اس صفحہ میں سورہ Fussilat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ فصلت کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
یہاں اچانک قارئین کے سامنے ایک منظر آتا ہے ، انتہائی مصیبت کا منظر ہے۔ اللہ کا اقتدار عروج پر ہے۔ انسان کے اعضا اللہ کے حکم پر کلمہ حق کہتے ہیں۔ یہ کس کے اعضا ہیں ؟ اللہ کے دشمنوں کے اعضاء کیا ہے انجام اعدائے الٰہی کا۔ یہ حشر کے میدان میں جمع ہیں ، آدم (علیہ السلام) سے لے کر اس جہاں پر آخری پیدا ہونے والا انسان تک حاضر ہیں۔ ایک ریوڑ کی طرح جمع ہوں گے۔ ان میں سے دشمنان خدا کو چلایا جائے گا کس طرف ؟ آگ کی طرف ، جب حساب و کتاب شروع ہوگا۔ ان کے خلاف ایسے گواہ آتے ہیں جن کے بارے میں ان کی توقع ہی نہ تھی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی زبان ان کا ساتھ نہیں دے رہی حالانکہ یہ ان کے حق میں جھوٹ بولتی تھی ، افتراء باندھتی تھی اور مذاق اڑاتی تھی۔ ان کے کان ، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف عدالت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تسلیم ورضا کے ساتھ اللہ کے ہاں گواہی دے رہے ہیں ، جو کچھ انہوں نے کہا ، پورا پورا بیان کر رہے ہیں۔ یہ لوگ تو یہ سب باتیں اللہ سے چھپاتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اللہ انہیں دیکھ نہیں رہا ہے۔ وہ اپنی نیتوں اور جرائم کو ہلکا سمجھتے ہیں اور چھپاتے ہیں لیکن اپنے اعضاء سے تو نہ چھپا سکتے تھے۔ اعضاء تو ان کے ساتھ تھے۔ یہ تو ان کا حصہ تھے۔ یہ اعضاء ان باتوں کو کھول دیتے ہیں جن کے بارے ان کا خیال تھا کہ وہ خفیہ راز میں اور تمام لوگوں سے چھپے ہوئے ہیں۔ رب العالمین سے بھی چھپے ہیں۔ اللہ کی سلطنت اور اقتدار اعلیٰ کا یہ منظر اچانک ہمارے سامنے آتا ہے۔ اور اقتدار الٰہی ہم سے ہمارے اعضاء بھی چھین لیتا ہے۔
وقالوا لجلودھم لم شھدتم علینا (41 : 21) ” وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ “ تو وہ ان کو وہ حقیقت بتاتے ہیں جو ان سے پوشیدہ تھی۔ اور یہ بات وہ بغیر کسی جھجک اور رکھ رکھاؤ کے بتاتے ہیں۔
قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شیء (41 : 21) ” وہ جواب دیں گے ہمیں اس خدا نے گویائی دی ہے ، جس نے ہر چیز کو گویائی دی ہے ، جس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے “۔ کیا وہی نہیں ہے جس نے زبانوں کو گویائی دی۔ کیا وہ دوسرے اعضاء کو گویائی نہیں دے سکتا۔ آج تو اس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے ، ہر چیز اب بولتی ہے۔
وھو خلقکم اول مرۃ والیہ ترجعون (41 : 21) ” اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو “۔ تخلیق بھی اسی کی ہے اور آخر کار رجوع بھی اس کی طرف ہوگا۔ اس کے قبضہ قدرت سے کوئی باہر نہیں ہے۔ اور نہ بھاگ سکتا ہے۔ نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔
ان باتوں کا تو انہوں نے انکار کیا تھا۔ اب خود ان کے اعضاء ان کا اقرار کر رہے ہیں۔ اب اگلی آیت اعضاء کے کلام کی حکایت بھی ہوسکتی ہے اور اس پورے واقعہ پر تبصرہ بھی ہو سکتا ہے۔
وما کنتم تستترون ۔۔۔۔۔۔ ولا جلودکم (41 : 22) ” تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان ، تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی “۔ تمہارے تو تصور میں بھی نہ تھا کہ یہ اعضاء تمہارے خلاف بغاوت کردیں گے ۔ اور تمہاری طاقت میں بھی یہ بات نہ تھی کہ تم کسی بھی طرح اللہ سے چھپا سکو اگر چاہو بھی۔
