سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 111 (آیات 18 سے 23 تک)

وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ وَٱلنَّصَٰرَىٰ نَحْنُ أَبْنَٰٓؤُا۟ ٱللَّهِ وَأَحِبَّٰٓؤُهُۥ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ ٱلرُّسُلِ أَن تَقُولُوا۟ مَا جَآءَنَا مِنۢ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَآءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ يَٰقَوْمِ ٱذْكُرُوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنۢبِيَآءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَءَاتَىٰكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ ٱلْعَٰلَمِينَ يَٰقَوْمِ ٱدْخُلُوا۟ ٱلْأَرْضَ ٱلْمُقَدَّسَةَ ٱلَّتِى كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا۟ عَلَىٰٓ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا۟ خَٰسِرِينَ قَالُوا۟ يَٰمُوسَىٰٓ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا۟ مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا۟ مِنْهَا فَإِنَّا دَٰخِلُونَ قَالَ رَجُلَانِ مِنَ ٱلَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمَا ٱدْخُلُوا۟ عَلَيْهِمُ ٱلْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَٰلِبُونَ ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَتَوَكَّلُوٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
111

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ان سے پوچھو، پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟ در حقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے زمین اور آسمان اور ان کی ساری موجودات اس کی مِلک ہیں، اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqalati alyahoodu waalnnasara nahnu abnao Allahi waahibbaohu qul falima yuAAaththibukum bithunoobikum bal antum basharun mimman khalaqa yaghfiru liman yashao wayuAAaththibu man yashao walillahi mulku alssamawati waalardi wama baynahuma wailayhi almaseeru

یہودی اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں۔ (آیت) ” وقالت الیھود والنصری نحن ابنوا اللہ واحبآؤہ “۔ (5 : 18) (یہود اور نصاری کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں) انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے ابوت (والد ہونا) کا عقیدہ اپنایا ‘ اگرچہ اس ابوت کے لئے وہ کئی تصورات کے قائل ہوں ‘ اس کا پر تو عقیدہ توحید پر بہرحال پڑتا ہے اور اللہ کی الوہیت اور مسیح کی عبدیت کے درمیان فیصلہ کن فرق کمزور پڑجاتا ہے اور جب تک اللہ اور بندوں کے درمیان واضح فرق نہ ہو اس وقت تک نہ عقائد درست ہو سکتے ہیں اور نہ زندگی درست راہ پر استوار ہو سکتی ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ وہ سمت متعین ہوجائے جس کی طرف تمام بندوں کا رخ ہو اور وہ اس ایک ہی سمت کی بندگی کریں اور اس قبلے اور ماخذ کا بھی تعین ہوجائے جس سے انسان اپنے لئے قانون اور تمدن کے اصول اخذ کریں ۔ اور اس سے وہ اقدار حیات اور حسن وقبح کے پیمانے اخذ کریں ۔ بغیر اس کے کہ ان جہات میں کوئی التباس اور باہم تداخل ہو یا بندے اور خدا کے اوصاف باہم گڈمڈ ہوں اور بندے اور خدا کے درمیان امتزاج کا کوئی تصور پیدا ہو ۔ لہذا شرک صرف نظریاتی مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ شرکیہ عقائد کے نتیجے میں پوری زندگی کے اندر ٹیڑھ پیدا ہوجاتی ہے ۔

یہودیوں اور عیسائیوں نے جب یہ دعوے کیے کہ وہ اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں تو پھر ان تصورات کے لازمی نتیجے کے طور پر یہ عقیدہ بھی وہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے گناہوں پر کوئی عذاب نہ دے گا ‘ اگرچہ وہ گناہ کریں ۔ وہ آگ میں داخل نہ ہوں گے اور اگر داخل بھی ہوں تو وہ صرف چند دن آگ میں رہیں گے ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ کا انصاف صحیح طرح کام نہ کرے گا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے بعض کے ساتھ خصوصی دوستانہ تعلق رکھتا ہے ‘ اس لئے وہ ان کو کھلا چھوڑتا ہے کہ وہ اس زمین میں جو فساد چاہیں پھیلاتے پھیریں ۔ اور ان کو دوسرے مفسدوں کی طرح سزا نہ دی جائے گی ۔ ہر انسان سوچ سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے تو اس کی وجہ سے کسی سوسائٹی میں کیا کیا فسادات ہوں گے اور یہ غلط نظریہ حیات کسی سوسائٹی میں کیسے کیسے اضطراب پیدا کرے گا ۔

