اس صفحہ میں سورہ Al-Hajj کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحج کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ ”یعنی ہرچیز اور ہر انسان کے دل کی کیفیت اس کی نگاہوں کے سامنے ہے۔
وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ط ”انسانوں کے علاوہ باقی تمام مخلوقات قانون خداوندی اور تکوینی نظام کے اصول و ضوابط کی پابند اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں مصر وف عمل ہیں ‘ البتہ اس سلسلے میں انسانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ سب کے سب ایک سے نہیں ہیں۔ انسانوں کو جو محدود آزادی ملی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ اللہ سے بغاوت کردیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسری چیزوں مثلاً سورج ‘ چاند اور درختوں تک کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو ہدایت اور اپنی معرفت عطا فرماتا ہے وہ صرف اسی کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ ط ”اللہ نے تو انسان کو ”خلیفۃ اللّٰہ فی الارض“ کا مقام عطا کیا تھا ‘ اسے مسجود ملائک بنایا تھا۔ اب اگر کوئی انسان اپنے آپ کو خود ہی اس مقام رفیع سے نیچے گرا دے اور مخلوق کے سامنے اپنا سر جھکا کر خود کو ذلیل و رسوا کرلے تو اسے تکریم انسانی کیونکر حاصل ہوگی !اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ ”اس آیت کے اندر مختلف چیزوں کے تذکرے میں اوپر سے نیچے کی طرف ایک خوبصورت ترتیب و تدریج پائی جاتی ہے۔ سورج سب سے بڑا ہے ‘ اس کے بعد چاند ‘ اس کے بعد ستارے جو بظاہر چاند سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ پھر نیچے زمین پر پہاڑ سب سے بلند ہیں ‘ پھر درخت ‘ پھر چوپائے اور آخر پر انسان۔
آیت 19 ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْز ”یہ سورت چونکہ رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی تھی ‘ اس لیے ان گروہوں سے مکہ کے دو گروہ مراد ہیں۔ یعنی ایک مؤمنین کا گروہ جو حضور ﷺ پر ایمان لا چکا تھا اور دوسرا وہ گروہ جو اب تک آپ ﷺ کی مخالفت پر اڑا ہوا تھا۔ قبل ازیں آیت 11 کے ضمن میں وضاحت کی جا چکی ہے کہ سورة الحج مکی سورت ہے ‘ البتہ اس کی کچھ آیات ایسی ہیں جو سفر ہجرت کے دوران نازل ہوئیں تھیں۔ فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ ط ”کپڑے کو قطع کرنے کا ذکر کر کے لباس تیار کرنے کے عمل کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ یعنی جس طرح درزی پہلے مطلوبہ ناپ کے مطابق کپڑے کو کاٹتا ہے اور پھر لباس تیار کرتا ہے اسی طرح منکرین حق کے لیے جہنم کی آگ سے لباس تیار کیے جائیں گے۔
وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ”اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے انکار کی پاداش میں اب یہ عذاب ہمیشہ کے لیے تمہارا مقدر ہے۔ اب تم نے اسی میں رہنا ہے۔ منکرین کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد اب دوسرے گروہ یعنی اہل ایمان کا ذکر کیا جارہا ہے۔
یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًاط وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ ”دنیا میں ریشم پہننا مردوں کے لیے حرام ہے مگر جنتیوں کے لباس خصوصی طور پر ریشم سے تیار کیے جائیں گے۔ اوپر والا لباس باریک ریشم کا ہوگا جبکہ اس کے نیچے گاڑھے ریشم کا۔