اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 55 فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْ ط ان کو دیکھ کر آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مال و دولت اور اولاد کی کثرت ان کے لیے اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ‘ بلکہ ایسے لوگوں کو تو اللہ ایسی نعمتیں اس لیے دیتا ہے کہ ان کا حساب اسی دنیا میں بےباق ہوجائے اور آخرت میں ان کے لیے کچھ نہ بچے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات دنیا کی انہی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ انسان کے لیے باعث عذاب بنا دیتا ہے۔اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ یہی اولاد جس کو انسان بڑے لاڈ پیار اور ارمانوں سے پال پوس کر بڑا کرتا ہے اس کے لیے سوہان روح بن جائے اور یہی مال و دولت جسے وہ جان جوکھوں میں ڈال کر جمع کرتا ہے اس کی جان کا وبال ثابت ہو۔ وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں اپنی دولت ہی سے لپٹے رہیں اور اپنی اولاد کی محبت میں اس قدر مگن رہیں کہ جیتے جی انہیں آنکھ کھول کر حق کو دیکھنے اور پہچاننے کی فرصت ہی نصیب نہ ہو ‘ اور اسی حالت میں یہ لوگ آخری عذاب کے مستحق بن جائیں۔
آیت 56 وَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ اِنَّہُمْ لَمِنْکُمْ ط ہم بھی مسلمان ہیں ‘ آپ لوگوں کے ساتھی ہیں ‘ ہماری بات کا اعتبار کیجیے۔وَمَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلٰکِنَّہُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ اصل میں یہ لوگ اسلام کے غلبے کے تصور سے خوفزدہ ہیں اور خوف کے مارے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں۔
آیت 57 لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلاً لَّوَلَّوْا اِلَیْہِ وَہُمْ یَجْمَحُوْنَ جیسے کوئی جانور خوف کے مارے اپنی رسی تڑا کر بھاگتا ہے ‘ اسی طرح کی کیفیت ان پر بھی طاری ہے۔ اس اضطراری کیفیت میں اگر جزیرہ نمائے عرب میں انہیں کہیں بھی کوئی پناہ گاہ مل جاتی یا کسی بھی طرح کا کوئی ٹھکانہ جان بچانے کے لیے نظر آجاتا تو وہ خوف کے مارے یہاں سے بھاگ گئے ہوتے۔
آیت 58 وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ج زکوٰۃ و صدقات کا مال رسول اللہ ﷺ خود تقسیم فرماتے تھے۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ مال کی تقسیم کے دوران ایک منافق نے آپ ﷺ کو ٹوک دیا : یَا مُحَمَّدُ اعْدِل اے محمد ﷺ انصاف کے ساتھ تقسیم کیجیے ! اس کی مراد یہ تھی کہ آپ ناانصافی کر رہے ہیں۔ اس پر حضور ﷺ کو غصہ آیا اور آپ ﷺ نے فرمایا : وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ اِذَا لَمْ اَکُنْ اَعْدِلُ۔۔ 1 تم برباد ہوجاؤ ‘ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا ؟
آیت 59 وَلَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰٹہُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗلا وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗٓلا اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ اگر ان لوگوں کی سوچ مثبت ہوتی اور وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بارے میں اچھا گمان رکھتے تو ان کے لیے بہترہوتا۔ اب وہ مشہور آیت آرہی ہے جس میں زکوٰۃ کے مصارف بیان ہوئے ہیں۔
آیت 60 اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا صدقات سے مراد یہاں زکوٰۃ ہے۔ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَامیں محکمہ زکوٰۃ کے چھوٹے بڑے تمام ملازمین شامل ہیں جو زکوٰۃ اکٹھی کرنے ‘ اس کا حساب رکھنے اور اسے مستحقین میں تقسیم کرنے یا اس محکمہ میں کسی بھی حیثیت میں مامور ہیں ‘ ان سب ملازمین کی تنخواہیں اسی زکوٰۃ میں سے دی جائیں گی۔وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ جب دین کی تحریک اور دعوت چل رہی ہو تو معاشرے کے بعض صاحب حیثیت افراد کی تالیف قلوب کے لیے زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے تاکہ ایسے لوگوں کو کچھ دے دلا کر ان کی مخالفت کا زور کم کیا جاسکے۔ فقہاء کے نزدیک دین کے غالب ہوجانے کے بعد یہ مد ختم ہوگئی ہے ‘ لیکن اگر پھر کبھی اس قسم کی صورتحال درپیش ہو تو یہ مد پھر سے بحال ہوجائے گی۔وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ ایسا مقروض جو قرض کے بوجھ سے نکلنے کی مقدرت نہ رکھتا ہو یا ایسا شخص جس پر کوئی تاوان پڑگیا ہو ‘ ایسے لوگوں کی گلو خلاصی کے لیے زکوٰۃ کی رقم سے مدد کی جاسکتی ہے۔وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد میں اور دعوت و اقامت دین کی جدوجہد میں بھی یہ رقم خرچ ہوسکتی ہے۔ لیکن زکوٰۃ اور صدقات کے سلسلے میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ پہلی ترجیح کے طور پر اولین مستحقین وہ غرباء ‘ یتامیٰ ‘ مساکین اور بیوائیں ہیں جو واقعی محتاج ہوں۔ البتہ اگر زکوٰۃ کی کچھ رقم ایسے لوگوں کی مدد کے بعد بچ جائے تو وہ دین کے دوسرے کاموں میں صرف کی جاسکتی ہے۔وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط کے الفاظ احکام وراثت کے سلسلے میں سورة النساء کی آیت 11 میں بھی آئے ہیں۔
آیت 61 وَمِنْہُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ ہُوَ اُذُنٌ ط یہ تو نرے کان ہی کان ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں اور ہم جو بھی جھوٹا سچا بہانہ بناتے ہیں اسے مان لیتے ہیں ‘ گویا بالکل ہی بےبصیرت ہیں معاذ اللہ ! وہ ایسی باتیں کر کے رسول اللہ ﷺ کی توہین کرتے تھے اور آپ ﷺ کو اذیت پہنچاتے تھے۔قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّکُمْ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَیُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یہاں پر یُؤْمِنُ کے ساتھ ب اور ل کے استعمال سے معنی کا واضح فرق ملاحظہ ہو۔ آمَنَ ‘ یُؤْمِنُ ’ ب ‘ کے ساتھ ایمان لانے اور ’ ل ‘ کے ساتھ بات ماننے اور یقین کرلینے کے معنی میں آتا ہے۔ یعنی ہمارے رسول ﷺ جانتے ہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو مگر یہ آپ ﷺ کی شرافت ‘ نجابت اور مروت ہے کہ تمہاری جھوٹی باتیں سن کر بھی تمہیں یہ نہیں کہتے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو ‘ اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی تمہارا پول نہیں کھولتے۔ یہ تمہاری حماقت کی انتہا ہے کہ تم اپنے زعم میں رسول اللہ ﷺ کو دھوکہ دے رہے ہو۔ تم لوگوں کو اللہ کے رسول ﷺ کی بصیرت کا کچھ بھی اندازہ نہیں ہے۔ آپ ﷺ تو اللہ کے رسول ﷺ ہیں ‘ جبکہ ایک بندۂ مؤمن کی بصیرت کی بھی کیفیت یہ ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ‘ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : اِتَّقُوْ ا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ 1