یہاں اسلام اس غلط تصور پر ایک فیصلہ کن وار کرکے اس کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے ۔ اور ان تمام فسادات کا دروازہ بند کردیتا ہے جس سے یہ فسادات کسی معاشرے میں داخل ہو سکتے تھے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اللہ کے عدل میں کوئی رورعایت نہیں ہے اور بجائے خود یہ عقیدہ بھی غلط ہے ۔

(آیت) ” قل فلم یعذبکم بذنوبکم بل انتم بشر ممن خلق یغفر لمن یشاء ویعذب من یشآء “۔ (5 : 18)

(ان سے پوچھو پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے ؟ درحقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کئے ہیں ۔ وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ‘ سزا دیتا ہے ۔

اس کے ذریعے عقیدے اور ایمان کے زاوے سے ایک فیصلہ کن حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ یہ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ ابن ہونے کا دعوی سرے سے باطل ہے بلکہ انبیاء اسی طرح کے مخلوق بندے ہیں جس طرح اور لوگ ہیں اور یہ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں عدالت اور انصاف اور سزا وجزاء اور مغفرت صرف ایک اصول کے مطابق ہے ۔ اس میدان میں اللہ نے ڈبل معیار نہیں رکھے ۔ یہ اللہ کی مشیت کا کام ہے جس میں سزا بھی کچھ اسباب اور اصول کے مطابق ہوتی ہے اور خرابی کے لئے بھی اسباب اور اصول ہیں۔

یہ جزاء اور سزا نہ تو ذاتی تعلقات کے اصول پر ہو گی اور نہ ابن ہونے کی کوئی حقیقت ہے ۔ اس کے بعد اس بات کو تکرار لایا جاتا ہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا مالک ہے اور تمام چیزوں کو اس کی طرف لوٹنا ہے ۔

(آیت) ” وللہ ملک السموت والارض وما بینھما والیہ المصیر (5 : 18) (زمین اور آسمان اللہ کی ساری موجودات اس کی ملک ہیں ‘ اور اس کی طرف سب کو جانا ہے ۔

یقینا مالک اپنے غلام سے علیحدہ ہوتا ہے ۔ ودیوں کی ذات میں فرق ہوتا ہے ۔ اس کی مشیت جدا ہوتی ہے ۔ اور تمام لوگ مالک کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

اب یہ بیان اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور اہل کتاب کو ایک بار پھر دعوت دی جاتی ہے تاکہ ان پر حجت تمام ہو ‘ ان کے لئے معذرت کا کوئی موقع نہ ہو ۔ اہل کتاب کو ان کے انجام کے بالکل سامنے لاکھڑا کردیا جاتا ہے بغیر کسی میل و غبار کے اور بغیر کسی پیچیدگی کے ۔ ان کا انجام روشن ہوکر سامنے آجاتا ہے ۔

اردو ترجمہ

اے اہل کتاب! ہمارا یہ رسول ایسے وقت تمہارے پاس آیا ہے اور دین کی واضح تعلیم تمہیں دے رہا ہے جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا سو دیکھو! اب وہ بشارت دینے اور ڈرانے والا آ گیا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ahla alkitabi qad jaakum rasooluna yubayyinu lakum AAala fatratin mina alrrusuli an taqooloo ma jaana min basheerin wala natheerin faqad jaakum basheerun wanatheerun waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

(آیت) ” یاھل الکتب قد جاء کم رسولنا یبین لکم علی فترۃ من الرسل ان تقولوا ما جآء نا من بشیر ولا نذیر فقد جاء کم بشیر ونذیر واللہ علی کل شیء قدیر “۔ (19)

