سورہ توبہ (9): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ توبہ کے بارے میں معلومات

Surah At-Tawba
سُورَةُ التَّوۡبَةِ
صفحہ 194 (آیات 41 سے 47 تک)

ٱنفِرُوا۟ خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَٰهِدُوا۟ بِأَمْوَٰلِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّٱتَّبَعُوكَ وَلَٰكِنۢ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ ٱلشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ لَوِ ٱسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَٰذِبُونَ عَفَا ٱللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُوا۟ وَتَعْلَمَ ٱلْكَٰذِبِينَ لَا يَسْتَـْٔذِنُكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ أَن يُجَٰهِدُوا۟ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِٱلْمُتَّقِينَ إِنَّمَا يَسْتَـْٔذِنُكَ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَٱرْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِى رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ ۞ وَلَوْ أَرَادُوا۟ ٱلْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا۟ لَهُۥ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ ٱللَّهُ ٱنۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ ٱقْعُدُوا۟ مَعَ ٱلْقَٰعِدِينَ لَوْ خَرَجُوا۟ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا۟ خِلَٰلَكُمْ يَبْغُونَكُمُ ٱلْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّٰعُونَ لَهُمْ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ
194

سورہ توبہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ توبہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Infiroo khifafan wathiqalan wajahidoo biamwalikum waanfusikum fee sabeeli Allahi thalikum khayrun lakum in kuntum taAAlamoona

آیت 41 اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالاً یہ جو ہلکے اور بوجھل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس سے ان لوگوں کی کیفیت مراد ہے ‘ اور اس کیفیت کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک پہلو تو داخلی ہے ‘ یعنی بوجھل دل کے ساتھ نکلو یا آمادگی کے ساتھ ‘ اب نکلنا تو پڑے گا ‘ کیونکہ اب بات صرف تحریض و ترغیب تک نہیں رہی ‘ بلکہ جہاد کے لیے نفیر عام ہوچکی ہے ‘ لہٰذا اب اللہ کے رستے میں نکلنا فرض عین ہوچکا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو خارجی ہے اور اس پہلو سے مفہوم یہ ہوگا کہ چاہے تمہارے پاس سازو سامان اور اسلحہ وغیرہ کافی ہے تب بھی نکلو اور اگر سازو سامان کم ہے تب بھی۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Law kana AAaradan qareeban wasafaran qasidan laittabaAAooka walakin baAAudat AAalayhimu alshshuqqatu wasayahlifoona biAllahi lawi istataAAna lakharajna maAAakum yuhlikoona anfusahum waAllahu yaAAlamu innahum lakathiboona

آیت 42 لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْم بَعُدَتْ عَلَیْہِمُ الشُّقَّۃُ ط اگر ان منافقین کو توقع ہوتی کہ مال غنیمت آسانی سے مل جائے گا اور ہدف بھی کہیں قریب ہوتا تو یہ لوگ ضرور آپ ﷺ کا ساتھ دیتے ‘ مگر اب تو حالت یہ ہے کہ تبوک کی مسافت کا سن کر ان کے دل بیٹھے جا رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ﷺ کسی بھی مہم کے ہدف وغیرہ کو ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتے تھے۔ جنگ یا مہم کے لیے نکلنا ہوتا تو تیاری کا حکم دے دیا جاتا ‘ مگر یہ نہ بتایا جاتا کہ کہاں جانا ہے اور منصوبہ کیا ہے۔ اسی طرح فتح مکہ کے منصوبہ کو بھی آخر وقت تک خفیہ رکھا گیا تھا۔ مگر غزوۂ تبوک کی تیاری کے حکم کے ساتھ ہی آپ ﷺ نے تمام تفصیلات بھی علی الاعلان سب کو بتادی تھیں کہ لشکر کی منزل مقصود تبوک ہے اور ہمارا ٹکراؤ سلطنت روما سے ہے ‘ تاکہ ہر شخص ہر لحاظ سے اپنا جائزہ لے لے اور داخلی و خارجی دونوں پہلوؤں سے تیاری کرلے۔ سازو سامان بھی مہیا کرلے اور اپنے حوصلے کی بھی جانچ پرکھ کرلے۔وَسَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ ج یعنی قسمیں کھا کھا کر بہانے بنائیں گے اور اپنی فرضی مجبوریوں کا رونا روئیں گے۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAafa Allahu AAanka lima athinta lahum hatta yatabayyana laka allatheena sadaqoo wataAAlama alkathibeena

آیت 43 عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ یعنی آپ ﷺ کے پاس کوئی منافق آیا اور اپنی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر جہاد سے رخصت چاہی تو آپ ﷺ نے اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے اسے اجازت دے دی۔ اب اس شخص کو تو گویا سند مل گئی کہ میں نے حضور ﷺ سے رخصت لی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ تو اس کا تھا ہی نہیں ‘ مگر اجازت مل جانے سے اس کی منافقت کا پردہ چاک نہیں ہوا۔ اجازت نہ ملتی تو واضح طور پر معلوم ہوجاتا کہ اس نے حضور ﷺ کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ اس طرح کئی منافقین آئے اور اپنی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر آپ ﷺ سے رخصت لے گئے۔