ولکن ظننتم ان اللہ لا یعلم کثیرا مما تعملون (41 : 22) ” بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے “۔ ناسمجھی نے تمہیں دھوکہ دے دیا۔ یہ نہایت ہی جاہلانہ اور بدکارانہ روش تھی جس نے تمہیں جہنم کے دھانے پر پہنچا دیا۔
وذلکم ظننکم ۔۔۔۔ من الخسرین (41 : 23) ” تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا ، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑگئے “۔
اور اب اس پورے منظر پر تبصرہ اور اس سے حاصل ہونے والا سبق :
فان یصبروا فالنار مثوی لھم (41 : 24) ” اس حالت میں اگر وہ صبر کریں تو آگ ہی ان کا ٹھکانا ہے “۔ کیا سنجیدہ مزاح ہے۔ صبر اب آگ جہنم پر ہے۔ یہ وہ صبر نہیں ہے جس کے نتیجے میں انسان کو خوشی ، اور حسن جزاء نصیب ہوتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر جزاء نار جہنم ہے کیونکہ اب تو قرار دیا جا چکا ہے کہ یہی ان کا ٹھکانا ہے۔
وان یستعتبوا فماھم من المعتبین (41 : 24) ” اگر رجوع کا موقعہ چاہیں گے تو کوئی موقعہ انہیں نہ دیا جائے گا “ ۔ نہ وہاں رضا مندی ہے اور نہ وہاں توبہ کی گنجائش ہے۔ کیونکہ جو شخص معافی مانگتا ہے تو معافی تب ہوتی ہے جب ظلم و زیادتی کو زائل کر کے معافی طلب کی جائے۔ آج تو معافی اور ازالے کا دروازہ ہی بند ہوچکا ہے۔ اور اس لئے ان کے پاس کوئی موقعہ نہیں ہے۔
اب اگلی آیت میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کا اقتدار تو تمہارے دلوں پر بھی قائم ہے۔ جب تم زمین میں تھے اس وقت بھی تمہارے دل اللہ کے قبضہ قدرت میں تھے۔ جب تم اللہ کی نافرمانی کرتے تھے۔ جب اللہ کو تمہارے دلوں کا میلان فساد معلوم ہوا تو اللہ نے تمہارے دلوں پر ایسے ساتھی مسلط کر دئیے جو جنوں میں سے بھی تھے اور انسانوں میں سے بھی ۔ یہ برائی کو تمہارے دل و دماغ کے لئے مزین کرتے تھے۔ یہ ساتھی ان کو اس قافلے میں ملا دیتے تھے جس کا انجام گھاٹے کا لکھا گیا تھا۔ یوں ان پر کلمہ عذاب اور فیصلہ عذاب صادق ہوا :
ذرا دیکھیں تو سہی کہ وہ کس حد تک اللہ کے قبضے میں ہیں ، جس کی بندگی کرنے سے وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ اور ان کے دل جو ان کے پہلوؤں میں ہیں ، وہ ان کو عذاب اور برے انجام کی طرف لے جارہے ہیں۔ جس کو اللہ گمراہ کرنا چاہے اس پر وہ ایسے ساتھ مسلط کردیتا ہے جو اس کے دل میں وسوسہ اندازی کا کام کرتے ہیں اور اس کے ماحول میں جو بری چیز ہوتی ہے اس کو اس کے لئے مزین کرتے ہیں اور اس کے جو اعمال ہوتے ہیں اس کی نظروں میں اچھے بناتے ہیں ، ان کو ان میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی اور انسان کے لئے سب سے بڑی بیماری یہ ہوتی ہے کہ اس کے برے افعال اور اس کی گمراہی کے بارے میں اس کا احساس ختم ہوجائے۔ اپنی ذات کے ہر پہلو کے بارے میں وہ یہ دیکھنے لگے کہ وہ اچھا ہے ۔ اس مقام پر جب انسان پہنچ جائے تو پھر وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگ اس گلے میں شامل ہوگئے جس نے ہلاکت کی طرف جانا تھا۔ یعنی ان گروہوں میں جن پر اللہ کا فیصلہ طے ہوچکا تھا ، جنوں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی کہ :
انھم کانوا خسرین (41 : 25) ” کہ یقیناً وہ خسارہ میں رہ جائیں گے “۔
ان لوگوں کے جو ساتھی تھے ان کو گمراہ کرنے کے لئے ، انہوں نے ان کو آمادہ کیا کہ قرآن کا مقابلہ اس طرح کرو کہ اسے نہ سنو ، نہ سننے دو کیونکہ انہوں نے معلوم کرلیا تھا کہ اس کے اندر غضب کی تاثیر ہے۔