اے اہل کتاب ‘ یہ رسول ایسے وقت تمہارے پاس آیا اور دین کی واضح تعلیم دے رہا ہے جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا تاکہ تم یہ بات کہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا ۔ سو دیکھو اب وہ بشارت دینے اور ڈرانے والا آگیا ۔۔۔۔۔۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ “

اس فیصلہ کن مقابلے کی وجہ سے اب اہل کتاب کے پاس کوئی حجت نہیں رہتی کہ یہ رسول امی انکی طرف نہیں بھیجا گیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ :

(آیت) ” یاھل الکتب فقد جاء کم رسولنا “۔ (5 : 19) اے اہل کتاب ہمارا رسول تمہارے پاس آچکا ہے ۔

اور ان کی یہ حجت ختم ہوجاتی ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر گیا کہ انہیں کوئی یاد دہانی نہیں کرائی گئی نہ کوئی بشارت دی گئی ہے اور نہ کوئی ڈراوا ان تک پہنچا ہے اس لئے ہم بھول گئے اور بےراہ روی اختیار کرلی ۔ اب ان کے پاس بشیر ونذیر آچکا ہے ۔

یہاں ان کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ اللہ کو کوئی چیز بھی شکست نہیں دے سکتی ۔ اور اس کے لئے یہ بات بھی کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ امیین میں سے رسول بھیج دے اور یہ بات بھی اسے عاجز نہیں بنا سکتی کہ وہ اہل کتاب کا ان گناہوں پر مواخذہ کرے جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔

(آیت) ” واللہ علی کل شیء قدیر “۔ (5 : 19) (بےشک اللہ پر چیز پر قادر ہے) اہل کتاب کے ساتھ یہ نشست اب ختم ہوتی ہے ‘ جس میں ان کے تمام انحرافات اور بےراہ رویاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں جن کے مطابق انہوں نے اپنے صحیح دین کو ترک کردیا جو خود ان کی قوم کے رسول لے کر ان کے پاس آئے تھے ان اعتقاقدی تصورات کا بھی فیصلہ کردیا جاتا ہے ‘ جو اللہ نے ایمان ایمان کے لئے پسند فرمائے ہیں اور نبی ﷺ کے بارے میں انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ باطل ہوجاتا ہے اور قیامت میں وہ جو عذر لنگ پیش کرسکتے تھے اللہ نے دنیا ہی میں اس کا راستہ بند کردیا۔

اس طرح اللہ تعالیٰ ایک طرف انکو راہ ہدایت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور دوسری جانب اسلامی صفوں کے اندر ان کی ریشہ دوانیوں کی راہ بند ہوجاتی ہے ۔ جماعت مسلمہ کی راہ روشن ہوجاتی ہے اور تمام طالبان ہدایت کو سیدھی راہ صاف صاف نظر آنے لگتی ہے ۔

ٍ اس سبق کے آخر میں بات اس طرف رخ کرتی ہے کہ بنی اسرائیل کا رویہ اپنے نبی اور نجات دہندہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا رہا اور یہ رویہ انہوں نے عین اس وقت اختیار کیا جب وہ اس سرزمین کی دہلیز پر تھے جس کا وعدہ انکے ساتھ خود اللہ تعالیٰ نے کیا تھا اور اس طرح انہوں نے خود اپنے رب کے ساتھ جو پیمان کیا تھا ‘ اس کا حشر انہوں نے کیا کیا ؟ کس طرح انہوں نے اسے توڑا اور اس نقص عہد پر پھر اللہ تعالیٰ پر پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کیسی سزا دی ؟ ۔

اردو ترجمہ

یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ "اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اُس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی اُس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala moosa liqawmihi ya qawmi othkuroo niAAmata Allahi AAalaykum ith jaAAala feekum anbiyaa wajaAAalakum mulookan waatakum ma lam yuti ahadan mina alAAalameena

