اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 41 اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالاً یہ جو ہلکے اور بوجھل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس سے ان لوگوں کی کیفیت مراد ہے ‘ اور اس کیفیت کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک پہلو تو داخلی ہے ‘ یعنی بوجھل دل کے ساتھ نکلو یا آمادگی کے ساتھ ‘ اب نکلنا تو پڑے گا ‘ کیونکہ اب بات صرف تحریض و ترغیب تک نہیں رہی ‘ بلکہ جہاد کے لیے نفیر عام ہوچکی ہے ‘ لہٰذا اب اللہ کے رستے میں نکلنا فرض عین ہوچکا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو خارجی ہے اور اس پہلو سے مفہوم یہ ہوگا کہ چاہے تمہارے پاس سازو سامان اور اسلحہ وغیرہ کافی ہے تب بھی نکلو اور اگر سازو سامان کم ہے تب بھی۔
آیت 42 لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْم بَعُدَتْ عَلَیْہِمُ الشُّقَّۃُ ط اگر ان منافقین کو توقع ہوتی کہ مال غنیمت آسانی سے مل جائے گا اور ہدف بھی کہیں قریب ہوتا تو یہ لوگ ضرور آپ ﷺ کا ساتھ دیتے ‘ مگر اب تو حالت یہ ہے کہ تبوک کی مسافت کا سن کر ان کے دل بیٹھے جا رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ﷺ کسی بھی مہم کے ہدف وغیرہ کو ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتے تھے۔ جنگ یا مہم کے لیے نکلنا ہوتا تو تیاری کا حکم دے دیا جاتا ‘ مگر یہ نہ بتایا جاتا کہ کہاں جانا ہے اور منصوبہ کیا ہے۔ اسی طرح فتح مکہ کے منصوبہ کو بھی آخر وقت تک خفیہ رکھا گیا تھا۔ مگر غزوۂ تبوک کی تیاری کے حکم کے ساتھ ہی آپ ﷺ نے تمام تفصیلات بھی علی الاعلان سب کو بتادی تھیں کہ لشکر کی منزل مقصود تبوک ہے اور ہمارا ٹکراؤ سلطنت روما سے ہے ‘ تاکہ ہر شخص ہر لحاظ سے اپنا جائزہ لے لے اور داخلی و خارجی دونوں پہلوؤں سے تیاری کرلے۔ سازو سامان بھی مہیا کرلے اور اپنے حوصلے کی بھی جانچ پرکھ کرلے۔وَسَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ ج یعنی قسمیں کھا کھا کر بہانے بنائیں گے اور اپنی فرضی مجبوریوں کا رونا روئیں گے۔
آیت 43 عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ یعنی آپ ﷺ کے پاس کوئی منافق آیا اور اپنی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر جہاد سے رخصت چاہی تو آپ ﷺ نے اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے اسے اجازت دے دی۔ اب اس شخص کو تو گویا سند مل گئی کہ میں نے حضور ﷺ سے رخصت لی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ تو اس کا تھا ہی نہیں ‘ مگر اجازت مل جانے سے اس کی منافقت کا پردہ چاک نہیں ہوا۔ اجازت نہ ملتی تو واضح طور پر معلوم ہوجاتا کہ اس نے حضور ﷺ کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ اس طرح کئی منافقین آئے اور اپنی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر آپ ﷺ سے رخصت لے گئے۔
آیت 44 لاَ یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ ط سچے مؤمن ایسی صورت حال میں ایسا کبھی نہیں کرسکتے کہ وہ جہاد سے معافی کے لیے درخواست کریں ‘ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ قبل ازیں بیان ہوچکا ہے کہ سورة الحجرات کی آیت 15 میں ایمان کی جو تعریف definition کی گئی ہے اس میں تصدیق قلبی اور جہاد فی سبیل اللہ کو ایمان کے ارکان قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت کا ذکر سورة الانفال کی آیت 2 اور آیت 74 کے ضمن میں بھی گزر چکا ہے۔ اس میں جہاد فی سبیل اللہ کو واضح طور پر ایمان کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔
آیت 45 اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ یہاں سورة الحجرات کی مذکورہ آیت کے الفاظ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا ذہن میں دوبارہ تازہ کرلیجئے کہ مؤمن تو وہی ہیں جو ایمان لانے کے بعد شک میں نہ پڑیں ‘ اور یہاں وارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ کے الفاظ سے واضح فرما دیا کہ ان منافقین کے دلوں کے اندر تو شکوک و شبہات مستقل طور پر ڈیرے ڈال چکے ہیں۔فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ اپنے ایمان کے اندر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے وہ تذبذب میں پڑے ہوئے ہیں اور جہاد کے لیے نکلنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ کبھی ان کو مسلمانوں کے ساتھ چلنے میں مصلحت نظر آتی کہ نہ جانے سے ایمان کا ظاہری بھرم بھی جاتا رہے گا ‘ مگر پھر فوراً ہی مسافت کی مشقت کے تصور سے دل بیٹھ جاتا ‘ دنیوی مفادات کا تصور پاؤں کی بیڑی بن جاتا اور پھر سے جھوٹے بہانے بننے شروع ہوجاتے۔
آیت 46 وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً ایسے طویل اور کٹھن سفر کے لیے بھر پور تیاری کی ضرورت تھی ‘ بہت سا سازوسامان درکار تھا ‘ مگر اس کے لیے ان کا کچھ بھی تیاری نہ کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا خود ہی ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے جانے کا ارادہ تک نہیں کیا۔ وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ اس فرمان میں جو حکمت تھی اس کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی گئی :
آیت 47 لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ الاَّ خَبَالاً ان کے دلوں میں چونکہ روگ تھا ‘ اس لیے لشکر کے ساتھ جا کر بھی یہ لوگ فتنے ہی اٹھاتے ‘ لڑائی جھگڑا کرانے کی کوشش کرتے اور سازشیں کرتے۔ لہٰذا ان کے بیٹھے رہنے اور سفر میں آپ لوگوں کے ساتھ نہ جا نے میں بھی بہتری پوشیدہ تھی۔ گویا بندۂ مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح خیر ہی خیر ہے ‘ جبکہ منافق کے لیے ہر حالت میں شر ہی شر ہے۔ وَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بالظّٰلِمِیْنَ اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ تمہارے درمیان ان کی باتیں سننے والے بھی ہیں۔ یعنی تمہارے درمیان ایسے نیک دل اور سادہ لوح مسلمان بھی ہیں جو ان منافقین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے ان منافقین کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی ہیں اور وہ ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ چناچہ اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ لشکر میں موجود ہوتے اور کوئی فتنہ اٹھاتے تو عین ممکن تھا کہ تمہارے وہ ساتھی اپنی سادہ لوحی کے باعث ان کے اٹھائے ہوئے فتنے کا شکار ہوجاتے۔