یہ وہ بات ہے جو قریش کے کبراء اپنے آپ کو اور جمہور عوام کو کہتے تھے۔ یہ لوگ قرآن کریم کی حیرت انگیز اثر آفرینی سے عاجز آگئے تھے۔ یہ اثر ان پر بھی تھا اور عوام پر بھی تھا۔
لا تسمعوا لھذا القران (41 : 26) ” اس قرآن کو ہرگز نہ سنو “۔ کیونکہ جس طرح وہ کہتے تھے یہ ان پر جادو کرتا ہے۔ ان کی سوچ پر غالب آجاتا ہے اور ان کی زندگی کو خراب کر رہا ہے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان تفرقہ کردیتا ہے ، خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی کردیتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن ایسی جدائیاں کردیتا تھا لیکن اس لیے کہ خود اللہ نے ایمان اور کفر کے درمیان جدائی کردی ہے ، ہدایت اور ضلالت کے درمیان جدائی کردی ہے ، جو اسے مانتا تھا وہ خلوص سے مانتا تھا۔ اس لیے اس کے بعد وہ کسی اور تعلق کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ چناچہ اس طرح جدائیاں ہوجاتی تھیں۔
والغوا فیہ لعلکم تغلبون (41 : 26) ” اور اسی میں خلل ڈالو ، شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ “۔ یہ پاگلوں کی باتیں ہیں۔ لیکن وہ اس کے سوا کہہ کیا سکتے ہیں وہ تو عاجز آچکے ہیں ، وہ دلیل وبرہان سے بات نہیں کرسکتے کہ انہیں کوئی دلیل و حجت دستیاب ہی نہیں ہے۔ اس لیے پاگل پنے پر اتر آئے ہیں اور جو شخص ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتا وہ پھر اس پاگل پنے پر اتر آتا ہے۔
چناچہ انہوں نے رستم و اسفند یار کے قصوں کے ذریعہ قرآن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ ابن نصر خصوصاً یہ کام کرتا تھا۔ اس طرح شورو شغب اور سیٹیاں بجانے کے ذریعے قرآن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ ابن نصر خصوصاً یہ کام کرتا تھا۔ اس طرح شورو شغب اور سیٹیاں بجانے کے ذریعے بھی وہ یہ کام کرتے تھے اور اپنے سجع اور رجز کے اشعار کے ذریعے بھی کرتے تھے لیکن یہ سب تدبیریں ہوا ہوگئیں اور قرآن غالب رہا۔ کیونکہ اس کے اندر غلبے کا راز تھا۔ وہ حق پر مشتمل تھا۔ اور سچائی ہمیشہ غالب ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ اہل باطل لاکھ جتن کریں ان کی اس مکروہ بات کی تردید میں ان کو سخت ڈراوا دیا جاتا ہے۔
آگے اب بہت جلد ہم انہیں آگ میں دیکھتے ہیں اور اب ان دو ساتھیوں پر ان لوگوں کی نفرت کی بوچھاڑ ہوتی ہے جنہوں نے ان کو دھوکہ دیا تھا ، اور ان کے لئے ان کے ماحول کو مزین کردیا تھا اور دھوکہ دے کر اس مقام تک انہیں لے آئے تھے۔
یہ بہت سخت غصہ ہے۔ یہ لوگ اب انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں اور ان کے دلوں میں یہ خواہش ہے کہ ۔
نجعلھما تحت اقدامنا (41 : 29) ” ہم انہیں پاؤن تلے روند ڈالیں “۔
لیکونا من الاسفلین (41 : 29) ” تا کہ وہ خوب ذلیل و خوار ہوں “۔ لیکن پہلے تو تم دوست تھے ، گہرے یار تھے ، ان کے وسوسوں اور ان کی تزئین پر تم یقین کرتے تھے۔
یہ تو انجام تھا وسوسوں کا اور عوام کو گمراہ کرنے کا۔ لیکن لوگوں کی اصلاح کے لئے جدو جہد کرنے والوں کا بھی ایک انجام اور اجر ہے۔ یہ مومن ہیں ، جنہوں نے اخلاص کے ساتھ کہہ دیا کہ بس اللہ ہمارا رب ہے ، پھر اپنی راہ پر استقامت اختیار کی یعنی ایمان لائے اور عمل صالح کیا۔ ایسے لوگوں پر اللہ پھر برے ساتھی مسلط نہیں کرتا۔ ان کے ساتھ ملائکہ ہوتے ہیں جو ہر وقت ان کے دلوں پر امن و اطمینان وحی کرتے رہتے ہیں اور ان کو جنت کی خوشخبری دیتے رہتے ہیں اور یہ فرشتے ان کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں محبت کرتے ہیں۔