(آیت) ” نمبر 20 تا 26۔

یہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک حصہ ہے اور اسے یہاں تفصیل سے لیا گیا ہے ۔ یہ تفصیلات جس حکمت کے تحتی دی گئی ہیں اس کے کئی پہلو ہیں ۔

ان میں سے ایک یہ ہے کہ بنی اسرائیل ان لوگون میں سے ہیں جنہوں نے مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے دعوت اسلامی کی مخالفت کی اس کے خلاف سازش کی ‘ مدینہ میں اس کے خلاف برسرپیکار رہے اور پورے جزیرۃ العرب میں اس کے ساتھ محاربت کرتے رہے ۔ وہ پہلے ہی دن سے جماعت مسلمہ کے خلاف برسرجنگ تھے ، انہوں نے مدینہ میں نفاق پیدا کیا اور منافقین کی پرورش کرتے رہے ۔ یہ لوگ ان منافقین کی امداد کرتے رہے اور یہ امداد اسلامی نظریہ حیات کے خلاف بھی تھی اور مسلمانوں کے خلاف بھی ۔ انہوں نے مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا ‘ ان کے ساتھ لمبے چوڑے وعدے کئے اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف افواہ سازی کا کام کیا ‘ خفیہ رویشہ دوانیاں کیں ‘ مکاریوں سے کام لیتے رہے اور اسلامی صفوں میں بےچینی پیدا کرتے رہے ۔ انہوں نے شکوک و شبہات بھی پھیلانے کی کوشش کی ۔ اسلامی عقائد میں بھی اور اسلامی قیادت کے خلاف بھی اور کچھ عرصہ بعد یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف پوری طرح کھل کر سامنے آگئے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ جماعت مسلمہ کے سامنے انکی پوری حقیقت کو کھول کر رکھ دیا جائے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اس کے دشمن کس قماش کے لوگ ہیں ‘ ان کا مزاج کیا ہے ‘ ان کی تاریخ کیا ہے ‘ ان کے وسائل عدوات کیا ہیں اور اس معرکے کی نوعیت کیا ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف برپا کر رکھا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ یہ لوگ آنے والی پوری اسلامی تاریخ میں ملت اسلامیہ کہ دشمن رہیں گے بعینہ اسی طرح جس طرح یہ لوگ خود اپنی تاریخ میں ہمیشہ حق کے دشمن رہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی تاریخ ملت اسلامیہ کے سامنے رکھ دی اور اچھی طرح کھول کر رکھ دی اور ملت اسلامیہ کے خلاف یہ لوگ جو ذرائع کام میں لاتے تھے وہ بھی ان کے سامنے رکھ دیئے ۔

اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل اس دین کے حامل تھے جو حضرت محمد ﷺ کے آخری دین سے پہلے سچا دین تھا اور اسلام سے قبل بنی اسرائیل ایک طویل تاریخ رکھنے والی ملت تھے ، ان کے عقائد میں انحراف واقعہ ہوگیا تھا اور انہوں نے اس عہد و پیمان کی بار بار خلاف ورزی کی تھی جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا ہوا تھا جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔ اس نظریاتی انحراف اور اس عہد کی خلاف ورزی کی وجہ سے ان کی زندگی پر برے اثرات مرتب ہوگئے تھے اور ان تمام امور کا تقاضا یہ تھا کہ امت مسلمہ ان کو پوری تاریخ سے آگاہ ہو کیونکہ وہ اس سے قبل کی تمام رسالتوں کی امین اور وارث ہے اور ربانی نظریہ حیات اور صحیح عقائد کی نگہبان ہے ۔ ان وجوہات کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ امت مسلمہ کو ان تمام تاریخی انقلابات کا علم ہو اور اس کو معلوم ہو کہ کہاں کہاں ان لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور اس کے کیا نتائج نکلے ۔ بنی اسرائیل کی زندگی اور ان کے اخلاق پر اس کے کیا نتائج مرتب ہوئے تاکہ اس تجربے کی وجہ سے تحریک اسلامی ان مقامات میں سنبھل کر چلے جہاں ٹھوکریں لگتی ہیں ‘ جہاں سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے اور جہاں سے انحراف شروع ہوتا ہے تاکہ ان تاریخی تجربات کے نتیجے میں وہ صحیح راہ پر گامزن رہے ۔