اردو ترجمہ

جو لوگ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yastathinuka allatheena yuminoona biAllahi waalyawmi alakhiri an yujahidoo biamwalihim waanfusihim waAllahu AAaleemun bialmuttaqeena

آیت 44 لاَ یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ ط سچے مؤمن ایسی صورت حال میں ایسا کبھی نہیں کرسکتے کہ وہ جہاد سے معافی کے لیے درخواست کریں ‘ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ قبل ازیں بیان ہوچکا ہے کہ سورة الحجرات کی آیت 15 میں ایمان کی جو تعریف definition کی گئی ہے اس میں تصدیق قلبی اور جہاد فی سبیل اللہ کو ایمان کے ارکان قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت کا ذکر سورة الانفال کی آیت 2 اور آیت 74 کے ضمن میں بھی گزر چکا ہے۔ اس میں جہاد فی سبیل اللہ کو واضح طور پر ایمان کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔

اردو ترجمہ

ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama yastathinuka allatheena la yuminoona biAllahi waalyawmi alakhiri wairtabat quloobuhum fahum fee raybihim yataraddadoona

آیت 45 اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ یہاں سورة الحجرات کی مذکورہ آیت کے الفاظ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا ذہن میں دوبارہ تازہ کرلیجئے کہ مؤمن تو وہی ہیں جو ایمان لانے کے بعد شک میں نہ پڑیں ‘ اور یہاں وارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ کے الفاظ سے واضح فرما دیا کہ ان منافقین کے دلوں کے اندر تو شکوک و شبہات مستقل طور پر ڈیرے ڈال چکے ہیں۔فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ اپنے ایمان کے اندر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے وہ تذبذب میں پڑے ہوئے ہیں اور جہاد کے لیے نکلنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ کبھی ان کو مسلمانوں کے ساتھ چلنے میں مصلحت نظر آتی کہ نہ جانے سے ایمان کا ظاہری بھرم بھی جاتا رہے گا ‘ مگر پھر فوراً ہی مسافت کی مشقت کے تصور سے دل بیٹھ جاتا ‘ دنیوی مفادات کا تصور پاؤں کی بیڑی بن جاتا اور پھر سے جھوٹے بہانے بننے شروع ہوجاتے۔

اردو ترجمہ

اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسندہی نہ تھا، اس لیے اس نے انہیں سست کر دیا اور کہہ دیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw aradoo alkhurooja laaAAaddoo lahu AAuddatan walakin kariha Allahu inbiAAathahum fathabbatahum waqeela oqAAudoo maAAa alqaAAideena

آیت 46 وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً ایسے طویل اور کٹھن سفر کے لیے بھر پور تیاری کی ضرورت تھی ‘ بہت سا سازوسامان درکار تھا ‘ مگر اس کے لیے ان کا کچھ بھی تیاری نہ کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا خود ہی ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے جانے کا ارادہ تک نہیں کیا۔ وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ اس فرمان میں جو حکمت تھی اس کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی گئی :

اردو ترجمہ

اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں، اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Law kharajoo feekum ma zadookum illa khabalan walaawdaAAoo khilalakum yabghoonakumu alfitnata wafeekum sammaAAoona lahum waAllahu AAaleemun bialththalimeena

آیت 47 لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ الاَّ خَبَالاً ان کے دلوں میں چونکہ روگ تھا ‘ اس لیے لشکر کے ساتھ جا کر بھی یہ لوگ فتنے ہی اٹھاتے ‘ لڑائی جھگڑا کرانے کی کوشش کرتے اور سازشیں کرتے۔ لہٰذا ان کے بیٹھے رہنے اور سفر میں آپ لوگوں کے ساتھ نہ جا نے میں بھی بہتری پوشیدہ تھی۔ گویا بندۂ مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح خیر ہی خیر ہے ‘ جبکہ منافق کے لیے ہر حالت میں شر ہی شر ہے۔ وَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بالظّٰلِمِیْنَ اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ تمہارے درمیان ان کی باتیں سننے والے بھی ہیں۔ یعنی تمہارے درمیان ایسے نیک دل اور سادہ لوح مسلمان بھی ہیں جو ان منافقین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے ان منافقین کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی ہیں اور وہ ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ چناچہ اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ لشکر میں موجود ہوتے اور کوئی فتنہ اٹھاتے تو عین ممکن تھا کہ تمہارے وہ ساتھی اپنی سادہ لوحی کے باعث ان کے اٹھائے ہوئے فتنے کا شکار ہوجاتے۔

194