر وقت پیسہ کمانے اور معیار زندگی بلند کرنے کی کوششوں میں صرف کرنے کی روش کو اپنا لیا تو یوں سمجھیں کہ ہم نے خود کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال لیا۔ یعنی خود کو ایک نام نہاد معیار زندگی کے سراب کو پالینے اور پھر اس کو برقرار رکھنے کی خواہشات کا اسیر بنا لیا۔ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی زندگی اسی دنیاداری میں گزار دی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایک خاص معیار زندگی کو اپنے معبود کا درجہ دے کر گویا ساری عمر اسی کی پوجا میں گزار دی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اللہ کی توفیق سے قرآن کا دامن مضبوطی سے تھام لیں ‘ اپنی زندگی کے لیے راہنمائی صرف اور صرف قرآن سے حاصل کرنے کا تہیہ کرلیں تو اللہ کے راستے پر چلنے کے لیے ہمارے سامنے ان شاء اللہ اسباب کے نت نئے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مسجودِملائک بنایا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نقطۂعروج climax ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جب یہ عزم صمیم کا زاد سفر لے کر کسی راہ پر چل پڑتا ہے تو مشکلات اس سے کنی کترا نے لگتی ہیں اور منزلیں خود آگے بڑھ کر اس کے قدم چومتی ہیں۔وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ ۔بنی اسرائیل کے ائمہ جو کتاب کی تعلیم و تبلیغ میں مصروف تھے وہ صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات پر پختہ یقین بھی رکھتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھنا ‘ اس کے وعدوں کو من و عن سچ ماننا اور اس پر توکل کرنا راہ حق کی جدوجہد کی لازمی شرائط ہیں۔
آیت 26 اَوَلَمْ یَہْدِ لَہُمْ کَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰکِنِہِمْ ط۔قریش کے قافلے اپنے سفر شام کے دوران میں قوم ثمود کی بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرتے تھے اور یہاں یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰکِنِہِمْ کے الفاظ میں دراصل اسی طرف اشارہ ہے۔ یعنی یہ لوگ ان بستیوں کی تباہی کی خود تصدیق کرچکے ہیں۔ حال ہی میں کچھ برطانوی محققین نے بحر مردار Dead Sea کے ساحل کے ساتھ پانی کے نیچے قوم لوط کی بستیوں کے آثار کی نشان دہی کر کے اس بارے میں تورات اور قرآن کے بیانات کی تصدیق کی ہے۔ ان بستیوں کے بارے میں میرا خیال یہی تھا کہ وہ سمندر کے اندر آچکی ہیں اور متعلقہ سمندر کو شاید Dead Sea کا نام بھی اسی لیے دیا گیا ہے کہ اس کے نیچے ان شہروں کے باسیوں کی اجتماعی قبریں ہیں۔ مستقبل میں سائنس کی ترقی کے باعث قرآن میں دی گئی اس نوعیت کی بہت سی معلومات کے حوالے سے مزید انکشافات کی بھی امید ہے۔
آیت 28 وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ہٰذَا الْفَتْحُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ مشرکین کا یہ سوال قیامت کے بارے میں بھی تھا اور عذاب سے متعلق بھی کہ اے مسلمانو ! اگر تم لوگ اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر بتاؤ کہ قیامت کب آئے گی یا جس عذاب کا تم ہمیں ڈراوا دیتے رہتے ہو وہ آخر کب آئے گا ؟
آیت 29 قُلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِیْمَانُہُمْ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایمان لانے کا فائدہ انہیں تبھی ہوگا اگر وہ اپنی دنیوی زندگی کے دوران ایمان لائیں گے ‘ جبکہ آخرت کے تمام حقائق پردۂ غیب میں چھپے ہوئے ہیں ‘ لیکن جب یہ لوگ عالم آخرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تب ان کا ایمان لانا ان کے لیے مفید نہیں ہوگا۔وَلَا ہُمْ یُنْظَرُوْنَ آج انہیں جو مہلت ملی ہے اس میں اگر وہ توبہ کرلیں تو یہ ان کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔ لیکن موت کے آثار ظاہر ہوتے ہی یہ مہلت ختم ہوجائے گی۔
آیت 30 فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَانْتَظِرْ اِنَّہُمْ مُّنْتََََظِرُوْنَ ۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایّاکم بالآیات والذِّکر الحکیم