اور اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل کے تجربات کے کئی پہلو تھے ۔ یہ بہت طویل تجربات تھے اور اللہ تعالیٰ کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ جب اقوام وملل پر ایک طویل عرصہ گزر جاتا ہے تو وہ سنگدل ہوجاتی ہیں اور ان کی بعد کی نسلیں اصل راہ سے ہٹ جاتی ہیں اور یہ کہ امت مسلمہ کی تاریخ قیام قیامت تک طویل رہے گی اور اس پر ایسے ادوار آئیں گے جن مین وہ بعینہ بنی اسرائیل جیسے حالات میں مبتلا ہوجائے گی ، اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ تاریخ اسلام میں پیدا ہونے والے قائدین اور تجدید واحیائے دین کرنے والے مجددیں کے سامنے بھی ایسے تجربات کے نمونے ہونے چاہئیں کہ اقوام وملل کے اندر کس طرح انحراف اور گمراہی سرایت کر جاتی ہے ۔ ان مجددین کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب بیماری کی تشخیص ہوجائے تو اس کا علاج کیسے ہوگا ‘ اس لئے کہ ہدایت اور صراط مستقیم سے دور چلے جانے میں وہ لوگ بہت ہی سنگدل ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر ایسا کریں ، غافل ‘ خام اور کم علم لوگ بہت جلد ہدایت قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ایک جدید دعوت آتی ہے جو انہیں پسند آجاتی ہے اور وہ اسے قبول کرلیتے ہیں ۔ وہ اپنے اوپر سے گردو غبار جھاڑ لیتے ہیں ‘ کیونکہ یہ ان کے لئے ایک نئی چیز ہوتی ہے ۔ چونکہ یہ جدید دعوت ان کی فطرت کے لئے ایک نئی چیز ہوتی ہے اس لئے ان کی زندگی میں بہار آجاتی ہے ۔ لیکن جن لوگوں کے سامنے پہلے دعوت آجاتی ہے ‘ ان کے لئے دوبارہ وہ دعوت پرکشش نہیں ہوتی ۔ نہ ہو ان کے اندر حرکت پیدا کرتی ہے نہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ کوئی عظیم دعوت ہے اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے ، یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے زیادہ محنت اور طویل اور صبر آزماجدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔

قصہ بنی اسرائیل کی تفصیلات کی حکمتوں میں سے یہ بہت اہم پہلو تھے ‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان قصص کو ہمیشہ تفصیلات کے ساتھ دیا ہے اس لئے کہ امت مسلمہ عقائد کی وارث تھی ۔ اسے اب انسانیت کی قیادت کے فرائض سرانجام دینے تھے ۔ اس کے کئی اور پہلو بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہاں ان اشارات سے زیادہ دینا ممکن نہیں ہے ۔ لہذا اس سبق مین ہم اس مجلس کی طرف واپس آتے ہیں ۔

(آیت) ” وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْنَ (20) یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (21)

” یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ” اے میری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی ۔ اس نے تم میں سے نبی پیدا کئے ‘ تم کو فرمان روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا ۔ اے برادران قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تمہارے لئے لکھدی ہے ۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام ونامراد پلٹو گے ۔ “

یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلمات کے اندر ایسا اشارہ پایا جاتا ہے کہ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ان کی قوم اس جہاد کے سلسلے میں متردد ہے اور انہیں خطرہ تھا کہ وہ الٹے پاؤں پھرجائے گا ۔ انہوں نے بنی اسرائیل کے مصر سے واپسی کے طویل سفر کے اندر اچھی طرح تجربہ کرلیا تھا کہ یہ لوگ بار بار نافرمانی کرتے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو مصر سے نکالا تھا اور ان کو اس ذلت اور بدبختی کی زندگی سے آزاد کیا تھا ‘ جس میں عرصہ غلامی مصر میں وہ مبتلا تھے ۔ یہ آزادی انہیں اللہ کے نام پر ملی تھی اور اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ نے ان کے لئے سمندر کو چیر دیا تھا اور اس میں فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا تھا ۔ اس کے بعد جب وہ ایک ایسی قوم سے ہو کر گزرے جو بتوں کی پوجا کرتی تھی تو انہوں نے فورا مطالبہ کردیا تھا کہ اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایسا ہی الہ بنا دو جیسا کہ ان لوگوں کا الہ ہے ۔ (آیت) ” یا موسیٰ اجعل لنا الھا کما لھم الھہ) اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقررہ میعاد پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرگوشی کے لئے کوہ طور پر چلے گئے تو پیچھے سے سامری نے ان زیورات سے جو آتے ہوئے ان کی عورتوں نے مصریوں کی عورتوں سے چرا لئے تھے ‘ ایک بچھڑا بنا دیا ۔ یہ بچھڑا ایسا ہی آواز کرتا تھا جس طرح ایک بچھڑا آواز کرتا ہے ۔ یہ لوگ اس بچھڑے پر ٹوٹ پڑے اور کہا کہ یہ تو وہی خدا ہے جس کی ملاقات کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر چلے گئے ، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک واضح معجزہ یہ تھا کہ انہوں نے ان کے لئے تپتے ہوئے صحرا کے اندر سے ایک پتھر سے 12 چشمے نکالے ۔ ان پر من اور سلوی جیسے طعام نازل ہوئے جو نہایت ہی لذیذ تھے لیکن انہوں نے ان لذیذ ومفید کھانوں کو چھوڑ کر ان کھانوں کا مطالبہ کردیا جو مصر میں وہ کھاتے تھے حالانکہ وہاں وہ بڑی ذلت کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ وہاں انہوں نے ساگ ‘ ترکاری ‘ گیہوں ‘ لہسن اور پیاز کا مطالبہ کیا اور اس کھانے پر صبر نہ کیا جو ان پر نازل ہو رہا تھا حالانکہ وہ عزت اخلاص اور اعلی مقاصد کے لئے کام کر رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو ان اعلی مقاصد کی طرف کھینچ لا رہے تھے اور وہ پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے ۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو گائے کے معاملے میں بھی آزمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ اس میں پس وپیش اور بہانہ بازی کرتے اور مدت تک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے ۔ اور بالآخر مجبور ہو کر انہوں نے اس حکم پر عمل کیا لیکن وہ کرنے والے نہ تھے ۔

(آیت) ” فذبحوھا وما کادوا یفعلون) پھر انہوں نے ان کا تجربہ اس وقت بھی کیا تھا جب وہ کوہ طور سے واپس ہوئے اور ان کے پاس وہ تختیاں تھیں جن میں وہ میثاق اور عہد تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا ۔ انہوں نے اس عہد سے انکار کردیا اور عہد شکنی پر ثابت قدم رہے۔ ان انعامات اور ان کے جواب میں ان نافرمانیوں اور اس کے بعد اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کی معافی کے باوجود پھر بھی انہوں نے اس عہد کو تسلیم نہ کیا اور اللہ تعالیٰ کو ان کے سروں پر پہاڑ اس طرح لٹکانا پڑا جس طرح کہ بادل کا ایک ٹکڑا ہو اور وہ اس حالت میں آگیا کہ انہوں نے یقین کرلیا کہ اب یہ ان کے اوپر گرنے ہی والا ہے ۔ (آیت) ” وظنوا انہ واقع بھم “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس طویل سفر آزادی میں ان کو اچھی طرح آزمایا تھا ۔ آپ ان کو لے کر ارض مقدس کی دہلیز تک آپہنچے تھے جس کا وعدہ ان کے ساتھ خود اللہ نے کیا تھا اور اس زمین کے لئے ہی وہ مصر سے نکلے تھے ۔ وہ زمین جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے عہد کیا تھا کہ یہ لوگ اس میں بادشاہت قائم کریں گے اور اللہ اس میں پھر ان پر انبیاء بھیجے گا تاکہ وہ اللہ کی نگرانی اور قیادت میں زندگی کے بہترین دن گزاریں ۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو اچھی طرح آزمایا تھا ‘ اس لئے ان کا یہ حق تھا کہ وہ ایک بار پھر ان کی جانب سے بدعہدی سے ڈریں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آخری دعوت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سامنے وہ تمام باتیں رکھ دیں جو انکی سابقہ تاریخ میں سے قابل ذکر تھیں اور ان کے سامنے وہ تمام بشارتیں رکھ دیں جو مستقبل میں ان کو حاصل ہونے والی تھیں ان کے سامنے وہ تمام امور رکھ دیئے جن سے ان کے حوصلے بڑھ سکتے تھے اور وہ سخت سے سخت ڈراوا بھی رکھ دیا :

