اس صفحہ میں سورہ Al-Haaqqa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحاقة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
سورة الحاقہ کے دوسرے رکوع کی سورة الواقعہ کے آخری رکوع سے گہری مشابہت ہے۔ چناچہ اگلی آیات کو پڑھتے ہوئے سورة الواقعہ کی ان آیات کو بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے : { فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ - وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ - اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ۔ } ”تو نہیں ! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔ اور یقینا یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو ! یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔“
آیت 40{ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ } ”یہ قول ہے ایک رسول کریم کا۔“ اصل میں تو یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سنا۔ پھر حضرت جبرائیل سے حضرت محمد ﷺ نے سنا اور اب وہ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ چناچہ ایک لحاظ سے یہ جبرائیل علیہ السلام کا قول تھا اور دوسرے لحاظ سے حضور ﷺ کا قول۔
آیت 43{ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ } ”اس کا اتارا جانا ہے تمام جہانوں کے رب کی طرف سے۔“ یہ آیت جوں کی توں سورة الواقعہ آیت 80 میں بھی ہے۔
آیت 44{ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۔ } ”اور اگر یہ نبی ﷺ خود گھڑ کر بعض باتیں ہماری طرف منسوب کرتا۔“ تَقَوَّلَ باب تفعل ہے ‘ اس باب میں تکلف کے معنی پائے جاتے ہیں ‘ یعنی ارادے ‘ محنت اور کوشش سے کوئی بات کہنا۔
آیت 45{ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ۔ } ”تو ہم پکڑتے اس کو داہنے ہاتھ سے۔“ اس فقرے کے مفہوم میں دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اپنے دائیں ہاتھ سے اسے پکڑتے ‘ یا یہ کہ ہم اسے اس کے داہنے ہاتھ سے پکڑتے۔
آیت 46{ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ } ”پھر اس کی گردن کاٹ ڈالتے۔“ اس اسلوب اور لہجے میں جو سختی ہے یہ دراصل ان لوگوں کے لیے ہے جو قرآن کو کلام اللہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اور کہتے تھے کہ محمد ﷺ خود اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بدبختو ! تم ہمارے رسول کریم ﷺ کے مرتبے کو کیا سمجھو ! کسی رسول کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ اپنے رب کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی ملاوٹ کرے۔ وہ تم لوگوں تک ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پہنچا رہے ہیں جو ہمارا کلام ہے۔ بفرضِ محال اگر وہ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں تو یہ کوئی معمولی سا جرم نہیں ہے جس کا نوٹس نہ لیا جائے۔
آیت 48{ وَاِنَّہٗ لَتَذْکِرَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ } ”اور یقینا یہ تو ایک یاد دہانی ہے متقین کے لیے۔“ یہ کلام ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکی و بدی میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
آیت 49{ وَاِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْکُمْ مُّکَذِّبِیْنَ۔ } ”اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ تم میں کچھ لوگ جھٹلانے والے بھی ہیں۔“ وہ ہمارے کلام کو جھٹلانے پر کمربستہ ہوچکے ہیں کہ جو چاہے ہو وہ اسے اللہ کا کلام نہیں مانیں گے۔
آیت 50{ وَاِنَّہٗ لَحَسْرَۃٌ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ۔ } ”اور یقینا یہ کافروں کے لیے حسرت کا باعث بن جائے گا۔“ ایک وقت آئے گا جب قرآن ان جھٹلانے والوں کے لیے حسرت اور پچھتاوے کا سبب بن جائے گا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : اَلْـقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ 1۔ کہ یہ قرآن حجت ہے تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف۔ اگر تو تم اس کے حقوق ادا کرو گے ‘ اس پر ایمان لائو گے ‘ اسے اپنا امام بنا کر اس کے پیچھے چلو گے اور اس کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرو گے تو یہ قیامت کے دن تمہاری شفاعت کرے گا اور اگر تم اس کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرو گے تو قیامت کے دن یہ تمہارے خلاف گواہ بن کر کھڑا ہوگا۔
آیت 51{ وَاِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ۔ } ”اور یقینا یہ قرآن بالکل یقینی حق ہے۔“ یہ ایسا یقین ہے جو سراسر حق ہے ‘ جس میں باطل کی ذرا ملاوٹ تک نہیں۔
آیت 52{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ۔ } ”پس آپ ﷺ تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو کہ بہت عظمت والا ہے۔“ نوٹ کیجیے ‘ سورة الواقعہ کا اختتام بھی اسی آیت پر ہوتا ہے۔