(آیت) ” وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْنَ (20) یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (21)

” اے میری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی ۔ اس نے تم میں سے نبی پیدا کئے ‘ تم کو فرمان روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا ۔ اے برادران قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تمہارے لئے لکھدی ہے ۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام ونامراد پلٹو گے ۔ “

اللہ کا انعام اور وہ وعدے پورے ہوگئے ۔ اللہ نے ان میں انبیاء بھیجے اور بادشاہ پیدا کئے۔ اس باب میں اللہ نے انہیں وہ کچھ دیا جو اقوام عالم میں کسی کو نہ دیا گیا تھا تاریخ کی اس یونٹ تک ‘ اور وہ ارض مقدس جسے فتح کرنے جا رہے تھے جو ان کے لئے لکھ دی گئی تھی ۔ اور یہ تحریر اللہ کی تھی ‘ لہذا اس کا پورا کیا جانا حق الیقین تھا ۔ اس سے پہلے اللہ نے ان کے ساتھ جو بھی وعدے کئے تھے وہ ایک ایک کرکے پورے کردیئے گئے تھے اور یہ ایک ایسا وعدہ تھا جس کی طرف وہ بڑھ رہے تھے ۔ اس سے پیچھے ہٹنا انکے لئے دنیا وآخرت کا خسران تھا ۔۔۔۔۔ لیکن بنی اسرائیل بہرحال بنی اسرائیل تھے ۔ بزدل سست اور پیچھے کی طرف پلٹنے والے اور بار بار وعدہ خلافی کرنے والے :

اردو ترجمہ

اے برادران قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے، پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya qawmi odkhuloo alarda almuqaddasata allatee kataba Allahu lakum wala tartaddoo AAala adbarikum fatanqaliboo khasireena

اردو ترجمہ

انہوں نے جواب دیا "اے موسیٰؑ! وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں، ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لیے تیار ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo ya moosa inna feeha qawman jabbareena wainna lan nadkhulaha hatta yakhrujoo minha fain yakhrujoo minha fainna dakhiloona

(آیت) ” قَالُوا یَا مُوسَی إِنَّ فِیْہَا قَوْماً جَبَّارِیْنَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَہَا حَتَّیَ یَخْرُجُواْ مِنْہَا فَإِن یَخْرُجُواْ مِنْہَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ (22)

” انہوں نے جواب دیا ” اے موسیٰ وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں ‘ ہم وہاں ہر گز نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ، ہاں اگر وہ نکل آئے تو ہم داخل ہونے کیلئے تیار ہیں ۔ ‘

یہاں آکر یہودیوں کی اصل سامنے آتی ہے وہ بالکل ننگے ہوجاتے ہیں اور ان پر بالکل مہین سا پردہ بھی نہیں رہتا ۔ یہ اس لئے کہ اب وہ ایک حقیقی خطرے کے سامنے کھڑے تھے ۔ اب وہ کسی قسم کی ظاہر داری بھی نہ کرسکتے تھے ۔ نہ وہ جھوٹی بہادری کا مظاہرہ اور بڑھکیں مار سکتے تھے ‘ نہ منافقت کرسکتے تھے ۔ خطرہ ان کی آنکھوں کے سامنے مجسم تھا اور قریب تھا ۔ اس لئے ان کو یہ بات بھی بچا نہ سکی کہ وہ اس سرزمین کے مالک ہیں اور یہ کہ اللہ نے وہ انکی قسمت میں لکھ دی ہے ‘ اس لئے کہ وہ تو نہایت ہی سستی فتح چاہتے تھے ‘ جس کی انہیں کوئی قیمت ادا کرنی نہ پڑے نہ اس کی راہ میں کوئی جدوجہد کرنی پڑے ۔ وہ اس قدر آرام دہ فتح چاہتے تھے جو ان پر من اور سلوی کی طرح نازل ہو کہتے ہیں :

(آیت) ” ۔۔۔۔۔۔ قَوْماً جَبَّارِیْنَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَہَا حَتَّیَ یَخْرُجُواْ مِنْہَا فَإِن یَخْرُجُواْ مِنْہَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ (22) لیکن فتح اور نصرت کی ذمہ داریاں وہ نہیں ہیں جو بنی اسرائیل کے زہن میں تھی ۔ ان کے دل تو ایمان سے فارغ تھے ۔ ان کے رجال مومن ان کو کہتے ہیں : ۔

اردو ترجمہ

اُن ڈرنے والوں میں دو شخص ایسے بھی تھے جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا اُنہوں نے کہا کہ "ان جباروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گھس جاؤ، جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rajulani mina allatheena yakhafoona anAAama Allahu AAalayhima odkhuloo AAalayhimu albaba faitha dakhaltumoohu fainnakum ghaliboona waAAala Allahi fatawakkaloo in kuntum mumineena

(آیت) ” قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُونَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِمَا ادْخُلُواْ عَلَیْْہِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوہُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (23)

”(ان ڈرنے والوں میں دو شخص ایسے بھی تھے جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ان جباروں کے مقابلے میں دروازے کے اندر گھس جاؤ ‘ جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے ‘ اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو)

یہاں آکر معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ پر بھروسے اور خدا خوفی کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ یہ دو شخص وہ تھے جو اللہ سے ڈرتے تھے اور ان کی خدا خوفی ان کے اندر اس قدر جرات پیدا کر رہی تھی کہ وہ جباروں کو خاطر میں نہ لاتے تھے ۔ اور ان کے اندر ایک موہوم خطرے کے مقا بے میں بےمثال شجاعت تھی ، یہ دونوں یہ شہادت دیتے تھے کہ شدت اور خطرات کے اوقات میں ایمان اور یقین کی کیا اہمیت ہوتی ہے ۔ ان دونوں کا موقف یہ بتاتا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کا موقف جباروں سے ڈر کے مواقع پر کیا ہوتا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے دل میں دو ڈر نہیں ڈالتا کہ ایک شخص اللہ جل شانہ سے بھی ڈرے اور وہ لوگوں سے بھی ڈرے ۔ پس جو شخص اللہ ڈرتا ہے وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ۔ وہ کس جرات سے کہتے ہیں۔

(آیت) ” ادخلوا علیھم الباب ، فاذا دخلتموہ فانکم غلبون (5 : 23) (ان جباروں کے مقابلے میں دروازے میں گھس جاؤ جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے) دلوں کی دنیا اور پھر معرکہ آرائی کی دنیا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اقدام کرو اور گھس جاؤ جب تم کسی قوم پر خود ان کے گھر کے اندر جا پہنچے تو ان کے دل ٹوٹ جائیں گے اور اسی قدر تمہارے حوصلے بڑھ جائیں گے ۔ اس طرح ان لوگوں کی نفسیات کے اندر شکست داخل ہوجائے گی اور تمہارے لئے فتح مقدر ہوجائے گی ۔

رہے اہل ایمان تو ان کا بھروسہ صرف اللہ پر ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین “ (5 : 23) (اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو) یہ ایمان کی خاصیت اور ایمان کی علامت ہے اور یہی ایمان کی منطق اور ایمان کا تقاضا ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دو مومن یہ بات کس سے کہہ رہے ہیں ۔ افسوس کہ ان کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔

111